نظام تربیت کا انتخاب

قاعدے کی بات ہے کہ انسان تیار اس مقصد کی مناسبت ہی سے کرتا ہے جو اس کے پیش نظر ہو۔ تیاری بجائے خود کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد کے لئے ہوتی ہے۔ مقصد کی نوعیت ہی اس کی نوعیت متعین کرتی ہے، مقصد کی وسعت یا محدودیت کے لحاظ سے اس کا پیمانہ وسیع یا محدود ہوتا ہے، اور مقصد ہی کا مزاج تیار کے ممکن طریقوں میں سے مناسب تر طریقے کا انتخاب کرتا ہے۔ بسا اوقات مختلف مقاصد کے لئے بڑی حد تک ایک ہی طرح کی تیاری کرنی پڑتی ہے، کیونکہ ان میں سے ہر مقصد کے لئے وہ ناگزیر ہوتی ہیں لیکن اس ظاہری مماثلت کے اندر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مختلف مقاصد کی ملتی جلتی تیاریوں میں بھی ہر مقصد کی روح اپنی جداگانہ شان کے ساتھ کارفرما ہوتی ہے اور ابتدائی مرحلوں سے گزر کر تکمیلی مراحل جتنے جتنے قریب آتے چلے جاتے ہیں، ان تیاریوں کے راستے بالکل ایک دوسرے سے الگ اور دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

کوئی شخص جب مصیبت زدوں کی مصیبت دور نہیں کرتا تو اس کی حالت ان مصیبت زدوں سے بدتر ہو جاتی ہے۔ بقراط

مثال کے طور پر دیکھیے، اسلحہ سازی ایک قسم کی تیار ہے۔ آپ خواہ کسی غرض سے اسلحہ بنائیں، بہرحال صعنت کے چند طریقے آپ کو وہی اختیار کرنے ہوں گے جو کسی دوسری غرض کے لئے اسلحہ بنانے والا اختیار کرے گا۔ لیکن ابتدا ہی سے وہ مقصد جس کے لئے آپ اسلحہ بنا رہے ہیں، آپ کی اس تیاری کے پیمانے اور اس کی نوعیت اور اس کے مناہج کو ان دوسرے لوگوں کی تیاریوں سے مختلف کر دے گا جو دوسرے مقاصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔

    فرض کیجیے، آپ صرف ایک فن لطیف (فائن آرٹ) کی حیثیت سے خوبصورت اسلحہ تیار کرنا چاہتے ہیں، جس سے آپ کا مقصد محض اپنے اور اپنی سی ذہنیت رکھنے والوں کے ذوق جمال کو تسکین دینا ہے۔ ایک دوسرا شخص پیشہ ور اسلحہ ساز ہے اور ایک تیسرا شخص اس لئے اسلحہ بناتا ہے کہ اسے ایک فوج تیار کرنی ہے اور ان جنگی ہتھیاروں سے خود اپنا جنگی مقصد حاصل کرنا ہے۔

    ان تین مختلف مقاصد کے لئے آپ اور وہ دونوں اسلحہ سازی کے بہت سے مشترک طریقے اختیار کریں گے لیکن تینوں کے مقاصد کا اختلاف پہلے قدم ہی سے تینوں کی راہیں الگ کر دے گا، اور تکمیلی مراحل کی طرف جتنا جتنا قدم بڑھے گا یہ راہیں ایک دوسرے سے بعید اور بعید تر ہوتی چلی جائیں گی۔

    فن لطیف ہونے کی حیثیت سے آپ جو اسلحہ سازی کریں گے اس میں آپ کے لئے نفیس نفیس تلواریں اور بندوقیں بنان بجائے خود مقصود ہو گا۔ کسی دوسرے مقصد کے لئے ان کو آلہ و ذریعہ بنانے کا کوئی سوال نہ ہوگا۔ آپ کی نگاہ میں اصل اہمیت اسلحہ کی نفاست، خوشنمائی اور ستھرائی کی ہوگی۔ خواہ وہ کارزار میں اپنی کاٹ اور مار کے اعتبار سے بالکل ناقص ہی کیوں نہ ثابت ہو۔

    آپ اسلحہ سازی کے طریقوں میں سے اختیار صرف انہی طریقوں کو کریں گے جن سے لطیف ترین، نازک ترین، حسین ترین ہتھیار بن سکیں اور عجائب دکھا کر ہر صاحب ذوق سے داد و تحسین لیں۔ ان طریقوں کی طرف تو نظر اٹھا کر دیکھنا بھی آپ کو گوارا نہ ہوگا جن سے بھاری بھرکم، ہولناک اور بھیانک قلعہ شکن ہتھیار اور میدان مار اسلحہ بنا کرتا ہے۔

    آپ کی تلواریں اس لئے نہ ہوں گی کہ صفوں کو الٹ دیں بلکہ اس لئے ہوں گی کہ ہوا میں ریشمی رومال کاٹ دیں۔ آپ آتش بار اسلحہ آتش باری کے لئے نہیں بلکہ آتش بازی کے لئے بنائیں گے۔ آپ کی توپ اس لئے نہ ہوگی کہ میدان جیتے بلکہ اس لئے ہوگی کہ اس کا گولہ آسمان پر جا کر پھٹے اور رنگ برنگ کے پھول برسائے۔

بارہ سو سال پہلے لکھی گئی کتاب الرسالہ، جو کہ اصول الفقہ کی پہلی کتاب ہے، کا مطالعہ کیجیے۔ اس کتاب کے مصنف امام شافعی ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اصول الفقہ کے قواعد کو ضوابط کو مرتب کیا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ اس لنک پر دستیاب ہے۔

پھر آپ کے اس کارخانے کی کشش بھی ان خریداروں کو نہ کھینچے گی جنہیں لڑنے کے لئے ہتھیار درکار ہیں بلکہ کھینچے گی ان خوش ذوق لوگوں کو جو لڑائی بھڑائی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، محض آپ کی طرح آرٹ کے دلدادہ ہیں۔ وہ آپ کے بنائے ہوئے اسلحہ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے اور انہیں خوبصورت غلافوں میں لپیٹ کر اپنے کمرہ کی زینت بنائیں گے۔ بہت سے بہت اگر کوئی انہوں نے ان ہتھیاروں سے لیا بھی تو بس یہ کہ کچھ نشانہ بازی کی مشق کر لی، کچھ تلوار کے ہاتھ صاف ک رلیے، کبھی کوئی جانور مار لیا اور کبھی تماشائیوں کے مجمع میں سپہ گری کے کمالات دکھا کر خراج تحسین وصول کر لیا۔

    رہا پیشہ ور اسلحہ ساز تو وہ اچھے سے اچھا اسلحہ بنا کر سر بازار رکھ دے گا کہ جس کا جی چاہے قیمت دے اور خرید لے جائے۔ اس کی تلوار اس کے اپنے کام کی نہ ہوگی، خریدار کے کام کی ہوگی۔ وہ اس پر باڑھ رکھے گا اور خریدار اس کی کاٹ سے فائدہ اٹھائے گا۔ ہر قسم کے خریداروں کی ضروریات کے لئے اس کے کارخانے میں ہر قسم کے ہتھیار ملیں گے۔ شکاری  شکار کے لئے، ڈاکو ڈاکہ زنی کے لئے، جہانگیر کشور کشائی کے لئے، مجاہد راہ خدا میں جہاد کے لئے، غرض ہر ایک اپنے مقصد کے لئے وہاں سے ہتھیار پا لے گا۔ وہ خود کسی مقصد خاص کا خادم نہ ہوگا بلکہ مقاصد دوسروں کے ہوں گے اور وہ سب کا یکساں خادم ہوگا۔

    اس بے مقصد اسلحہ سازی کا اثر لازماً صنعت اسلحہ کے طریقوں پر بھی پڑے گا۔ فن کے معلوم و معروف طریقے تو پوری مہارت کے ساتھ اس کارخانے میں استعمال کئے جائیں گے، لیکن کارزار میں کام آنے کے لئے اسلحہ میں جن عملی خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں پیدا کرنے کا طریقہ اس پیشہ ور فنکار کو سرے سے معلوم ہی نہ ہوگا۔

    اس کا حال وہی ہوگا جو پہلی جنگ عظیم میں امریکہ کے اسلحہ ساز کارخانوں کا تھا کہ بازار کا چلتا ہوا اسلحہ تو وہ خوب بنا سکتے تھے مگر کارزار کے عملی تجربوں سے جنگ آزما قوموں نے اسلحہ سازی میں جو کمالات پیدا کئے تھے ان کی ہوا تک ان پیشہ ور اسلحہ سازوں کے مال کو نہ لگی تھی۔ جیسا کہ مسٹر لائیڈ جارج نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے، امریکہ کے اسلحہ اپنی چمک دمک اور شان و نفاست سے نگاہوں کو خیرہ کرتے تھے مگر میدان کی امتحان گاہ میں ناکام ثابت ہوتے تھے۔

    بخلاف اس کے جو شخص اسلحہ اس لئے بناتا ہے کہ اس کے پیش نظر ایک جنگی مقصد ہے جس کے لئے وہ اپنی فوج کو اپنے ہی ہتھیاروں سے مسلح کرنا چاہتا ہے، اس کا معاملہ آپ کے اور اس پیشہ ور اسلحہ ساز کے معاملہ سے قطعاً مختلف ہوگا۔ ڈھلائی اور صیقل گری اور آتش کاری کے ابتدائی اصول اس کے ہاں بھی وہی ہوں گے جو آرٹسٹ اور پیشہ ور کے ہاں ہوں گے مگر ان کا استعمال اس کے ہاں بالکل مختلف طور پر ہوگا۔ اس کو اسلحہ کی نفاست و خوشنمائی کی اتنی پرواہ نہ ہوگی جتنی ان کی کاٹ اور مار کی ہوگی۔ کوئی ہتھیار چاہے کتنا ہی خوشنما ہو، اگر میدان کی آزمائش میں پورا نہ اتر سکے تو وہ اس کے کسی کام کا نہ ہوگا البتہ بھونڈے سے بھونڈا ہتھیار بھی جو اس آزمائش میں پورا اتر سکے، اس کی نظر میں نہایت پسندیدہ ٹھہرے گا۔

    اسے مظہر العجائب ہتھیاروں کی حاجت نہ ہوگی، بس کارگر ہتھیار مطلوب ہوں گے۔ اسے وہ توپ درکار ہوگی جس کا گولہ قلعوں کو پاش پاش کر دے چاہے اس سے پھول ایک بھی نہ جھڑے۔ اس کو وہ تلوار مرغوب ہوگی جو دشمن کے اندر دوش تا کمر اتر جائے چاہے چمک کا نام بھی اس میں نہ ہو اور ہوا کے رومال کا ایک تار بھی وہ نہ کاٹ سکے۔ ان خوبیوں کے ساتھ اگر ستھرائی اور نفاست و خوشنمائی بھی ہو تو کیا کہنے، لیکن مقابلتاً وہ کارگر مگر بھونڈے ہتھیار کو حسین ترین مگر کند ہتھیار پر ہزار درجے ترجیح دے گا۔

    پھر وہ صناعت اسلحہ سازی کے معلوم و متعارف طریقوں کا غلام بھی نہ ہوگا، بلکہ میدان کے تجربوں پر انہیں پرکھے گا اور ان تجربات کی روشنی میں اصول صناعت کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقوں سے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا، خواہ وہ فن کے مروجہ طریقوں کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ پھر اس کا مقصد ہی یہ متعین کرے گا کہ صناعت اسلحہ سازی کے اصول پر جن اقسام کے ہتھیار بننے ممکن ہیں، ان میں سے کس قسم کے ہتھیار بنائے اور کس قسم کے نہ بنائے۔

    بہت سے وہ ہتھیار جو فن لطیف کی اغراض کے لئے یا پیشہ ور کی دکان کے لئے عین مطلوب ہیں، سرے سے اس کے کارخانہ کی اسکیم میں جگہ ہی نہ پائیں گے، اور بہت سے ان ہتھیاروں کو اس کے ہاں سرفہرست جگہ ملے گی جنہیں بنانے کی ضرورت نہ فنکار محسوس کرتا ہے نہ پیشہ ور۔ پھر وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات کا تصور تک نہ کر سکے گا کہ اپنے بنائے ہوئے ہتھیار ۔۔۔۔ اپنے دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے۔

    فنکار اپنے فن میں مگن ہوتا ہے۔ اس کا کسی کارزار سے تعلق ہی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا دوست یا دشمن ہو۔ پیشہ ور ہر خریدار کا نیاز مند ہوتا ہے، اس کو اس سے کیا بحث کہ خریدنے والے اس کا بنایا مال کسی غرض سے خرید رہے ہیں۔ مگر یہ جنگ آزما اسلحہ ساز تو میدان میں دوست بھی رکھتا ہے اور دشمن بھی۔ اس کے لئے تو ناممکن ہے کہ اپنا ایک تیر بھی دشمن کے ترکش میں جاتا دیکھ سکے۔ جب اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کا کارخانہ دشمن کے ہاتھ پڑ کر اس کے لئے اسلحہ بنائے گا تو یہ اسے خود اپنے ہاتھ سے ڈائنامیٹ لگا کر اڑا دیتا ہے اور اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ میں برسوں کی محنت اور اربوں روپے کے صرف سے یہ کارخانہ بنایا تھا۔

    جس طرح اسلحہ سازی ایک قسم کی تیاری ہے اسی طرح تزکیہ نفس بھی ایک قسم کی تیاری ہی ہے۔ تزکیہ کے دو معنی ہیں۔ پاک صاف کرنا اور نشوونما دینا۔ ان دونوں معنوں کے لحاظ سے تزکیہ نفس کا مطلب یہ ہے کہ نفس کو غیر مطلوب صفات سے پاک کیا جائے اور مطلوب صفات کی آبیاری سے ان کو پروان چڑھایا جائے۔ پس درحقیقت تزکیہ نفس اور اخلاقی تیاری دونوں ہم معنی ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس طرح دوسری تمام تیاریوں کے معاملہ میں تیاری بجائے خود ایک مہمل چیز ہے اسی طرح یہ اخلاقی تیاری بھی بذات خود مہمل ہے تاوقتیکہ یہ بات واضح طور پر متعین نہ ہو کہ تیاری کس مقصد کے لئے ہے؟

    مقصد ہی اس امر کا فیصلہ کرنے والی چیز ہے کہ کون سی صفات اس کے حصول میں مانع ہیں جن سے نفس کو پاک کیا جائے اور کون سی صفات اس کے حصول میں مددگار ہیں جن کو نشوونما دینے کی سعی کی جائے۔ مقصد ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کس پیمانے کا انسان درکار ہے جسے بنانے کی کوشش کی جائے اور کس پیمانے کے انسان غیر مفید یا ناکافی ہیں جن کے بنانے کی یا تو کوشش ہی نہ ہو یا جن کے بن جانے پر اکتفا نہ کیا جائے۔

    مقصد ہی کی نوعیت پر اس سوال کا فیصلہ بھی منحصر ہے کہ تزکیہ نفس کے طریقوں میں سے کون سا طریقہ پیمانہ مطلوب کے انسان تیار کرنے کے لئے مناسب تر ہے، اور تزکیہ کی کن کن تدابیر کو کس تناسب کے ساتھ استعمال کیا جائے کہ اس پیمانہ کے انسان ڈھل سکیں۔

    یہ مقصد کا سوال اس تزکیہ نفس کے مسئلے میں اتنا اہم ہے کہ نہ صرف تزکیہ کی نوعیت اور اس کے پیمانے اور اس کی منہاج ہی کا اس پر انحصار ہے بلکہ فی الحقیقت ایک قسم کے تزکیہ اور دوسری قسم کے تزکیہ میں فرق و امتیاز بھی اس کے لحاظ سے ہوتا ہے اور مختلف اقسام کے تزکیوں کی قیمت بھی اسی کی بنا پر مشخص کی جا سکتی ہے۔ بہت سے لوگ تزکیہ نفس کو بجائے خود کوئی بہت بڑی قیمتی چیز سمجھتے ہیں اس لئے مقصد سے قطع نظر کر کے بس تزکیہ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ حالانکہ محض تزکیہ ایک بے معنی چیز ہے۔ اسی طرح بہت سے ناواقف لوگ اس مماثلت سے دھوکا کھا جاتے ہیں، جو مختلف مقاصد کے تزکیوں کی بعض مشترک تدابیر میں پائی جاتی ہے۔

    ایک بلند ترین اور صحیح ترین مقصد کے لئے جو طریقے کسی حکیم نے اختیار کیے تھے، انہی طریقوں کو جب اس مقصد سے ہٹے ہوئے لوگ دوسرے پست یا غلط مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں تو دیکھنے والے طرح طرح کی غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    کوئی سمجھتا ہے کہ جب یہ ان طریقوں کو استعمال کر رہے ہیں تو ضرور ان کا مقصد بھی وہی ہوگا جو اس حکیم کا تھا۔ کوئی گمان کرتا ہے ان طریقوں کا استعمال بجائے خود محمود ہے، قطع نظر اس سے کہ کس مقصد کے لئے وہ استعمال کیا جائے۔ اور کوئی بے چارہ سادہ لوحی کی اس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ یہ پست اور غلط مقاصد کے لئے تزکیہ نفس کرنے والے اس بڑے حکیم کے نسخے کی ترکیب اور تناسب میں ترمیم کرکے، اس کے بعض اجزا کو نکال کر، بعض اجزاء کی مقدار بعض دوسرے اجزاء سے بڑھا کر اور بعض بظاہر مباح اجزاء کا اپنی طرف سے اضافہ کر کے اسے اپنے مقاصد کے لئے مناسب بناتے ہیں، تو وہ غریب [سادہ لوح شخص] اس نئی ترکیب کے راز کو نہیں پا سکتا اور یقین لے آتا ہے کہ یہ نسخہ بھی صحیح ہے۔

    حالانکہ اگر باضابطہ حکیمانہ طریقہ سے تزکیہ نفس کے مسئلے کا مطالعہ کیا جائے، مقاصد کے لحاظ سے تزکیوں کی انواع و اقسام میں امتیاز کیا جائے، اور تدابیر تزکیہ کا اس اعتبار سے جائزہ لیا جائے کہ مختلف نوعیت کے تزکیوں میں بعض مشترک تدبیروں کا استعمال کس طرح مختلف طور پر ہوا کرتا ہے، ہر نوعیت کے تزکیہ میں ان تدابیر کے تناسب کا تزکیے کے مزاج میں کتنا دخل ہے، تو اس قسم کی ساری غلط فہمیاں ختم ہو جاتی ہیں اور حقیقت بالکل نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔

    اسلحہ سازی کی جو مثال ابھی ہم نے اوپر دی ہے اگر آپ اسے نظر میں رکھیں اور پھر اس مسئلہ پر غور کریں تو سارا معاملہ بآسانی آپ کی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ آپ اس مثال میں ہتھیار کی جگہ انسان کو رکھ دیں اور اسلحہ ساز کے مقام پر اس شخص کو رکھ دیں جو تزکیہ سے انسانوں کو تیار کرنا چاہتا ہے۔ لامحالہ یہاں بھی سب سے پہلے وہی سوال پیدا ہوگا جو اسلحہ سازی کے معاملہ میں پیدا ہوا کہ یہ شخص آخر کس غرض کے لئے انسان تیار کرنا چاہتا ہے؟

    انسان سازی آرٹ کے نظر سے بھی ہو سکتی ہے اور پیشہ ورانہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس غرض سے بھی ہو سکتی ہے کہ آپ دنیا میں خود اپنی ایک اسکیم رکھتے ہیں اور اپنے تیار کیے ہوئے انسانوں کی طاقت سے اس کو جاری کر کے اپنے دنیوی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس غرض سے بھی ہو سکتی ہے کہ آپ دنیا میں خدا کی اسکیم کو جاری کر کے اس کی رضا کو پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان تمام مختلف اغراض کے لئے جو انسان سازی کی جائے گی اس میں بہت سے چیزیں مشترک ہوں گی۔

مثلاً متعدد انسانی صفات ایسی پائی جائیں گی جنہیں سب یا اکثر انسان ساز دور کرنا چاہیں گے کیونکہ وہ ان سب کی یا اکثر کی جداگانہ اغراض کے حصول میں مانع ہوتی ہیں۔ اسی طرح متعدد صفات ایسی ملیں گی جنہیں وہ سب یا اکثر نشوونما دینے کے خواہشمند ہوں گے کیونکہ وہ ان کی الگ الگ اغراض کے حصول میں مددگار ہوتی ہیں، اسی طرح اخلاقی تیاری کی بہت سی تدبیریں بھی آپ ایک غرض کی انسان سازی میں وہی پائیں گے جو دوسری غرض کی انسان سازی میں پائیں گے۔

    لیکن ان ظاہری مماثلتوں کے باوجود مختلف اقسام کی انسان سازی کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہی رہیں گے، اس لئے کہ غرض و مقصد کا اختلاف ان کے راستوں کو لازماً جدا کر دے گا۔ جن صفات کو غیر مطلوب سمجھنے میں یہ سب متفق ہوں گے، ان کے غیر مطلوب ہونے کی وجہ ہر ایک کی نگاہ میں دوسرے سے مختلف ہوگی۔ ان کی غیر محمودیت کے مراتب بھی سب کے ہاں یکساں نہ ہوں گے، اور ان کے سوا بہت سی صفات ایسی ملیں گی جو ایک کے ہاں سخت مذموم ہوں گی اور دوسرے کے ہاں صفات مذمومہ کی فہرست میں سرے سے ان کا ذکر تک نہ ملے گا۔

    پس نہ صرف یہ کہ مشتک صفات مذمومہ کے مذموم ہونے میں ہر ایک کا نقطہ نظر دوسرے سے مختلف ہوگا بلکہ کلی حیثیت سے ایک کی صفات مذمومہ کا مجموعہ دوسرے کے مجموعہ سے مختلف پایا جائے گا۔ یہی صورتحال صفات مطلوبہ کے معاملے میں آپ دیکھیں گے کہ صفات کے مطلوب ہونے کی وجہ میں یہ سب غیر متفق ہوں گے، ان کے مراتب مطلوبیت و محبوبیت میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہ ہوگا، اور ایک کی صفات مطلوبہ کا مجموعہ دوسرے کے مجموہ سے نہ ملے گا۔

    اسی طرح تدابیر میں آپ دیکھیں گے کہ مشترک تدابیر میں بھی ہر ایک کے ہاں دوسرے سے مختلف روح کار فرما ہوگی۔ ان کی اہمیت کے مدارج میں بھی اختلاف ہوگا، اور مجموعی حیثیت میں ایک کا نظام انسان سازی اپنی ترکیب اور اپنی تدابیر کے تناسب میں دوسرے کے نظام انسان سازی سے بالکل غیر مشابہ ہوگا۔

    انسان سازی اگرچہ نام کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے لیکن دیکھیے، غرض و مقصد کے اختلاف سے مختلف قسم کے انسانوں میں کتنا بڑا اختلاف ہوجاتا ہے۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تزکیہ نفس کے ان مختلف اسکولوں میں ہم فرق کیسے کریں گے اور کیسے یہ تعین کریں گے کہ ان میں سے کون محض آرٹسٹ ہے اور کون پیشہ ور ہے، کون دنیا میں اپنی اسکیم چلانے کے لئے جدوجہد کرنا چاہتا ہے اور کون خدا کی اسکیم کو جاری کرنے کے لئے سعی و عمل کے میدان میں اترنا چاہتا ہے؟

    یہ فرق و امتیاز ظاہر ہے کہ دو ہی طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ہم ہر اسکول کے نظام تزکیہ کا جائزہ لیں۔ دوسرے یہ کہ ہم ہر اسکول کے طرز عمل کو دیکھیں۔

    آرٹسٹ کا امتیازی وصف یہ ہوتا ہے کہ خوش ذوقی، حسن، لطافت، کمالات معنوی، ظہور عجائب اور مشاہدہ جمال معنوی اس کے نظام کی بنیادی قدریں ہوتی ہیں۔ اس لئے آرٹسٹ کے نقطہ نظر سے تزکیہ نفس کے جتنے اسکول قائم ہوں گے، ان میں لازماً یہی چیزیں زیادہ نمایاں ہوں گی۔

    ان کے ہاں صفات مذمومہ کی فہرست اس لحاظ سے مرتب ہوگی کہ جو صفات آرٹ کے نقطہ نظر سے جتنی زیادہ مذموم ہیں، ان کے دور کرنے پر اتنا ہی زیادہ زور دیا جائے گا: طہارت، نظافت، آداب (ایٹی کیٹ)، اوضاع (فیشن)، اور اسی نوعیت کی دوسری چیزوں میں مقرر ضابطوں سے معمولی انحراف کو بھی وہ بڑے معاصی [گناہوں] میں شمار کریں گے۔

    جن صفات سے ان کے نزدیک روح کی پرواز میں فرق آتا ہے اور یا جو صفات لطائف کے کھلنے میں مانع ہوتی ہیں، یا جن سے کمالات معنوی کا حصول نہیں ہو سکتا، وہ ان کے ہاں اصلی صفات غیر محمود قرار پائیں گی۔ اسی طرح صفات محمودہ میں بھی آپ ان کی پوری فہرست پر آرٹ کو مسلط پائیں گے۔

    آپ کو صریح طور پر محسوس ہوگا کہ ان کو زیادہ تر دلچسپی زندگی کے حسن سے ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اگر یہ کچھ چاہتے ہیں صرف وہ اخلاقی خوبیاں جن سے نفس میں لطیف قوتیں پیدا ہوں، عالم بالا کی طرف پرواز کی طاقت آئے اور ماورائے مادہ لذتوں کے ادراک کی صلاحیت نشوونما پائے۔ گویا کہ وہ ایک نفیس ریڈیو سیٹ بنانا چاہتے ہیں جو نہایت متناسب اور خوش وضع بھی ہو اور لطیف ترین آوازوں کو بھی اخذ کر لے۔ یا ایک خوبصورت کیمرا بنانا چاہتے ہیں جو ستھرا بھی ہو اور جس کی پلیٹ پر لطیف ترین صورتیں مرتسم بھی ہو سکیں۔

    ان کے لئے دنیا میں کرنے کا کوئی کام ایسا نہیں ہے، جس کی خاطر انہیں خارج کی طاقتوں سے کشمکش اور مقابلہ پیش آئے، جس میں ذمہ داریوں کا بوجھ سہارنے کی طاقت درکار ہو، جس میں تمدن، معاشرت، سیاست اور تہذیب افکار و اعمال کے مسائل سے انہیں دوچار ہونا پڑے، اور کسی ایجابی اسکیم کو مزاحتموں اور مخالفتوں کے علی الرغم نافذ کرنے کی ضرورت ہو۔ اس لئے وہ صفات محمودہ و غیر محمودہ کے اس پورے شعبے کا نوٹس نہیں لیتے۔ جو دنیا کے میدان کارزار میں ایک متعین مقصد لے کر اترنے والے کے نقطہ نظر سے مطلوب یا غیر مطلوب ہوا کرتی ہیں۔

    انہیں عمارت کی مضبوطی سے بحث نہیں، صرف اس کی زینت، اس کے تناسب اور اس کے رنگ روغن اور نقش و نگار سے بحث ہے۔ ان کو سیرت کا زور اور صلابت مطلوب نہیں، محض اس کا حسن مطلوب ہے۔ ان کو نفس کی وہ زبردست طاقتیں درکار نہیں جن سے وہ دنیا میں بھاری ذمہ داریوں کو سنبھالنے اور بڑے کام انجام دینے کے لئے تیار ہو، بلکہ وہ لطیف قوتیں مطلوب ہیں جن سے وہ کشف صدور، کشف قبور، ادراک لطائف غیبی اور اسی نوع کی دوسری چیزوں پر قادر ہو جائے۔

    اس لئے ہی وہ تدابیر تزکیہ میں سے صرف انہی چیزوں کو اختیار کرتے ہیں جو ان کی اس غرض کے لئے موزوں ہوتی ہیں۔ مسلمان آرٹسٹ ہوں یا غیر مسلم آرٹسٹ، سب کی غرض ان تدابیر سے فی الجملہ ایک ہی ہے اور سب کے ہاں ان تدابیر کا مزاج یکساں ہے۔

    فرق اگر ہے تو یہ کہ مسلمان آرٹسٹ ان تدابیر کا انتخاب اسلام کے مجموعہ تدابیر میں سے کرتا ہوں، ان کے پورے مجموعہ میں سے (جو کسی اور غرض کے لئے ایک اور ہی تناسب سے بنایا گیا تھا،) الگ نکال کر اپنے لئے مفید مطلب بناتا ہے۔ ان کے ساتھ اسی مزاج کی کچھ دوسری تدبیروں کا، کبھی بشرط اباحت اور کبھی بلا شرط اباحت [یعنی کبھی جائز قرار دینے کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر] جوڑ لگاتا ہے اور اس طرح وہ نفوس زکیہ [یعنی تربیت یافتہ افراد] تیار کرتا ہے جو اس کے آرٹ کے نقطہ نظر سے مثالی نفوس ہوتے ہیں۔

    اب پیشہ ور مزکی [یعنی تزکیہ و تربیت کرنے والے] کو لیجیے۔ اس کے ہاں آپ نصب العین کو بڑی حد تک مفقود پائیں گے۔ اس کے معمل [یعنی فیکٹری] میں آپ کو ہر ماڈل کے نفوس زکیہ مل جائیں گے۔ وہ کوشش کرے گا ان صفات قبیحہ کو دور کرنے کی جو تزکیہ کی منڈی میں غیر مطلوب ہیں اور پورا زور صرف کر دے گا ان صفات حسنہ کو نشوونما دینے پر جن کی اس بازار میں مانگ پائی جاتی ہے۔ اسی غرض کے لئے وہ تزکیہ کی چند مناسب تدابیر اختیار کرے گا، پھر ان تدبیروں سے جو نفوس زکیہ تیار ہوں گے، ان کو چھوڑ دے گا کہ بازار میں جہاں کھپ سکیں، کھپ جائیں۔

    اس کا حال پیشہ ور اسلحہ ساز کا ہوگا جسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کی صیقل کی ہوئی تلواریں کس کمر سے بندھتی ہیں، اس لئے کہ دنیا کے میدان کارزار میں اس کی نہ کسی سے جنگ ہے، نہ دشمنی۔ وہ اس رزم گاہ میں ایک غیر جانبدار کاریگر ہے جس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ اچھے اچھے پرہیزگار، فرض شناس، متدین، خوش معاملہ آدمی تیار کر دے۔

    اب اگر یہ اس کے کارخانے کا مارکہ پیشانی پر لئے ہوئے کسی ظالم کی پولیس میں متقی تھانہ دار بن جائیں یا کسی طاغوت کی عدالت میں غیر الہی بلکہ صریح خلاف شریعت الہی کی بنیاد پر مقدمہ لڑنے والے متدین وکیل یا خود فیصلہ کرنے والے پرہیزگار طاغوت بن جائیں، یا اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے ان میدانوں میں دھاوے ماریں جہاں عملاً اللہ کے کھلے باغیوں کی کبریائی قائم ہوتی ہو، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں بلکہ ایسے جتنے کامیاب پرزے اس کی خانقاہ سے منسوب ہوں گے اسی قدر زیادہ اس کی کامیابی کی شہادت فراہم ہوگی۔

    اس کی اصل کامیابی یہی ہے کہ اس کے تیار کیے ہوئے پرزے خدا کی یاد اور اس کے خوف سے پائیداری حاصل کر کے خود خدا ہی کے باغیوں کی مشین میں نہایت خوبی کے ساتھ نصب ہو جائیں اور ان باغیوں کے اپنے ڈھالے ہوئے پرزوں سے بھی کچھ زیادہ ہی قابل اعتماد ثابت ہوں۔

    اس کاروبار میں یہ پیشہ ور مزّکی نہ محض اخلاقی حسن و قبح کے معیار کو اور نہ صرف تدابیر تزکیہ کے نظام کو اپنے پیشہ کے مزاج پر ڈھالتا ہے، بلکہ ایک الگ نظریہ زندگی اور ایک پورا فلسفہ حیات وضع کر دیتا ہے جس کے بغیر اس کا یہ پیشہ قائم نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔

    دنیوی مقصد کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے پیش نظر اپنا یا خاندان یا طبقے کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ وہ بھی جو حب قوم یا حب وطن کی بنا پر ایک مقصد لے کر اٹھتے ہیں، اور وہ بھی مجرد انسانی مفاد کے لئے کوئی اسکیم چلانا چاہتے ہیں۔ پھر ان میں سے بعض کسی روحانی و اخلاقی مذہب کو مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے۔

    جزئیات میں ان سب کے طریق انسان سازی میں کافی فرق معلوم ہوتا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ان سب کی مشترک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو اس حیثیت سے کم ہی دیکھتے ہیں کہ وہ انسان ہے۔ اس کے ساتھ زیادہ تر دلچسپی انہیں اس حیثیت سے ہوتی ہے کہ وہ ان کے مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ گویا کہ وہ انسان نہیں بناتے بلکہ اپنی اسکیم کے آلات اور اپنی جنگ کے ہتھیار بناتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ صفات محمودہ و غیر محمودہ میں سے وہ صفات ان کی فہرست میں جگہ نہیں پاتیں جو انسانیت کے لحاظ سے محمود و غیر محمود [یعنی پسندیدہ و غیر پسندیدہ] ہیں ۔۔۔ ایسی کچھ صفات سے وہ تعرض بھی کرتے ہیں تو انسانیت کے لحاظ سے نہیں بلکہ محض افادیت کے لحاظ سے ۔۔۔۔ دراصل ان کی پوری فہرست اخلاق اس بنیاد پر مرتب ہوتی ہے کہ ان کی اس اسکیم کے نفاذ کا آلہ ہونے کی حیثیت سے انسان میں کون سی صفات ہونی چاہییں اور کون سی نہ ہونی چاہییں۔ اسی بنیاد پر وہ اپنا نظام تزکیہ و تربیت تعمیر کرتے ہیں۔

    اگر آپ ان کے اس نظام انسان سازی کے مزاج کو سمجھنا چاہیں تو صرف ایک بات اس کی مکمل تشخیص کے لئے کافی ہے اور وہ یہ ہے کہ فی الواقع جو صفات انسانیت عالیہ کی خصوصیات میں سے ہیں ان کو بھی یہ نظام اس طور پر اپنے تربیت یافتہ انسانوں میں پرورش کرتا ہے کہ وہ شرف انسانیت کی بجائے محض ایک ہتھیار کی خوبی بن کر رہ جاتی ہیں۔ مثلاً صبر، کہ وہ بہترین انسانی صفات میں سے ہے۔ مگر یہ نظام جن انسانوں میں اتنا صبر پیدا کر دیتا ہے کہ وہ بموں کی بارش میں بھی ڈٹے رہتے ہیں، ان کے اندر اتنا بھی صبر پیدا نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی خواہشات نفسانی کے معمولی سے تقاضے ہی کے مقابلہ میں ٹھہر جائیں۔

    ان سب سے مختلف معاملہ اس شخص کا ہے جو انسان کو اس غرض کے لئے تیار کرنا چاہتا ہو کہ وہ خدا کے امتحان میں کامیاب ہو اور اس منصب خلافت کا، جو خدا نے انسان کے سپرد کیا ہے، پورا پورا حق ادا کر کے خدا کی رضا کو پہنچے۔ اس غرض کے لئے وہ اخلاق کے مسئلے کو اس وسعت کے ساتھ اور پھر اس جز رسی اور باریک بینی کے ساتھ دیکھے گا جس کے ساتھ کوئی دوسرا اسے نہیں دیکھتا۔ وہ اس پورے دائرہ زندگی کی پیمائش کرے گا جس میں انسان کی آزمائش ہو رہی ہے۔ اس دائرے کے ہر ہر حصے کے متعلق تحقیق کرے گا کہ کس حصہ میں کس پہلو سے آزمائش ہے اور اس آزمائش میں کامیابی کا مدار کس چیز پر ہے۔ پھر بحیثیت مجموعی پوری زندیگ کے امتحان کے متعلق یہ مشخص کرے گا کہ اس میں فی الواقع اللہ تعالی کا وہ منشاء کیا ہے جسے پورا کرنے پر ہی انسان کی کامیابی منحصر ہے۔ پھر اسی نقطہ نگاہ سے وہ یہ دیکھے گا کہ انسان کے اندر اور اس کے باہر کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو اس کی کامیابی کی راہ میں سدراہ ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا سدراہ ہونے کی حیثیت سے کیا مرتبہ ہے، اور اسی طرح باطن و خارج میں کیا چیزیں اس کی کامیابی کے لئے مفید و معاون ہیں اور اس افادیت و معاونت کے اعتبار سے ان کے کیا مدارج ہیں۔ یہی ہے وہ بنیاد جس پر وہ مطلوب و غیر مطلوب امور کی فہرست مرتب کرے گا اور اسی بنیاد پر وہ اس امر کا تعین بھی کرے گا کہ کون سی چیز کس درجہ میں مطلوب و غیر مطلوب ہے اور اسے حاصل کرنے یا مٹانے پر کتنا زور صرف کرنا چاہیے۔

    پھر یہی وہ بنیاد ہے جس پر وہ تزکیہ کی تدابیر کا انتخاب کرے گا۔ اس کے نظام تزکیہ میں ایسی تمام تدابیر جمع ہوں گی جن سے انسان کی کامیابی کے باطنی موانع دور ہوں اور اس کے اندر خارجی موانع کو ہٹانے اور مٹانے کا عزم اور بل بوتا نشوونما پا سکے۔ نیز جن سے وہ چیزیں اس کے باطن میں ابھریں اور ترقی کریں جو اس کی کامیابی میں مددگار ہو سکتی ہیں اور ان چیزوں کو وہ حاصل کرنے اور ترقی دینے کا مشتاق اور اہل بن جائے، جو خارج میں اس کے لئے موجب فوز و فلاح ہیں۔

    صرف یہی نہیں کہ وہ ایسی تمام تدبیروں کے اندر اسی مقصد کی روح کارفرما ہوگی اور اسی مقصد کو ملحوظ رکھ کر وہ ان تدبیروں کو ایک تناسب کے ساتھ اپنے نظام تزکیہ میں جگہ دے گا۔

    یہی آخری قسم کا تزکیہ نفس، اسلامی تزکیہ نفس ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نظام تزکیہ کے مصطلحات (تھرمینالوجی) اور اس کے بعض اجزاء کسی دوسری نوعیت کے نظام تزکیہ میں بھی پائے جائیں۔ لیکن سخت غلطی پر ہوگا وہ شخص جو محض اتنی مماثلت دیکھ کر اسے اسلامی تزکیہ نفس سمجھ بیٹھے گا۔

    خوب سمجھ لیجیے کہ جہاں مطلوب اور غیر مطلوب اشیاء کی فہرست میں اسلام کی فہرست سے کچھ کمی بیشی پائی جاتی ہے، جہاں ان کے مراتب مطلوبیت و غیر  مطلوبیت میں بھی کچھ الٹ پھیر ہے، جہاں تزکیہ نفس کے کام میں آرٹ یا پیشہ وری یا دنیا طلبی کا رنگ پایا جاتا ہے، اور جہاں تدابیر تزکیہ میں اور ان کے اس تناسب میں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا، تصرف بھی کیا گیا ہے، وہاں ضرور مقصد تزکیہ بدل گیا ہے اور مقصد کے بدل جانے کی وجہ سے نوعیت تزکیہ بھی بدل چکی ہے۔

    ایسا تزکیہ نفس خواہ اس میں تقوی اور طہارت کی کتنی ہی گفتگو ہو، اور خواہ اس میں اسلامی تزکیہ نفس کے مقدس ترین اجزاء کتنے ہی مبالغے کے ساتھ شامل کیے گئے ہوں، بہرحال اس قدر کا مستحق نہیں ہو سکتا جو صرف اسلامی تزکیہ نفس ہی کے لئے مختص ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی مقصد کے لئے لڑنے والے نے اگر تلوار پر صیقل کا ایک ایک ہاتھ مارنے کو بڑے اجر و ثواب کا کام قرار دیا ہو، تو یہ اجر و ثواب کا حکم ہرگز وہاں چسپاں نہ ہوگا جہاں محض آرٹ کے طور پر صیقل کے ہاتھ مارے جا رہے ہوں یا جہاں اس کے دشمن کے لئے تلواریں صیقل کی جا رہی ہوں۔

(مصنف: سید ابو الاعلی مودودی، تفہیمات سے انتخاب)

فاضل مصنف نے بڑی جز رسی اور خوبصورت مثالوں سے تعمیر شخصیت اور تزکیہ نفس کے اسلامی اور دیگر ماڈلز میں فرق بیان کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تزکیہ نفس اور تعمیر شخصیت کا جو ماڈل بھی تیار کیا جائے گا، اس کی تیاری میں انسان بہرحال شریک ہوں گے۔ جب کسی معاملے میں انسان شریک ہوں تو اس میں غلطی کا امکان بہرحال باقی رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے تعمیر شخصیت کے تمام پروگرامز میں بہرحال خامیاں ضرور پائی جائیں گی۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جو دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا چاہتا ہو، وہ کیسے یہ بات جان سکتا ہے کہ کوئی نظام بحیثیت مجموعی اللہ تعالی کے دین کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مخاطبین کو خبردار کرتے ہوئے دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ جھوٹے نبیوں سے ہوشیار رہنا۔ تم انہیں ان کے پھل سے پہچان لو گے۔ پھل کی پہچان کیسے کی جائے؟ اس ضمن میں قارئین کی سہولت کے لئے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو اپنی عقل کے دروازے کھول دیجیے۔ اپنی بجائے کسی اور عقل پر اعتماد مت کیجیے۔ تجزیہ اور تقابل کی صلاحیتوں کو جلا بخشیے۔ مختلف چیزوں کا تقابل کمپریزیشن کرنے کی صلاحیت کو اپنے اندر پیدا کیجیے۔ کسی شخصیت یا نظام سے مرعوب مت ہوں اور بلکہ اسے کڑی تنقید کے مرحلے سے گزاریے۔ یہ مت سوچیے کہ آپ اس تقابل اور تجزیہ کرنا شروع کریں گے تو خود بخود آپ کے سامنے درست راہ واضح ہوتی چلی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔ نظام تربیت کے نصاب کا جائزہ لیجیے۔ اس نصاب کی بنیاد قرآن و سنت ہے یا کچھ اور؟ اگر تو نصاب کی بنیاد خالصتاً قرآن و سنت ہے تو پھر یہ نصاب اسلام کے قریب ترین ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔ نظام تربیت میں ان صفات کا جائزہ لیجیے جو اس نظام میں مطلوب قرار دی گئی ہوں۔ اگر ان صفات کو آپ کی عقل مثبت قرار دے جیسے وسعت نظری، صبر، شکر، توکل، محبت، ذمہ داری وغیرہ وغیرہ تو سمجھ لیجیے کہ یہ نظام اسلام کے قریب ہے۔ اگر ان میں سے کوئی صفت منفی نوعیت کی ہو اور اسے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو جیسے بے جا نفرت، دشمنی، ذہنی غلامی، وغیرہ تو جان لیجیے کہ کہیں گڑبڑ ہے۔

۔۔۔۔۔۔ نظام تربیت میں ان صفات کا جائزہ لیجیے جو اس نظام میں ناپسندیدہ قرار دی گئی ہوں۔ اگر یہ صفات واقعتاً منفی نوعیت کی ہوں جیسے غیبت، حسد، تنگ نظری، نفرت، عداوت وغیرہ وغیرہ تو یہ نظام اسلام کے قریب ہے۔ اگر کسی مثبت صفت جیسے صبر، شکر، محبت، وسعت نظری وغیرہ کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو جان لیجیے کہ اس نظام میں کوئی بڑی کمزوری پائی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اس نظام تربیت کی پراڈکٹ کا تنقیدی جائزہ لیجیے۔ انسانوں کی تربیت کے کسی بھی نظام کی پراڈکٹ انسان ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر ان انسانوں میں اچھی صفات نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ نظام بہتر ہے ورنہ جان لیجیے کہ نظام میں کوئی خامی موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔ نظام تربیت کا جائزہ لیجیے کہ اس میں عقل و دانش کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے یا لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ جذبات بھڑکانے والے عموماً مخلص نہیں ہوا کرتے۔

۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھیے کہ کیا اس نظام میں کسی عقیدے یا عمل کو وہی اہمیت دی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس عقیدے یا عمل کو دی ہے۔ اگر کسی معاملے میں اس نظام تربیت میں غلو پایا جاتا ہے یا کسی عقیدے یا عمل کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو اہمیت دین نے اسے دی ہو، تو جان لیجیے کہ یہاں کچھ خرابی پائی جاتی ہے۔

اچھے اور برے تربیت کرنے والوں کی پہچان کے لئے قارئین کے لئے میری تحریر مذہبی برین واشنگ اور اس کا طریق کار کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔  (محمد مبشر نذیر)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ تربیتی نظام کی انسان کی شخصیت کی تعمیر میں کیا اہمیت ہے؟

۔۔۔۔۔۔ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے تربیتی نظام کا انتخاب کرتے ہوئے انسان کو کن کن پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

نظام تربیت کا انتخاب
Scroll to top