اورنگ زیب عالمگیر کا شکوہ

فرانکوس برنیئر، جو کہ فرانس کے مشہور سیاح گزرے ہیں، نے 1657 سے لے کر 1668 کے دوران ہندوستان کا سفر کیا۔ اس وقت برصغیر پر اورنگ زیب عالمگیر 1707 تک کی حکومت تھی جو کہ ہندوستان کے آخری مضبوط بادشاہ ہوئے ہیں۔ جب اورنگ زیب ہندوستان کے شہنشاہ بنے، تو ان کے ایک استاذ دربار میں اعلی عہدے کی آرزو لئے بادشاہ کے پاس آئے اور ان کی خوشامد شروع کر دی۔

    اورنگ زیب نے اپنے استاذ سے اس زمانے کے تعلیمی نظام کے مسائل پر گفتگو کی۔ ان کے خیالات سے ہمارے نظام تعلیم کی خامیاں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سو برس میں یہ صورتحال بہتر نہیں ہو سکی ہے۔ برنیئر جو کہ اس موقع پر موجود تھے، اورنگ زیب کی تقریر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علوم الحدیث کیا ہیں؟ ان میں کن مباحث کی تعلیم دی جاتی ہے؟ صحیح و ضعیف حدیث میں کیا فرق ہے؟ صحیح اور من گھڑت احادیث میں فرق کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کی تفصیل کے لئے علوم الحدیث: ایک تعارف کا مطالعہ فرمائیے۔

ملا جی! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو سلطنت کا اعلی ترین عہدہ دے دوں؟ تو آئیے ہم آپ کے ممتاز مقام کا جائزہ لیتے ہیں۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ آپ اس عہدے کے حق دار تھے اگر آپ نے میرے ناپختہ ذہن میں کام کی معلومات کی آبیاری کی ہوتی۔ آپ مجھے ایک بھی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان سے ملا دیجیے تو میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گا کہ اس کی تعلیم میں اس کے باپ کا حصہ زیادہ ہے یا اس کے استاذ کا۔ میں نے آپ کے زیر تعلیم رہ کر کیا علم حاصل کیا؟

    آپ نے مجھے یہ بتایا تھا کہ فرنگستان (اس دور میں پورے یورپ کو فرنگستان کہا جاتا تھا) محض ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ پرتگال کا تھا، اس کے بعد ہالینڈ کا بادشاہ طاقتور ہوا اور اب انگلینڈ کا بادشاہ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ یورپ کے دیگر فرمانرواؤں جیسے اسپین اور فرانس کے بادشاہ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ وہ ہمارے چھوٹے موٹے راجاؤں کی طرح ہیں۔

    آپ نے فرمایا کہ ہندوستان کے شہنشاہ پوری دنیا سے زیادہ عظیم اور باجبروت ہیں۔ صرف یہی ہیں جو کہ ہمایوں، جہانگیر اور شاہ جہاں ہوئے۔ یہی وہ عظیم بادشاہ ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو فتح کیا اور ساری دنیا کے بادشاہ ان کے باجگزار ہیں۔ ایران، ازبکستان، تاتارستان، برما، پیگو، تھائی لینڈ، چین اور ملائشیا کے بادشاہ تو ہندوستان کے بادشاہ کا نام سن کر ہی کانپنے لگتے ہیں۔

    آپ کا علم جغرافیہ قابل تعریف ہے۔ تاریخ پر آپ کی نظر بہت ہی گہری ہے۔ کیا میرے استاذ کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ مجھے روئے زمین کی ہر قوم کی خصوصیات سے آگاہ کرتا؟ ہر قوم کے وسائل کیا ہیں؟ اس کی قوت کس چیز میں پوشیدہ ہے؟ اس کی جنگ کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا مذہب اور اخلاق و آداب کیا ہیں؟ اس ملک میں کس طرز کی حکومت قائم ہے اور اس کے مفادات کہاں کہاں واقع ہیں؟ تاریخ کے مسلسل مطالعے کے ذریعے آپ کو مجھے اس بات سے آگاہ کرنا تھا کہ حکومتیں کس طرح بنتی ہیں، انہیں کس طرح عروج حاصل ہوتا ہے اور وہ کن عوامل کے باعث زوال پذیر ہوا کرتی ہیں۔ ایسے کون سے واقعات، حوادث اور غلطیاں ہوا کرتی ہیں جن کی بدولت بڑی تبدیلیاں اور عظیم انقلاب رونما ہوا کرتے ہیں؟

    انسانیت کی تاریخ کا یہ تفصیلی علم تو بہت دور کی بات ہے، میں تو آپ سے اپنی اس سلطنت کے بانیوں اور اپنے آباؤاجداد کے نام تک نہیں سیکھ سکا۔ آپ نے مجھے ان کی زندگیوں سے مکمل طور پر لاعلم رکھا۔ ان پر کیا واقعات گزرے؟ اور ان کی وہ کیا غیر معمولی صلاحیتیں تھیں جن کی بدولت انہوں نے بے پناہ فتوحات حاصل کیں؟ یہ سب آپ نے مجھے نہیں بتایا۔

    ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گرد و نواح میں بسنے والی اقوام کی زبانوں سے واقف ہو۔ آپ نے مجھے عربی پڑھنا اور لکھنا سکھائی۔ آپ نے میری زندگی کا بڑا حصہ ایسی زبان کی تعلیم میں صرف کر دیا جسے دس سے بارہ سال تک استعمال کئے بغیر کوئی شخص بھی اس میں مہارت کا دعوی نہیں کر سکتا۔۔۔۔

    ایک شہزادے کی تعلیم میں کیا کیا مضامین پڑھائے جانے چاہییں۔ آپ نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اسے ضروری قرار دیا کہ اس شہزادے کو صرف و نحو اور فقہ میں مہارت حاصل ہونی چاہیے۔ اس علم کی ضرورت ایک قاضی کو تو ہو سکتی تھی مگر آپ نے میری جوانی کا بہترین وقت الفاظ کو سیکھنے کے اسی خشک اور بے فائدہ میں ضائع کر دیا۔

    آپ نے میرے والد، شاہ جہاں کو بتایا کہ آپ مجھے فلسفے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے علم کو میں کئی سال تک رٹتا رہا جس کے نتیجے میں بے کار اور احمقانہ مسائل میرے دماغ کو چھلنی کرتے رہے۔ ان مسائل کے حل سے کوئی ذہنی سکون حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ ان مسائل کا کوئی تعلق عملی زندگی سے نہ تھا۔ ان مشکل اور فضول مسائل کو انتہائی محنت سے سمجھا جا سکتا تھا اور جیسے ہی یاد کر لیا جاتا، یہ ذہن سے فوراً محو ہو جاتے تھے۔ اس کا نتیجہ سوائے ذہنی مشقت اور عقل کی تباہی کے اور کچھ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک شخص باغی اور ذہنی مریض ہی بن سکتا تھا۔ (ان کے فلسفے میں ہمارے فلسفے سے بھی زیادہ نامعقول اور احمقانہ تصورات موجود تھے، برنیئر)

    جی ہاں، آپ نے میری زندگی کے قیمتی ترین سال اپنے پسندیدہ مسائل اور نظام میں کھپا دیے اور جب میں آپ سے فارغ التحصیل ہوا تو ان فضول اور نامعقول اصطلاحات کے ساتھ اہم علوم میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکتا تھا۔ یہ اصطلاحات تو ایک نوجوان کی مردانہ صلاحیتوں کو زنگ لگا دینے اور اس کے حوصلوں کو پست کر دینے کے لئے کافی تھیں۔ (ان کے فلسفی ہمارے فلسفیوں سے زیادہ الٹے سیدھے تصورات پیش کیا کرتے تھے، برنیئر)۔

    فلسفے کی یہ اصطلاحات اس لئے ایجاد کی گئیں تاکہ فلسفے سے ناآشنا افراد پر جھوٹا رعب جمایا جا سکے۔ آپ کے جیسے حضرات یہ خیال دوسروں پر مسلط کرتے ہیں کہ صرف ہمیں ہی ایسی حکمت و دانش حاصل ہے۔ ان کا فلسفے کا یہ ذخیرہ تاریک اور غیر واضح ہے جو ان پراسرار علوم کو چھپائے ہوئے ہے جو صرف ان فلسفیوں ہی کو معلوم ہیں۔

ہماری عظمت اس میں نہیں ہے کہ ہم کبھی نہ گریں، بلکہ ہماری عظمت اس میں ہے کہ ہر مرتبہ گرنے کے بعد ہم اٹھ کھڑے ہوں۔ کنفیوشس

اگر آپ نے مجھے ایسے فلسفے کی تعلیم دی ہوتی جو کہ ذہن کو معقول انداز میں سوچنے کے قابل بناتا اور صرف مضبوط دلائل کی بنیاد پر ہی مطمئن ہو سکتا، اگر آپ نے مجھے ایسا سبق دیا ہوتا جو کہ روح کا تزکیہ کرتا اور اسے اتنا مضبوط بناتا کہ یہ تقدیر کے لکھے ہوئے کو باآسانی سہہ جائے، اگر آپ مجھے انسان کی فطرت سے ہی آگاہ کر دیتے، مجھے کائنات کی فطرت کے بنیادی اصولوں سے ہی روشناس کروا دیتے، آفاق کا حقیقی اور یقینی علم مجھے عطا کرتے اور یہ بتا دیتے کہ اس کائنات کے مختلف حصے کس طرح ایک ترتیب کے ساتھ حرکت میں ہیں، تو میں آپ اس سے زیادہ احسان مند ہوتا جیسا کہ اسکندر، ارسطو کا احسان مند تھا۔ میں آپ کو اس سے کہیں مختلف انعام دیتا جو ارسطو کو اسکندر سے ملا تھا۔

    میری خوشامد کرنے والے استاذ صاحب! مجھے جواب دیجیے۔ کیا آپ کی یہ ذمہ داری بھی نہ تھی کہ کم از کم زندگی میں ایک ہی بار مجھے وہ علوم ہی سکھا دیے ہوئے جو کہ ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہیں۔ آپ مجھے یہی بتا دیتے کہ مستقبل میں مجھے اپنی بقا اور تخت و تاج کے لئے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑے گی۔ یہ بات تو اتنی معروف ہے کہ ہندوستان کے ہر بادشاہ کے بیٹوں کا مقدر یہی بن چکا ہے۔

    کیا آپ نے کبھی بھی مجھے جنگی علوم کی تعلیم دی؟ کسی شہر کا محاصرہ کیسے کرنا ہے؟ میدان جنگ میں افواج کو کس طرح ترتیب دینا ہے؟ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان معاملات میں میں نے آپ سے زیادہ عقل مند دماغوں سے مشورہ کر لیا۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے گاؤں تشریف لے جائیں تاکہ کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو سکے آپ کیا ہیں اور آپ کے علم کے نتائج کیا ہیں۔

(فرانکوس برنیئر، مغل سلطنت میں سفر سے اقتباسات، ترجمہ: محمد مبشر نذیر)

اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ مغل بادشاہ نے اپنے دور کے تعلیمی نظام میں موجود جن خامیوں کا ذکر کیا ہے، ان کی ایک فہرست تیار کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ ہمارے نصاب تعلیم میں کیا اصلاحات درکار ہیں؟

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

اورنگ زیب عالمگیر کا شکوہ
Scroll to top