السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بہت سے لوگ تفریح طبع کے لیے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایک کانٹے پر کیچوا لگا کر دریا میں ڈال دیتے ہیں اور جب اس میں مچھلی پھنستی ہے تو اسے کھینچ لیتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ ظالمانہ نہیں ہے؟
ایک بھائی
فروری 2012
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تھوڑی دیر کے لیے تصور کیجیے کہ آپ مچھلی ہی کھا رہے ہیں اور کھانا کھاتے ہوئے آپ کے حلق میں اس کا ایک کانٹا پھنس جاتا ہے۔ آپ کا سانس الٹ جاتا ہے اور آپ اسے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کانٹا نکل نہیں پاتا۔ آپ کا کوئی دوست ساتھ بیٹھا ہے۔ وہ آپ کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے آپ کے حلق میں دو انگلیاں ڈالتا ہے اور پھر اس کانٹے کو کھینچتا ہے۔ یہ کانٹا حلق کو چھیلتا ہوا باہر آتا ہے۔ آپ کا منہ خون سے بھر جاتا ہے اور شدید تکلیف کے ساتھ جو کچھ کھایا ہوا ہے، وہ ابکائی کے ساتھ باہر آ جاتا ہے اور کھانے کی مرچیں ہمارے زخموں پر لگتی ہیں۔ کیا یہ اذیت ہم میں سے کسی کے لیے قابل قبول ہے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے بھائی یہی معاملہ اس مظلوم مچھلی کے ساتھ کرتے ہیں جو اپنی زبان سے کسی کو کچھ کہہ نہیں سکتی۔ اپنے حلق میں تو ہم مچھلی کا نرم و نازک کانٹا برداشت نہیں کر سکتے ہیں لیکن اس کے حلق میں لوہے کا سخت کانٹا پھنسا کر اسے وحشیوں کی طرح کھینچتے ہیں اور پھر وہ تڑپتی اور ریت پر گھسٹتی ہوئی ہمارے پاس آتی ہے۔
دین اسلام نے ہر جاندار پر ظلم سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یہ ہے۔
حدثني عبدالله بن محمد بن أسماء الضبعي. حدثنا جويرية بن أسماء عن نافع عن عبدالله؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "عذبت امرأة في هرة سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار. لا هي أطعمتها وسقتها، إذ حبستها. ولا هي تركتها تأكل من خشاش الأرض"۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کے سبب سزا دی گئی۔ اس نے اس بلی کو قید کر دیا تھا جس سے وہ موت سے ہمکنار ہوئی۔ اس عورت کو جہنم میں ڈالا گیا۔ اس نے اس بلی کو قید کیا تو نہ اسے کھانا اور پانی دیا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین پر سے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ (مسلم، کتاب السلام، حدیث 2242)
غور فرمائیے کہ روز قیامت وہ مچھلی جب اللہ تعالی کے حضور ہم سے خود پر کیے گئے ظلم کا بدلہ طلب کرے گی تو ہم کیا جواب دیں گے؟
یہ حکم صرف مچھلی یا بلی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے دین میں تمام جانوروں اور پودوں کے حقوق متعین ہیں۔ جانور تو جانور، بلاوجہ پودوں کو کاٹنے کی ممانعت بھی کی گئی ہے۔چونکہ ہم اپنی خوراک انہی سے حاصل کرتے ہیں اور اسی پر ہماری بقا کا انحصار ہے، اس وجہ سے ہمارے لیے یہ تو جائز ہے کہ ہم خوراک کے حصول کے لیے ان جانوروں یا پودوں کو آسان طریقے سے ماریں لیکن یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ ہم انہیں تکلیف دہ اور اذیت ناک موت سے ہمکنار کریں۔ جو لوگ جال لگا کر مچھلیاں پکڑتے ہیں، ان کا معاملہ درست ہے کہ اس میں مچھلی کو کوئی اضافی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک آدھ منٹ میں مر جاتی ہے، لیکن کانٹا لگا کر مچھلی پکڑنا نہایت ہی اذیت ناک طریقہ ہے۔ اسی طرح جانوروں کو ذبح کرتے وقت تیز چھری استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.