منصب رسالت سے متعلق چار بنیادی غلط فہمیاں

 معرفت الہی اور حصول تزکیہ کا [قرآن مجید کے بعد] دوسرا قابل اعتماد ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے لیکن آپ کے اسوہ حسنہ سے صحیح فیض ایک طالب تزکیہ صرف اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کو صحیح نسبت حاصل ہو۔۔۔۔

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کی حیثیت اور آپ کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کے بارہ میں ہمارے اندر جو غلط تصورات پیدا ہو چکے ہیں، وہ ہیں تو بہت سے لیکن ہم ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ ہم صرف چار بنیادی غلط فہمیوں کی طرف اشارہ کریں گے جو ہمارے چار بڑے بڑے گروہوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔

جس نے کسی کی ضرورت سے زیادہ تعریف کی، اس نے اسے ہلاک کر دیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

منصب رسالت کی تنقیص کرنے والا گروہ

ہمارے اندر ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو خدا اور بندوں کے درمیان نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی حیثیت سمجھتا ہے جو ایک کاتب [یعنی لکھنے والا] اور مکتوب الیہ [جس کے لئے لکھا گیا ہو] کے درمیان کسی معتمد اور ایک دیانت دار چٹھی رساں کی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام بس یہ تھا کہ اللہ تعالی نے جو کتاب اپنے بندوں پر نازل فرمانی چاہی وہ آپ نے ان کو پہنچا دی، اس کے بعد آپ کا کام ختم ہوگیا۔

     وہ اپنے اسی تصور کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت متعین کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ منصب رسالت کا اس قدر حقیر تصور رکھتے ہوں، ان کے لئے معرفت الہی کے نقطہ نظر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہ جاتی اور جب آپ کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہ جاتی تو آپ کی ذات کے ساتھ کسی غیر معمولی وابستگی کے لئے بھی کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ جب اصلی کام آپ کا صرف خط کا پہنچا دینا تھا اور آپ خط پہنچا چکے تو اس کے بعد اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ اصل خط کی ہے یا زیادہ سے زیادہ کاتب کی، نہ کہ خط کے لانے والے قاصد کی۔ اس کے بعد تو اگر قاصد سرے سے درمیان سے غائب بھی ہو جائے، جب بھی ان حضرات کے نقطہ نظر سے کوئی خلا نہیں واقع ہونا چاہیے۔

    رسالت کا یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے۔ نبی، خدا اور اس کے بندوں کے درمیان صرف ایک قاصد یا نامہ بر ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک معلم بھی ہوتا ہے، ایک مزکی [تزکیہ و تربیت کرنے والا] بھی ہوتا ہے، ایک مرشد بھی ہوتا ہے، ایک مبین [وضاحت کرنےوالا] بھی ہوتا ہے اور ایک مبشر [بشارت دینے والا] بھی ہوتا ہے، ایک منذر [خبردار کرنے والا] بھی ہوتا ہے، ایک سراج منیر [ہدایت کا چراغ] بھی ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک واجب الاطاعت ہادی بھی ہوتا ہے اور پھر اپنی ان تمام خصوصیتوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ارشاد و ہدایت کے فرائض کے سلسلہ میں براہ راست خدا کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ جس کے سبب سے وہ غلطی اور گمراہی کے تمام خطروں سے بالکل محفوظ و مامون ہوتا ہے۔

    اس کا فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ خدا کی کتاب بندوں کو پہنچا دے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ وہ اس کتاب کے تمام اسرار و رموز لوگوں کو سمجھا دے، اس کتاب پر عمل کر کے دکھاوے، اس کتاب پر عمل کرنے والوں کا ایک گروہ اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کر دے اور اس کتاب کے مضمرات، ان کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں نمایاں کر دے۔ ان سارے کاموں میں اس کی اپنی ذات ایک عامل کی حیثیت سے بھی شریک ہوتی ہے اور ایک راہنما کی حیثیت سے بھی شریک ہوتی ہے اور اپنی اس دوسری حیثیت میں جو کچھ وہ کہتا ہے یا کرتا ہے یا جس چیز کو وہ منظور کر لیتا ہے، اس کو اس کتاب کے اور اس کے منصب رسالت کے تحت ہی سمجھا جاتا ہے اور اسی حیثیت سے اس کو قبول کیا جاتا ہے۔

    رسالت کے اس تصور کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم جتنی گونا گوں نوعیتوں کے تعلقات رکھتے ہیں، اتنی گونا گوں نوعیتوں کے تعلقات نہ دنیا میں ہمارے کسی کے ساتھ ہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔ یہاں آپ سے آپ یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اگر کوئی شخص ان گونا گوں تعلقات کی نوعیت سے اچھی طرح واقف نہ ہو یا ان میں سے بعض کا یا کل کا منکر ہو، تو وہ ہرگز آپ کی ذات بابرکات سے وہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا جس کے لئے آپ کی بعثت ہوئی ہے۔

اسلام اور نسلی و قومی امتیاز
اس تحریر میں مصنف نے نسلی امتیاز، معاشی تفاوت کی بنیاد پر برتے جانے والے امتیاز، اور مذہب، رنگ، علاقے اور زبان کی بنیاد پر امتیاز کا اسلامی اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔

اہل تصوف

دوسرا گروہ جو منصب رسالت کے متعلق غلط فہمیوں میں مبتلا ہے وہ ہمارے ارباب تصوف [کی اکثریت] کا ہے۔ یہ لوگ اول تو شریعت اور طریقت اور علم ظاہر اور علم باطن کی الگ الگ حد بندیاں قائم کئے ہوئے ہیں، پھر مزید ستم یہ کرتے ہیں کہ ان دونون علموں کو ایک دوسرے سے بالکل بے تعلق کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہاں تک علم ظاہر یا علم شریعت کا تعلق ہے، اس کی تعلیم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کو دی، لیکن علم باطن یا علم طریقت کے تعلیم آپ نے بطور ایک راز کے صرف چند مخصوص لوگوں ہی کو بتائی اور پھر انہی لوگوں کے واسطہ سے یہ علم سینہ بہ سینہ تصوف کے مختلف سلسلوں تک منتقل ہوا ہے اور وہی اس راز کے امین بنے۔۔۔۔

    یہ خیال اگرچہ غلط ہے، لیکن غلط ہونے کے باوجود ہمارے نزدیک کم از کم اس پہلو سے غنیمت ہے کہ اس میں علم ظاہر اور علم باطن دونوں کا سرچشمہ نبی ہی کو تسلیم کیا گیا ہے۔۔۔۔ ورنہ اہل تصوف میں تو ایک ایسا گروہ بھی ہے جو نبوت اور ولایت کے دو الگ الگ بالکل متوازی منصب تسلیم کرتا ہے، پھر ان میں سے ایک کو وہ علم ظاہر (یعنی علم شریعت) کا سرچزمہ قرار دیتا ہے اور دوسرے کو علم باطن کا۔ اس گروہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جس طرح خاتم الانبیاء کا منصب مخصوص ہے، اسی طرح بعض اشخاص کے لئے ان کے نزدیک خاتم الاولیاء کا منصب مخصوص ہے۔ ان کے نزدیک یہ دونوں منصب بالکل دو متوازی نظاموں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    دو مستقل متوازی نظاموں کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ ان کے درمیان رقابت اور کشمکش کی حالت رہے۔ چنانچہ ان کے درمیان بھی برابر رقیبانہ چوٹیں چلتی رہتی ہیں۔ طریقت کے علمبردار شریعت کے حامیوں کو ظاہر پرست اور بے مغز قرار دیتے ہیں اور شریعت کے حامی، طریقت کے حامیوں کو مبتدع اور گمراہ ٹھہراتے ہیں۔ اور اس تعصب اور غلو نے بڑھتے بڑھتے یہ شکل اختیار کر لی ہے کہ بہت سے صوفی حضرات شریعت کو اپنی طریقت کے مقابلے میں پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتے اور معرفت الہی کے نقطہ نظر اسے ان کی نگاہوں میں جو مرتبہ شیخ محی الدین ابن عربی کا ہے وہ العیاذ باللہ کسی نبی کا بھی نہیں ہے۔

    ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص منصب رسالت کے متعلق اس سوء ظن میں مبتلا ہو جائے تو اس کو معرفت الہی کا ایک ذرہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا، اگرچہ وہ بزعم خویش [ یعنی اپنے خیال میں] باطن میں اتنا کمال حاصل کر لے کہ ہوا میں اڑنے اور پانی پر دوڑنے لگ جائے۔ معرفت الہی کا اصلی ذریعہ صرف انبیاء علیہم السلام ہی ہیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم النبیین ہیں اور آپ کی شریعت آخری اور کامل شریعت ہے۔ اس وجہ سے لازماً آپ خاتم الاولیاء اور خاتم العارفین بھی ہیں۔ معرفت کا جو مقام آپ کو حاصل ہو، وہ نہ کسی اور کو حاصل ہوا اور نہ ہوگا اور علم کا جو خزانہ آپ کی شریعت کے اندر پوشیدہ ہے وہ خزانہ کسی اور چیز کے اندر ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔

تجدد پسندوں کا گروہ

(Modernists)

ہمارے اندر ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ماضی کی ایک قابل احترام شخصیت سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ساری قوم چونکہ آپ کو رسول کہتی ہے، اس وجہ سے یہ لوگ بھی آپ کو رسول ہی کہتے ہیں اور قومی روایات کے زیر اثر آپ کے لئے حمیت اور عصبیت کا جذبہ بھی ایک حد تک رکھتے ہیں، لیکن یہ بات ان لوگوں کے دل میں کسی طرح بھی نہیں دھنستی کہ آپ جس معاملے میں جو کچھ فرما گئے ہیں، وہی حرف آخر ہے اور انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت کا انحصار بس اس کو بے چون و چرا مان لینے ہی پر ہے۔

    ان لوگوں کے نزدیک آپ نے جو کچھ بتایا اور سکھایا، وہ ایک مخصوص زمانہ اور ایک مخصوص ماحول کے لئے تو بے شک ٹھیک تھا لیکن علم و روشنی کے اس زمانہ میں انہی چیزوں پر اصرار کئے چلے جانا، ان کے خیال میں جہالت اور حماقت ہے۔ اب آپ کی بتائی ہوئی باتوں میں سے اگر کچھ چیزیں مانے جانے کے قابل ہیں، تو یا تو وہ ہیں جو خود ان کی اپنی خواہشات کے مطابق ہیں، یا وہ ہیں جن کو خوش قسمتی سے موجودہ زمانے میں بھی قدر و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کو یہ لوگ دل سے گوارا کرنے کے لئے تیار ہوں اگرچہ اپنی کمزوری اور بزدلی کے سبب سے اس کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہ رکھتے ہوں۔

عوام الناس

ہمارے عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہے، جن کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بس ایک اندھی بہری عقیدت کا مرجع ہے، وہ مختلف اوقات میں اپنی اس عقیدت کا اظہار کر کے اپنے خیال میں آپ کے نبوت و رسالت کے تمام حقوق و واجبات سے اپنے آپ کو سبکدوش کر لیتے ہیں۔

    انہیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس مقصد کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے، آپ نے دنیا کو کیا تعلیم دی، اپنے بعد امت پر کیا ذمہ داریاں چھوڑ گئے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔ ان سوالوں پر غور کرنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے وہ اپنے تصورات کے مطابق آپ کی ذات کے ساتھ اظہار عقیدت کر لینے کو کافی سمجھتے ہیں، اگرچہ اس اظہار عقیدت کا طریقہ صریحاً آپ کی تعلیمات اور ہدایات کے خلاف ہی ہو۔

    جاہل پیروں اور مولویوں کی ایک جماعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عوام کے اس جذبہ عقیدت سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ شریعت کی حقیقی ذمہ داریوں سے محفوظ رہتے ہوئے عوام میں مقبول بننے کا یہ راستہ بہت سہل ہے کہ عوام کی اس جاہلانہ عقیدت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منصب رسالت سے اٹھا کر خدائی کے منصب پر متمکن کرنے کی کوشش کی، اور اپنے زعم کے مطابق اس کے دلائل فراہم کئے۔

    دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اظہار عقیدت و محبت کے ایسے طریقے ایجاد کئے جن سے ان کو اپنی خواہشات نفس کی تسکین کے لئے شریعت کی تمام پابندیوں سے پوری آزادی مل جائے۔

    اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور آپ کی محبت و عقیدت کا کلمہ پڑھتے ہوئے ان تمام عقائد کی بنیادیں بھی ڈھا دی گئی ہیں جن سے معرفت الہی کی راہیں کھلتی تھیں اور وہ تمام اعمال و اخلاق بھی برباد کر دیے گئے جو اس معرفت کو جلا دینے والے تھے۔ جس ذات کو اللہ تعالی نے دنیا میں اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کے لئے راہنما بنے اور ان کو خدا کا راستہ دکھائے، اسی کے نام کو ان ظالموں نے اس مقصد کے لئے استعمال کیا کہ لوگوں کو خدا کے راستہ سے ہٹا کر ان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال دیں۔

    [رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ہمارے تعلق کی صحیح بنیادیں یہ ہیں کہ آپ ایمان لایا جائے، آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے، ہر ہر معاملے میں آپ کی اتباع کی جائے اور آپ سے محبت کی جائے۔]

(مصنف: امین احسن اصلاحی، تزکیہ نفس سے انتخاب)

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے منصب سے متعلق ہمارے ہاں کون کون سی بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ہمارے تعلق کی صحیح بنیادیں کیا ہیں؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

منصب رسالت سے متعلق چار بنیادی غلط فہمیاں
Scroll to top