ملکہ سبا کس چیز سے متاثر ہو کر ایمان لائیں؟

السلام علیکم

مبشر بھائی

میں نے آج جی میل پر اپنا اکاونٹ بنا لیا ہے۔

یہ سوال مطالعہ قرآن کے سلسلہ میں ہے۔  سورۃ النمل اور سورۃ سبا میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق ملکہ سبا نے جو طرز عمل حضرت سلیمان علیہ سلام کا دیکھا تو وہ ان کو بادشاہوں والا نہ لگا اور اسی بات پر وہ ایمان لے آئیں ؟ لیکن یہ بات کیا کافی تھی کہ اس پر کوئی اپنے پرانے طرز عمل کو چھوڑ کر دوسرا نظریہ زندگی اختیار کر لے۔ اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا محض یہی ایک چیز کافی ہو گئی تبدیلی کے لیے؟

 دوسرا سوال یہ ہے جو سلیمان علیہ سلام کے ایک خدمت گزار کے بارے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ پلک جھپکنے میں تخت کو لے آئیں گے  اور یہ اس وجہ سے کہ ان کو کتاب کا علم تھا۔ یہ بات میر ے لیے کافی عرصے سے معمہ ہے۔ کیونکہ تصوف سے متعلق لوگ اس کو کافی زیادہ کوٹ کرتے ہیں کہ اگر سلیمان علیہ سلام کا ایک امتی یہ کام کر سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کیا کچھ نہیں کر سکتا۔  میرا سوال یہ ہے کہ اس علم کی کیا حقیقت ہے اور یہ کون سی کتاب تھی جس کا علم تھا۔ اور اس طرح کے علم کا اور واقعہ کو بتانے کا ایک عام میرے جیسے مسلمان کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔

اور یہ کام سلیمان علیہ سلام نے خود کیوں نہیں کر لیا کیونکہ اس دور کے نبی تھے تو سب سے زیادہ علم تو آپ علیہ سلام کے پا س خود ہونا چاہیے تھا۔  یہ سوال کچھ متشابہات میں سے ہیں لیکن چونکہ ذہن میں پیدا ہوئے تو میں نے پوچھے ہیں۔

محمد جاوید اختر

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

ملکہ سبا والے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے خود کو اس زمانے میں لے جائیے اور ملکہ سبا کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیے۔ آپ کی بڑی خوشحال سلطنت ہے مگر آپ کو اپنے سے بڑی سپر پاور کے حکمران کا خط ملتا ہے جو دعوت کم اور الٹی میٹم زیادہ ہے۔ خط پہنچتا بھی ایسے ذریعے (ہدہد) سے ہے جو حیران کرنے کے لیے کافی ہے۔ آپ اس بڑی طاقت سے خاصے مرعوب اور خائف ہوتے ہیں اور تحقیق احوال کے لیے خود وہاں جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور سائنس کی ایک عظیم الشان پراگریس دیکھتے ہیں تو یہ مرعوبیت اور بڑھ جاتی ہے۔  ظاہر ہے کہ اس سب کو دیکھ کر وہی امپریشن آپ کے ذہن میں بیٹھے گا جو مثلاً آج کے دور میں امریکہ کے بارے میں ہے۔ لوگ اس کی ترقی سے متاثر ہیں مگر اس کے عالمی اقتدار کو اچھا بھی نہیں سمجھتے۔ بعینہ یہی معاملہ ملکہ سبا کے ساتھ پیش آیا۔ انہوں نے ابتدا میں سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ویسا ہی دنیا دار حکمران سمجھا  ہو گا جو طاقت کے بل پر ان کے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

جب ملکہ سبا یروشلم پہنچیں تو معلوم ہوا کہ جن صاحب کی سائنس، ٹیکنالوجی اور فوجی طاقت سے وہ مرعوب ہو رہی تھیں اور انہیں دنیا دار بادشاہ سمجھ بیٹھی تھیں، وہ تو بڑے اللہ والے ہیں اور نہایت ہی عاجز و منکسر بندے ہیں تو ان کی نفسیاتی حالت کیا ہوگی؟ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کی زبردست فوجی اور سائنسی قوت سے مرعوب ہونے کے بعد اچانک ہی ملکہ کو جب علم ہوا کہ آپ تو اللہ تعالی کے نہایت ہی شکر گزار بندے ہیں اور یہ ساری شان و شوکت ان کی ذات کے لیے نہیں ہے بلکہ اللہ کے دین کو سربلند کرنے اور اس کے بندوں کی خدمت  کے لیے صرف ہو رہی ہے تو پھر ایمان لانے میں انہیں کیا مشکل ہو ئی ہو گی۔

 پلک جھپکنے میں تخت لانے سے متعلق بعض مفسرین  کا نقطہ نظر مجھے زیادہ معقول لگا ہے اور وہ یہ ہے کہ کتاب کے علم سے مراد سائنس کا علم تھا۔ کتاب عربی میں قانون کو بھی کہتے ہیں جیسے کتب علیکم القتال یعنی تم پر قتال کا قانون لاگو کیا گیا۔ سائنس، اللہ تعالی کی قدرت کے قوانین کے علم کا نام ہی تو ہے۔ یہ کچھ ایسا علم معلوم ہوتا ہے جیسے ہم سائنسی قوانین کے درست استعمال کی مدد سے کم از کم اپنی آواز اور تصویر پلک جھپکنے میں کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کی سلطنت موجودہ دور سے کہیں ایڈوانسڈ تھی اور یروشلم پر ہونے والی آرکیالوجیکل ریسرچ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے بائی ڈائمنشنل کی بجائے ٹری ڈائمنشنل ٹرانسمشن والا کام کر دیا۔ درباری سے کام لینے کی وجہ ڈیلیگیشن آف اتھارٹی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو کیا پڑی تھی کہ ہر چھوٹا موٹا کام اپنے ہاتھوں ہی سر انجام دیتے جبکہ ایسا کرنے کے لیے بہت سے خدمت گار موجود تھے۔

واقعہ کو قرآن میں بیان کرنے کا مقصد صورتحال کی پوری تصویر کشی کرنا ہے جس سے ملکہ سبا مرعوب ہو کر مسلمان ہوئیں۔ اس پورے واقعے کو اگر پوری سورت کے سیاق و سباق میں رکھ کر پڑھا جائے تو مقصد بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ انشاء اللہ اگلے لیول پر آپ سورتوں کے پورے پورے نظام کا مطالعہ کریں گے۔

اہل تصوف تخت لانے کو معجزہ اور کرامت کے معنی میں لیتے ہیں اور اس وجہ سے وہی سوال پیدا ہوتا ہے جو آپ نے کیا ہے اور اس کا جواب بھی انہی کے ذمہ ہے۔ وہ کچھ اس قسم کی بات کہتےہیں کہ یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ جب غلام کی قوتوں کا یہ عالم ہے تو پھر آقا کی قوتوں کا کیا عالم ہو گا۔ اب اس پر آپ کا اطمینان ہوتا ہے تو مان لیجیے، میرا تو اطمینان نہیں ہوتا۔

یہاں ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ میں معجزات اور کرامتوں کا منکر نہیں ہوں۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر انبیاء کی کرامت کی نوعیت یہ نہیں ہوتی کہ بٹن دبایا اور کرامت دکھا دی بلکہ یہ اللہ تعالی کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے، جس نیک بندے کے ہاتھ سے کوئی خلاف عادت امر دکھا دے۔ انبیاء کو کبھی مستقل نوعیت کے معجزے دے دیے جاتے ہیں جیسا کہ سیدنا موسی علیہ السلام کا عصا تھا۔ اولیاء اللہ کی کرامتیں بھی اللہ تعالی ہی ان کے ہاتھ پر دکھاتا ہے اور اپنی مرضی سے دکھاتا ہے۔ کبھی کسی سچے ولی اللہ نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ جب چاہے بٹن دبا کر کرامت دکھا سکتا ہے۔ ہاں جعلی پیر اس قسم کے شعبدوں کے دعوے کرتے ہیں ، اکثر ایسے شعبدے دکھا بھی دیتے ہیں اور کبھی اللہ تعالی ان کے فراڈ کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔

 والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

ملکہ سبا کس چیز سے متاثر ہو کر ایمان لائیں؟
Scroll to top