موجودہ دور میں جہاد کیسے کیا جائے؟

جہاد دین اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ایک ہے۔ جہاد کا معنی ہے کہ جدوجہد۔ انسان اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ یہ جدوجہد خدا سے تعلق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس جہاد کی انتہائی صورت وہ ہوتی ہے جس میں اللہ کا بندہ اس کی رضا کے لئے میدان جنگ میں اتر آتا ہے۔ اسے عربی میں قتال فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔

محبت کرنے والا دل ہی حقیقی دانش مندی ہے۔ چارلس ڈکنز

موجودہ دور میں لفظ جہاد کو بدنام کر دیا گیا ہے۔ پراپیگنڈا کر کے جہاد اور دہشت گردی کو ہم نام قرار دے دیا گیا ہے۔ لوگ جہاد کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل برعکس خواتین اور بچوں کو حملے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ بتایا جائے کہ موجودہ دور میں صحیح اسلامی جہاد کیسے کیا جائے؟

    موجودہ دور میں بھی جہاد کی وہی دو صورتیں ہیں جو کہ ہر دور میں رہی ہیں: ایک پرامن جہاد اور دوسرا مسلح جہاد۔ ان کی عملی صورتوں کو ہم یہاں بیان کریں گے۔

پرامن جہاد

پرامن جہاد کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہونا چاہیے۔ اپنی ذات کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھنا اور اس میں نیکی کے اوصاف پیدا کرنا اعلی ترین جہاد ہے۔ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دین کی ان اخلاقی حدود و قیود سے اپنی اولاد، خاندان، دوستوں، معاشرے اور حکومت کو آگاہ کرتے رہنے کا نام جہاد ہے۔ یہ وہ جہاد ہے جو ہر مسلمان ہر وقت جاری رکھ سکتا ہے۔

مسلح جہاد

دنیا میں ایسی بہت سی صورتیں پیش آ جاتی ہیں جب قومیں اور گروہ سرکشی پر اتر آتے ہیں اور وہ دوسروں کے لئے خطرہ بن کر ان پر ظلم و تعدی کا طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان سے جنگ ناگزیر ہوا کرتی ہے۔

    دین اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر چودہ صدیوں کے مسلم اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔

أخبرنا عمران بن بكار قال حدثنا علي بن عياش قال حدثنا شعيب قال حدثني أبو الزناد مما حدثه عبد الرحمن الأعرج مما ذكر أنه سمع أبا هريرة يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :  إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقي به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا۔ (نسائی، ابو داؤد ، کتاب الامارۃ)

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حکمران ڈھال کی طرح ہوتا ہے، اس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے بچاؤ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے اور عدل کرنے کا حکم دے تو یہ باعث اجر ہے۔ اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور حکم دے تو اس کا بوجھ خود اسی پر ہوگا۔

اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ
کیا اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لئے کچھ اقدامات کیے یا اسلام غلامی کی حمایت کرتا ہے؟ موجودہ دور میں غلامی کی تحریک مغربی دنیا سے شروع کیوں ہوئی؟ مسلم دنیا میں غلامی کا خاتمہ کیسے اور کیوں ہوا؟ مسلم اور مغربی دنیاؤں میں موجود غلامی میں کیا فرق تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا میں غلامی کے خاتمے سے متعلق کیا کردار ادا کیا؟  پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

افراد اور گروہوں کو جہاد کی اجازت نہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ مختلف گروہ جنگ میں حصہ لیں گے اور جب ان کا مشترک دشمن ختم ہوگا تو اس کے بعد یہ گروہ آپس میں ٹکرا جائیں۔ پرائیویٹ آرمیز کی موجودگی میں کبھی کسی معاشرے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔

    اگر ہم مسلمانوں کے پچھلے پچاس برس کی تاریخ کا ہی جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آ جائے گی کہ پرائیویٹ افواج کا یہی نتیجہ رہا ہے۔ افغانستان، فلسطین، کشمیر اور اب عراق کی مثال ساری دنیا کے سامنے ہے۔ اس کے برعکس کسی علاقے کی حکومت صرف اور صرف ایک ہی ہوتی ہے اور جب وہ جنگ کا فیصلہ کر لے تو شروع سے لے کر آخر تک اس ایک حکومت کی صرف ایک ہی فوج میدان جنگ میں اترتی ہے جس کے باعث کسی انارکی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

    جو لوگ قتال فی سبیل اللہ میں عملاً حصہ لینا چاہتے ہوں، ان کے لئے اسلام کے نقطہ نظر سے جہاد کی عملی صورت یہی ہے کہ اگر وہ اپنی حکومتوں کے اخلاق اور کردار سے مطمئن ہوں تو حکومت کی فوج، پولیس یا کسی اور سکیورٹی فورس میں شامل ہو جائیں۔ اس کے بعد وہ ڈاکوؤں، چوروں، اسمگلروں، منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کے خلاف جہاد کریں۔ عام لوگ ٹیکسوں کی صورت میں اس جہاد میں شریک ہوتے ہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام لوگ ان مجاہدین کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کر سکتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کسی فوجی کو کوئی ایسا حکم دے جو کہ صریحاً ظلم ہو، تو اس حکم کو نہ مانتے ہوئے اپنا کورٹ مارشل کروا لینا ایک خدا پرست مجاہد کے نزدیک افضل ترین جہاد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورٹ مارشل کے بدلے جنت کا سودا کچھ مہنگا نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بھی مسلح بغاوت کرنا جائز نہیں ہے بلکہ پرامن اور مظلومانہ جدوجہد جاری رکھنا چاہیے تاکہ حکومت کو ظلم سے باز رکھا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔

    بعض لوگ خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے لفظ امام یا امیر یا اولو الامر کو اپنی تنظیم یا جماعت کے لیڈر کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ عہد صحابہ و تابعین میں ان الفاظ کو صرف حکمران کے لئے ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ لفظ جماعت کا معنی ان کے نزدیک حکومت ہی ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کے آخری دور میں مسلمانوں کے ہاں جو دو فرقے پیدا ہوئے، ان میں سے چھوٹے فرقے کا نام اھل التشیع (یعنی گروہ کے پیروکار) اور بڑے فرقے کا نام اھل السنۃ و الجماعۃ (یعنی سنت اور حکومت کے پیروکار) رکھا گیا۔

    جب سیدنا حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین صلح کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور مضبوط حکومت قائم ہوئی تو اس کا نام عام الجماعۃ یعنی جماعت کا سال رکھا گیا۔ ہم یہاں صحیح مسلم کی صرف دو حدیث دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث میں لفظ جماعت اور دوسری میں لفظ سلطان آیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جماعت کا معنی حکومت ہی ہوتا ہے۔

حدثنا حسن بن الربيع. حدثنا حماد بن زيد عن الجعد، أبي عثمان، عن أبي رجاء، عن ابن عباس، يرويه. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (من رأى من أميره شيئا يكرهه، فليصبر. فإنه من فارق الجماعة شبرا، فمات، فميتة جاهلية). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4790)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی جماعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔

وحدثنا شيبان بن فروخ. حدثنا عبدالوارث. حدثنا الجعد. حدثنا أبو رجاء العطاردي عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال (من كره من أميره شيئا فليصبر عليه. فإنه ليس أحد من الناس خرج من السلطان شبرا، فمات عليه، إلا مات ميتة جاهلية). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4791)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی حکمران کی اطاعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔

کیا ظالم کا ہاتھ نہ پکڑا جائے؟

بعض افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت ظلم کرے تو کیا اس کا ہاتھ نہیں پکڑا جائے گا؟ اس کا جواب ہے کہ حکومت کا ہاتھ ضرور پکڑا جائے گا لیکن ایسا مسلح بغاوت کی صورت میں نہیں بلکہ مظلومانہ جہاد کی صورت میں کیا جائے گا۔ ان احادیث سے یہ واضح ہے کہ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف مسلمانوں کو مظلومانہ جہاد کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ تمام انبیاء کرام کی یہی سنت ہے۔ سیدنا نوح، ہود، صالح، ابراہیم، شعیب، لوط اور عیسی علیہم الصلوۃ والسلام کا یہی طریقہ رہا ہے۔ حکومت ملنے سے پہلے سیدنا موسی اور محمد علیہما الصلوۃ والسلام نے بھی اسی طریقے سے جہاد کیا ہے۔

    ہمارے ہاں دین سے انحراف کے باعث انبیاء کرام کی اس سنت کو معاذ اللہ دوسرے درجے کی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ‘بغاوت’ کے لفظ سے لوگوں کی انا کی جو تسکین ہوتی ہے وہ مظلومانہ جہاد کے الفاظ سے نہیں ہوتی۔

    بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ‘مظلومانہ جہاد’  کے نتائج نہیں نکلتے۔ یہ ایک بالکل ہی غلط نظریہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کے لئے اللہ تعالی کے خصوصی لشکر حرکت میں آ جاتے ہیں اور کچھ ہی عرصے میں حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں ظلم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ تاریخ عالم کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مظلومانہ جدوجہد کی گئی، اس کے نتائج مثبت ہی نکلے۔ سیدنا نوح، ہود، صالح، ابراہیم، موسی و عیسی علیہم الصلوۃ والسلام کے مقابلے میں آنے والے سرکش تباہ و برباد ہوئے۔ مسلم تاریخ میں احمد بن حنبل کو کوڑوں سے پیٹنے والا اپنے انجام سے دوچار ہوا۔

    مظلومانہ جہاد کا یہ طریق کار تاریخ کا افسانہ نہیں ہے بلکہ موجودہ دور میں برصغیر اور جنوبی افریقہ میں مظلومانہ جدوجہد کے ذریعے ظلم کے خاتمے کی مثال قائم کی جا چکی ہے۔ برصغیر ہی کو لیجیے۔ قبضہ کر کے یہاں کے باشندوں کا استحصال کرنے والی سپر پاورز کو اللہ تعالی نے آپس میں اس طرح لڑا دیا کہ یہ دنیا پر حکومت کرنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ جنوبی افریقہ کے نسل پرستوں کے خلاف اللہ تعالی نے دنیا بھر میں اتنا دباؤ پیدا کر دیا کہ وہ خود ہٹ جانے پر مجبور ہو کر رہ گئے۔

    اس کے برعکس دنیا میں مسلح بغاوت کی کسی بھی کوشش کا جائزہ لیجیے تو اس کا نتیجہ سوائے انارکی اور تشدد کے اور کچھ نہ نکلا۔ حکمران کا محدود ظلم، لامحدود دائرے میں پھیل گیا اور ایک حکمران کو ظلم سے روکنے کی کوشش میں لاکھوں وار لارڈز، ڈاکو، دہشت گرد اور ظالم پیدا ہو گئے جنہوں نے عام لوگوں کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد بھی وہ ظلم اپنی جگہ برقرار رہا جس کے خاتمے کے لئے ‘جہاد’ کے مقدس نام پر بغاوت شروع کی گئی تھی۔ ہمارے اپنے معاشرے اس کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ موجودہ دور میں جہاد کی کیا صورتیں ہیں؟

۔۔۔۔۔ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو مسلح جہاد کا حکم اسی صورت میں دیا جب ان کی باقاعدہ حکومت کسی علاقے پر قائم ہو گئی۔ اس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟

۔۔۔۔۔ پرائیویٹ تنظیموں کی مسلح جدوجہد کے کیا اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں؟ افغانستان اور پاکستان کی مثال سے بیان کیجیے۔

علوم القرآن اور تعمیر شخصیت

موجودہ دور میں جہاد کیسے کیا جائے؟
Scroll to top