میلا سووچ کا احتساب

 یوگوسلاویہ ایک کثیر نسلی وفاقی ریاست تھی جس میں سربیا، بوسنیا ہرزوگونیا، کروشیا، سلوینیا اور کوسوواکے علاقے شامل تھے۔ایک زمانے میں یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو کی شہرت دنیا بھر میں تھی۔ کچھ ان کی قد آور شخصیت اور کچھ سوویت یونین کے زیر اثر کمیونزم نے، سرد جنگ کے زمانے میں یوگوسلاویہ کے تمام تر نسلی اور لسانی اختلافات کو دبا رکھا تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد سربیا کی مرکزی ریاست سے علیحدگی کی تحریکیں شروع ہوئیں۔

قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں وہ شخص بدترین حالت میں ہو گا جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہے اور دوسرے لوگوں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہے (یعنی دوغلے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

    سلو بودان میلا سووچ یوگوسلاویہ1989ء میں سربیا کا صدر منتخب ہوا۔ کروشیا، بوسنیا اور کوسووا کے لوگوں نے جب علمِ بغاوت بلند کیا تو میلا سووچ نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے ان کو دبانے کی کوشش کی ۔جس کے نتیجے میں دو لاکھ افراد ہلاک ہوگئے اور اَن گنت لوگ بے گھر ہوئے۔ وہ 13 برس تک مسند اقتدار پر فائز رہا۔ آخر کار 2001میں اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔

سن 2002 ء میں ہیگ میں قائم جنگی جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ٹریبونل میں اس کے خلاف قتل عام اور نسل کشی کے 66 سے زائد مقدمات قائم کیے گئے۔وہ ہیگ میں نظر بند ان مقدمات کا سامنا کررہا تھاکہ 11مارچ 2006ء کو وہ اپنے سیل میں مردہ پایا گیا۔ عدالت کے ایک ترجمان کے مطابق اس کی موت طبعی تھی اور وہ ہارٹ اٹیک سے مرا تھا۔

    میلا سووچ کی موت پر دو ردعمل سامنے آئے۔ ایک اس کے عزیزوں کا موقف کہ میلا سووچ کی موت اس دباؤ کا نتیجہ ہے جس کا سامنا وہ عدالتی کارروائی کے دوران میں کررہا تھا۔ دوسری طرف بلقان کے خطے میں اس کے کیے ہوئے قتل عام کے متاثرین اور ان کے لواحقین کا کہنا یہ تھا کہ ’’بلقان کا قصائی‘‘ احتساب کا سامنا کیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگیا۔

    بوسنیا اور کوسووا کا سانحہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے۔ بوسنیا کی جنگ 1992ء سے 1995ء تک اور کوسووا کی 1999ء میں ہوئی ۔ ان سے قبل 1991ء میں کروشیا کی جنگ ہوئی تھی۔ بہت سے لوگوں کو وحشت اور درندگی کے وہ واقعات یاد ہوں گے جو اس بے رحم انسان کی زیر نگرانی پیش آئے۔جان، مال اور آبرو کی بربادی کے یہ واقعات جب ذہن میں آتے ہیں اور پھر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا ذمہ دار شخص 64سال کی عمر میں ایک طبعی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوگیا تو حزن و یاس کی ایک لہر دل و دماغ کا احاطہ کرلیتی ہے۔اس صورتحال پر ہر حساس انسان تڑپ اٹھتا ہے۔

قرآن اور بائبل کے دیس میں
 انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے متعلق مقامات کا سفرنامہ۔ اس سفر نامے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے متعلق مقامات مکہ، مدینہ، طائف، بدر اور تبوک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ قوم کے ثمود کے پہاڑوں میں تراشے گئے گھر، نبطی قوم کے تاریخی آثار، قوم لوط اور قوم شعیب علیہما الصلوۃ والسلام کے علاقے، بنی اسرائیل کی تاریخ اور سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب مقامات کی تاریخ اس سفرنامے کا حصہ ہے۔ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔
سفرنامہ ترکی

اصل بدلہ توآخرت کا ہے

تاہم ہمارا سوال یہ ہے کہ فرض کرلیجیے میلاسووچ کا احتساب ہو بھی جاتا تودو لاکھ افراد کے اس قاتل کو دنیا کی کوئی عدالت زیادہ سے زیادہ کیا سزا دے سکتی تھی، سزائے موت؟ مگر ایک دفعہ موت دے دینا دو لاکھ افراد کی جانوں، ان گنت معصوم خواتین کی عصمتوں، بیوہ خواتین، یتیم بچوں کی آہوں اور بے خانما لوگوں کی بربادی کا کوئی بدل تو نہیں ہوسکتا تھا۔

    یہی وہ لمحہ ہے جب اسلام کے تصورِ آخرت کی انسانوں میں فطری طلب اور اس کی معقولیت پوری طرح سامنے آتی ہے۔ اس دنیا میں گناہ گاروں اور مجرموں کی اکثریت قانون کے شکنجے میں کبھی نہیں پھنستی۔ یہ لوگ عیش و آرام کی زندگی گزارکر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔حتیٰ کے میلاسووچ جیسا شخص جس نے انسانی جان مال اور آبرو کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب کیا، وہ بلا احتساب اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا کچھ انصاف اس دنیا میں ملتا ہے وہ عدلِ کامل نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر عدالت کا انصاف جزوی ہوتا ہے۔ ایک قاتل جس نے ایک بے گناہ کا قتل کیا ہو،اس جرم میں دنیاکی عدالت سے سزائے موت پا لیتا ہے۔ مگریہ عدالت ایک بیوہ کی بیوگی اور یتیموں کی بربادی کے جرم پر کیا سزا دے سکتی ہے؟۔ ۔ ۔ باپ کی محبت اور شوہر کی رفاقت کا بدل کیا دے سکتی ہے؟

    ایسے میں اسلام کا تصورِ آخرت ہے جو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں خود کو شتر بے مہار سمجھنے والا انسان دراصل ایک عظیم ہستی کی گرفت میں ہے جو اس کے لمحے لمحے کا حساب رکھتی ہے۔ وہ اعمال ہی سے نہیں، لوگوں کی نیتوں اور ان کے اعمال کے اثرات تک سے واقف ہے۔ اللہ کی عدالت جب قیامت کے دن فیصلہ سنائے گی تو جرم کی سنگینی، اس کی نیت، جرم کے اثرات ،ہر چیز کو پیش نظر رکھ کر اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    اسی طرح جو لوگ تمام تر مشکلات کے باوجود نیکی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، رب کی رضا کے لیے تنہائی میں بھی گناہ سے بچتے ہیں، جنت کی خواہش میں اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں، اپنے مال کو رب کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، کسی صلے اور انعام کی پرواہ کیے بغیر اللہ اور بندوں کے حقوق پورے کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے ہاں کبھی ضائع نہیں جاسکتا۔

    ہوسکتا ہے کہ دنیا ان کا اعتراف نہ کرے، ان کی تحسین نہ کرے۔ ہوسکتا ہے انہیں تنگی کی زندگی گزرنی پڑے، اپنی خواہشات کو محدود کرنا پڑے۔ مگر کل قیامت کے دن جب ان کا معاملہ رب کی عدالت میں پیش ہوگا تو وہ ان کی نیت، ان کے عمل، ان کے اخلاص اور ان کے اعمال کے اثرات، ہر ہر چیز کا بدلہ دے گا۔ اور اس طرح دے گا کہ وہ نہال ہوجائیں گے۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بڑے بڑے مجرموں کو یا تو سزا نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو ان کے جرائم کی نسبت بہت ہی کم۔ اس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ کیا آخرت کی جزا و سزا کا عقیدہ انسان کے دل کی آواز نہیں ہے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن سے متعلق تعمیر شخصیت لیکچرز

میلا سووچ کا احتساب
Scroll to top