اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بعض سیاسی لیڈرز کا مقصد یہ تھا کہ وہ حکومت پر قبضہ کر سکیں۔ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کو استعمال کرتے رہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے نئے عقائد ایجاد کیے، پھر انہوں نے اپنے فرقے کا نام طے کیا۔ تاریخ میں بہت سے فرقوں کی شاخیں بنتی رہیں اور وہ الگ فرقہ بنتا رہا۔ اس کے ساتھ جن میں زیادہ شدت پسندی تھی تو انہوں نے اپنا مذہب بھی ایجاد کر دیا۔ ان تمام فرقوں نے اپنے عقائد اور اپنے ہی احکامات پر اپنے مذہب کی شریعت بھی ایجاد کی۔
انہی سیاسی ایجنٹس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں پر جعلی کہانیاں کرتے رہے اور پھر لوگوں کو اپنی تقریروں میں سناتے رہے۔ جن لوگوں نے تاریخ لکھی تو انہوں نے جانچ پڑتال کیے بغیر ہی ان جعلی کہانیوں کو اپنی کتابوں میں لکھ دیا اور وہ آج تک موجود ہیں۔ تفصیل آپ کو میری کتاب میں ملے گی۔
اب آپ کا سوال یہ ہے کہ یہ سیاسی ایجنٹس کون لوگ ہیں؟ ان کی تعداد تو ہزاروں میں ہوں گی لیکن جو مشہور بلیک لسٹ حضرات ہیں، ان کی سیرت موجود ہے۔ ان بلیک لسٹ لوگوں نے جان چھڑانے کے لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہی حکم دیا کہ ان کی جانچ پڑتال ضرور کر لیا کریں۔ حکم ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ. (6)
اہل ایمان! اگر (اِن پکارنے والوں میں سے) کوئی فاسق (غلط حرکتیں کرنے والا) آپ کے پاس کوئی اہم خبر لائے تو اُس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ایسا نہ ہو کہ آپ جذبات سے مغلوب ہو کر کسی قوم پر جا چڑھیں، پھر آپ کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات 49)
Hadith Researchers محدثین ۔۔۔
تفتیش و تحقیق کا یہ طریقہ میں نے ایجاد نہیں کیا بلکہ محدثین نے سینکڑوں شہروں اور لاکھوں دیہات میں جا کر ایک ایک آدمی سے ملاقات کی، ان کی سیرت انہی سے پوچھی۔ جو لوگ فوت ہو گئے تو انہی کے دوستوں، بیٹوں، پوتوں سے ان کے ٹارگٹ آدمی کی ریپوٹیشن پوچھی اور پھر ان لاکھوں افراد کی سیرت لکھ دی۔ یہ کام انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر 300 سال تک لوگوں کے بارے میں ریسرچ کرتے ہوئے اپنی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ اس پر غیر مسلم حضرات کا تبصرہ یہاں حاضر ہے۔
Dr. Aloys Sprenger German (d. 1893CE) said: “Non a nation was able to create the “Science of Historical Research” like Muslims created the detailed bibliography of more than 500,000 persons.”
https://www.oxfordbibliographies.com/display/document/obo-9780195390155/obo-9780195390155-0192.xml
اس ریسرچ میں ان محدثین اسکالرز نے رزلٹ بھی بتا دیا کہ فلاں آدمی قابل اعتماد ہے اور کون نہیں؟ جب بھی آپ کو کسی شخص کے بارے میں چیک کرنا ہو کہ اس کی سیرت کیسی تھی اور وہ قابل اعتماد تھا یا محض جعلی کہانیوں والا ایجنٹ تھا تو اب یہ کتابیں آپ کے پاس موجود ہیں۔ ابھی آپ ان تمام کتابوں کو اس ویب سائٹ میں لے کر اس شخص کے نام پر سرچ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کام آپ کو عربی میں کرنا ہو گا۔ آپ عربی کیبورڈ انسٹال کر لیجیے اور اس ویب سائٹ میں اس شخص کے نام پر سرچ کر کے آپ کو صحیح انفارمیشن مل جائے گی۔ اس میں عربی الفاظ آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ گولگل ٹرانسلیٹ میں انگلش کا ترجمہ دیکھ لیجیے گا۔
ابحث في الرواة
https://hadith.islam-db.com/all-narrators
مثال کے طور پر بلیک لسٹ شخصیتوں کا اردو میں ترجمہ کر کے عرض کر دیتا ہوں۔ یہی وہ مشہور افراد ہیں جنہوں نے جعلی کہانیوں کو زیادہ پھیلا کر تاریخی کتابوں میں پہنچا دیا۔ یہی بلیک لسٹ حضرات ہیں۔ اس کے ساتھ جو قابل اعتماد لوگ تھے، ان کے نام بھی حاضر ہیں۔ یہاں ایک عربی کیورڈ کو یاد کر لیجیے اور وہ ہے کذاب۔ عربی ہی میں لفظ کذاب کا معنی ہے کہ انتہائی جھوٹا انسان جسے آپ بلیک لسٹ کر سکتے ہیں۔
چونکہ عہد صحابہ پہلی صدی ہجری پر مشتمل ہے، اس وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے دور ہی میں کوئی مورخ پیدا ہوتے جو اس دور کے واقعات پر کتابیں لکھتے لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس دور میں کاغذ کمیاب تھا اور کتابیں لکھ کر پھیلانے کا رواج نہ تھا۔ قرآن مجید ہی وہ واحد کتاب تھی جو لکھی ہوئی صورت میں موجود تھی۔ احادیث نبویہ کو بعض لوگوں نے اپنے رجسٹروں میں لکھ رکھا تھا اور اس کی حیثیت ذاتی ڈائری کی تھی۔ اس وجہ سے ہمیں پہلی صدی ہجری میں کوئی نمایاں مورخ نظر نہیں آتے۔
پہلی صدی میں مورخین کی عدم دستیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تاریخ کا ذوق رکھنے والے مسلمانوں کا زیادہ تر فوکس احادیث نبویہ پر تھا۔ انہیں پڑھنا، پڑھانا، یاد کرنا، نوٹ کرنا، اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہی ان کے نزدیک اہم کام تھا۔ تاریخی واقعات کی یاد چونکہ ابھی تازہ تھی، اس وجہ سے انہیں اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ ان سے متعلق روایات کو کوئی شخص اکٹھا کر کے کتاب لکھے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں یہ روایات بکھری رہیں اور لوگ احادیث کے ساتھ ساتھ انہیں بھی روایت کرتے رہے تاہم بعض ایسی شخصیات اس دور میں پیدا ہوئیں جنہوں نے حدیث اور تاریخ پر غیر معمولی کام کیا۔
یہاں نیچے ہجری کیلنڈر میں ٹائم موجود ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس فارمولا کے مطابق عیسوی کیلنڈر میں ٹائم چیک کر سکتے ہیں۔
CE = Common Era & H = Hijri Calendar
CE = H – (H/33) + 622
ابن شہاب الزہری58-124 ہجری
پہلی صدی ہجری کے اواخر اور دوسری صدی کے اوائل میں محمد بن مسلم بن شہاب الزہری کی شخصیت ایسی ہے جو فن حدیث میں نمایاں ہوئی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زہری اپنے دور میں علم روایت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ بنو امیہ کے خلفاء ولید اور سلیمان کے قریب رہے۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ بنے تو انہوں نے زہری سے فرمائش کی کہ وہ احادیث نبویہ کو اکٹھا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث کی بہت بڑی تعداد زہری سے مروی ہے اور موطاء امام مالک، بخاری اور مسلم جیسی کتابوں میں ان کی مرویات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے زہری پر تنقید کی ہے مگر امت کے اہل علم کی غالب اکثریت نے ان پر اعتماد کیا ہے۔
ابن شہاب زہری سے بعض تاریخی روایات بھی منقول ہیں مگر ان روایتوں میں ایک مسئلہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ جمل ، صفین، تحکیم وغیرہ کے واقعات 36-38 ہجری میں پیش آئے جبکہ زہری کی پیدائش 58 ہجری کی ہے۔ زہری جب ان واقعات کی کوئی تفصیل بیان کرتے ہیں تو سند بیان کرنے کی بجائے براہ راست اس واقعے کی تفصیلات بیان کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس شخص کا نام نہیں بتاتے جس سے انہوں نے یہ واقعہ سن رکھا ہے۔ ان واقعات میں سے بہت سے ایسے ہیں جن میں کسی نہ کسی خاص صحابی کی کردار کشی ملتی ہے۔ چونکہ زہری ان واقعات کے عینی شاہد نہیں ہیں، اس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جس شخص سے انہوں نے وہ واقعہ سنا، وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھا۔ عین ممکن ہے کہ زہری نے یہ واقعات اپنے بچپن یا نوجوانی میں ایسے لوگوں سے سنے ہوں جو بعض صحابہ کے خلاف بغض رکھتے ہوں اور ان کے خلاف اٹھنے والی باغی تحریک کا حصہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی منقطع سند کے واقعات قابل اعتماد نہیں ہیں۔
Broken Chain of Narrators = منقطع سند
(d. 152/769) یونس بن یزید الایلی
یہ ابن شہاب زہری کے شاگرد خاص تھے اور ان کی کتابوں کے حافظ تھے۔ ویسے تو ایلی کا تعلق دوسری صدی ہجری سے ہے لیکن چونکہ یہ ابن شہاب الزہری کی تاریخی روایات کا اہم حصہ انہی سے مروی ہے، اس وجہ سے ان کا ذکر یہیں کیا جا رہا ہے۔اگرچہ بعض ائمہ جرح و تعدیل نے انہیں قابل اعتماد قرار دیا ہے تاہم جن لوگوں نے ان کے معاملے میں تحقیق کی ہے، انہوں نے بیان کیا ہے کہ ان کا حافظہ کمزور تھا۔ امام احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ یونس نے زہری کی روایات لکھنے میں بکثرت غلطیاں کی ہیں اور بڑی منکر (یعنی عجیب و غریب) قسم کی روایات بیان کی ہیں۔ [1]
زہری سے جتنی بھی ایسی منقطع تاریخی روایات منقول ہیں، جن میں صحابہ کرام کی کردار کشی ہے، تقریباً ان سب کو یونس بن یزید الایلی نے روایت کیا ہے۔
دوسری صدی ہجری میں مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا انقلاب آیا جس نے لوگوں کے رہن سہن پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ ہوا یوں کہ ماوراء النہر (موجودہ ازبکستان، تاجکستان وغیرہ) کے علاقے میں مسلم فوج کی ایک جھڑپ چین کی فوج کے ساتھ ہوئی۔ اس جنگ میں بعض ایسے چینی فوجی مسلمانوں کے جنگی قیدی بنے جو کاغذ بنانے کے ماہر تھے۔ ان قیدیوں سے مسلمانوں نے کاغذ بنانے کا فن سیکھا ۔ چونکہ مسلم دنیا میں کاغذ کی ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی، اس وجہ سے بہت تیزی سے کاغذ بنانے کے کارخانے یہاں پھیل گئے اور بڑی مقدار میں سستا کاغذ بنایا جانے لگا۔
اس عظیم ٹیکنالوجیکل انقلاب کا موازنہ بعد کی صدیوں میں پرنٹنگ پریس او رپھر کمپیوٹر کی ایجاد سے کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کمپیوٹر نے ہمارے زمانے میں انسانوں کے رہن سہن، باہمی تعلقات، اداروں ، کاروبار، تعلیم اور ہر چیز کو بدل دیا ہے، بالکل ویسے ہی کاغذ بنانے کے طریقے کی دریافت نے مسلم دنیا میں تعلیم، تحقیق اور زندگی کے دیگر شعبوں پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔
اس سے پہلے لوگ محض ذاتی ڈائری کے طور پر اپنے علم کو لکھ لیا کرتے تھے۔ جب طالب علم اپنے استاذ سے کچھ سیکھتا تو اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا اور بسا اوقات استاذ کو پڑھ کر سنا بھی دیتا تاکہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔ دوسری صدی ہجری کا نصف آخر اور تیسری صدی کے نصف اول میں تصنیف و تالیف کا کام بڑے پیمانے پر کیا جانے لگا جن میں تاریخی کتب بھی شامل تھیں۔ کتابوں کو کمرشل پیمانے پر نقل کیا جانے لگا اور ورّاقین کا ایک طبقہ وجود میں آیا۔ یہ کتابوں کی ہاتھ سے نقلیں تیار کرنے کے ماہر تھے اور انہوں نے باقاعدہ اپنا بازار بنا لیا۔ اگر کسی عالم کو اپنی کتاب کی مثلاً سو کاپیاں تیار کروانا ہوتیں تو وہ ان وراقین کے پاس آتے اور انہیں اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ دیتے۔ یہ وراقین اس کام کو آپس میں بانٹ لیتے اور چند ہی دنوں میں یہ سو کاپیاں تیار کر کے عالم کو دے دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دھڑا دھڑ کتابیں لکھی جانے لگیں اور انہیں بآسانی منتقل کیا جانے لگا۔
حافظے سے کاغذ پر علم کی منتقلی کا یہ عمل ظاہر ہے کہ ایک سال میں نہیں ہوا ہو گا بلکہ ان کارخانوں کے ارتقاء میں کم از کم تیس چالیس برس ضرور لگے ہوں گے۔ کاغذ کا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک بنا ہو گا، دکانیں قائم ہوئی ہوں گی اور اس کے ساتھ ساتھ ورّاقین کا وہ طبقہ وجود میں آیا ہو گا جس نے کتابوں کو نقل کرنے کے فن کو بہت تیز کر دیا۔ اس سارے عمل میں پچاس سے سو برس تو یقیناً لگے ہوں گے۔ ہم اپنے زمانے میں دیکھ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر کو مختلف معاشروں میں رواج پانے کے لیے کم و بیش تیس سال (1980-2010)کا عرصہ لگا ہے اور 2012 میں بھی یہ صورتحال نہیں ہے کہ ہر شخص کے پاس اپنا ذاتی کمپیوٹر ہو۔ شاید مزید تیس چالیس برس میں یہ صورتحال ہو جائے کہ ہر شخص ذاتی کمپیوٹر کا مالک ہو۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس دور میں کاغذ کے ساتھ ہوا ہو گا۔
دوسری صدی ہجری کے نصف آخر میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کتابیں لکھنے کے عمل کا آغاز ہوا اور تیسری صدی ہجری کے اوائل اور نصف میں جب کتابیں بڑے پیمانے پر لکھی جانے لگیں تو ان کا اسلوب وہی تھا جو اس سے پہلے زبانی روایت کا چلا آ رہا تھا۔ سب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی محسوس ہوئی کہ جو کچھ علم اب تک زبانی یا ذاتی ڈائریوں کی صورت میں چلا آ رہا ہے، اسے مرتب کر لیا جائے۔ چنانچہ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، ادب، شاعری، فلسفہ غرض ہر علم میں جو کچھ دستیاب تھا، اسے لکھا جانے لگا۔ حدیث اور تاریخ کے میدان میں پہلے مرحلے پر ان روایات کو اکٹھا کیا گیا۔ اہل علم کا فوکس یہ تھا کہ علم کو مرتب کیا جائے، مستند و غیر مستند کو بعد میں اگلے مرحلے پر دیکھ لیا جائے گا۔ یہ مرحلہ دوسری صدی کے آخر سے شروع ہو کر پانچویں صدی کے آخر تک جاری رہا اور اس عمل میں تین سو سال لگے۔
دوسری صدی ہجری میں ایسے مورخین سامنے آئے جنہوں نے تاریخ پر کتابیں لکھنا شروع کیں اور روایتیں اکٹھی کیں۔ مناسب ہو گا کہ اس موقع پر ہم ان مورخین کا تعارف کروا دیں اور ان کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کی آراء بھی نقل کر دیں۔ ائمہ جرح و تعدیل سے ہماری مراد وہ محققین ہیں جنہوں نے احادیث اور تاریخی روایات کے راویوں پر تحقیق پر اپنی زندگیاں صرف کیں اور ان کے بارے میں یہ تفصیلات بیان کیں کہ یہ لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ ان ائمہ میں احمد بن حنبل(164-241)، ابن معین(156-233)، بخاری(194-256)، ابن المدینی (161-234)، ابو حاتم الرازی (195-277)، نسائی (214-303)اور دار قطنی (306-385) شامل ہیں۔ یہ سب تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے مشہور ائمہ جرح و تعدیل ہیں اور ان کی رائے فن جرح و تعدیل میں اتھارٹی کا درجہ رکھتی ہے۔
مورخین اور راویوں کے بارے میں یہ تفصیلات ہم فن رجال کے مشہور انسائیکلو پیڈیا میزان الاعتدال سے فراہم کر رہے ہیں اور مشہور ائمہ جرح و تعدیل، جنہوں نے مختلف راویوں کے حالات اور ان کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے پر گہری تحقیق کی ہے، کی آراء یہاں پیش کر رہے ہیں۔
Biographical Studies = فن رجال
محمد بن اسحاق 85-151 ہجری
مشہور عالم ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک مفصل کتاب لکھی تھی جس کا جزوی حصہ اب بھی موجود ہے۔ دور صحابہ کی تاریخ کے بارے میں ان سے زیادہ روایات مروی نہیں ہیں۔
ان کے بارے میں محدثین اور ماہرین جرح و تعدیل کے مابین اختلاف ہے کہ یہ ثقہ تھے یا نہیں تھے۔علی بن مدینی اور ابن شہاب زہری نے انہیں سب سے بڑا عالم قرار دیا ہے ۔ سفیان بن عینیہ انہیں امیر المومنین فی الحدیث سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس امام مالک (93-179/711-795) جو ان کے ہم عصر تھے، انہیں دجال کا لقب دیتے ہیں۔ ان پر شیعہ اور فرقہ قدریہ سے کا الزام ہے اور اس کے علاوہ ان پر تدلیس (غیر ثقہ راوی کا نام چھپا لینا تاکہ یہ لگے کہ حدیث مستند ہے) کے ارتکاب کا الزام بھی ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں کہ ثقہ تو تھے مگر حجت نہیں تھے۔[2]
محمد بن عمر الواقدی 130-207 ہجری
دوسری صدی کے سب سے مشہور مورخ محمد بن عمر الواقدی ہیں۔ یہ صاحب بغداد کے قاضی تھے اور بڑے عالم تھے۔ انہوں نے بڑی محنت سے ایک ایک شہر اور ایک ایک گاؤں میں جا کر تاریخی روایتیں اکٹھی کیں اور اس پر کتابیں لکھیں۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ کتب دوسری صدی کے نصف آخر میں لکھی گئی ہوں گی۔ انہوں نے روایات کی تفتیش و تنقید بالکل نہ کی بلکہ جو کچھ ملا، اسے لکھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ واقدی کو ماہرین جرح و تعدیل نے نہایت ہی ناقابل اعتماد اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔ واقدی کی تصانیف مرور ایام کی نذر ہو گئیں اور ہم تک نہیں پہنچیں تاہم ان کی روایات بعد کے دور کی تصانیف کا حصہ بن گئیں۔
واقدی کے بارے میں احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے۔ ابن معین انہیں ثقہ نہیں سمجھتےاور کہتے ہیں کہ ان کی روایت کبھی نہ لکھو۔ بخاری اور ابو حاتم انہیں متروک قرار دیتے ہیں۔ ابن المدینی، ابوحاتم اور نسائی کہتے ہیں کہ یہ روایتیں گھڑا کرتے تھے۔ دارقطنی کہتے ہیں کہ ان میں ضعف پایا جاتا ہے۔ ابن المدینی کہتے ہیں کہ یہ صاحب تیس ہزار ایسی احادیث سنایا کرتے تھے جو کہ بالکل ہی اجنبی تھیں۔ [3] خطیب بغدادی نے واقدی سے متعلق نقل کیا ہے کہ انہوں نے جنگ احد کے واقعے کو بیس (بروایت دیگر سو) جلدوں میں بیان کیا۔ اب چند گھنٹوں میں ہونے والی جنگ احد کو اگر بیس جلدوں میں بھی بیان کیا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فاضل مصنف نے اس میں کیا کچھ اکٹھا کر دیا ہو گا۔ [4]
تاریخ کی کتب میں واقدی کی روایات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسی روایات، جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی منفی بات ہو، ان میں سے اکثر کی سند میں واقدی موجود ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ واقدی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے بارے میں متعصب تھے۔ اس کے برعکس بعض شیعہ اہل علم جیسے ابن الندیم کا کہنا ہے کہ واقدی میں تشیع پایا جاتا تھا مگر وہ تقیہ کر کے خود کو اہل سنت میں ظاہر کرتے تھے۔ [5]
علی بن محمد المدائنی 135-225 ہجری
یہ بھی دوسری صدی کے مورخ ہیں۔ مذکورہ بالا ابن الندیم ، جو کہ اپنے زمانے کی لائبریری سائنس کے ماہر تھے اور انہوں نے اپنے زمانے تک کی کتب کی ایک مفصل فہرست تیار کی ہے، نے مدائنی کی 239 تصانیف کے نام گنوائے ہیں۔ ان کی یہ تصانیف بھی باقی نہیں رہیں تاہم ان کی بیان کردہ روایات کا بڑا حصہ تیسری صدی کی کتب کا حصہ بن گیا۔
جرح و تعدیل کے مشہور ماہر ابن عدی ان کے بارے کہتے ہیں: یہ حدیث کے معاملے میں قوی نہیں ہیں، اخباری ہیں اور ان کی روایات میں سے کم ہی ہیں جن کی سند مکمل ہے۔ یحیی بن معین نے البتہ انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ [6] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدائنی تاریخ میں ایک قابل اعتماد راوی سمجھے گئے ہیں مگر حدیث میں نہیں۔ بذات خود قابل اعتماد تھے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ جن لوگوں سے روایت کر رہے ہیں، وہ قابل اعتماد اور ثقہ ہیں یا نہیں۔
(d. 170H/787CE) ابو مخنف لوط بن یحیی
یہ دوسری صدی کے مشہور ترین مورخ ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بنو امیہ سے متعلق جتنی بھی منفی نوعیت کی روایتیں ملتی ہیں، ان کا غالب حصہ انہی سے مروی ہے۔ جنگ صفین، واقعہ تحکیم، سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور اس کے بعد کے واقعات کا زیادہ تر حصہ تاریخ طبری میں انہی سے مروی ہے۔ دارقطنی نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کچھ نہیں ہیں، ابن عدی نے انہیں غالی شیعہ قرار دیا ہے۔ [7] ابن عدی کا کہنا یہ بھی ہے کہ ابو مخنف بہت ہی دل جلے شیعہ تھے۔ [8]
مناسب رہے گا کہ ابو مخنف کے متعلق ہم اہل تشیع کی رائے پیش کر دیں۔ ابو مخنف کے متعلق اہل تشیع کے ایک مصنف قمر بخاری صاحب لکھتے ہیں۔
ابو مخنف كا نام، لوط بن يحيٰ بن سعيد بن مخنف بن سُليم ازدی ہے۔ ان كا اصلی وطن كوفہ ہے اور ان كا شمار دوسری صدی ہجری كے عظيم محدثين اور مورخين ميں ہوتا ہے۔ انہوں نے پيغمبر اسلام صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم كی رحلت كے بعد سے اموی حكومت كے آخری دور تك كے اہم حالات و واقعات پر كتابيں لکھیں، جيسے كتاب المغازى، كتاب السقيفہ، كتاب الردہ، كتاب فتوح الاسلام، كتاب فتوح العراق، كتاب فتوح خراسان، كتاب الشوريٰ، كتاب قتل عثمان، كتاب الجمل، كتاب صفين، كتاب مقتل أمير المؤمنين، كتاب مقتل الحسن (عليہ السلام) كتاب مقتل الحسين (عليہ السلام) ۔۔۔
جو مجموعی طور پر اٹھائیس كتابيں ہيں اور ان كی تفصيل علم رجال كی كتابوں ميں موجود ہے۔ ليكن ان ميں سے اكثر كتابيں ہماری دسترس ميں نہيں ہيں البتہ ان كتابوں كے کچھ مطالب ان كے بعد لکھی جانے والی كتابوں ميں روايت ابی مخنف كے عنوان سے موجود ہيں مثلاً تاريخ طبرى ميں ابو مخنف سے مجموعی طور پر پانچ سو سے زيادہ روایتيں موضوعات پر نقل ہوئی ہيں اور ان نقل شدہ روايات ميں سے اكثر كا تعلق، جو کہ تقريباً ايك سو چھبیس روايتيں ہيں، حضرت علی عليہ السلام كے دوران حكومت كے حالات و واقعات سے ہے۔ ايك سو اٹھارہ روايتيں واقعۂ كربلا اور ايك سو چوبيس روايتيں حضرت مختار كے قيام كے بارے ميں ہيں۔۔۔۔
اگر چہ ان كی تاريخ ولادت معلوم نہيں ہے ليكن ان كی تاريخ وفات عام طور سے سن 157 ہجری قمری نقل كی گئی ہے۔ ان كی تاريخ ولادت معلوم نہ ہونے كی وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمی كا شكار ہوئے ہيں۔ بعض نے انہيں امام علی عليہ السلام، امام حسن عليہ السلام، اور امام حسين عليہ السلام كا صحابی كہا ہے، جب كہ بعض علماء نے انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابی جانا ہے۔ جيسا كہ شيخ طوسی عليہ الرحمہ نے كشّى سے نقل كيا ہے كہ ابو مخنف، امام علی عليہ السلام امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ہيں۔ ليكن ان كا خود يہ نظريہ نہيں ہے بلكہ ان كا كہنا ہے كہ ابو مخنف كے والد یحیی امام علی عليہ السلام كے صحابی تھے جب كہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ كا زمانہ نہيں دیکھا ہے۔۔۔۔ جو بات يقينی ہے وہ يہ كہ ابو مخنف كے پر دادا مخنف بن سليم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام كے اصحاب ميں سے تھے اور آپ كی طرف سے شہر اصفہان كے گورنر مقرر ہوئے اور جنگ جمل كے دوران حضرت علی عليہ السلام كی فوج ميں قبيلہ ازد كے دستہ كی سالاری كے فرائض انجام ديتے ہوئے اس جنگ ميں شہادت كے درجہ پر فائز ہوئے۔
اہل تشيع كی علم رجال سے متعلق كتابوں سے يہ بات روشن ہے كہ ابو مخنف ايك قابل اعتماد شخص تھے، شيخ نجاشی ان كے بارے ميں كہتے ہيں كہ ابو مخنف كوفہ كے بزرگ راويوں كے شيوخ (اساتذہ) ميں سے ہيں ان كی روايت پر اعتماد كيا جاسكتا ہے۔ شيخ طوسی نے اپنی علم رجال كی كتاب ميں انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابی كہا ہے۔ شيخ عباس قمی نجاشی جيسی عبارت نقل كرنے كے بعد فرماتے ہيں: ابو مخنف عظيم شيعہ مورخين ميں سے ايك ہيں۔ نيز آپ فرماتے ہيں كہ ابو مخنف كے شيعہ مشہور ہونے كے باوجود طبرى، اور ابن اثير ، جيسے علماء اہل سنت نے ان پر اعتماد كيا ہے، آقا بزرگ تہرانى نجاشی كی چند عبارتيں نقل كرنے كے بعد فرماتے ہيں۔
ان كے شيعہ مشہور ہونے كے باوجود علمائے اہل سنت جيسے طبری اور ابن اثير نے ان پر اعتماد كيا ہے بلكہ ابن جرير كی كتاب تاريخ الکبیر تو ابو مخنف كی روايات سے پر ہے۔ آيت اللہ خوئی نے بھی انہيں ثقہ كہا ہے اور شيخ طوسی (رح) سے ابو مخنف تك جو سند ہے اسے آپ نے صحيح جانا ہے۔
ليكن بعض علماء اہل سنت نے ان كے شيعہ ہونے كا ذكر كرتے ہوئے ان كی روايت كو متروك قرار ديا ہے اور بعض افراد نے ان كے شيعہ ہونے كا ذكر كئے بغير ان كی روايت كو ضعیف كہا ہے جيسا كہ یحیی بن معين كا كہنا ہے: ابو مخنف ليس بشئ یعنی ابو مخنف قابل اعتماد نہيں ہيں۔ اور ابن ابی حاتم نے یحیی بن معين كا قول نقل كيا ہے كہ وہ ثقہ نہيں ہيں۔ اور دوسروں سے بھی اس بات كو نقل كيا ہے كہ وہ متروك الحديث ہيں۔
ابن عدی، یحیی بن معين كا قول نقل كرنے كے بعد كہتا ہے كہ گذشتہ علماء بھی اسی بات كے قائل ہيں، (يوافقہ عليہ الائمہ) اس كے بعد وہ كہتا ہے كہ ابو مخنف ايك افراطی قسم كے شيعہ ہيں، ان كی احاديث كی سند نہيں ہے ان كی احاديث كی سند نہيں ہے ان سے ايسی ناپسنديدہ اور مكروہ روايات نقل ہوئی ہيں جو نقل كرنے كے لائق نہيں ۔
ذہبی كا كہنا ہے كہ وہ متروك ہيں اور دوسری جگہ پر كہا ہے كہ ابو مخنف نے مجہول افراد سے روايت نقل كی ہے۔ دار قطنی كا قول ہے كہ ابو مخنف ايك ضعيف اخباری ہيں۔ ابن حجر عسقلانی كا كہنا ہے كہ ان پر اطمينان نہيں كيا جاسكتا ہے۔ پھر بعض علماء كا قول نقل كرتا ہے كہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمينان نہيں ہيں ۔
ليكن ابن نديم كا ان كے بارے ميں كہنا ہے كہ ميں نے احمد بن حارث خزار كے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحرير ميں دیکھا ہے كہ علماء كا كہنا ہے، كہ ابو مخنف كی عراق اور اس كی فتوحات سے متعلق روايات سب سے زيادہ اور سب سے بہتر ہيں، جس طرح سے خراسان، ہندوستان اور فارس كے بارے ميں مدائنى، حجاز و سيرت كے بارے ميں واقدى، اور شام كی فتوحات كے بارے ميں ان تينوں كی معلومات يكساں ہيں۔ يہ عبارت ياقوت حموی نے بھی اپنی كتاب معجم الادباء ميں ذكر كی ہے۔ مجموعی طور پر اكثر علماء اہل سنت نے يحييٰ بن معين كے قول كا سہارا لے كر ابو مخنف كو غير ثقہ قرار ديا ہے۔
شيخ طوسی كا اپنی كتاب فہرست ميں اور نجاشی كا اپنی كتاب رجال ميں ان كے مذہب كے بارے ميں كوئی رائے پيش نہ كرنا، ان كے شيعہ ہونے كی طرف اشارہ ہے۔ جيسا كہ بيان كيا جاچكا ہے كہ شيخ عباس قمی اور آقا بزرگ تہرانى نے واضح طور پر ان كے شیعہ ہونے كو بيان كيا ہے بلكہ يہاں تك كہا ہے كہ ان كا شیعہ ہونا مشہور ہے ليكن آقا خوئی نے اپنی كتاب معجم رجال الحديث ميں ان كے شيعہ يا غير شیعہ ہونے كو بيان كئے بغير انہيں ثقہ كہا ہے۔
اكثر علماء اہل سنت نے ان كے شیعہ ہونے كے بارے ميں كوئی اشارہ نہيں كيا۔ يہاں تك كہ ابن قتیبہ اور ابن نديم نے شیعہ افراد كے لئے ايك الگ باب تحرير كيا ہے ليكن ابو مخنف كے نام كا وہاں ذكر نہ ہونا ان كے غير شیعہ ہونے كو ظاہر كرتا ہے۔ علماء اہل سنت ميں سے ابن ابی الحديد وہ ہے جو اس بات كا قائل ہے كہ ابو مخنف كا شمار محدثين ميں ہوتا ہے اور وہ امامت پر اعتقاد رکھتے تھے، ليكن ان كا شمار شیعہ راويوں ميں نہيں ہوتا۔ صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقيد كرنے كے بعد فرماتے ہيں كہ ابو مخنف كی روايت ان كے متعصب نہ ہونے كی وجہ سے قابل اعتماد ہے ليكن ان كے شیعہ ہونے كے بارے ميں كوئی رائے پيش نہيں كی جاسكتی۔
لہٰذا ان كے مذہب كے بارے ميں بحث كرنے كا كوئی خاص عملی فائدہ نہيں ہے ليكن اگر ابو مخنف كی روايات پر غور و فكر كيا جائے جو اكثر سقیفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفین ، مقتل امام حسين عليہ السلام سے متعلق ہيں تو آپ اس نتيجہ پر پہنچیں گے كہ وہ شیعی افكار كے مالك تھے ، البتہ ممكن ہے كہ ان كی روايات ميں بعض مطالب ايسے پائے جاتے ہوں جو كامل طور پر شیعہ عقيدہ كے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ ليكن ہميں چاہيے كہ ہم ابو مخنف كے دور زندگی كو بھی پيش نظر ركہيں كيونكہ بعض اوقات ائمہ معصومين عليہم السلام بھی تقیہ كی وجہ سے ايسے مطالب بيان كرتے تھے جو اہل سنت كے عقيدہ كے مطابق ہوا كرتے تھے اور يہ بات بھی قابل غور ہے كہ وہ ايك معتدل شخص تھے جس كی وجہ سے اہل سنت كی اكثر كتابوں ميں ان كی روايات كا مشاہدہ كيا جاسكتا ہے۔۔۔۔
ابو مخنف كی روايات كے متن كے صحيح يا غلط ہونے كے بارے ميں فيصلہ كرنا آسان كام نہيں ہے كيونكہ ابو مخنف كو تاريخی روايات نقل كرنے والوں ميں ايك بنيادی حيثيت حاصل ہے، لہٰذا دوسری روايات كے پيش نظر ان كی روايت كے صحيح يا غلط ہونے كا فيصلہ نہيں كيا جاسكتا۔ اس لئے كہ تاريخ كے تمام راوی جيسے ہشام كلبى، واقدى، مدائنى، ابن سعد وغيرہ يہ سب ان كے دور كے بعد سے تعلق ركہتے ہيں اور اسی كے مرہون منت ہيں۔[9]
بخاری صاحب کی ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء رجال کے نزدیک ابو مخنف ایک بڑے شیعہ عالم اور مورخ تھے اور ان کے پڑدادا مخنف بن سلیم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ ایسے تمام تاریخی واقعات ، جن کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین اختلاف ہے، تقریباً سب کے سب کی تفصیلات ابو مخنف ہی سے مروی ہیں۔ اس وجہ سے ان معاملات میں ابو مخنف کی روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ مدعی اپنے نقطہ نظر کے حق میں خود گواہ نہیں بن سکتا ہے۔ راوی کی حیثیت گواہ کی ہوتی ہے۔ اگر مدعی خود ہی گواہ بن جائے تو کون سی عدالت اس کی گواہی کو قبول کرے گی؟
یہ بات درست نہیں ہے کہ صرف یحیی بن معین نے ہی ابو مخنف کو ناقابل اعتماد قرار دیا ہے اور اہل سنت کے بقیہ اہل علم ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ خود بخاری صاحب کے اقتباس میں متعدد علمائے اہل سنت کے اقوال درج ہیں جو ابو مخنف کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم بھی میزان الاعتدال اور لسان المیزان سے متعدد ماہرین جرح و تعدیل کے اقوال نقل کر چکے ہیں جن کے مطابق علمائے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابو مخنف قابل اعتماد نہیں ہیں۔ طبری، ابن اثیر اور دیگر مورخین کا ان کی روایات کو اپنی کتب میں جگہ دینا ، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ ابو مخنف کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔ ہم آگے چل کر بیان کریں گے کہ خود ان مورخین نے اپنی کتب کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ہم نے واقعات کی تحقیق نہیں کی ہے بلکہ انہیں صرف نقل کیا ہے۔ صحیح غلط کی ذمہ داری ان راویوں پر ہے جن کے نام ہم نے سند میں دے دیے ہیں۔طبری اور دیگر مورخین کی حیثیت بات کو آگے نقل کرنے والے کی ہے۔ انہوں نے ہرگز یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ جن راویوں کی روایات کو انہوں نے اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، وہ سب کے سب قابل اعتماد تھے اور ان کی بیان کردہ ہر ہر روایت کو قبول کر لیا جائے۔
(d. c. 180H/795CE) محمد بن سائب الکلبی
یہ بھی دوسری صدی ہجری کے مورخ ہیں اور ان کا تعلق بھی ابو مخنف ہی کی پارٹی سے ہے۔ محمد بن سائب الکلبی کے بارے میں مشہور امام سفیان ثوری کہتے ہیں: کلبی سے بچو۔ کہا گیا: آپ بھی تو ان سے روایت کرتے ہیں؟ کہا: میں اس کے سچ اور جھوٹ کو پہچانتا ہوں۔ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ کلبی نے مجھ سے کہا: میں ابو صالح سے جتنی روایتیں بیان کرتا ہوں، وہ سب جھوٹ ہیں۔ اعمش کہا کرتے تھے: اس سبائی سے بچو، میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اس کا نام جھوٹوں میں لیتے ہیں۔ احمد بن زہیر کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: کیا کلبی کی تفسیر کو دیکھنا جائز ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ ابن معین کہتے ہیں: کلبی ثقہ نہیں ہے۔
جوزجانی نے کلبی کو کذاب اور دارقطنی نے متروک قرار دیا ہے۔ مشہور محدث ذہبی کہتے ہیں کہ اس کا کتاب میں ذکر کرنا درست نہیں ہے تو پھر اس سے روایت قبول کیسے کی جائے۔ [10]
(d. 204/819) ہشام بن محمد بن سائب الکلبی
یہ انہی کلبی صاحب کے بیٹے تھےاور اپنے والد سے روایات لیا کرتے تھے۔ بڑے عالم اور اخباری گزرے ہیں تاہم محدثین نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ دارقطنی نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عساکر انہیں ثقہ نہیں سمجھتے۔ 150 کتب کے مصنف تھے۔ [11] تاریخ طبری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہشام کلبی کی بہت سی روایات، ابو مخنف ہی سے منقول ہیں۔ بعض ایسی روایات ہیں جنہیں ہشام نے ابو مخنف کے علاوہ کسی اور راوی سے بھی روایت کیا ہے۔ ہشام کے پڑدادا اور محمد بن سائب کے دادا جنگ جمل اور صفین میں باغی پارٹی کا حصہ تھے۔ ہشام سے ان کے بیٹے عباس بن ہشام اکثر روایت کرتے ہیں جو اسی خاندان کا حصہ ہیں۔
(d. c. 185/800) سیف بن عمر التیمی
یہ صاحب کثیر تاریخی روایات کے راوی ہیں اور اس فن پر انہوں نے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یحیی بن معین انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ ان کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ ابو حاتم نے انہیں متروک قرار دیا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عام روایات منکر ہیں۔ ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ ان پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ [12] ایسی بہت سی روایات، جو حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں خلفائے راشدین کی منفی تصویر پیش کرتی ہیں، سیف بن عمر ہی سے منقول ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سیف بن عمر کی ان روایتوں کو قبول کیا جا سکتا ہے، جن میں صحابہ کرام کی کردار کشی نہ کی گئی ہو اور وہ عہد صحابہ کے سیاسی مسائل سے ہٹ کر ہوں۔ [13]
دوسری صدی کے علم تاریخ پر مجموعی تبصرہ
یہ سب دوسری صدی ہجری کے مشہور مورخین ہیں لیکن ان کی کوئی کتابیں براہ راست ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کتابوں کے اکثر مندرجات بعد کی بڑی کتب کا حصہ بن گئے، جس کی وجہ سے لوگوں کو اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ پہلے کی کتابوں کو الگ سے محفوظ رکھا جا سکے۔ موجودہ دور میں بعض حضرات نے خاص کر ابو مخنف کی روایات کو تاریخ طبری اور دیگر کتابوں سے اخذ کر کے الگ کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔
اوپر بیان کردہ تفصیلات میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سوائے ایک آدھ کے، دوسری صدی ہجری کے اکثر بڑے مورخین قابل اعتماد نہیں ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب دو قسم کے ایسے موٹیویشن ظہور پذیر ہوئے جن کی بنیاد پر تاریخ کو جان بوجھ کر مسخ کیا گیا۔
پہلا محرک سیاسی تھا۔ بنو امیہ نے تقریباً نوے برس 40-132 ہجری حکومت کی۔ دوسری صدی ہجری کے اوائل میں ان کے خلاف بنو ہاشم کی تحریک پیدا ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ امویوں کو ہٹا کر ان کی جگہ ہاشمیوں کا اقتدار قائم کیا جائے۔ یہ تحریک تین عشروں تک پھلتی پھولتی رہی اور بالآخر 132/750 میں یہ کامیاب ہوئی۔ اس کے نتیجے میں امویوں کی حکومت ختم ہوئی اور ان کی جگہ بنو عباس کا اقتدار قائم ہوا۔ ہم اپنے دور کے بارے میں جانتے ہیں کہ سیاستدان کس طرح ایک دوسرے بالخصوص حکمرانوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکا کر خود اقتدار پر قبضہ کیا جائے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بنو ہاشم کے طرف داروں نے کیا اور بنو امیہ کی کردار کشی کر کے ان کی نہایت ہی مسخ شدہ تصویر پیش کی۔ یہی تصویر تاریخی روایتوں کا حصہ بن کر کتب تاریخ میں داخل ہوئی۔ حضرت عثمان، معاویہ، مروان، عبدالملک بن مروان اور دیگر اموی حکمرانوں کی خاص طور پر کردار کشی کی گئی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد بنو ہاشم میں پھوٹ پڑ گئی اور یہ عباسی اور علوی کیمپوں میں تقسیم ہو گئے۔ یہ لوگ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی اولادوں سے تھے۔ اقتدار چونکہ بنو عباس کے ہاتھ میں آیا، اس وجہ سے انہیں علویوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عباسی دور میں جب تاریخ کی کتب لکھی گئیں تو ایسی بہت سی روایات ان کا حصہ بن گئیں جن میں حضرت علی اور ان کے صاحبزادوں حسن و حسین کی کردار کشی تھی۔ اگرچہ امت کے اہل علم میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے ایسی روایتوں کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا جن میں حضرت عثمان، علی، معاویہ رضی اللہ عنہم اور دیگر اکابرین امت کی کردار کشی تھی تاہم یہ روایتیں کتب تاریخ میں داخل کر دی گئیں۔ بہرحال ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تاریخ کی یہ کتب صرف جھوٹ ہی پر مشتمل ہیں کیونکہ انہی تواریخ میں بنو امیہ بالخصوص حضرت عثمان، معاویہ رضی اللہ عنہما اور ولید بن عبد الملک کے مثبت کارنامے بھی ملتے ہیں۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کتب تاریخ میں ان حضرات کی کردار کشی سے متعلق مخصوص روایات داخل کی گئی ہیں۔
دوسرا محرک مذہبی تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں فرقہ بندی ارتقاء پذیر تھی۔ اہل تشیع ایک منظم گروہ کی شکل میں موجود تھے۔ خوارج اگرچہ آخری سانسیں لے رہے تھے مگر پھر بھی مسلم معاشرے کے اندر موجود تھے۔ ایک گروہ ناصبیوں کا بھی تھا ، جو خود کو شیعان عثمان کہتے تھے۔ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے ساتھ تعصب رکھتے تھے۔ ان سب کے علاوہ مین اسٹریم مسلمان تھے جو بعد میں اہل السنۃ و الجماعۃ کہلائے۔ یہ وہ مسالک تھے جن کے اختلافات کی بنیاد تاریخ تھی۔ تاہم مسلمان ابھی مل جل کر رہتے تھے اور ان فرقہ بندیوں کی حدود اتنی واضح نہیں تھیں۔ اہل تشیع کے ہاں تقیہ کا اصول مسلمہ ہے جس کے تحت بہت سے شیعہ راوی، اپنا مسلک ظاہر نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین ایک دوسرے سے روایتیں حاصل کرتے تھے اور پھر انہیں آگے بیان کر دیتے تھے۔
فرقہ وارانہ اختلافات کی عینک سے جب تاریخ کو دیکھا گیا تو لوگوں نے بہت سی ایسی روایتیں وضع کر دیں جو ان کے نقطہ نظر کی تائید اور فریق مخالف کی تردید پر مبنی تھیں۔ اگر انسان اپنی آنکھوں پر سرخ شیشوں کی عینک لگا لے تو اسے ہر چیز سرخ ہی نظر آتی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے جب تاریخ کو اپنے اپنے مسلک کے شیشوں کی عینک سے دیکھا تو انہوں نے تاریخی واقعات کی توجیہ اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح تاریخی روایات میں بھی اس کے اثرات پیدا ہوئے اور واقعات کو توڑ مروڑ کر بیان کیا جانے لگا۔ چونکہ روایات کے تبادلے کا عمل مختلف مسالک کے لوگوں میں جاری تھا، اس وجہ سے اہل تشیع، خوارج اور ناصبیوں کی روایات مین اسٹریم مسلمانوں کی کتابوں میں داخل ہو گئیں۔
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ عہد صحابہ کے بڑے بڑے واقعات ہمیں تواتر سے ملتے ہیں لیکن ان کی جزوی تفصیلات کا ذکر انفرادی رپورٹس یا روایات میں ملتا ہے۔ متواتر معلومات کے بارے میں مورخین کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ انفرادی روایات کے بارے میں ان کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان روایات کو زیادہ تر دوسری صدی ہجری کے چند مورخین نے مرتب کیا اور کتابیں لکھیں۔ تیسری صدی ہجری میں جب تاریخی روایات کے بڑے مجموعے مرتب ہوئے تو دوسری صدی ہجری کی یہ کتابیں ان کا حصہ بن گئیں۔ چونکہ اس دور میں کتابیں ہاتھ سے نقل کی جاتی تھیں، اس وجہ سے لوگوں نے بعد کی کتب کو ہاتھ در ہاتھ نقل کیا اور پرانی کتب غیر ضروری ہوتی چلی گئیں۔
تیسری صدی ہجری کی کتب تاریخ اس وجہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کہ ہمارے پاس پہلی صدی میں رونما ہونے والے واقعات کی تاریخ سے متعلق جو قدیم ترین مواد موجود ہے، وہ زیادہ تر تیسری صدی ہی میں لکھی گئی کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس وجہ سے ہمارے پاس ان کتابوں سے متعلق تفصیلی معلومات ہونی چاہییں۔ جو شخص بھی عہد رسالت یا عہد صحابہ پر تحقیق کرے گا، اسے تیسری صدی کی کتابوں ہی کو اپنا ماخذ بنانا پڑے گا۔ بعد کی صدیوں میں جو کتب تاریخ لکھی گئیں، ان کی بنیاد بھی یہی تیسری صدی کی کتب تھیں۔ یہ بالعموم چار طرح کی کتابیں ہیں۔
ان کتابوں کا مقصد یہ ہے کہ مختلف شخصیات کے نسب نامے اور کارنامے بیان کیے جائیں ۔ چونکہ عربوں کے ہاں نسب کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی اور اسی کی بدولت قبائل کا تشخص قائم تھا، اس وجہ سے علم الانساب کو دور جاہلیت ہی سے غیر معمولی حیثیت حاصل تھی۔ ہمارے ہاں تو دیہات میں بھانڈ اور میراثی وغیرہ چوہدریوں کے شجرہ ہائے نسب محفوظ رکھتے ہیں اور محفلوں میں انہیں گاتے ہیں لیکن عربوں کے ہاں جو شخص علم الانساب کا ماہر ہوتا، اسے معاشرے میں غیر معمولی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا۔ علم الانساب میں ہر ہر خاندان کا نہ صرف شجرہ نسب بلکہ اس کی مشہور شخصیات کے پورے حالات زندگی بیان کیے جاتے۔
یہی وجہ ہے کہ عربوں کا علم الانساب مرتب ہوتا رہا اور اگلی نسلوں کو یہ ذخیرہ صحیح طور پر منتقل ہوا۔ شجرہ نسب اور حالات زندگی کے علاوہ انساب کی کتب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شادیوں کی تفصیلات ملتی ہیں کہ کس کی شادی کس سے ہوئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف قبائل اور خاندانوں کے درمیان رشتوں سے ان کے باہمی تعلقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں مورخین نے بنو ہاشم اور بنو امیہ کے اختلافات کی جو تفصیل بیان کی ہے، اسے علم الانساب کی روشنی میں بآسانی پرکھا جا سکتا ہے۔
علم الانساب پر سب سے مشہور اور جامع کتاب احمد بن یحیی البلاذری کی انساب الاشراف ہے۔ کہنے کو تو یہ انساب کی کتاب ہے لیکن اس میں تاریخی معلومات بکثرت موجود ہیں کیونکہ مصنف نے ہر ہر شخصیت کے نسب کے ساتھ اس کے پورے حالات زندگی بیان کر دیے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ کتاب بڑے سائز کے پانچ پانچ سو صفحات پر مشتمل 13 جلدوں میں چھپی ہے۔ مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے آغاز کرتے ہوئے نسل در نسل آپ کے ایک ایک رشتے دار کے حالات بیان کیے ہیں۔ پھر آپ کے چچا ابو طالب اور عباس رضی اللہ عنہ کے خاندان کے حالات بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد بنو امیہ، بنو زہرہ، بنو تیم، بنو مخزوم، بنو عدی اور قریش کے دیگر خاندانوں کے لوگوں کے حالات بیان کیے ہیں۔ کتاب کی ترتیب انہوں نے اس طرح رکھی ہے کہ جو خاندان نسب کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا قریب ہے، اس کے حالات انہوں نے پہلے بیان کیے ہیں۔
بلاذری سے پہلے دوسری و تیسری صدی کے نساب مصعب الزبیری (156-236) کی کتاب نسب قریش نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے بھی قریش کے مختلف قبائل اور خاندانوں کے باہمی رشتوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے اور امام مسلم نے ان سے روایات قبول کی ہیں۔ ان کی کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں صرف نسب اور رشتوں کو بیان کیا گیا ہے اور تاریخی واقعات بیان نہیں کیے گئے۔ اس وجہ سے اس کتاب کی غیر جانبداری مسلم ہے۔ بعد میں چوتھی صدی میں ابن حزم (384-456)کی کتاب جمہرۃ الانساب العرب بھی ایک اہم کتاب ہے۔
طبقات کی کتابوں میں بھی مشہور شخصیات کے حالات زندگی ہوتے ہیں جس کے ذیل میں ان شخصیات کےد ور کی تاریخ بیان ہو جاتی ہے لیکن ان کتابوں کی ترتیب طبقہ در طبقہ ہوتی ہے۔ طبقے سے مراد کسی شخص کا پیئر گروپ یا ایج گروپ ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی سالوں میں ایمان لانے والے صحابہ ایک طبقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ہجرت کے بعد اور غزوہ بدر سے پہلے ایمان لانے والے ایک طبقہ میں، غزوہ بدر و احد کے درمیان ایمان لانے والے ایک طبقہ میں اور اسی طرح مشہور واقعات کے درمیان ایمان لانے والوں کو ایک طبقے میں رکھا جاتا ہے۔ صحابہ کرام کا آخری طبقہ وہ ہے جو فتح مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے درمیانی عرصے میں ایمان لایا۔ اس کے بعد تابعین کے طبقات شروع ہو جاتے ہیں۔
اس اسلوب پر لکھی جانے والی مشہور ترین کتاب محمد بن سعد کی الطبقات الکبری ہے۔ ابن سعد اگرچہ خود تو بڑے قابل اعتماد مورخ ہیں مگر وہ محمد بن عمر الواقدی کے شاگرد ہیں جنہیں محدثین نے نہایت ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے ابن سعد کی وہ روایات جو واقدی کے توسط سے منقول ہیں، قابل اعتماد نہیں مانی جاتی ہیں۔ ابن سعد نے طبقہ در طبقہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے حالات بیان کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کتاب کو شہر وار مرتب کیا، یعنی ہر ہر شہر کے اندر جو جو طبقات موجود تھے، ان کی ترتیب سے شخصیات کے حالات بیان کیے۔
یہ وہ کتب ہیں جن میں جنگوں کے حالات بیان کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی تاریخ کے سب سے مشہور عالم یہی محمد بن عمر الواقدی ہیں جنہوں نے جنگوں سے متعلق روایات اکٹھی کیں۔ تیسری صدی میں بلاذری نے فتوح البلدان کے نام سے ایک کتاب لکھی جو مختلف شہروں کی فتوحات سے متعلق اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔
مشہور محدث امام احمد بن حنبل(164-241)کا کہنا ہے کہ مغازی، تفسیر اور ملاحم (جنگیں) کی کتابیں بے اصل ہیں۔[14] اس کتاب میں جن واقعات پر ہم تحقیق کر رہے ہیں، ان میں کتب مغازی کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔
اس اسلوب کی کتب میں تاریخی ترتیب کرونولاجیکل سیریز سے روایات درج کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے مشہور کتاب ابن جریر طبری(224-310) کی تاریخ الامم و الملوک ہے۔ یہ مختصراً تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے اور بعد کی کتب تاریخ کا ماخذ بھی ہے۔طبری فن تاریخ میں ایک رجحان ساز شخصیت تھے۔ ان کے بعد اس اسلوب پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں لیکن یہ سب کی سب تاریخ طبری یا انساب و طبقات کی کتب سے ماخوذ تھیں۔ اس وجہ سے انہیں وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو تاریخ طبری کو حاصل ہے۔ طبری سے پہلے خلیفہ بن خیاط (160-240) اسی اسلوب پر کتاب لکھ چکے تھے مگر جو مقبولیت طبری کو حاصل ہوئی، وہ انہیں حاصل نہیں ہو سکی۔
تیسری صدی ہجری کے مشہور مورخین یہ ہیں۔
محمد بن سعد کاتب الواقدی 168-230 ہجری: یہ طبقات ابن سعد کے مصنف ہیں اور واقدی کے شاگرد اور سیکرٹری تھے۔ ان کی کتاب میں ان کے استاذ واقدی کی روایات بکثرت موجود ہیں جن کے قبول کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
(d. 279/893)احمد بن یحیی البلاذری: یہ انساب الاشراف اور فتوح البلدان کے مصنف ہیں۔
ابن جریر طبری 224-310 ہجری: یہ علم تاریخ اور علم تفسیر کی رجحان ساز شخصیت ہیں اور انہوں نے نہایت مفصل تاریخ کو زمانی ترتیب سے بیان کیا ہے۔ ہماری اس کتاب کا بنیادی ماخذ یہی تین مصنفین ہیں لیکن اس کے علاوہ ہم نے دیگر ذرائع سے مدد بھی لی ہے۔
طبری کے بارے میں علمائے تاریخ کے مابین یہ اختلاف موجود ہے کہ وہ شیعہ تھے یا نہیں۔ ایک گروہ انہیں شیعہ قرار دیتا ہے اور دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ وہ شیعہ نہیں تھے بلکہ ان کے ہم نام ایک اور صاحب محمد بن جریر بن رستم طبری شیعہ تھے جس کی وجہ سے التباس پیدا ہوا۔ شیعہ عالم قمر بخاری کا کہنا ہے کہ اگر چہ طبری سنی مذہب تھے مگر زندگی كے آخری لمحات ميں ان كے تشيع كی طرف مائل ہونے كا احتمال ديا جاسكتا ہے۔[15]
طبری کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں جہاں حضرات ابوبکر، عمر، عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر تنقید پر مشتمل روایات ملتی ہیں، وہاں ان چاروں حضرات کے فضائل سے متعلق مثبت روایات بھی ان کی کتاب میں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں اگر روایات ہیں تو ان پر تنقید پر مبنی روایتیں بھی ان کی کتاب میں پائی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ طبری محض ایک مورخ تھے اور انہیں جو کچھ ملا، انہوں نے اسے جمع کر دیا اور تحقیق و تفتیش کی ذمہ داری اگلی نسلوں کے سپرد کر دی۔
الجاحظ 159-255 ہجری: جاحظ مورخ سے زیادہ ادیب تھے۔ ہمارے ہاں بھی ایسے مصنفین ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخی ناول لکھے ہیں۔ ناول نگار یا ادیب کا اصل ہدف تاریخی روایات کی تحقیق و تجزیہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو بھی تاریخی واقعہ اسے ملے، وہ اسے نہایت خوبصورت اسلوب میں کہانی کی شکل میں بیان کر دے۔ اس وجہ سے ناولوں اور ادیبانہ تحریروں کو کبھی بھی تاریخ کا مستند ماخذ نہیں سمجھا گیا ہے۔ ہاں ان سے استفادہ ایک عام آدمی کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنے اسلوب کے اعتبار سے ریڈر فرینڈلی کتابیں ہوتی ہیں۔ تاہم جاحظ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتب میں تحقیق کی ہے اور شک اور تنقید کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ علم تاریخ میں انہوں نے علی بن محمد المدائنی (135-225)کی شاگردی اختیار کی اور اس پر بعض کتابیں بھی لکھیں۔ اس کتاب میں ہم نے ان کی کتاب العثمانیہ سے استفادہ کیا ہے۔
ابن عبد الحکم 187-257 ہجری: انہوں نے مصر او رشمالی افریقہ کی تاریخ پر کتابیں لکھیں جو کہ ہماری اس کتاب کے موضوع سے براہ راست متعلق نہیں ہیں۔
ابن ابی الدنیا 208-281 ہجری: یہ ایک بہت بڑے محدث ہیں اور انہوں نے تاریخ پر بھی کتابیں لکھیں۔ ویسے ان کی زیادہ تر کتب کا موضوع تزکیہ نفس ہے۔ ان کی تاریخ سے متعلق کتب ہم تک پہنچ نہیں سکی ہیں۔
خلیفہ بن خیاط 160-240 ہجری: یہ ایک بڑے مورخ ہیں۔ انہوں نے تاریخ پر ایک کتاب لکھی جو تاریخ خلیفہ بن خیاط کے نام سے مشہور ہے۔ غالباً یہ پہلی کتاب ہے جو تاریخی ترتیب کے مطابق لکھی گئی البتہ اسے وہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی جو تاریخ طبری کو حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ غالباً یہ رہی ہے کہ یہ نہایت مختصر کتاب ہے اور موجودہ دور کے محض 450 صفحات میں انہوں نے 232 سال کی تاریخ بیان کر دی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے طبقات کے موضوع پر بھی کتابیں لکھیں جن میں طبقہ در طبقہ لوگوں کے احوال کے ساتھ تاریخ بھی بیان ہوئی ہے۔
ابن ہشام: ابن ہشام کا شمار بڑے مورخین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے محمد بن اسحاق کی لکھی ہوئی سیرت نبوی کی کتاب کا خلاصہ تحریر کیا جو سیرت ابن ہشام کے نام سے مشہور ہے اور اس موضوع پر دستیاب کتابوں میں قدیم ترین ہے۔ ان کی کتاب کا تعلق چونکہ سیرت طیبہ سے ہے، اس وجہ سے ہماری اس کتاب کے موضوع سے یہ براہ راست متعلق نہیں ہے۔
(d. 218/834)
ابو العباس یعقوبی: یہ ایک بڑے تاریخ دان اور جغرافیہ دان تھے جن کی کتاب تاریخ یعقوبی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک شیعہ مورخ تھے۔
(d. 284/897)
عمر بن شبہ 173-262 ہجری: عمر ایک بڑے عالم تھے اور انہوں نے مختلف علوم و فنون پر کتابیں لکھیں۔ تاریخ کے موضوع پر انہوں نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں کتاب الکوفہ، کتاب البصرہ، کتاب امراء المدینہ، کتاب امراء المکہ، کتاب السلطان، کتاب مقتل عثمان، کتاب التاریخ وغیرہ نمایاں ہیں۔ انہوں نے علم تاریخ میں ایک نیا رجحان پیدا کیا اور وہ یہ تھا کہ ہر شہر کی الگ تاریخ لکھی جائے۔ اس میں اس شہر کی مشہور شخصیات کا ذکر ہو۔ ویسے تو یہ رجحان طبقات ابن سعد میں بھی پایا جاتا ہے لیکن عمر بن شبہ کے بعد ہر ہر شہر کی تاریخ پر الگ الگ کتابیں لکھی جانے لگیں۔ ان کی بہت سی کتب اب نایاب ہو چکی ہیں تاہم ان کی بہت سی روایات طبری میں موجود ہیں۔
الامامہ و السیاسۃ کے مصنف: اس کتاب کی نسبت ایک بڑے عالم ابن قتیبہ دینوری کی جانب(213-276) کی جاتی ہے تاہم یہ نسبت درست نہیں ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مصنف غالی شیعہ ہیں جبکہ ابن قتیبہ کے بارے میں یہ بات معلوم و معروف ہے کہ وہ اہل تشیع کے سخت مخالف تھے۔ ان کی الامامۃ و السیاسۃ نامی کسی کتاب کا سراغ کسی اور ماخذ جیسے فہرست ابن الندیم میں نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کتاب کا اسلوب بیان ان کی دیگر کتب سے ملتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ الامامۃ و السیاسۃ کسی شیعہ عالم کی کتاب ہے۔
کیا تیسری صدی ہجری کی لکھی ہوئی کتب تاریخ مستند ہیں؟
اس سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی کیونکہ ان کتب تاریخ میں مستند قابل اعتماد روایات بھی ہیں اور جعلی بھی۔ عام طور پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری میں جو کتب لکھی گئیں، ان میں زیادہ زور اس بات پر تھا کہ روایات کو اکٹھا کر لیا جائے اور انہیں سند کے ساتھ بیان کر دیا جائے تاکہ مستقبل کا کوئی مورخ اس سند کی مدد سے تحقیق کر سکے کہ روایت مستند ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کس درجے میں ہے۔ اگرچہ روایات پر تنقید اور چھان بین کے عمل کا آغاز تیسری صدی ہجری کے نصف سے شروع ہو چکا تھا لیکن تاریخی روایات کی زیادہ چھان بین نہیں کی گئی۔ اس دور کے ناقدین نے اپنی ترجیحات یہ متعین کیں کہ جن روایات میں کوئی دینی مسئلہ ہو، ان کی چھان بین پہلے کر لی جائے۔ تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کا معاملہ کچھ دیر سے شروع ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مورخین نے جعلی روایتوں کو اپنی کتب میں درج ہی کیوں کیا؟ یہ بات ہم جانتے ہیں کہ کوئی مصنف جب کتاب لکھتا ہے تو وہ اپنے زمانے کے لوگوں کی علمی اور ذہنی سطح ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ آج ہم جو کتب لکھ رہے ہیں، ہم زیادہ سے زیادہ اگلے پچاس سو برس کے قارئین کی علمی و ذہنی سطح کو ہی مدنظر رکھ سکتے ہیں۔ سن 2500 یا 3000 کے قارئین کی علمی و ذہنی سطح کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی اس کے مطابق کتاب لکھ سکتے ہیں۔ تیسری صدی کے مورخین نے بھی جب کتب لکھیں تو ان کے پیش نظر ہم لوگ نہیں تھے بلکہ ان کے اپنے دور کے قارئین تھے۔ یہ لوگ پہلی دو صدیوں کے کم از کم مشہور راویوں اور مورخین سے اچھی طرح واقف تھے۔ اگر ان کے سامنے مثلاً واقدی یا ابو مخنف یا ہشام کلبی کی کوئی روایت پیش کی جاتی تو یہ قارئین جانتے تھے کہ ان حضرات کا علمی مقام کیا ہے اور ان کی روایتوں پر کس درجے میں اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے وہ بآسانی یہ معلوم کر لیتے کہ قابل اعتماد روایت کون سی ہے اور ناقابل اعتماد کون سی۔
کتب تاریخ میں مستند اور جعلی روایتوں کے درج ہونے سے متعلق جو بات ہم نے کہی ہے، وہ اپنی جانب سے نہیں کی بلکہ خود ان مورخین نے یہی بات کہی ہے۔ ابن جریر طبری اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
Preface of History
قارئین کتاب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ میں نے جو اخبار و آثار (روایتیں) اس کتاب میں نقل کیے ہیں، اس میں میرا اعتماد انہی روایات پر ہے جنہیں میں نے ذکر کیا ہے اور جن کے ساتھ ان کی سندیں بھی موجود ہیں۔ اس میں وہ حصہ بہت ہی کم ہے جنہیں میں نے عقلی دلائل کے ادراک اور وجدانی استنباط کے بعد ذکر کیا ہے کیونکہ گزشتہ واقعات کی خبروں کا نہ ذاتی طور پر ہمارا مشاہدہ ہے اور نہ وہ زمانہ ہی ہم نے پایا ہے۔ ان کا علم ہمیں صرف ناقلین اور راویوں کی بیان کردہ خبروں ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ عقلی دلائل اور وجدانی استنباط سے۔ پس ہماری کتاب میں جو بعض ایسی روایات ہیں، جنہیں ہم نے پچھلے لوگوں سے نقل کیا ہے، ان کے بارے میں اگر اس کتاب کے پڑھنے یا سننے والے اس بنا کر کوئی برائی یا عجیب پن محسوس کریں کہ اس میں انہیں قابل اعتماد کی کوئی وجہ اور معنی میں کوئی حقیقت نظر نہ آئے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے انہیں خود اپنی طرف سے درج نہیں کیا ہے بلکہ ان کا ماخذ وہ ناقل (نقل کرنے والے) ہیں جنہوں نے وہ روایات ہمیں بیان کیں۔ ہم نے وہ روایات اسی طرح بیان کر دی ہیں جس طرح ہم تک پہنچیں۔[16]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود طبری کا نقطہ نظر یہ نہیں ہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ ان تک جو روایتیں پہنچیں، انہوں نے انہیں آگے نقل کر دیا۔ اب یہ قارئین کا کام ہے کہ وہ ان روایتوں کی سند اور متن کا تجزیہ کر کے ان کی چھان بین کریں۔ موجودہ دور میں تین عرب علماء محمد بن طاہر البرزنجی، محمد صبحی حسن حلاق اور شیخ یحیی ابراہیم یحیی نے پوری کی پوری تاریخ طبری پر تحقیق کر کے اس کی صحیح اور ناقابل اعتماد روایتوں کو الگ کر دیا ہے۔ ان کی کتاب کا نام ہے: صحیح و ضعیف تاریخ الطبری۔ اس کتاب کو 2007 میں دار ابن کثیر، بیروت نے شائع کیا ہے اور اس لنک پر دستیاب ہے۔ ہم نے اس کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے۔
کیا امت کے اہل علم نے دوسری صدی کے مورخین پر اندھا اعتماد کیا ہے؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب طبری اور دیگر مورخین نے ابو مخنف، ہشام کلبی، واقدی اور سیف بن عمر وغیرہ کی روایتیں نقل کی ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ پھر ہم ان پر اعتماد کیوں نہ کریں؟ یہ بات درست نہیں ہے کہ امت کے اہل علم نے دوسری صدی کے مورخین جیسے ابو مخنف، ہشام کلبی، واقدی اور سیف بن عمر پر اندھا اعتماد کیا ہے۔ جیسا کہ آپ طبری کے اقتباس میں دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود بیان کر دیا ہے کہ ان کی حیثیت محض بات کو نقل کرنے والے اور مواد کو مہیا کر دینے والے کی سی ہے۔ انہوں نے ہر روایت کے ساتھ اس کی سند دے دی ہے۔ اب یہ قارئین کا کام ہے کہ وہ چھان بین خود کریں۔
یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے آج کمپیوٹر کے دور میں کوئی ادارہ تمام تاریخی روایات کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کرے۔ اب یہ ادارہ ایسا نہیں کرے گا کہ کتب تاریخ میں کانٹ چھانٹ شروع کر دے بلکہ تمام تاریخی روایات کو، جیسا کہ وہ ہم تک پہنچی ہیں، اس انسائیکلو پیڈیا میں درج کرے گا۔ پھر اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہر ہر روایت پر تبصرہ بھی شامل کتاب کر دیا جائے گا کہ یہ کس درجے میں مستند ہے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس ادارے کے نزدیک یہ تمام روایات قابل اعتماد ہیں۔
[1] شمس الدین الذہبی (673-748/1275-1347)۔ سیر الاعلام النبلا۔ شخصیت نمبر 6894۔ ص 4300۔ عمان: بیت الافکار الدولیہ۔
[2] جمال الدین المزی (654-742/1256-1342)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، راوی نمبر 7057۔ بغداد: موسسہ دار الرسالہ۔
[3] ایضا، راوی نمبر 7999
[4] خطیب بغدادی (392-463/1002-1071)۔ تاریخ مدینۃ السلام (بغداد)۔ باب محمد بن عمر الواقدی، نمبر 1203۔ 4/11۔ بیروت: دار الغرب الاسلامی
[5] خالد کبیر علال۔ مدرسۃ الکذابین فی روایۃ التاریخ الاسلامی و تدوینہ۔ص 65-66۔ الجزائر: دار البلاغ
[6] شمس الدین الذہبی۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال ، راوی نمبر 5927۔ بیروت: دار الکتب العلمیہ۔ www.waqfeya.com ac. 11 Dec 2009
[7] ایضا۔ نمبر6998
[8] ابن حجر عسقلانی (773-852/1372-1448)۔ لسان المیزان ۔ راوی نمبر 6248۔ بیروت: مکتبہ مطبوعات الاسلامیہ۔
[9] قمر بخاری۔ مورخ ابی مخنف پر اک نظر۔
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php?4183-مورخ-ابی-مخنف-پر-ایک-نظر (ac. 19 April 2012)
[10] ذہبی۔ میزان الاعتدال۔ راوی نمبر 7580
[11] ایضا، نمبر 9245
[12] ایضا۔ نمبر 3642
[13] برزنجی و حلاق۔صحیح التاریخ الطبری۔ 3/6۔ دمشق: دار ابن کثیر۔
[14] عسقلانی۔ لسان المیزان۔ خطبۃ الکتاب۔ 1/207۔
[15] قمر بخاری۔ مورخ ابی مخنف پر اک نظر۔ حوالہ بالا۔
[16] طبری۔ مقدمہ۔ 1/17