قیامت کی نشانیاں کیا ہیں اور اس میں ہم پریشان کیوں ہو جاتے ہیں؟

سوال:  ایک طرف ہمارا ایمان بھی ہے کہ قیامت ایک حقیقت  ہے اور وہ آنی بھی ہے اور ا سے پہلے اس کی کچھ نشانیاں بھی پوری ہونی ہیں تب ہی قیامت آئے گی۔ لہذا جب وہ نشانیاں پوری ہوتی ہیں یا کچھ پوری ہورہی ہیں تو ہم پریشان کیوں ہوجاتے ہیں؟ مطلب جب ہمارا ایمان ہےکہ اس نے آنا  ہی ہے تو اس کے آنے پراتنا پریشان ہونا یا ڈرنا کیوں؟

حسنین شیخ

جواب: اس کی حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ہمیں مستقبل کے پلان کا طریقہ کار ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں قیامت کی نشانیاں جو بیان ہوئی ہیں، اس میں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایسا واقعہ ہو جائے تو ہماری موجودہ زندگی میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

مثلاً ایک حدیث میں زمین غرق ہونے کی نشانی بیان ہوئی ہے، اس میں دیگر زندہ انسان پھر ڈریں گے کہ ہماری زمین بھی غرق ہو جائے۔ ویسے قیامت کے لیے پریشان تو کبھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم نے کنفرم قیامت تک پہنچا ہی ہے۔ جب ہمیں یقین آ جائے  کہ ہماری موت کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ ہم اللہ تعالی کی طرف جا رہے ہیں تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ پھر سے ایک زندگی شروع ہو جائے گی۔

بس ڈرنے کی پریشانی صرف یہ ہے کہ اللہ تعالی ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ اب اس پریشانی سے بچنے کا طریقہ کار اللہ تعالی نے قرآن مجید نے بتا دیا ہے تاکہ ہم اللہ تعالی کے ناراض ہونے سے بچ جائیں۔ قیامت سے متعلق سب سے مشہور حدیث جبرائیل ہے جو مختلف احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

حدثنا مسدد، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، اخبرنا ابو حيان التيمي، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس، فاتاه جبريل، فقال: ما الإيمان؟ قال:" الإيمان ان تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث، قال: ما الإسلام؟ قال: الإسلام ان تعبد الله ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤدي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان، قال: ما الإحسان؟ قال: ان تعبد الله كانك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك، قال: متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، وساخبرك عن اشراطها إذا ولدت الامة ربها، وإذا تطاول رعاة الإبل البهم في البنيان في خمس لا يعلمهن إلا الله، ثم تلا النبي صلى الله عليه وسلم: إن الله عنده علم الساعة سورة لقمان آية 34، ثم ادبر، فقال: ردوه، فلم يروا شيئا، فقال: هذا جبريل، جاء يعلم الناس دينهم"، قال ابو عبد الله: جعل ذلك كله من الإيمان.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابوحیان تیمی نے ابوزرعہ سے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لائیے، اس رب کے فرشتوں کے وجود پر، اس (اللہ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر، اس رب کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لائیے۔

پھر اس شخص نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ آپ خالص اللہ تعالی کی عبادت کیجیے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیے، نماز قائم کرتے رہیے، زکوٰۃ فرض ادا کرتے رہیے، اور رمضان کے روزے رکھیں۔

پھر اس شخص نے احسان کے متعلق پوچھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ کہ آپ اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کیا کریں کہ گویا آپ اپنے رب کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھ لیا کریں کہ وہ رب تو آپ کو دیکھ رہا ہے۔

پھر اس شخص نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا (البتہ) میں آپ اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی (یعنی غلامی ختم ہو جائے گی۔)

۔۔۔۔۔۔۔ جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے (دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے۔ 

قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی۔ 

پھر وہ پوچھنے والا شخص پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لائیے۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔ (صحیح بخاری 50, 4777)

اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کر دی ہے۔  آپ  قرآن مجید کا مطالعہ تو کر چکے ہوں گے، احادیث کی کتابیں آپ کے پاس حاضر ہیں۔ اسی مطالعے میں آخرت کی کامیابی کا طریقہ کار بھی بیان ہوا ہے اور موجودہ زندگی میں بھی ہم زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ درج ذیل لنکس سے دینی کتابیں حاصل کرسکتے ہیں ۔

https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1NEDycXkyPa2NuJT1Ou52OYu2GXlY5pxI

https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1RFxyLpsICcqDWrb5Zh60UuY3JsUmsnGI

Ask your questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات

اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ

Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں

اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟

قرآن اور بائبل کے دیس میں

 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر

سفرنامہ ترکی

اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں

Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات

Social Sciences سماجی علوم

مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

قیامت کی نشانیاں کیا ہیں اور اس میں ہم پریشان کیوں ہو جاتے ہیں؟
Scroll to top