اسلام کا نفاذ یا نفوذ

بیسویں صدی کا نصف آخر جدید مسلم تاریخ کا ایک بہت اہم وقت ہے۔ یہ وہ عرصہ ہے جس میں مسلم ممالک نے نوآبادیاتی طاقتوں سے سیاسی آزادی حاصل کرلی تھی اور دنیا بھر میں 50 سے زیادہ مسلم ریاستیں وجود میں آگئی تھیں۔اس دور میں مسلمانوں کی مذہبی اور فکری قیادت کا اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ ان ممالک میں دین اسلام کا نفاذ ہوجائے۔ معاشرے سے غیر اسلامی شعائر کا خاتمہ ہو۔ اسلامی سزائیں نافذ ہوں اور اقتدار صالحین کے ہاتھ میں آجائے۔

جھوٹ بولنے کا نقصان یہ ہے کہ جھوٹے کی سچی بات کا اعتبار بھی چلا جاتا ہے۔ بطلیموس

چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہر سطح پر بہت زیادہ کام کیا گیا۔ عوام الناس کی ذہن سازی سے لے کر سیاسی تنظیموں کے قیام تک اور فکری و قلمی جہاد سے لے کر حکمرانوں کے خلاف تحریک چلانے تک سارے اقدامات کیے گئے۔ اس کے نتیجے میں بیسویں صدی کے ربع اخیر یعنی آخری پچیس برسوں میں صورتحال تیزی سے بدلی اور بہت سے مسلم ممالک میں اسلام پسند قوتیں برسر اقتدار آگئیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ کا عمل شروع ہوا اور سیکولر عناصر کو پسپائی ہوگئی۔

    تاہم اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں یہ معلوم ہورہا ہے کہ حکومت کی سطح پر نفاذ اسلام کا تجربہ وہ اثرات و ثمرات نہیں دے پایا جس کے خواب دکھائے گئے تھے۔ اس معاملے میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کا یہ اندیشہ بالکل درست ثابت ہوا کہ نفاذ اسلام کا معاملہ ترکش کے واحد تیر کی طرح ہوگا۔ یہ تیر اگر خطا ہوگیا تو پھر نشانے پر لگانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ آج یہ اندیشہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے کہ تیر نشانے سے خطا ہوچکا ہے۔

    بدقسمتی سے 80 کی وہ دہائی جس میں پاکستان میں اسلامائزشن کا عمل پوری قوت سے جاری تھا، اسی دہائی میں ہمارے ہاں کرپشن، کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر اپنی جڑیں پھیلارہا تھا۔ 90 کی دہائی تک یہ بات اندھوں کو بھی نظر آنا شروع ہوگئی تھی کہ نظام زکوٰۃ نافذ ہوچکا ہے ، مگراس کے باوجود دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غربت کا عمل بڑھ رہا ہے۔ حدود نافذ ہیں، مگر زنا اور بدکاری کا زنگ ہمارے نظام اقدار کو بری طرح چاٹنے لگا ہے، آئین میں اسلامی شقیں بڑھ رہی ہیں ، مگر عوام میں اسلامی کرداراور اخلاقی اوصاف کم ہورہے ہیں۔

علوم الحدیث کی صورت میں قدیم دور کے مسلمانوں نے ایسے فنون ایجاد کیے جن کی مثال اس سے پہلے اور بعد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جرمن ماہر اسپرنگر نے اس کارنامے پر مسلمانوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ علوم کیا ہیں؟ تفصیل کے لئے علوم الحدیث: ایک تعارف کا مطالعہ فرمائیے۔

ہمارے نزدیک اس معاملے میں اصل غلطی یہ تھی کہ اسلام کو قانون کے ذریعے سے نافذ کرنے کی چیز سمجھ لیا گیا تھا۔ بجائے اس کے کہ اس غلطی کی اصلاح کی جاتی آج یہ فکری غلطی اتنی بڑھ چکی ہے کہ لوگ قانون کے بجائے ڈنڈے کے زور پر اسلام نافذ کرنے پر اتر آئے ہیں۔ یہ پچھلی غلطی سے بھی زیادہ بڑی غلطی ہے۔ پہلی غلطی کے نتائج تو یہ نکلے تھے کہ منافقت کا مرض عام ہواتھا۔ اس غلطی کے نتیجے میں تو لوگ علانیہ اسلام سے بغاوت کردیں گے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ نئی غلطی اور پرانی غلطی پر پوری طاقت کے ساتھ لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے لوگوں کو اس راستے کی طرف بلایا جائے جو صحیح راستہ ہے۔

    ہمارے نزدیک اسلام اپنے آپ کو انسانی معاشروں میں نافذ نہیں کراتا بلکہ وہ معاشروں میں نفوذ کرجاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلام کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ معاشرے کے ثقافتی ڈھانچے میں اپنی رسوم اور آداب داخل کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ اپنے دلائل سے اس کے سوچنے والے اذہان کو مسخر کرتا ہے اور اپنی اقدار پر مبنی ایک تہذیبی روایت کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ اس کے بعد قانون کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ مرحلہ تہذیب و ثقافت سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ تمدن کا وہ معاملہ ہوتاہے جس میں ہر قوم اور ہر گروہ اصولی ہدایات اسلام سے لے کر اپنے دور اور حالات کے مطابق اپنے اجتماعی نظام میں تبدیلی لاتی ہے اور قانون سازی کرتی ہے۔

    یہ بات کسی نومسلم معاشرے کے بارے ہی میں درست نہیں بلکہ ایک ایسے مسلم معاشرے کے بارے میں بھی درست ہے جو صدیوں سے غیر اسلامی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر پروان چڑھا ہو۔ پاکستانی معاشرہ بھی در حقیقت ایک ایسا ہی معاشرہ ہے ۔ یہاں پر بھی اسلام نافذ نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے قبل اس کے نفوذ کی ایک بھرپور مہم شاید کئی عشروں تک چلانا ضروری ہے۔ اس کی اقدار، روایات، رسوم و آداب کو موجودہ ثقافت کے ڈھانچنے میں شامل کرنے اور اس کے فکر و نظریہ کو سوچنے والے اور اقتدار رکھنے والے طبقات کے دل و دماغ میں راسخ کرنا ہی اس وقت اصل کام ہے۔ اسلام کے اس نفوذ کے بغیر اس کے نفاذ کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ نفاذ اور نفوذ میں کیا فرق ہے؟

۔۔۔۔۔۔ اسلام کے بارے میں نفوذ کی بجائے نفاذ کو زیادہ اہم کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

اسلام کا نفاذ یا نفوذ
Scroll to top