زہریلا نشہ

کہتے ہیں کہ اخبار کے مطالعہ کی عادت ایک نشے کی طرح ہوتی ہے۔ جسے یہ لت ایک دفعہ لگ جائے وہ مرتے دم تک اس سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔ بعض لوگ تو اس عادت کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ بستر چھوڑنے سے قبل، حوائج ضروریہ سے فارغ ہوئے بغیر، ناشتہ کرنے سے پہلے ہی اخبار کوچاٹنا شروع کردیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں بھی اخبارات اتنے ہی مقبول ہیں جتنے پہلے ہوا کرتے تھے۔

    اخبارات کا بنیادی کام معلومات فراہم کرنا ہے اور لوگوں کو دنیا بھر کے حوادث و واقعات سے باخبر رکھنا ہوتا ہے۔تاہم صحافت کا اصول ہے کہ خبر یہ نہیں کہ کتے نے آدمی کو کاٹ لیا ہے بلکہ خبر یہ ہے کہ آدمی نے کتے کو کاٹ لیا ہے۔ یعنی زندگی کے عام معاملات کے برعکس جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہی زیادہ اہم ہوتا ہے اور اسی سے وہ قارئین کو مطلع کرتے ہیں۔

لوگوں سے مت ڈرو۔ وہ تمہارے جسم کو تو مار سکتے ہیں مگر روح کو نہیں۔ اللہ سے ڈرو جو جسم اور روح دونوں کو عذاب دینے پر قادر ہے۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

اس کا سبب یہ ہے کہ انسان عام طور پر معمول کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کی توجہ صرف وہی چیزیں حاصل کرپاتی ہیں جن میں کوئی غیر معمولی بات ہو۔جن کے ذریعے سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ سنسنی پھیلے۔ ہمارے ہاں اخبارات مکمل طور پر کمرشل مقاصد کے تحت چلتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ بک جانا ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے، اس لیے اخبار والے زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز انداز میں اخبار و واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ جرائم، حادثات، اسکینڈلز اور اسی نوع کی دیگر منفی چیزیں چونکہ اپنے اندر اسی پس منظر کی نیوز ویلیو رکھتی ہیں، اس لیے اخبارات والے انہیں نمایاں کرکے شائع کرتے ہیں۔

    ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی معاملات کو حد سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔ چنانچہ اخبارات بھی سب سے بڑھ کر سیاسی نوعیت کی خبروں کو اہمیت دیتے ہیں۔ہمارے ہاں سیاست چونکہ خود منفی نوعیت کی چیز ہے اس لیے اس کے حوالے سے بھی زیادہ تر خبریں منفی انداز میں سامنے آتی ہیں۔

    اخبارات کے کالم نگار حضرات انہی چیزوں کو اٹھاتے ہیں اور انہی پر اپنے مضامین کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہ کالم نگار حضرات زیادہ تر صحافیہ پس منظر ہی رکھتے ہیں، اس لیے جب یہ کالم لکھتے ہیں تو غیر محسوس طریقے پر یہ ٹھیک وہی منفی رپورٹنگ شروع کردیتے ہیں جو اخبارات کا طریقہ ہوتا ہے۔

    ان کی دلچسپی کا موضوع سیاست کا وہ میدان ہوتا ہے جہاں سے اچھی خبریں نہیں آتیں یا پھر معاشرے کے وہ منفی واقعات جو تعداد کے اعتبار سے کم اور نیوز ویلیو کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ لوگ چن چن کر معاشرے کے تاریک اور منفی پہلوؤں کو اٹھاتے ہیں اور حال اور مستقبل کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچتے ہیں کہ پڑھنے والا بے پناہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا میں صرف تاریکی اور اندھیرا نظر آتا ہے۔اس کی ہر امید ختم ہوجاتی ہے۔ یہ قاری ایک منفی انسان بن جاتا ہے اور عملی زندگی میں جب لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تو منفی سوچ ہی کے ساتھ کرتا ہے۔یہی سبب ہے کہ آج اخبار کا مطالعہ ایک زہریلا نشہ بن گیا ہے۔

جان ایل ایسپوزیٹو ان امریکی ماہرین میں سے ایک ہیں جو اسلام اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم کرسچن انڈراسٹینڈنگ کے نام سے واشنگٹن یونیورسٹی میں ایک ادارہ بنایا ہوا ہے۔ مصنف نے اپنی ایک کتاب میں عصر حاضر کی اسلامی تحریکوں کا دقت نظر سے جائزہ لیا ہے۔ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔  پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ تجربے کے طور پر ایک قاری اخبار پڑھنے کے بعد اپنے آپ سے سوال کرلے کہ جن منفی چیزوں کا اس نے اخبار میں ذکر پڑھا ہے، ان سے وہ خود کتنا متاثر ہوا ہے۔ تھوڑے سے غور وفکر کے بعد وہ جان لے گا کہ وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں گھرا ہوا ہے۔وہ جان لے گا کہ وہ بیوی بچوں اور گھر والوں کے درمیان باسلامت بیٹھا ہے، اس کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور آنکھیں سلامت ہیں۔ پھر یہ تنہا اس کاہی معاملہ نہیں بلکہ اردگر دپھیلے ہوئے تمام لوگوں کا معاملہ ہے۔ یعنی ان کی غالب ترین اکثریت روزگار،  تعلیم اور صحت کی حامل ہے۔

    یہ سوچ اور یہ رویہ اسے رب کی شکر گزاری پر ابھارے گا۔ شکر گزاری کی یہ سوچ اسے آمادہ کرے گی کہ وہ اپنے دائرے میں بندگانِ خدا کے لیے مفید بنے۔ ان کے کام آئے۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہو۔ اگر کسی کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم دعا ہی کردے۔ وہ کسی کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا تو کم ازکم دوسرے کے لیے خود مسئلے پیدا نہ کرے۔

    اس کے ساتھ اگر وہ صبح سویرے قرآن پاک کا مطالعہ کرلے تو اس پر واضح ہوجائے گاکہ اصل خبر اخبار میں نہیں بلکہ قرآن کریم میں موجود ہے ۔ وہ قیامت کے دن رب کے حضور پیشی اور حساب کتاب کی خبر ہے۔ یہ خبر اسے دن بھر کے معمولات میں محتاط بنادے گی۔ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوگا جو خالق یا مخلوق کے حقوق تلف کرنے والا ہو۔

    آج کے اخبارات کا غیر شعوری مطالعہ زہریلا نشہ بن گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگ قرآن پڑھ کر اور فجر کی نماز میں اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں کا شکر ادا کرکے اخبار کا مطالعہ کریں۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

 اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ میڈیا میں منفی رپورٹنگ کے زہریلے اثرات سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ شکر گزاری کے رویے کی اہمیت بیان کیجیے۔

قرآن مجید کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

زہریلا نشہ
Scroll to top