السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع اس مسئلہ کہ بارے میں کہ موجودہ حالات میں جب کہ فلسطین میں صیہونی افواج نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور مسلمانوں کا قبلہ اول بھی خطرے میں ہے ۔ ایک عام پاکستانی شہری سے متعلق شریعت کی کیا ہدایات ہیں ۔ اور کیا ہر ہر فرد پر جہاد فرض ہو چکا ہے ۔ اور اگر ہر ہر فرد پر جہاد فرض ہے تو جہاد کے فرض کی ادائیگی کی کیا کیا صورتیں ہیں۔
مرضی مدثر، پشاور
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مدثر بھائی
جواب: جہاد مسلمان حکومت پر ذمہ داری ہے اور انہی پر فرض ہے تاکہ وہ عوام پر ظلم سے بچانے کی کوشش کریں۔ ہر فرد پر فرض اسی پر ہوتا ہے جب حکومت کا اعلان کرے اور عوام کو کہے کہ آپ بھی لشکر میں تشریف لائیں۔ اب پاکستانی حکومت کا اعلان کرے تو ہم پر بھی فرض ہو جاتا ہے۔
اگر حکومت ذمہ داری نہیں لے رہی ہے تو پھر انفرادی طور پر جہاد پیدا نہیں ہو گا بلکہ انسان آپس ہی میں لڑتے رہیں گے۔ اس کی مثال آپ نے افغانستان میں دیکھ لی ہے کہ روس اور پھر امریکہ پر جنگ نہیں ہوئی بلکہ مسلمان پارٹی ایک دوسرے سے ہی لڑتے رہے ہیں۔
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا شبابة ، حدثني ورقاء ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به، فإن امر بتقوى الله عز وجل، وعدل كان له بذلك اجر، وإن يامر بغيره كان عليه منه۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکمران ہی ڈھال ہے اس کے پیچھے مسلمان لڑتے ہیں (کافروں سے) اور اس کی وجہ سے لوگ بچتے ہیں تکلیف سے (ظالموں سے اور لٹیروں سے) پھر اگر وہ حکم کرے اللہ سے ڈرنے کا اور انصاف کرے تو اس کو ثواب ہو گا اور جو اس کے خلاف حکم دے دے تو اس پر وبال ہو گا۔“ (صحیح مسلم 4772)
سوال: اسی ضمن میں یہ سوال بھی ہے کہ حکومت کو اس طرف متوجہ کرنے کی کیا حدود ہیں۔ جواب: حدیث میں ہمیں واضح فرما دیا ہے کہ حکومت کے خلاف بغاوت بالکل نہ کریں ۔ اگر حکمران پسند نہ ہو تو بے شک جنگل میں جا کر رہیں لیکن حکومت کے خلاف بغاوت بالکل نہ کریں۔ حدیث یہ دیکھیے۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/ad.php?bsc_id=4943&bookid=2
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا جرير يعني ابن حازم ، حدثنا غيلان بن جرير ، عن ابي قيس بن رياح ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات مات ميتة جاهلية، ومن قاتل تحت راية عمية يغضب لعصبة او يدعو إلى عصبة او ينصر عصبة فقتل فقتلة جاهلية، ومن خرج على امتي يضرب برها وفاجرها ولا يتحاشى من مؤمنها، ولا يفي لذي عهد عهده فليس مني ولست منه۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص حاکم کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے پھر وہ مرے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی اور جو شخص اندھے جھنڈے کے تلے لڑے (جس لڑائی کی درستی شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو) غصہ ہو قوم کے لحاظ سے یا بلاتا ہو قوم کی طرف یا مدد کرتا ہو قوم کی اور اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو، پھر مارا جائے تو اس کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہو گا اور جو شخص میری امت پر دست درازی کرے اور اچھے اور بروں کو ان میں کے قتل کرے اور مؤمن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہوا ہو، اس کا عہد پورا نہ کرے تو وہ مجھ سے علاقہ نہیں رکھتا اور میں اس سے تعلق نہیں رکھتا۔“ (یعنی وہ مسلمان نہیں ہے۔) (صحیح مسلم 4786)
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا مهدي بن ميمون ، عن غيلان بن جرير ، عن زياد بن رياح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من خرج من الطاعة وفارق الجماعة ثم مات مات ميتة جاهلية، ومن قتل تحت راية عمية يغضب للعصبة ويقاتل للعصبة فليس من امتي، ومن خرج من امتي على امتي يضرب برها وفاجرها لا يتحاش من مؤمنها ولا يفي بذي عهدها فليس مني۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اطاعت سے نکل جائے اور جماعت چھوڑ دے پھر مرے تو اس کو موت جاہلیت کی سی ہو گی اور جو شخص ایذا دہندہ جھنڈے کے تلے مارا جائے جو غصہ ہوتا ہو قوم کے پاس سے اور لڑتا ہو قوم کے خیال سے وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور جو میری امت پر نکلے مارتا ہوا ان کے نیکوں اور بدوں کو مؤمن کو بھی نہ چھوڑے جس سے عہد ہو وہ بھی پورا نہ کرے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔“ (صحیح مسلم 4788)
اب توجہ دینے کے لیے ہمارے پاس یہی آپشن ہے کہ ہم حکومت کو خلوص کے ساتھ مشورہ دیں۔ اس کے لیے فیس بک، یو ٹیوب اور اخبارات میں آرٹیکل لکھیں۔ حکمران پھر بھی قائل نہ ہوں تو پھر ان پر گناہ ہے۔ اس پر احادیث دیکھیے۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/ad.php?bsc_id=4942&bookid=2
حدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك بن حرب ، عن علقمة بن وائل الحضرمي ، عن ابيه ، قال: " سال سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، ارايت إن قامت علينا امراء يسالونا حقهم ويمنعونا حقنا فما تامرنا، فاعرض عنه؟، ثم ساله، فاعرض عنه؟، ثم ساله في الثانية او في الثالثة، فجذبه الاشعث بن قيس، وقال: اسمعوا واطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم۔
علقمہ بن وائل حضرمی سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے کہا کہ سلمیٰ بن یزید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا نبی اللہ! اگر ہمارے امیر ایسے مقرر ہوں جو اپنا حق ہم سے طلب کریں اور ہمارا حق نہ دیں تو آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا پھر پوچھا: جواب نہ دیا۔ پھر پوچھا تو اشعث بن قیس نے سلمہ رضی اللہ عنہ کو گھسیٹا اور کہا: ”سنو اور اطاعت کرو ان پر ان کے عملوں کا بوجھ ہے اور تم پر تمہارے اعمال کا۔“ (صحیح مسلم 4782)
حدثنا هداب بن خالد الازدي ، حدثنا همام بن يحيي ، حدثنا قتادة ، عن الحسن ، عن ضبة بن محصن ، عن ام سلمة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ستكون امراء فتعرفون وتنكرون، فمن عرف برئ ومن انكر سلم ولكن من رضي "، وتابع، قالوا: افلا نقاتلهم، قال: لا ما صلوا۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ تم پر امیر مقرر ہوں تم ان کے اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے کام بھی پھر جو کوئی برے کام کو پہچان لے وہ بری ہوا (اگر اس کو روکے ہاتھ یا زبان یا دل سے) اور جس نے برے کام کو برا جانا وہ بھی بچ گیا لیکن جو راضی ہوا برے کام سے اور پیروی کی اس کی (تباہ ہوا)۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم ایسے امیروں سے لڑائی نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں جب تک وہ نماز پڑھا کریں۔“ (اور نماز بھی چھوڑ دیں تو ان کو مارو اور امارت سے موقوف کر دو۔) (صحیح مسلم 4800)
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/subchapters.php?fbookschapters_id=134&bookid=2
سوال: اس کیلئے احتجاجی مظاہروں کی حدود ہیں جن کی رعایت رکھنا ضروری ہے ۔
جواب: احتجاجی مظاہرے کر سکتے ہیں لیکن کسی انسان پر کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ اکثر لوگ روڈ بند کر کے عوام پر تکلیف پہنچاتے ہیں کہ وہ ہاسپٹل بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ احتجاج کے لیے ایسی جگہ کرنی چاہیے کہ جہاں عوام کی زندگی پر نقصان نہ پہنچے۔ اس میں حدیث دیکھیے۔
سوال: مزید یہ کہ موجودہ حالات میں سینیٹر صاحب نے فلسطینیوں کے حق میں جو احتجاجی دھرنا دیا ہوا ہے اس سے متعلق کیا ہدایات ہیں ۔ کیا ان کے ساتھ شامل ہو کر اس دھرنا کا حصہ بننا چاہیے اور اگر شامل ہونا چاہیے تو کیا اس میں شمولیت فرض کے درجہ میں ہے ۔ یا شرکت ضروری نہیں لیکن عزیمت کا رستہ یہی ہے ۔۔۔ البتہ حمایت ضرور کرنی چاہیے ۔
جواب: سنیٹر صاحب کہاں پر احتجاج کر رہے ہیں؟ اگر وہ پارلیمنٹ کے اندر ہی دھرنا کر رہے ہیں تو بہت عمدہ کام ہے۔ اس میں ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ لیکن عوام کے روڈ بند کر کے بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ روڈ بند کرنا ایسا ہی ظلم ہے جیسا کہ فلسطین میں اسرائیلی فوج کر رہی ہے۔ بس ظلم کو ذرا سا کم ہی کہہ سکتے ہیں۔
حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا إسماعيل بن عياش، عن اسيد بن عبد الرحمن الخثعمي، عن فروة بن مجاهد اللخمي، عن سهل بن معاذ بن انس الجهني، عن ابيه، قال: غزوت مع نبي الله صلى الله عليه وسلم غزوة كذا وكذا، فضيق الناس المنازل وقطعوا الطريق، فبعث نبي الله صلى الله عليه وسلم مناديا ينادي في الناس" ان من ضيق منزلا او قطع طريقا فلا جهاد له۔
معاذ بن انس جھنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں اور فلاں غزوہ کیا تو لوگوں نے پڑاؤ کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے مسدود کر دیئے ۱؎ تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے پڑاؤ کی جگہیں تنگ کر دیں، یا راستہ مسدود کر دیا تو اس کا جہاد نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11303)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/441) (حسن)»
حدیث نمبر: 2629 كِتَاب الْجِهَادِ
. باب مَا يُؤْمَرُ مِنَ انْضِمَامِ الْعَسْكَرِ وَسِعَتِهِ
باب: لشکر کو اکٹھا رکھنے اور دوسروں کے لیے جگہ چھوڑنے کا حکم۔
ابو داؤد
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com