اسلام اور غیر مسلم اقوام

وہ (اللہ) رب العالمین ہے، صرف رب المسلمین نہیں۔ وہ ایک قوم کا نہیں ساری کائنات کا رب ہے۔ اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کے لئے رحمت ہیں۔ اور ایک قوم کے لئے نہیں، قیامت تک کی ساری اقوام کے لئے سراپا ہدایت ہیں۔ تو جس رب کی ربوبیت عمومی ہو، جس کے نبی کی رحمت عمومی ہو، جو ساری کائنات کا رب ہو اور اس کا نبی ساری کائنات کا ہادی ہو، اس نبی کی امت صرف ایک قوم کے لئے نہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے، انسان وقت کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ وقت (کو تبدیل کرنے والا) میں ہی ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں دن اور رات کی تبدیلی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

فرمایا، اخرجت للناس تمہارا اس دنیا میں ظہور پذیر ہونا صرف اپنوں کے فائدہ اور صرف اپنوں کے نفع کے لئے نہیں بلکہ جتنی اولاد آدم ہے، جتنے انسان ہیں، سب کے لئے تمہارا وجود فیض و کرم کا باعث ہے۔ رحمت و برکت کا موجب ہے۔

دور دستاں را بہ احسان یاد کردن ہمت است

ورنہ ہر نخل بپائے خود ثمر می افگند

اپنے لئے اور اپنوں کے لئے ہر کوئی فائدہ کا باعث ہوا کرتا ہے۔ لیکن اے غلامان مصطفے! تم صرف اپنوں کے لئے نہیں بلکہ جو تمہارے خون کے پیاسے ہیں، ان کے لئے بھی تمہاری رحمت کی چادر وا ہونی چاہیے۔ ابر کرم جب برستا ہے تو سرسبز و شاداب کھیتوں ہی نہیں بلکہ جنگلوں اور ریگستانوں پر بھی اس کی موسلا دھار بارش برستی ہے۔ تو امت محمدیہ ساری قوم کے لئے رحمت و برکت کا سرچشمہ ہے اور ہر چیز اس سے فیض یاب ہوتی ہے۔

    آپ حیران ہوں گے کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دین میں آ گئے اور جو قومیں مسلمان نہیں ہوئیں اور اب تک نہیں ہوئیں اور وہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے بغض و عناد رکھتی ہیں، ان کو بھی اسلام کی وجہ سے کئی برکتیں حاصل ہوئی ہیں۔ وہ خود اعتراف کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ آپ ان قوموں کی اسلام سے قبل اور اس کے بعد کی زندگی ملاحظہ کریں تو یہ حقیقت آپ پر واضح ہو جائے گی۔

اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ
کیا اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لئے کچھ اقدامات کیے یا اسلام غلامی کی حمایت کرتا ہے؟ موجودہ دور میں غلامی کی تحریک مغربی دنیا سے شروع کیوں ہوئی؟ مسلم دنیا میں غلامی کا خاتمہ کیسے اور کیوں ہوا؟ مسلم اور مغربی دنیاؤں میں موجود غلامی میں کیا فرق تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا میں غلامی کے خاتمے سے متعلق کیا کردار ادا کیا؟  پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

ہندوؤں کی مسلمانوں سے قبل کی رسوم مثلاً ذات پات کی تقسیم اور ستی کی رسم، جس میں خاوند کی وفات کے بعد اس کی بیوی بھی اسی کے ساتھ آگ میں جل کر راکھ ہو جایا کرتی تھی، خواہ اس کی شادی کو ایک ہی دن کیوں نہ گزرا ہوتا۔ اسے نہ تو اپنے آنگن میں چٹکتے ہوئے پھولوں کی خوشبو نصیب ہو سکتی اور نہ ہی مانگ میں خوشی اور مسرت کی کہکشاں اپنا روپ اور جلوہ دکھا سکتی۔ نہ اس کی زندگی کے ارمان پورے ہوتے۔ زندگی کسے عزیز نہیں ہوتی لیکن یہاں اس برائی اور صریح ظالمانہ اقدام پر کوئی آواز بلند نہ ہوتی تھی۔ لڑکی کی ماں اس کے پاس ہوتی، باپ کے سامنے بیٹی شعلوں کی لپیٹ میں چلی جاتی اور بھائی اپنی محبت کو اپنی آنکھوں سے بھسم ہوتی دیکھتا رہتا، لیکن کوئی بھی اس ظالمانہ فعل پر صدائے احتجاج بلند نہیں کیا کرتا تھا۔

    لیکن جب اسلام کا نور فلک ہند پر جلوہ فگن ہوا تو جہاں اس نے اور لوگوں کو کفر کی دلدل سے نکال کر رشد و ہدایت کی وادی میں پہنچایا، وہاں ہندوؤں کی اس بری رسم پر بھی وہ ضرب لگائی کہ ان کے دل میں بیٹی کی عزت و ناموس پیدا ہوئی اور وہ اس برائی سے اجتناب کرنے لگے۔

    اسلام میں گورے اور کالے، امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں ہے اور اسلام اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن ہندوؤں میں ذات پات کو وہ چکر تھا کہ انسان پر اس کے تصور سے ہی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ چار بڑی بڑی ذاتیں تھیں: برہمن، کھشتری، ویش اور شودر۔ ان میں سے برہمن بڑی ہی مقدس اور محترم ذات تھی۔ مذہب کی تعلیم اور حکمرانی اس خاندان کا ہی حق تھا۔ شودر سب سے گھٹیا اور قابل نفرت طبقہ تھا۔ اتنا کہ اسے عام آدمی کا درجہ بھی نہٰں دیا جاتا تھا۔ اگر کسی شودر کے کان میں برہمن کی آواز پڑ جاتی تو شودر کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔ اور اگر برہمن کے کانوں میں شودر کی آواز پڑ جاتی تو اس کی زبان کاٹ دی جاتی تھی۔ یہ وہ ظالمانہ روایات تھیں جن میں ہندو معاشرہ گرفتار تھا۔

    لیکن اسلام کے نور کی ضوفشانی کے اثرات ایسے مرتب ہوئے کہ آج ہندو معاشرہ میں ان رسوم کو خود برا سمجھا جاتا ہے اور یہ تمیز تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ یہ وہ فیض ہے جو اسلام نے ان لوگوں کو بخشا جو اسلام نہیں لائے۔ جب بارش برستی ہے تو نشیب پر بھی برستی ہے اور فراز پر بھی، جنگلوں پر بھی برستی ہے اور باغوں پر بھی۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے فیض کرم سے زمین سے لے کر آسمان تک کا ذرہ ذرہ مستفیض ہوا۔ کائنات کے نصیب جاگے اور جہنم کی طرح بھڑکتی دنیا جنت کا نمونہ بن گئی۔ امن و سکون اور محبت و رحمت کا گہوارہ بن گئی۔۔۔

    ہم نے دنیا میں خیر الامم ہونے کا تاج یوں ہی نہیں سجایا۔ یہ اعزاز ہمیں یونہی نہیں بخشا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ہم اپنے آپ پر بوجھ ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے ننگ و عار ہیں۔ لیکن ہم یہ نہ تھے جو آج ہیں، بلکہ اللہ تعالی نے اس لئے خیر الامم کا تاج کرامت ہمارے سر کی زینت بنایا کہ ہماری وجہ سے سارے لوگ اس چشمہ سے فیض یاب ہوں گے، اس نور سے اپنے دلوں کو منور کریں گے۔ اس پیغام سے اپنے دلوں کی اجڑی ہوئی بستی کو آباد کریں گے۔

(مصنف: محمد کرم شاہ الازہری، بشکریہ www.zia-ul-ummat.com )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ اسلام نے مسلم معاشرے میں رہنے والے غیر مسلموں کو کیا قانونی حقوق عطا کیے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ جب مسلمان دنیا میں پھیلے تو غیر مسلم معاشروں پر اسلام کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

اسلام اور غیر مسلم اقوام
Scroll to top