(Objective) دین کا مطالعہ معروضی طریقے سے کیجئے

کسی بھی چیز کے مطالعے کے دو طریقے دنیا میں رائج ہیں۔ ایک سب جیکیٹو طریقہ کہلاتا ہے اور دوسرا آبجیکٹو طریقہ۔ غیر معروضی طریقے میں انسان کچھ چیزوں کو پہلے سے ہی فرض کر لیتا ہے اور پھر اس کے مطالعے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس نے جو نقطہ نظر پہلے سے ہی متعین کر لیا ہے، وہ اس کے حق میں دلائل تلاش کرے اور اگر اس کے خلاف کوئی بات اسے نظر آئے تو اسے یا تو نظر انداز کردے یا پھر توڑ مروڑ کر اس سے اپنے مطلب کی بات اخذ کرلے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کی خاطر انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی حدود کو توڑتا (یعنی جرائم میں ملوث ہوتا) تو آپ اسے اللہ تعالی کے لئے سزا دیا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری)

معروضی طریقے میں انسان پہلے سے کوئی چیز طے نہیں کرتا بلکہ اپنے مطالعے اور مشاہدے سے اس پر جو حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے وہ اسے تسلیم کرلیتا ہے۔ دنیا بھر میں عام طور پر  مذہبی رہنما، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اپنے مطالعے اور تعلیم میں غیر معروضی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے برعکس سائنس دان عموماً غیر جانبداری سے کام لیتے ہوئے، معروضی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل اس طرح بیان کرتے ہیں۔

جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ از قاضی جاوید، ص 86 )

یہ بات بدیہی طور پر واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن اور اس کے پیارے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مطالعہ غیر معروضی طریقے سے نہیں بلکہ معروضی طریقے پر کرنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص پہلے ہی سے کوئی عقیدہ بنا لے اور پھر قرآن و سنت کا مطالعہ شروع کرے تو وہ دراصل اپنے دل و دماغ کو اللہ کے سامنے نہیں جھکا رہا بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ العیاذ باللہ قرآن و سنت اس کی خواہش اور اس کے نظریے کے سامنے جھک جائیں۔ اس لئے ایسے لوگوں سے،  جو مختلف مذاہب، مسالک اور فرقوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں، ہماری گذارش یہ ہے کہ وہ پہلے سے کوئی چیز طے نہ کریں بلکہ جیسا انہیں قرآن اور سنت سے ملے، اسے ہی اپنے عقیدے یا عمل کے طور پر اختیار کریں۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ۔ غلامی کا آغاز کیسے ہوا؟ دنیا کے قدیم معاشروں میں غلامی کیسے پائی جاتی تھی؟ اسلام نے غلامی سے متعلق کیا اصلاحات کیں اور ان کے کیا اثرات دنیا پر مرتب ہوئے؟ موجودہ دور میں غلامی کا خاتمہ کیسے ہوا۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔
اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔۔ معروضی اور غیر معروضی طریقے میں کیا فرق ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔ دین کے مطالعے میں معروضی طریق کار کی کیا اہمیت ہے؟

علوم القرآن اور تعمیر شخصیت لیکچرز

(Objective) دین کا مطالعہ معروضی طریقے سے کیجئے
Scroll to top