لو لاک یا رسول اللہ

 مجھ سے بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی بڑائی پر تو بہت کچھ لکھتا ہوں، مگر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں مضامین کیوں نہیں لکھتا۔ حتیٰ کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں بھی نہیں۔ میں اس کے جواب میں دو باتیں کہتا ہوں۔ ایک یہ کہ معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اعلیٰ ترین سطح پر مدحتِ رسول کا کام کررہے ہیں۔ ان کے کام ہی کا اثر ہے کہ اس معاشرے میں عشقِ رسول کی گرمی کمزور ترین ایمان کے مسلمان کے لہو میں بھی خون بن کر دوڑتی ہے۔ بڑے سے بڑا سیکولر اور غیر مذہبی اور عقلی آدمی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں بے پناہ جذباتی ہوتا ہے۔ ایسے میں کچھ لکھ کر میں کسی کمی کو پورا نہیں کروں گا۔

دیانتدار شخص بے خوفی سے زندگی بسر کرتا ہے مگر بددیانت شخص (اپنی غیر معمولی احتیاط کے باعث) پہچانا جاتا ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ والصلوۃ والسلام)

    دوسرا سبب یہ ہے کہ جو کام خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر کرتے رہے، جو دین کا بنیادی مطالبہ بھی ہے، اس کے حوالے سے ایک عمومی غفلت پائی جاتی ہے۔ یعنی اللہ کا ذکر، اس کا شوق، اس کی تسبیح، اس کی تعریف، اس کی حمد اور اس کے کبر کا بیان۔ اس معاملے میں ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہر تقریر کے آغاز پر بلا سوچے سمجھے ‘نحمدہ’ کہتے ہیں اور اختتام پر الحمد اللہ رب العالمین کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے شعرا اور ادیب، مقرر اور خطیب، عالم و واعظ سب کا معاملہ کم و بیش یہی ہے۔ لیکن کبھی خدا کے نام سے ہماری زبان میں مٹھاس نہیں گھلتی، کبھی اس کی یاد میں دل نہیں تڑپتا، کبھی اس کی محبت میں آنکھوں سے آنسوں نہیں ٹپکتے، کبھی اس کی ملاقات کے شوق میں موت کی تمنا پیدا نہیں ہوتی۔

    حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ایک ایک سانس، ہماری ایک ایک دھڑکن، ہمارا رواں رواں، ہمارا ریشہ ریشہ ،زندگی کے ہر اک لمحے میں، اس کے احسانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس بات کو سب سے بڑھ کر اگر کسی نے جانا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ کی پوری زندگی خدا کے شوق اور اس کی یاد کے سوا کچھ نہیں تھی۔ آپ کی حیات “الذین امنو اشد حبا للہ” (اہل ایمان تو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں، البقرہ165:2) کا عملی نمونہ تھی۔ نہ صرف یہ آپ کی عملی زندگی تھی بلکہ یہی آپ کی دعوت بھی تھی۔

اسلام اور دور جدید کی تبدیلیاں
معاشرے مستقل تبدیلی کا شکار رہا کرتے ہیں۔ ہے ثبات اس زمانے میں اک تغیر کو۔ موجودہ دور میں ہماری فکر میں کیا تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات ہمارے معاشروں پر رونما ہو رہے ہیں۔ مصنف نے ان تبدیلیوں کا اسلام کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔

    آپ نے اپنی زندگی میں اگر بے پناہ تکلیفیں جھیلیں تو صرف اس لیے کہ بندگان خدا، اپنے رب کو پہچان لیں۔ مخلوق کی پرستش چھوڑ کر خدا کی پرستش شروع کردیں۔ انسانوں کے بجائے رب کی عظمتوں میں جینا سیکھ لیں۔ اپنے نفس کی خواہشات کے بجائے رب کی سچی ہدایت کی پیروی کریں۔ اپنے آپ کو غیر اللہ کے بجائے مالکِ دوجہاں کی غلامی میں دیدیں۔ میں نے خدا کی طرف بلانے کا یہ راستہ اگر اختیار کیا ہے تو صرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں کیا ہے۔میری خواہش ہے کہ اسی راستے پر چلتے ہوئے میری موت واقع ہو۔

    میں جب اس مضمون کے بارے میں سوچ رہا تھا تو میں عین دوپہر کے وقت سڑک پر موجود تھا۔ سورج سر پر تھا اور اس کی تیز روشنی نے ہر شے کو منور کر رکھا تھا ۔ مگر روشنی کے اس سیلاب کے باجود جاتی سردی اور آتی بہار کے اس سورج میں کوئی تپش نہ تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری شخصیت کی اس سے اچھی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں مل سکتی۔ آپ کی ذات موسم بہار کا وہ سورج ہے جس میں بہت چمک ہے، مگرتپش نہیں۔ آپ ہدایت کی وہ روشنی ہیں جس کے بعد کوئی اندھیرا باقی نہیں رہ سکتا مگر آپ کی سیرت میں تپش کا کوئی ایسا عنصر نہیں جو ہم گنہگاروں کے وجود کو جھلسا دے۔ مگر کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ آپ کی ذات اور سیرت سے وہ سبق حاصل نہیں کرتے جس کا پیغام لے کر آپ آئے تھے بلکہ خود کو اپنی خواہشات کے اندھیروں کے حوالے کردیتے ہیں۔

میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوا۔ ابھی جماعت میں کچھ دیر باقی تھی۔ کچھ لوگ مسجد کی عمارت کے اندر نوافل پڑھ رہے تھے اور کچھ لوگ مسجد کے صحن میں۔ میں نے گھڑی دیکھی اور پھر ایک نظر موسم بہار کے ٹھنڈے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ لولاک یا رسول اللّٰہ! لما دریت الکتاب ولاالایمان۔ (اے اللہ کے رسول! اگر آپ نہ ہوتے تو میں نہ ایمان کو جان پاتا اور نہ شریعت کو۔)

    پھر میں سایہ میں کھڑے ہونے کے بجائے صحن میں پھیلی ہوئی سورج کی ٹھنڈی روشنی میں کھڑے ہوکر نوافل پڑھنے لگا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہم پر کیا احسانات ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کے احکامات کو جاننے کا ہمارے پاس واحد ذریعہ کیا ہے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

لو لاک یا رسول اللہ
Scroll to top