دھوکےمیں مبتلا افراد کی اقسام

بنیادی طور پر چار بنیادوں پر افراد دھوکے میں مبتلا ہوا کرتے ہیں: علم، عبادات اور عمل، مال، اور تصوف۔

علم کی بنیاد پر دھوکے میں مبتلا افراد

تکبر کرنے والوں میں پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جو کہ دینی اور دنیاوی علوم میں گہرا غور و فکر کرتے ہیں اور اس میں کوئی مقام یا مرتبہ حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک انہیں ایک اہم رتبہ حاصل ہو چکا ہے۔ اس مرتبے کی وجہ سے اللہ تعالی انہیں روز آخرت سزا نہ دے گا بلکہ لوگوں کے بارے میں ان کی سفارش کو قبول کرے گا۔۔۔۔

    یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے غافل ہیں کہ روز قیامت سب سے زیادہ سزا ان علماء کو دی جائے گی جنہوں نے اللہ کے عطا کردہ علم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہم ایسے علماء سے اللہ کی پناہ کے طالب ہیں۔ ان پر دنیا کی محبت، آخرت کی نسبت غالب آ گئی ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں ہیں کہ آخرت میں ان کا علم، ان کی بدعملی کو چھپا لے گا۔

غرور سے صرف جھگڑے پیدا ہوتے ہیں لیکن جو لوگ (عجز و انکسار) کے ساتھ نصیحت کو قبول کرتے ہیں ان میں حکمت و دانش پائی جاتی ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام

    دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو کہ علم و عمل کا حکم دیتے ہیں اور ظاہری گناہوں سے بچتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ دل کے معاملے میں غافل ہیں اور اللہ کے نزدیک جو بری صفات ہیں جیسے تکبر، ریا، حسد، عہدے اور مرتبے کی طلب، ساتھیوں کی جانب سے تعریف کی خواہش، عالمی سطح پر مشہور ہونے کی خواہش وغیرہ وغیرہ۔ ان کا یہ دھوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے غفلت کے باعث ہے کہ ریا کاری چھوٹا شرک ہے۔

    تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو ان اخلاق سے بھی واقف ہیں۔ وہ انہیں برا سمجھتے ہیں مگر یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمارا مرتبہ اس سے بلند کر دیا ہے کہ ہمیں ان اخلاق عالیہ سے آزمایا جائے۔ ان میں تو عام لوگوں کو مبتلا کیا جاتا ہے۔ یہ نہایت ہی متکبرانہ وضع کے ساتھ آتے ہیں اور بلند مرتبہ کے طالب ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تکبر نہیں ہے۔ یہ تو دین کی نصرت اور علم کے مرتبے کا اظہار ہے۔ اس معاملے میں ابلیس کتنا خوش ہوتا ہے، وہ اسے نہیں جانتے۔

    اس کے برعکس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت ہی متواضع تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہایت عجز کے ساتھ شام کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا، ہم وہ قوم ہیں جسے اللہ نے اسلام سے عزت دی ہے۔ ہم اس کے علاوہ کسی اور عزت کے طالب نہیں ہیں۔۔۔۔ ایسے ہی علماء حکمرانوں سے قربت اختیار کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دین کے شرف کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔۔۔ اہل علم کی یہ قسم بہت عام ہے۔ ان میں فساد پھیلانے والے اصلاح کرنے والوں کی نسبت زیادہ ہیں۔

    علماء میں چوتھا گروہ ان کا ہے جو علم کا حکم دیتے ہیں اور ظاہری گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں لیکن اخلاق نفس کو ان کے ہاں اہمیت نہیں دی جاتی جن میں حسد، تکبر، انتقام، مرتبے کی خواہش سے پرہیز شامل ہے۔۔۔

    پانچواں گروہ ان علماء کا ہے جو کہ علوم میں سب سے اہم ترین علم کو ترک کر دیتے ہیں۔ یہ عدالتی فیصلوں اور اختلافی مسائل کے علوم پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ ان کا نام فقیہ ہے۔ یہ لوگ اپنی زبان کو غیبت اور پیٹ کو رزق حرام سے نہیں روکتے اور دل کو تکبر، ریا، حسد اور دیگر مہلک امراض سے محفوظ نہیں رکھتے۔ یہ لوگ حیض، دیت، عدالتی دعوی، ظہار اور لعان کے قوانین سے تو خوب واقف ہیں مگر انہوں نے ان کی روح کو ضائع کر رکھا ہے۔

    چھٹا گروہ ان علماء کا ہے جو علم کلام، بحث و مناظرہ اور مخالفین کے رد میں مشغول ہیں۔ ان میں ایسے بہت سے گروہ موجود ہیں جو ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں مشغول ہیں۔

    ساتواں گروہ ان اہل علم کا ہے جو وعظ و نصیحت میں مشغول ہیں۔ ان کی نیت اخلاق نفس جیسے خوف خدا، رجاء، صبر، شکر، توکل، زھد، یقین، اخلاص نیت اور سچائی کو پھیلانا ہوتی ہے۔۔۔۔ یہ لوگ عوام الناس کو تو ان صفات کی ترغیب دیتے ہیں مگر سب سے بڑھ کر دنیا کے طالب ہوتے ہیں۔

    آٹھواں گروہ ان لوگوں کا ہے جو الفاظ اور شعر و شاعری سے کھیلتے ہیں اور قافیے ملانے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا کام بس یہی ہے کہ مجلسوں کو اپنے زور بیان سے گرما دیا جائے۔ یہ انسانوں کے شیاطین ہیں، خود گمراہ ہیں اور انہیں بھی گمراہ کرتے ہیں۔۔۔۔

    نواں گروہ ان علماء کا ہے جو زاہدین کے کلام اور دنیا کی مذمت سے متعلق ان کی باتوں کو یاد کرنے اور پھیلانے میں مشغول ہیں۔ یہ منبر و محراب اور بازاروں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں اور یہ سجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے نزدیک نجات یافتہ ہیں۔

    ان علماء میں دسواں گروہ وہ ہے جو علم حدیث میں مشغول ہیں۔ یہ لوگ روایات اور عجیب و غریب اسناد کے جمع کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ دور دراز شہروں کا سفر اس لئے کرتے ہیں کہ یہ کہہ سکیں کہ میں نے فلاں شیخ سے یہ حدیث سنی ہے، فلاں سے ملا ہوں اور فلاں کو دیکھا ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ سنت کو سمجھنے اور اس کے معانی میں تدبر کرنے پر تیار نہیں ہوتے بلکہ حدیث کو صرف نقل کر دینے پر اکتفا کر دیتے ہیں۔ حدیث کے معاملے میں ہماری ذمہ داری سب سے پہلے تو حدیث کا حصول ہے، پھر اس کا حفظ ہے، اس کے بعد اس پر عمل کرنا ہے اور پھر اسے پھیلانا ہے۔ لیکن یہ لوگ صرف حدیث کے حصول اور پھیلانے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور عمل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

    بعض علماء ایسے ہیں جو عربی زبان اور اس کی گرامر میں اپنی پوری عمر کھپا دیتے ہیں۔ اگر وہ عقل سے کام لیتے تو یہ جان لیتے کہ عربی زبان، محض ترکی یا ہندی زبان کی طرح ہی ہے۔ صرف و نحو اور گرامر میں سے اتنا ہی سیکھنا چاہیے جو کہ دین کو سمجھنے کے لئے ضروری ہو۔

کتاب الرسالہ از امام شافعی
یہ کتاب امام شافعی نے اب سے بارہ سو سال پہلے لکھی تھی اور اس کا مقصد اصول فقہ کے فن کو مدون کرنا تھا۔ اس کتاب کا آسان اردو زبان میں اب تک ترجمہ نہ ہو سکا تھا۔ یہ ترجمہ اب دستیاب ہے۔ یہ کتاب ان اصولوں کو بیان کرتی ہے جن کا خیال رکھنا قرآن و سنت میں غور کرنے کے لئے ضروری ہے۔

عبادات اور اعمال کی بنیاد پر دھوکے میں مبتلا افراد

اس طبقے میں جو افراد شامل ہیں جو نوافل پر بہت زور دیتے ہیں اور فرائض کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ طہارت کے مسئلے پر تو اتنی توجہ دیتے ہیں کہ معمولی سی چھینٹ بھی کپڑے پر نہ پڑے مگر حرام مال کھانا ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

    ان میں دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو نماز کی نیت کے وقت شیطانی وسوسہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ نماز کی نیت کے بارے میں اتنے وہموں اور وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں کہ نماز کا وقت ہی نکل جاتا ہے۔ اگر نیت کرنے میں یہ کامیاب ہو بھی جائیں تو پوری نماز میں وہم کا شکار رہتے ہیں کہ کوئی لفظ چھوٹ تو نہیں گیا۔ بعض الفاظ کے تلفظ میں وہم کا شکار رہتے ہیں کہ یہ صحیح ادا ہوا یا نہیں۔

    ایک گروہ ان عابدین کا ہے جو دن رات قرآن مجید ختم کرنے میں مشغول رہتے ہیں مگر اس کے معانی میں غور و فکر نہیں کرتے۔ یہ دن رات میں سو سو مرتبہ تلاوت کرتے ہیں، اور تلاوت کی آواز سے تو لطف اندوز ہوتے ہیں مگر معانی پر غور نہیں کرتے۔

    ان میں ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو روزے کے معاملے میں غلو سے کام لیتے ہیں۔ یہ اگرچہ ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں مگر اپنی زبانوں کو غیبت سے اور پیٹوں کو سود سے پاک نہیں رکھتے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا بھی ہے جو نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ وہ نیکی کا حکم دے کر عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کی کوشش میں مشغول رہتے ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو مساجد اور مزارات پر مجاور بن کر رہتے ہیں اور اسی کو درست سمجھتے ہیں۔

    ایسے ہی لوگوں کا ایک گروہ وہ ہے جو مال و دولت، کھانے اور لباس سے دور بھاگتے ہیں۔ شادی نہیں کرتے اور مساجد ہی میں رہتے ہیں۔ یہ روزانہ ہزار رکعتیں پڑھتے ہیں، قرآن ختم کرتے ہیں مگر دل کو ریا، تکبر، عجب اور تمام مہلکات سے پاک نہیں کرتے۔

مال کی بنیاد پر دھوکے میں مبتلا افراد

ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو مساجد، مدرسے، خانقاہیں اور پانی کے کنویں تعمیر کرتے ہیں۔ اس پر اپنے نام کا کتبہ آویزاں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے جنت میں جگہ پکی ہو چکی ہے۔ ان پر ریا اور شہرت کی طلب غالب ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض تو حرام مال کماتے ہیں اور پھر اسے راہ خدا میں خرچ کر کے اسے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگ مساجد پر زر کثیر خرچ کر کے ان میں ٹائلیں لگواتے ہیں اور نقش و نگار بنواتے ہیں اور غرباء کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نمازیوں کے دل خشوع و خضوع سے خالی ہو کر انہی نقش و نگار میں لگے رہتے ہیں۔

    بعض لوگ غرباء پر خرچ کرتے ہیں اور بدلے میں یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے شکر گزار ہوں اور ان کی اس نیکی کا ڈھنڈورا دنیا کے سامنے پیٹیں۔ یہ چھپ کر غریب کی مدد کرنے کی بجائے اعلانیہ ایسا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

    اہل مال میں سے ایک بڑا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو مال کو جمع کر کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے خود کو عبادت اور ختم قرآن میں مشغول کیے رکھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ بخل سب سے زیادہ مہلک چیز ہے۔

اہل تصوف میں سے دھوکے میں مبتلا افراد

اہل تصوف کے جو لوگ دھوکے میں مبتلا ہیں، ان کا دھوکہ شدید ترین ہے۔ یہ لوگ سچے صوفیاء سے شکل و شباہت، الفاظ، آداب، رسوم اور اصطلاحات میں مشابہت رکھتے ہیں مگر اپنے باطن کے تزکیے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ یہ حرام اور شبہات سے پرہیز نہیں کرتے، حکمرانوں کے عطیوں کو قبول کرتے ہیں، شاندار شاہی خلعتوں کو پہننے میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔ بعض صوفیاء علم مکاشفہ، مشاہدہ حق، وصول اور عین الشہود کے پیچھے پڑے رہتے ہیں لیکن ان کا معنی نہیں جانتے۔ ان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو تصوف کو اسی لئے اختیار کرتا ہے کہ لوگ ان کی خدمت کریں اور ان کے پاس مال و دولت کے نذرانے پیش کریں۔

    بعض صوفیاء تزکیہ نفس اور باطن کی صفائی کی طرف توجہ دیتے ہیں لیکن وہ شریعت کے اہم فرائض جیسے حج کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

(مصنف: ابوحامد محمد غزالی، اصناف المغرورین سے انتخاب، ترجمہ و تلخیص: محمد مبشر نذیر)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
 mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ امام غزالی نے اب سے نو سو برس پہلے دھوکے میں مبتلا افراد کا جو تجزیہ پیش کیا ہے، کیا یہ ہمارے معاشرے پر بھی صادق آتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ لوگ اللہ کی رضا کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے نیکی کیوں کرتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ دھوکے میں مبتلا ہونے سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

دھوکےمیں مبتلا افراد کی اقسام
Scroll to top