اسلام اور نسلی و قومی امتیاز

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی باپ اور ماں کی اولاد بنایا ہے لیکن لوگوں نے ایک دوسرے کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے کو حقیر سمجھنا شروع کر دیا۔ اس تحریر میں نسلی، قومی، مذہبی، لسانی اور علاقائی امتیاز کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

L0006-Discrimination-Download

نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں ، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جن کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیے ، ابھی پچاس سال پہلے ہی اسی نسلی غرور کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کو یاد کیجئے جس کے نتیجے میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ صرف یہ خیال نہ کیجئے کہ یہ غرور صرف غیرمسلموں کے ہاں ہی پایا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بھی اس باطل تصور کا اتنا ہی شکار ہوئے ہیں جتنا کہ دوسری اقوام۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے ہمارے معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ اس سے بچاؤ کی کیا تدابیر ہیں؟ ہم یہاں پر دوسری اقوام کی بجائے صرف مسلمانوں ہی پر فوکس کرتے ہوئے ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

          سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کے ہاں یہ غرور خود ان کے دین نے پیدا کیا ہے یا یہ کہیں اور سے آیا ہے۔ جب ہم اس موضوع پر قرآن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں صاف لکھا ہوا نظر آتا ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً۔ اے انسانو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک انسان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔ (اس کے بعد) ان دونوں کی نسل سے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ (النساء 4:1)

 پھر ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔ (الحجرات 49:13)

اسی اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشہور خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرماتے ہیں۔

 تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔

قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیادنہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر تو سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑ جائے گا۔

           دنیا کی دوسری اقوام اگر اپنے قومی و نسلی غرور میں مبتلا ہوتی ہیں تو یہ ان کے باطل نظریات کا قصور ہے لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے جو قرآن کی ان آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر بھی اس تکبر میں مبتلا ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں قومی و نسلی تفاخر کے اثرات دوسری اقوام سے آئے۔ اس میں ان کے دین کا ہرگز ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔

          ہمیں سب سے پہلے یہ تعین کرنا چاہئے کہ ہمارے اندر نسلی تفاخر کی کیا کیا صورتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ یہ صورتیں کس طرح سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئیں اور ان کے مسلم معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ ہمارے یہاں نسلی و قومی امتیاز کی یہ صورتیں رواج پذیر ہیں۔

۔۔۔۔۔ ہمارے ذات پات کے نظام میں بعض ذاتوں کو اعلیٰ اور بعض کو ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے لوگ دوسری ذات میں شادی کرنا پسند نہیں کرتے۔ بعض حضرات اپنے بیٹوں کی شادیاں تو دوسری ذاتوں میں کر دیتے ہیں لیکن بیٹیوں کی شادیاں صرف اپنی ہی ذات میں رکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔ مختلف پیشوں کے بارے میں ہمارے یہاں گھٹیا ہونے کا تصور موجود ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر محنت کشوں اور ہاتھ سے کام کرنے والے پیشوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ دیہی معاشرے میں جاگیر دار اور زمیندار اپنے ملازمین کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ شہری معاشرے میں اگرچہ ملازمین کے ساتھ اتنا حقارت آمیز سلوک نہیں ہوتا لیکن انہیں بہرحال مالکوں اور اعلیٰ افسران سے کمتر ہی تصور کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔ ہم لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی خود سے حقیر سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں اور بسا اوقات ان سے تحقیر آمیز رویہ رکھتے ہیں۔ بالکل اسی قسم کا سلوک مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔ رنگ کی بنیاد پر بھی امتیاز رکھا جاتا ہے اور سیاہی مائل جلد رکھنے والوں کو طعنے دیے جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر امتیاز ہماری نسبت مغربی اقوام میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔ زبان اور صوبے یا علاقے کی بنیاد پر بھی ہمارے ہاں خاصا تعصب پایا جاتا ہے اور ایک علاقے یا صوبے کا فرد دوسروں کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمارے بعض شہروں جیسے کراچی میں تو یہ تعصب ایک زمانے میں اتنے عروج پر پہنچ گیا کہ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد لسانی فسادات کا شکار بنے۔

نسلی امتیاز

Race Discrimination

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنہوں نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کو اختیار کیا۔ قدیم ہند کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر کے قدیم باشندے چھوٹے قد کے اور سیاہی مائل رنگت کے تھے۔ وسطی ایشیا سے آریہ اور راجپوت قبائل ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کے مقابلے میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔

          اس کے بعد انہوں نے تمام مقامی باشندوں کو مذہبی جبر و تشدد کے ذریعے اپنے مذہب کو اپنانے پر مجبو رکیا اور اس کے ساتھ ہی ذات پات کا نظام رائج کیا۔ اس نظام کے تحت مذہبی رہنما یعنی برہمن سب سے بلند و برتر، سیاسی رہنما یعنی کھشتری دوسرے نمبر پر، محنت کش اور تاجر یعنی ویش تیسرے نمبر پر اور ادنیٰ درجے کے کام کرنے والے شودر چوتھے درجے کی ذات قرار پائے۔ ایک مشہور روایت کے مطابق برہما یعنی خدا نے برہمن کو اپنے سر سے، کھشتری کو اپنے بازوؤں سے ، ویش کو اپنی ٹانگوں سے اور شودر کو پاؤں سے پیدا کیا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں پہلی دو ذاتیں اعلی ترین اور آخری دو ذاتیں ادنیٰ ترین قرار پائیں۔

          جب برصغیر میں اسلام کی کرنیں داخل ہوئیں تو سب سے پہلے نچلی ذات کہلانے والوں نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے حسن سلوک اور اسلام کے آفاقی پیغام سے متاثر ہوکر یا پھر اپنے مفادات کے تحت اعلیٰ کہلانے والی ذاتوں کے افراد نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ ان نومسلموں نے اسلام کے بہت سے احکام کو اپنا تو لیا لیکن اپنی بعض پرانی عادات و خصائل سے نجات حاصل نہ کر سکے۔ ان میں سے ایک عادت ذات پات کی تفریق کی تھی۔

          اگر ہم پنجاب اور سندھ کی مختلف ذاتوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ان میں سے زیادہ تر دراصل قبائل ہی کے نام ہیں۔ بلوچستان اور سرحد تو خیر اب بھی قبائلی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سکھوں کے دور حکومت سے قبل پنجاب اور سندھ بھی قبائلی علاقوں پر مشتمل تھے۔ بعد کی سیاسی اور عمرانی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ قبائل تو ختم ہوگئے لیکن ان کے نام ذات کی صورت میں باقی رہ گئے۔ چونکہ ان میں ذات پات کی تفریق کی عادتیں موجود تھیں لہٰذا اس کی باقیات اب تک پائی جاتی ہیں۔

          جدید شہری معاشروں میں بعض سماجی و معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں ذات پات کا نظام زوال پذیر ہے البتہ دیہی معاشروں میں اس میں ابھی بھی کچھ دم خم باقی ہے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک تو ان بنیادوں پر لڑائی جھگڑے اور فساد بھی ہوجایا کرتے تھے لیکن ہمارے دور میں ذات پات کی تفریق عام طور پر صرف رشتے ناتے اور شادی بیاہ کرتے ہوئے یا پھر الیکشن میں ووٹ دیتے ہوئے سامنے آتی ہے ۔

           بہت سے لوگ اپنی ذات اور برادری سے باہر شادی کرنا پسند نہیں کرتے جس کی بنیادی وجہ وہی تصورات ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس کردار سادات ادا کرتے ہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی وجہ سے آپ کی اولاد ، مسلمانوں کے لئے قابل صد احترام ہے۔ بعض سید حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں سے بہتر ہیں اور ان کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق اپنے عالی نسب میں اختلاط پیدا کرنے کے مساوی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بیٹیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں لیکن سید کا رشتہ نہ ملنے کے باعث ان کی شادیاں نہیں ہوپاتیں۔ جہاں تک حضور  صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت اطہار کی سیرت طیبہ کا ہم نے مطالعہ کیا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ طرز عمل تمام مسلمانوں کے امام اور اپنے جد امجد ، حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، ارشادات اور عمل کے خلاف ہے۔

          جو شخص حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتا ہے ، وہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ نے اپنی چار میں سے تین صاحبزادیوں کا نکاح غیر سید حضرات میں کیا۔ آپ کی بڑی صاحبزادی سیدۃ زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے ہوا جو بنو امیہ کے چشم و چراغ تھے۔ اسی طرح سیدۃ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا گیا جو آپ کے خاندان سے باہر بنو امیہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔

          آپ نے اپنی حیات طیبہ میں اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا مقداد بن اسود سے اور پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش کا نکاح سیدنا زید بن حارثہ (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ حضر موت کے رہنے والے نوجوان تھے جو مکہ میں پلے بڑھے تھے۔ اسی طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام تھے۔ اس کے بعد انہی زید کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہما کا نکاح قریش کی عالی نسب خاتون فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کردیا۔ اس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب نسب پر فخر و غرور کے ان تمام بتوں کو پاش پاش کردیا جو لوگوں نے اپنی طرف سے  قائم کر لئے تھے۔  آپ کی پیروی میں آپ کے صحابہ میں یہی رجحان پھیلتا چلا گیا اور حسب و نسب سے ہٹ کر شادیاں ہونے لگیں۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ایک آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہ سے کردیا۔ یہ وہی سالم ہیں جن کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے کہ اگر سالم زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لئے اپنا جانشین نامزد کردیتا۔

          حسب و نسب کے غرور کو توڑنے میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد نے بھی پوری طرح حصہ لیا۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ سید نہ تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پوتے عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے ہو جو کہ سادات کے دائرے میں داخل نہیں۔ آپ کی دوسری صاحبزادی سکینہ رضی اللہ عنہا کی شادی مصعب بن زبیراور ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم بن حزام سے ہوئی۔ یہ دونوں حضرات بھی سید نہ تھے۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی متعدد پوتیوں کا نکاح غیر سادات میں ہوا جن میں سیدتنا زینب، ام کلثوم، فاطمہ، ملیکہ، ام قاسم شامل ہیں۔ (رضوان اللہ علیہم اجمعین)

          ان مقدس ہستیوں کے طرز عمل سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نکاح کے وقت کسی حسب نسب اور ذات برادری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسلام میں فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ اگر کوئی ان ہستیوں کے طرز عمل کے خلاف نسلی غرور میں مبتلا ہے تو وہ اس بنیاد ہی کو ڈھا رہا ہے جو اس کے اپنے آباؤ اجداد قائم کرکے گئے۔

          اگر انبیاء اور صالحین کی اولاد ہونا شرف کا باعث ہے تو پھر تمام انسان ہی اللہ تعالیٰ کے کم ازکم تین نبیوں آدم، شیث اور نوح علیہم الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں۔ اسی طرح اگر کسی برے شخص کی اولاد ہونا معاذ اللہ عار اور ذلت کا باعث ہے تو پھر سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت باسعادت بھی ایک بت فروش ہی کے گھر ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ تو کسی کو اپنے آباؤ اجداد کے نیک اعمال کے سبب جنت میں داخل کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے برے اعمال کے سبب اسے کوئی سزا یا ذلت دی جائے گی۔ ہر کسی کے عزت و مرتبہ اور درجات میں ترقی اس کی اپنی کاوشوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تقویٰ کے سبب ہوگا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہم نے اپنی کاوشوں کو چھوڑ کر اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں ہی پر فخر کرنا شروع کردیا ہے۔

          شادی بیاہ سے ہٹ کر ذات پات اور خاندان کا غرور ہمیں دوسرے معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طرز عمل کے بالکل برعکس حکومتوں کو نسل پرستی کا شکار بنایا گیا۔ خلفائے راشدین میں حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے اپنی اولاد کو حکومت میں کوئی عہدہ نہ دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخلص ساتھیوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیٹوں کو ساتھ رکھا۔ آپ کی شہادت کے بعد عام مسلمانوں نے اتفاق رائے سے آپ کے صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا لیکن وہ بھی چھ ماہ کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔

          سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بعض وقتی مسائل کے پیش نظر اگرچہ اپنے بیٹے یزید کے لئے وصیت کی تھی لیکن آپ نے بھی حکومت کو ہمیشہ اپنے خاندان میں رکھنے پر کبھی اصرار نہیں کیا تھا۔ بعد میں عبدالملک بن مروان کے دور سے صحیح معنوں میں ملوکیت کا آغاز ہوااور امت مسلمہ نسلی بادشاہت کا شکار ہوگئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بنو عباس اور دیگر بادشاہتوں کی صورت میں چلتا رہا۔

           ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریتوں میں بھی یہی رجحان ہے کہ چند ہی خاندان میدان سیاست کے شہسوار بنے ہوئے ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹا ہی اپنے حلقے کا بے تاج بادشاہ بننے کی کوشش کرتا ہے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی میں بھی یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے علاوہ مغربی معاشروں میں بھی یہ امتیاز کافی حد تک پایا جاتا ہے اگرچہ اب اس میں کمی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

          ہمارے اخلاقی انحطاط کے باعث بہت سے دینی حلقوں میں بھی نسل پرستی کا رواج داخل ہوچکا ہے۔ ایک پیر کے وفات پانے کے بعد اس کے لائق ترین مرید کو حلقہ ارادت کا سربراہ بنانے کی بجائے بیٹے ہی کو سجادہ نشین کے طور پر چنا جاتا ہے۔ ایک مدرسے کے مہتمم کے انتقال کے بعد ، اس کے کسی لائق ترین شاگرد کی بجائے اس کا بیٹا ہی مدرسے کے امور کو سنبھالتا ہے۔

          یہی رجحان اب دینی جماعتوں میں داخل ہوچکا ہے اور اکثر جماعتوں کے قائدین اپنی زندگیوں ہی میں اپنے بیٹوں کو بطور خاص اپنی خالی ہونے والی مسند کے لئے تیار کرتے ہیں۔ لوگوں میں بطور خاص اپنی اولاد کی محبت و عقیدت پیدا کی جاتی ہے۔ انہیں خاص طور پر اسٹیج پر لاکر پروجیکشن دی جاتی ہے۔ ان سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل افراد کو دبایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اگر جماعت کے لئے ساری ساری عمر کی قربانی دینے والوں کو بھی قربانی کا بکرا بنانا پڑے تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ اس نسل پرستی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو جماعت سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر آپ ملک کی بڑی دینی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اور جھگڑوں کا جائزہ لیں تو ان اختلافات کی بنیادی وجہ اسی نسل پرستی کو پائیں گے۔ اس اصول سے استثنا شاید صرف ایک یا دو جماعتوں ہی کو حاصل ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کار خیر میں وہ جماعتیں بھی شریک ہیں جن کی پوری جدوجہد ہی آمریت اور نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے پر مبنی تھی۔

          اگر کوئی ان سب چیزوں کو اسلام اور مساوات کے خلاف سمجھتا ہے تو اسے کھل کر ان چیزوں کے بارے میں آواز اٹھانا چاہئے تاکہ ہم نسل پرستی کی اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر غلطی سے ہم خود اس میں مبتلا ہوں تو توبہ کرکے اپنی اصلاح کریں۔

معاشی تفاوت کی بنیاد پر امتیاز

Economic Discrimination 

ہمارے نظام معیشت میں دور قدیم ہی سے محنت کشوں کو برا سمجھا جاتا ہے اور ان کی تحقیر کی جاتی ہے۔ اس بات کا کسی کو کوئی خیال نہیں آتا کہ انہی محنت کشوں کے طفیل ہمیں دنیا بھر کی اشیا ملتی ہیں۔ معاشرے میں اس حوالے سے دو طبقات بنانے کے لئے بنیادی کردار جاگیردارانہ نظام فیوڈل سسٹم نے ادا کیا۔ یہ نظام دراصل ملوکیت اور بادشاہت کے سیاسی نظام ہی کی معاشی شاخ ہے۔

          بادشاہ جب کسی ملک کو فتح کرتے تو اس کے نظم و نسق کو سنبھالنے کے لئے جاگیردارانہ نظام کو فروغ دیتے۔ فوج کے فاتح جرنیلوں، بادشاہ کے رشتے داروں، دوستوں، درباریوں، بیوروکریسی کے عہدے داروں اور مفتوح اقوام کے غداروں کو نوازنے کے لئے انہیں زمین کے بڑے بڑے قطعات مع اس پر کام کرنے والے انسانوں کے ان کی خدمات کے عوض میں دے دیے جاتے۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنی جاگیر کو تقسیم ہونے سے بچاتے اور اپنے رشتے داروں کو اس کے مختلف حصوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لئے متعین کرتے۔ اہل یورپ میں وراثت تقسیم نہ ہونے کا اصول اسی وجہ سے اپنایا گیا۔ یہ جاگیر دار طبقہ اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنی زیر انتظام علاقوں میں حکومت کرتا اور اپنی آمدن کا ایک حصہ بادشاہ کی خدمت میں روانہ کردیتا۔

          جاگیردارانہ علاقوں میں عام لوگوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا جاتا۔ انہیں بسا اوقات پابند سلاسل کرکے رکھا جاتا،  زمینوں پر جبری مشقت لی جاتی اور بدلے میں کھانے کے لئے اتنا ہی دیا جاتا جس سے یہ زندہ رہ سکیں۔ انہیں ایک علاقہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کی اجازت نہ ہوتی۔ اگر ایک جاگیر دار اپنی زمین فروخت کرتا تو اس کی رعایا بھی ساتھ ہی بک جاتی۔ جو بھی اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا، اسے اس کے پورے خاندان سمیت موت کی سزا سنا دی جاتی۔ جاگیردار طبقہ اپنی رعایا کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا اور ان کی جائیداد اور خاندان میں پوری طرح تصرف کرتا۔

       اس نظام کا سب سے غلیظ ، مکروہ اور قابل نفرت پہلو یہ بھی ہے کہ جاگیردار اور اس کے پورے خاندان کو اپنے محنت کشوں کے بیوی بچوں پر بھی پورا اختیار ہوتا اور وہ جب چاہتا ، کسی محنت کش کی بیوی یا بیٹی کو اپنے بستر کی زینت بنا لیتا۔ ظلم و جبر کا یہ نظام یورپ اور عالم اسلام میں یکساں رائج تھا۔ اہل یورپ کی نسبت مسلمانوں کے علاقوں میں صورتحال تھوڑی سی بہتر تھی۔

          جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو یہاں اسی نظام کو فروغ دیا۔ انہوں نے اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو بڑی بڑی ریاستیں اور جاگیریں عطا کیں۔ ان نوابوں اور جاگیر داروں نے اپنے عوام کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ہمیشہ سے جاگیر دار کرتے چلے آئے ہیں۔ جب انہوں نے اپنے مفتوحہ علاقوں کو خالی کیا، اس وقت تک یورپ میں صنعتی انقلاب اور انقلاب فرانس کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوچکا تھا اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام لے چکا تھا۔ برصغیر میں بھارت نے اسی رجحان کی پیروی کرتے ہوئے کسی حد تک جاگیردارانہ نظام سے نجات حاصل کرلی لیکن اہل پاکستان ایسا نہ کرسکے۔

          جاگیر دارانہ نظام کی بنیاد اسی پر تھی کہ محنت کشوں کو عزت نہ دی جائے اور انہیں کسی صورت میں بھی سر اٹھانے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس نفسیات کو ہم آج بھی اپنے ملک کے جاگیر داروں میں دیکھ سکتے ہیں جو اپنے کسی ہاری یا مزارع کو اپنے سامنے بٹھانا بھی پسند نہیں کرتے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کمیونزم نے اس طبقاتی تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی لیکن جہاں جہاں کمیونزم رائج ہوا وہاں حکمران طبقے نے جاگیرداروں کی جگہ لے لی اور اپنے عوام کے ساتھ وہی کرنے لگے جو ان کے ساتھ جاگیردار کیا کرتے تھے۔

          یورپ، امریکہ اور دنیا کے بڑے حصے میں جاگیردارانہ نظام کو زوال آتا گیا اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔ اس نظام نے محنت کشوں کو خاصی حد تک آزادی عطا کی ہے ۔ اب یہ محنت کش سرمایہ دار کے ساتھ اپنے معاوضوں پر بات چیت نیگوسی ایشن کر سکتے ہیں،  اپنی مرضی سے ایک سرمایہ دار کی فیکٹری کو چھوڑ کر دوسرے کے پاس جا سکتے ہیں ، ایک شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں رزق کی تلاش میں جاسکتے ہیں ، بہت مرتبہ سرمایہ دار بھی ان سے احترام کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں انہیں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا جس کے یہ مستحق ہیں۔ اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولیں، اسے سلیوٹ کریںاور اس کے سامنے کرسی پر نہ بیٹھیں۔ کالونیل دور کی مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اب بھی اسی امتیاز کی باقیات دیکھی جاسکتی ہیں۔

          اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس کے بالکل متضاد صورتحال نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محنت کرنے والوں کو اللہ کا دوست ہونے کا مژدہ سناتے ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مالی اعتبار سے مستحکم ہونے کے باوجود بکریاں چراتے رہے۔ جوانی میں آپ نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ نہایت جلیل القدر صحابہ محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے۔ کوئی باغوں اور کھیتوں میں کام کرتے، کوئی زمینوں کو پانی لگاتے، کوئی لوہے کا کام کرتے اور تلواریں اور زرہیں بناتے، کوئی اونٹوں اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے، کوئی مکان تعمیر کرتے۔ یہ وہ حضرات تھے جنہیں وقت کے خلیفہ بھی نہایت عزت اور احترام سے سیدنا یعنی ہمارے سردار کہہ کر مخاطب کرتے۔

           یہ قرآن ہی تھا جس نے جاگیر دارانہ نظام اور چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کے خاتمے کے لئے سود کی حرمت، زکوۃ کی فرضیت اور وراثت کی تقسیم کے قوانین دنیا کو عطا کئے تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور آپ کے جلیل القدر مشیروں نے قرآن کی آیت کی لا یکون دولۃ بین الاغنیا منکم  (کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دولت کہیں تمہارے امیروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے )سے استدلال کرتے ہوئے تمام نئی فتح ہونے والی زمینوں کو سرکاری تحویل میں لے کر جاگیر دارانہ نظام پر ضرب لگائی تھی۔

          ہم میں سے جو بھی دین کو اپنی زندگیوں میں اہمیت دیتے ہوںان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو اس کا صحیح اور جائز مقام دیں۔ گھر کے ملازمین ہوں یا فیکٹری کے، دفتر کے چپراسی ہوں یا ڈرائیور، موٹر مکینک ہوں یا راج مزدور، ہر ایک سے عزت ، شفقت اور محبت سے پیش آئیںاور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا خیال رکھیں کہ جو خود کھاؤ انہیں بھی کھانے کے لئے دو اور جو خود پہنو ، انہیں بھی پہناؤ۔

          افسوس کا مقام یہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں نسلی، جنسی اور مذہبی امتیازات کے خلاف انٹی ڈسکرپشن قانون پاس ہو چکے ہیں لیکن مسلم ممالک اس معاملے میں اب بھی بہت پیچھے ہیں۔

مذہب کی بنیاد پر امتیاز

Religious Discrimination

امتیاز کی جو سب سے شدید اور نازک قسم ہمارے ہاں پائی جاتی ہے، وہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہے۔ ہمارے ہاں مذہب اور دین کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا ہم نے غور و فکر کرکے انتخاب کیا ہو۔ ذات پات کی طرح مذہب بھی ہمارے لئے ایک نسلی چیز بن گیا ہے۔ ہم اسی لئے مسلمان ہیں کہ ہمارے والدین مسلمان تھے۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والا اس لئے عیسائی ہے کہ اس کے والدین عیسائی تھے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں کے طرزعمل میں کوئی فرق نہیں۔

          ہمارے بہت سے لوگ مذہب کے فرق کی بنا پر دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ کھانا پینا پسند نہیں کرتے اور انہیں حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اسی قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  بعینہ یہی صورتحال فرقوں اور مسالک میں بھی پیدا ہو چکی ہے۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسرے مسلک کے کسی فرد سے ہاتھ ہی ملانے پر نکاح کے ٹوٹ جانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔

          اس بات کا خیال رکھئے کہ دین اسلام کسی نسلی مذہب کا نام نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہدایت ہے جو آفاقی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص اگر اپنے رب کی طرف خلوص نیت سے مائل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے کھلی دعوت ہے کہ وہ اس دین کا انتخاب کرلے۔ قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرکے کوئی بھی شخص ہر مسلمان کے برابر درجہ پاسکتا ہے اور اس میں کسی ذات پات یا رنگ و نسل کی قید نہیں۔

          اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے طرز عمل سے اللہ کی حجت تمام کریں اور انہیں اس کے دین کا پیغام پہنچائیں۔ دعوت دین کے لئے محبت، شفقت، نرمی اور عدل و احسان مطلوب ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان پایا جاتا ہے۔

          بعض لوگ اس معاملے میں قرآن  کی چند آیتوں کو ان کے سیاق و سباق سے کاٹ کر ان سے استدلال کرکے غیر مسلموں سے بدسلوکی کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں واضح طور پر ان غیرمسلموں ، جنہوں نے کبھی مسلمانوں سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی ان کے خلاف معاندانہ رویہ رکھا ہو، کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔  

لا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور نہ ہی تمہیں جلاوطن کیا ، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور منصفانہ رویہ اختیار کرنے سے اللہ تمہیں منع نہیں کرتا بلکہ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الممتحنہ 60:8)

          ہمارے ہاں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا چاہئے۔ یاد رکھئے کہ قرآن کی ان آیتوں میں صرف ان غیر مسلموں کے ساتھ سختی کا حکم دیا گیا ہے جنہوں نے ہم سے جنگ کی ہو۔ اسلامی ریاست میں رہنے والے ہر غیر مسلم کو پوری طرح تمام انسانی حقوق فراہم کرنا اسلامی حکومت اور مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنا اور ان کے حقوق انہیں پہنچانا ، یہ مسلمانوں پر لازم ہے اور جو اس سے روگردانی کرتا ہے ، اللہ اس سے باخبر ہے۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ اور سچائی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ یہ (عدل) تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ۔ بے شک اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ (المائدہ 5:8)

          خیبر کی فتح کے بعد مسلمانوں کا یہودیوں سے معاہدہ ہوا کہ وہ زمینوں میں کاشت کاری کریں گے اور پیداوار کا نصف حکومت اسلامیہ کو بطور خراج دیں گے۔ مسلمانوں کی حکومت کے جو اہل کار ان سے فصل کا حصہ وصول کرنے جاتے، وہ کل پیداوار کے دو برابر حصے کرتے اور ان یہودیوں کو کہتے کہ ان میں سے جو چاہو لے لو۔ کئی یہودی بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اسی انصاف پر زمین و آسمان قائم ہیں۔

          اسی طرح شام کے شہر حمص کی فتح کے بعد وہاں کے یہودی اور عیسائی عوام کے ساتھ مسلمانوں کا یہ معاہدہ ہوا کہ جزیے کے بدلے مسلمان ان کی حفاظت کریں گے۔ ایک جنگی حکمت عملی کے تحت مسلم افواج کو وہ شہر خالی کرنا پڑا۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جزیہ واپس کردیا جائے کیونکہ ہم معاہدے کے مطابق ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ وہ منظر بڑا ہی رقت آمیز تھا جب یہودی اور عیسائی روتے ہوئے اپنا جزیہ واپس لے رہے تھے اور یہ دعا کررہے تھے کہ خداوند تمہیں دوبارہ واپس لائے۔ ہمارے ہم مذہب حکمران تو بس ہم سے وصول کرنا ہی جانتے تھے۔

          یہی وجہ تھی کہ اسلامی لشکروں کے لئے راستے ہموار کرنے، ان کے گزرنے کے لئے پل بنانے، شہروں کی فصیلوں میں سرنگیں کھود کر ان کے لئے خفیہ راستے بنانے اور انہیں کھانا فراہم کرنے کی خدمت یہی غیر مسلم بڑے شوق سے انجام دیتے۔ امریکہ کے ایک ممتاز مصنف اور تجزیہ نگار جان ایل ایسپوزیٹو اپنی کتاب دی اسلامک تھریٹ میں لکھتے ہیں۔

مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں کی مقامی آبادی عیسائی، یہودی اور مجوسیوں پر مشتمل تھی جو آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے تھے۔ سلطنت روم اور ایران کے اکثر علاقوں میں غیر ملکی حکومتیں قائم تھیں۔ ان مقامی لوگوں کے لئے اسلامی حکومت صرف حکمرانوں کی تبدیلی تھی ۔ نئے حکمران ان کی آزادی کو سلب کرنے والے نہیں بلکہ پہلوں سے کہیں زیادہ رواداری کے حامل تھے۔اب ان آبادیوں کی اکثریت پہلے سے زیادہ خود مختار تھی اور پہلے سے کہیں کم ٹیکس اداکرتی تھی۔عرب علاقوں میں نئے حکمران مقامی آبادی کے ہم زبان بھی تھے۔مذہبی اعتبارسے اسلام ایک زیادہ روادار دین ثابت ہوا، جس نے مقامی یہود و نصاریٰ کو زیادہ مذہبی آزادی دی جبکہ بازنطینی سلطنت میں بہت سے عیسائی چرچ ایسے تھے جن پر غیر ملکی چرچ  (مرکزی چرچ ، روم) نے بدعتی اور گمراہ ہونے کا فتویٰ لگا کر ان پر پابندی لگا دی تھی۔انہی وجوہات کی بنیاد پرکئی یہود اور عیسائی کمیونیٹیز نے مسلمان افواج کی مدد کی تھی۔جیسا کہ فرانسس پیٹرز کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے عیسائیت کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا لیکن انہوں نے اس کی حکومت ختم کردی۔ عیسائی زندگی، عقائد، رسومات اور سیاست اب ایک پبلک کی بجائے پرائیویٹ معاملہ بن گئی۔اسلام نے عیسائیوں کے مرتبے کو پہلے سے ایک درجہ گرا دیا جیسا کہ عیسائیوں نے ایسا یہودیوں کے ساتھ کیا تھا لیکن اس میں ایک فرق تھا۔ وہ یہ کہ عیسائیوں کا درجہ کم کرنا محض قانونی تھا۔ اس میں پرزیکیوشن  یا مذہبی جبر شامل نہ تھا۔اور یہ سب کچھ، اگرچہ ہمیشہ نہیں ، نفرت کے رویے سے پاک تھا۔

(Francis E. Peters, The Early Muslim Empires: Umayyads, Abbasids, Fatimids. p. 79)

افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب معاملہ بالکل الٹ ہو چکا ہے۔ بہت سے غیر مسلم ممالک میں تو مسلمان آزادی سے اپنے دین پر عمل کرتے ہیں لیکن یہ سہولت بعض مسلم ممالک میں انہیں حاصل نہیں۔

رنگ کی بنیاد پر امتیاز

Colour Discrimination

خوش قسمتی سے ہمارے ہاں اہل مغرب کی نسبت رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے کا رجحان خاصا کم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملکوں میں جلد کی رنگت میں بہت زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔ ہمارے یہاں یہ برائی ہنسی مذاق میں کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ بعض خواتین دوسری خواتین کو اس سلسلے میں طعنے بھی دیتی ہیں۔ ہم یہاں قرآن مجید کے ایک آیت نقل کرنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ۔ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی (بالخصوص) خواتین ، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان کے بعد فسق و فجور کے نام بہت بری چیز ہیں۔ جو لوگ (ان گناہوں پر )توبہ نہ کریں ، وہی ظالموں میں سے ہیں۔ (الحجرات49:11)

زبان اور علاقے کی بنیاد پر امتیاز 

(Geograhpic & Ethnic Discrimination) 

چونکہ ہمارے ملک میں مختلف صوبے لسانی بنیادوں پر قائم ہیں اس لئے ہمارے ہاں لسانی اور صوبائی تعصب ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے بادشاہ نیشنلزم کے جذبے کو فروغ دیتے آرہے ہیں لیکن اس تعصب کو صحیح معنوں میں اہل مغرب ہی نے عروج بخشا ہے۔ اہل حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے علاقائیت پرستی اور لسانیت پرستی کو فروغ دیتے آئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی تھی کہ ان بنیادوں پر قوم میں کٹ مرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ یہ لوگ حکمرانوں کے اقتدار کی حفاظت دل وجان سے کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی تبدیلی سے غریب طبقے کو عموماً کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہی وہ طبقہ ہے جو قوم پرستی کے جذبے کے تحت اپنے حاکم کے لئے جان لڑا دیتا ہے۔

          اہل مغرب کے ہاں قوم پرستی کا یہ جذبہ اس قدر ترقی پا گیا کہ اس کی بنیاد پر پچھلی صدی نے دو ایسی جنگوں کا سامنا کیا جن کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ انگریزوں سے دوسرے نظریات کی طرح قوم پرستی کا نظریہ بھی ہندوؤں میں منتقل ہوا۔ 1930  کے عشرے تک یہ قوم پرستی جنون کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ اگرچہ شیوا جی مرہٹہ کے دور میں بھی ہندو قوم پرستی کو فروغ حاصل ہوا تھا لیکن احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست کے نتیجے میں اس کے اثرات خاصے زائل ہوچکے تھے۔

          اس کے رد عمل میں مسلمانوں میں بھی مسلم قوم پرستی کے نظریے نے جنم لیا۔ حقیقتاً اس مسلم قوم پرستی کی بنیاد اسلام پر نہ تھی بلکہ اس بات پر تھی کہ نسلی مسلمان ایک قوم ہیں۔ اس قوم پرستی کی تحریک پر ان لیڈروں نے قبضہ کرلیا جا کا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ اسلام کا نعرہ محض نمائشی طور پر لگایا گیا تھا۔ اس بات کا اندازہ مسلمانوں کے ایک رہنما کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے مسلمان رئیسوں کو اس بات کی ترغیب دی تھی کہ وہ صرف مسلمان طوائفوں کے پاس ہی جایا کریں تاکہ ان کی دولت سے ہندو طوائفیں فیض یاب نہ ہوسکیں اور مسلم دولت ، مسلم ہاتھوں ہی میں رہے۔

           مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لئے ہمارا ہر فعل اسلامی ہے خواہ اس کا دین کے اصل ماخذوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اسلام کے حکم اور مقصد کے عین خلاف سودی ادارے قائم کئے گئے جنہیں مسلم بینکوں کا نام دیا گیا، اسلامی تعلیما ت کے برعکس مرد وزن کے بے حجابانہ اختلاط کو فروغ دیا گیا اور بقول سید ابو الاعلی مودودی صاحب کے بس اسلامی قحبہ خانوں او ر اسلامی جوئے خانوں کی کسر ہی باقی رہ گئی تھی۔  (تفصیل کے لئے دیکھئے مسلمان او رموجودہ سیاسی کشمکش)

          یہ قوم پرستی صرف مسلم تک ہی محدود نہ رہی بلکہ مسلمانوں کے مختلف لسانی گروہ اس کا شکار ہوئے۔ مسلمانوں نے اسلام کا نام استعمال کرکے پاکستان حاصل تو کرلیا لیکن جیسے ہی ہندو قوم پرستی کا خطرہ ٹلا، مسلم قوم پرستی ، صوبائیت اور لسانیت میں تحلیل ہوگئی۔ صرف چوبیس سال کے عرصے میں اس قوم پرستی نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرڈالا۔ اس کے بعد سے وطن عزیز پنجابی، سندھی ، پٹھان، بلوچ اور مہاجر کی قوم پرستیوں میں گھرا ہوا ہے۔ انہی قوم پرستیوں کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی دو عشرے تک خون اور آگ کی ہولی کا شکار رہا ہے۔ یہ قوم پرستیاں مفاد پرست طبقے کی پھیلائی ہوئی ہیں، ورنہ سندھ و پنجاب کا محکوم طبقہ یکساں طور پر اس طبقے کی چیرہ دستیوں کا شکار ہے۔ ستم یہ ہے کہیہ مفاد پرست طبقہ اپنی طرف اٹھنے والے ہر قدم کا رخ مظلوم طبقے کو آپس میں لڑا کر یک دوسرے کی طرف موڑنے میں کامیاب رہا ہے۔

          دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ اگر تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے لیڈر اور عوام صحیح اسلامی روح کے ساتھ ایک امت مسلمہ بننے کی کوشش کرتے اور انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی کوشش کرتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا اور نہ ہی کوئی اور لسانی جھگڑا کھڑا ہوتا۔

          ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق و صداقت کا پرچار کرے۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہر قسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے شرم کا باعث  ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی اہل مغرب ان نسلی، علاقائی، مذہبی، اور لسانی تعصبات سے نجات حاصل کرنے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ وہاں امتیاز کے خلاف قوانین بنائے جاچکے ہیں اور میڈیا کے ذریعے عوام الناس میں اس کا شعور بھی بیدار کیا جارہا ہے۔

(Anti-Discrimination)

       اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہر قسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کے خلاف دین اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

اسلام اور نسلی و قومی امتیاز
Scroll to top