شبہات

1950 کے لگ بھگ کی بات ہے۔ میں اعظم گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ خرید رہا تھا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر کھڑی تھی اور چھوٹنے کے قریب تھی کہ ایک دیہاتی آدمی ٹکٹ لینے کے لیے آ گیا۔ اس کو جس مقام تک جانا تھا اس کا کرایہ چند روپیہ ہوتا تھا۔ اس نے اپنی بندھی ہوئی مٹھی کھڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کرکھولی تو اس میں سب سے چھوٹی ریزگاری تھی۔ بابو اس کو دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا: روپیہ لے آؤ، اتنی سب ریزگاری ہم کب تک گنتے رہیں گے۔

الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات
 مغربی تہذیب میں وہ کیا عناصر تھے جنہوں نے اہل مغرب کو خدا اور مذہب سے بغاوت پر مجبور کیا؟ موجودہ دور کے الحاد کے خدوخال کیا ہیں؟ کیا یہ ملحدانہ خیالات مسلم دنیا میں بھی اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ان سوالات کے جواب کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔

    مجھے غریب دیہاتی پر رحم آیا۔ میں نے فوراً جیب سے نوٹ نکالے اور اس سے کہا کہ تم یہ نوٹ لے لو اور ریزگاری مجھے دے دو۔ مگر دیہاتی نے میری پیش کش قبول نہ کی۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے ایک طرف چلا گیا۔ میں تیزی سے چل کر ٹرین پر سوار ہو گیا۔ تاہم میری نظریں اس دیہاتی کا ناکام تعاقب کرتی رہیں ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ دیہاتی وقت پر ٹکٹ نہ لے سکا اور وہ ٹرین اسے چھوڑ دینی پڑی۔

    دیہاتی آدمی نے میری پیش کش کیوں قبول نہ کی؟ اس کی وجہ شبہ ہے۔ اس نے سمجھا کہ میں اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھا رہا ہوں اور اپنے خراب سکوں کو اس کی ریزگاری سے بدل لینا چاہتا ہوں۔ یہ شبہ اس کے ذہن پر اتنا چھایا کہ وہ اپنی ریزگاری کو میرے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس کی گاڑی اس سے چھوٹ گئی۔

    یہی آج ہمارے سماج کی عام حالت ہے، ہر آدمی دوسرے آدمی کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو بے بھروسہ سمجھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پورے سماج میں ایک دوسرے کے خلاف بے اعتمادی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اپنے آپ کو بہت سے ممکن فائدوں سے محروم کیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اکثر کام کرنے کے لیے کئی آدمیوں کا تعاون ضروری ہوتا ہے اور شبہات کی فضا نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا امکان ہی ختم کر دیا ہے۔

    شبہ سے شبہ جنم لیتا ہے اور اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگیں تو جواب میں اس کے اندر بھی آپ کے خلاف شبہات پیدا ہوں گے اور دونوں کے درمیانی فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ اس کے ساتھ اعتماد کا معاملہ کریں تو اس کے دل میں بھی آپ کے بارے میں اعتماد پیدا ہو گا اور دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔

    جو’’انسان‘‘ ایک جسم کے اندر ہے وہی انسان دوسرے جسم کے اندر بھی ہے۔ مگر آدمی اکثر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ خود کچھ اور ہے اور دوسرا کچھ اور۔

(مصنف: وحید الدین خان)

نہ تو ایک دوسرے سے نفرت کرو اور نہ ہی حسد۔ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار نہ کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (بخاری، کتاب الادب)

دوسروں پر اعتماد کے ساتھ ساتھ انسان کو محتاط رہتے ہوئے اپنی عقل کا استعمال بھی رہنا چاہیے۔ اگر کسی سے بدگمانی کرنا ایک انتہا ہے تو دوسرے پر اندھا اعتماد کرنا دوسری انتہا۔ درمیان کا راستہ یہ ہے کہ نہ تو بدگمانی کی جائے اور نہ ہی اندھا اعتماد۔ اس کی بجائے اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے دوسرے کے بارے میں مثبت سوچ رکھی جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ جس شخص کو ہم اچھی طرح جانتے نہ ہوں، اسے ہم نہ تو خائن، چور اور بددیانت قرار دے کر حقیر سمجھیں اور نہ ہی حسن ظن کی انتہا کرتے ہوئے اپنا مال و اسباب اس کے سپرد کر دیں۔ (محمد مبشر نذیر)

اپنے بچوں اور خاندان کا خیال رکھیے۔ ان کی تعمیر شخصیت میں بھی اپنا کردار ادا کیجیے اور انہیں اچھی تحریریں پڑھنے کے لئے دیجیے۔آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسروں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ای میل بھیج کر ان کی مدد کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ایک اجنبی شخص سے ہمیں کس طرح معاملہ کرنا چاہیے؟ احتیاط اور بدگمانی کے درمیان کس طرح توازن قائم کیا جا سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ بدگمانی کا علاج کیا ہے؟ دو تجاویز پیش کیجیے۔

علوم القرآن سے متعلق تعمیر شخصیت لیکچرز

شبہات
Scroll to top