اونٹ کا پیشاب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک قبیلے کے لوگ بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ اونٹنی کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ پیشاب ایک ناپاک چیز ہے اور قرآن کے مطابق ناپاک اشیاء کو استعمال کرنا منع ہے۔ کچھ لوگ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں۔ آپ کی ریسرچ کیا ہے؟

عاصم

کراچی، پاکستان

ڈئیر عاصم بھائی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجھے خوشی ہے کہ آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں اور آپ خلوص نیت سے ان کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کے اس کام میں برکت دے۔ حدیث کے موضوع پر گفتگو سے پہلے چند باتیں ذہن نشین کر لیجیے:

۱۔ اللہ تعالی نے اپنے کسی بھی پیغمبر کو اس لیے نہیں بھیجا کہ وہ ہمیں میڈیکل سائنس کے راز بتائیں یا انجینئرنگ سکھائیں۔ اس کام کے لیے عقل ہی کافی ہے۔ پیغمبر کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اللہ تعالی کے بارے میں بتانے کے لیے آتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس اللہ کو راضی کیسے کیا جائے؟ چونکہ پیغمبر ایک انسان ہوتا ہے، اس وجہ سے وہ ساتھ ہی انسانی معاملات جیسے زراعت، تجارت، علاج وغیرہ بھی کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً طبی نسخے بتانے کے لیے تشریف نہیں لائے اور نہ ہی یہ آپ کی جانب وحی کیے گئے ہیں۔ آپ نے جیسے اپنے زمانے کے حالات تجارت، معیشت وغیرہ سے متعلق اقدامات فرمائے،  اپنے ہی زمانے میں استعمال ہونے والی سواریوں  کو استعمال فرمایا اور اپنے معاشرے کا لباس پہنا، ویسے ہی اپنے زمانے کے طبی علم کو استعمال فرماتے ہوئے کچھ علاج وغیرہ کروائے اور تجویز فرمائے۔ اس علاج کو وحی یا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عرب کی معاشرت میں موجود علم سے ہے۔

مجھے ان لوگوں سے شدید اختلاف ہے جو طب نبوی اور طب اسلامی کے نام پر اپنی حکمت کی دکان چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طبی نسخے ارشاد فرمائے، وہ وہی تھے جو آپ کے دور کے عرب میں رائج تھے۔ جیسے آپ نے عربوں کی زبان اختیار فرمائی، ان کا لباس پہنا، ان کی سواریاں استعمال کیں اور وہی لائف اسٹائل اختیار فرمایا، ویسے ہی آپ نے عرب میں موجود طبی علم سے فائدہ بھی اٹھایا۔ اس کا نبوت و رسالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر آپ کی بعثت کسی اور خطے جیسے ہندوستان، چین یا سائبریا میں ہوتی تو یہ سب چیزیں بالکل مختلف ہوتیں۔ اس کے برعکس دینی احکام دنیا کے ہر خطے پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔

۲۔ اگر ایک آدھ احادیث میں کوئی مسئلہ ہو، تو اس کا نتیجہ یہ نکالنا غلط ہے کہ حدیث کا پورا ذخیرہ ہی ناقابل اعتماد ہے۔ علمی طریقہ یہ ہے کہ اس حدیث کی تمام روایتوں کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے اور بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس کی توجیہ کی کوشش کی جائے۔ اس سب کے بعد بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس حدیث کو مسترد کیا جاتا ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ علوم الحدیث کا مطالعہ فرما لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ محدثین کس درجے میں تحقیق کر کے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اس سے منکرین حدیث کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جواب بھی مل جائیں گے۔ اس لنک پر آپ کو تفصیل مل جائے گی۔

اب ان دونوں اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زیر بحث حدیث کا جائزہ لیجیے۔ اس حدیث میں عربوں میں رائج ایک طریقہ علاج کا ذکر ہے جو وہ اونٹوں کے دودھ اور پیشاب سے کرتے تھے۔ بدو لوگ پچھلی صدی تک اس طریقے سے علاج کرتے رہے ہیں۔ پیشاب اگرچہ ناپاک اور حرام ہے لیکن یہ دین کا مسلمہ اصول ہے کہ بیماری اور مجبوری میں کسی ناجائز چیز سے علاج ہو سکتا ہے بشرطیکہ طبیب کو اس پر اطمینان ہو۔ بعض اوقات تو زہر تک کو علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے حدیث پر کوئی اعتراض پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ہاں اگر یہ دعوی کیا جائے کہ چونکہ یہ طریقہ علاج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا ہے، اس وجہ سے یہ دین کا حصہ اور وحی ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے۔

مشہور اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ (وفات 2000) لکھتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک شکایت کی کہ مدینہ کی آب و ہوا ہمیں موافق نہیں آرہی ہے، ہم فلاں فلاں بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، سرکاری جانوروں کے ریوڑ میں جاکر رہو اور سرکاری اونٹوں اور اونٹنیوں کے دودھ اور ان کے پیشاب پیو۔ بظاہر یہ بات ہمیں حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ پیشاب پینے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ نجس چیز ہے۔ اس مشکل کا حل ہمیں اصول روایت یا درایت کے ذریعے ملتا ہے اور یہ ٹیکنیکل چیز بھی ہے جو میری آپ کی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ طبیبوں اور ڈاکٹروں کی رائے پرمبنی ہوگی۔ مثلاً زہر ہمارے لیے سم قاتل ہے لیکن ایک ڈاکٹر کسی خاص بیماری میں مریض کے لیے زہر ہی تجویز کرتا ہے۔ زہر کے بغیر اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی خاص بیماری اونٹوں کے پیشاب کے بغیر دور نہ ہوسکتی ہو۔ جب کوئی اور چارہ کار نہ ہوتو ممنوع اور مکروہ چیزیں جائز ہوجاتی ہیں۔ اونٹنیوں کے پیشاب کے متعلق بعض ہمعصر سیاح بیان کرتے ہیں کہ وہ آج بھی بعض بدوی قبائل میں کچھ مخصوص بیماریوں کے علاج کے لیے مستعمل ہے۔

میرا مشورہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کتاب خطبات بہاولپور کا مطالعہ کر لیجیے۔ اس میں تاریخ حدیث کا باب آپ گوگل میں ڈھونڈ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے ایک اور جگہ یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے کسی جرمن (مجھے نام یاد نہیں) کے سفرنامے میں پڑھا تھا کہ وہ صاحب1920 کے زمانے میں عرب کی سیاحت پر نکلے اور ایک خاص بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ جرمنی پہنچ کر انہوں نے بہت علاج کروایا مگر صحت یاب نہ ہوئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا کہ تمہیں جہاں سے یہ بیماری لگی ہے، وہیں جاؤ، شاید لوکل میڈیسن میں اس کا کوئی علاج ہو۔ وہ صاحب عرب آئے اور بدوؤں سے اس پر بات کی تو انہوں نے اسی اونٹ کے دودھ اور پیشاب سے ان کا علاج کیا اور وہ صحت یاب ہو گئے۔ چونکہ یہ معاملہ مجبوری کا ہے، اس وجہ سے پیشاب جیسی ناپاک چیز کے استعمال میں بھی کوئی  مسئلہ نہیں ہے۔

امید ہے کہ مسئلہ واضح ہو گیا ہو گا۔ ذہن میں کوئی اور سوال پیدا ہو تو بلا تکلف لکھیے۔

السلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

اونٹ کا پیشاب
Scroll to top