ایک خبر

میں بہت تیزی سے اسکوٹر چلا رہا تھا کہ اچانک سامنے ایک بچی آگئی۔ بچاتے بچاتے بھی بچی اسکوٹر سے ٹکرا گئی۔ جب میں نے پاس آکر دیکھا تو بچی کے سر سے خون نکل رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر بچی کو اٹھا یا اور ہسپتال کی طرف بھاگا۔

حجام روانی سے ساتھ یہ قصہ اپنے ساتھی کو سنا رہا تھا  اور میں بھی اس کی باتیں دلچسپی سے سن رہا تھا۔ حجام نے اپنی بات جاری رکھی۔

ہم دونوں بچی کو لے کر ہسپتال میں گئے اور اسے ٹریٹمنٹ دلوائی۔اب مسئلہ یہ تھا کہ بچی کو کس طرح اس کے گھر والوں تک پہنچایا جائے۔چنانچہ میں نے اپنی امی کو فون کرکے بلایا اور اس محلے میں بھیجا جہاں یہ ایکسڈنٹ ہوا تھا ۔میری ماں نے گھر گھر جاکر بچی کے متعلق پوچھا۔بالآخر ایک گھر سے مثبت جواب آیا ۔ اس طرح وہ بچی اپنے ماں باپ تک پہنچادی گئی۔

حجام نے اپنی گفتگو ختم کی۔میں نے اس سے دریافت کیا۔

تم چاہتے تو بھاگ بھی سکتے تھے۔

ہاں۔ کیوں کہ لوگ اکثر مارنے پیٹنے پر اتر آتے ہیں۔ حالانکہ میری غلطی نہیں تھی لیکن پھر بھی لوگ مجھے ہی قصور وار سمجھتے۔ اس رسک کے باوجود میں نہیں بھاگا کیونکہ اس طرح ایک بچی کی جان جاسکتی تھی۔ حجام نے جواب دیا۔

    میں سوچنے لگا کہ اگر یہ خبر کسی اخبار کے رپورٹر کو بتاِئی جائے یا ٹی و ی چینل والوں کو دی جائے تو وہ اس کی اشاعت نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے بنائے ہوئے خبر کے میعار پر پوری نہیں اترتی۔ ان کی خبر کا میعار اکثر منفی   امور کو ہی خبر گردانتا ہے۔ چنانچہ باپ کا اپنی بیٹی کو قتل کردینا، عورت کا اشنا کے ساتھ فرار، بیوی کا شوہر کو ہلاک کرکے اسکا گوشت فرج میں رکھ دینا، قبر ستان کے مالی کا مردہ نعشوں کے ساتھ بد فعلی کرنا، فائرنگ سے ہلاکت، جلاؤ ، گھیراؤ یا ایکسڈنٹ میں مارے جانے کے معاملات کو خبر  گردانا جاتا ہے۔ دوسری طرف کسی انسان کا دوسرے کی مدد کرنا، باپ کا اپنے بچوں کی خاطر دن رات محنت کرنا، کسی کی جان بچادینا وغیرہ خبر نہیں سمجھے جاتے۔ چنانچہ جب ٹی وی اور اخبارات میں قتل و غار ت گری اور چوری ڈکیتی کی خبریں دن و رات نشر ہوتی ہیں تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ اسی  شر کےگرداب میں  پھنسا ہوا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ روزانہ ہزاروں گاڑیاں ایکسڈنٹ سے محفوظ رہتی ہیں، لاکھوں لوگ زندہ  اپنے گھروں   کو لوٹتے ، بے شما  ر افراد لٹنے سے بچ جاتے اور لاتعداد لوگ اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ لیکن میڈیا یہ پہلو سوسائٹی کو دکھانا نہیں چاہتا کیونکہ اس میں سنسنی نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے مثبت پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جائے جو یقینی طور پر زیادہ حاوی اور مؤثر ہے۔

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ میڈیا پر مثبت خبریں کیوں نہیں دی جاتی ہیں؟

۔۔۔۔۔ معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

تعمیر شخصیت لیکچرز اور قرآن مجید کا مطالعہ

ایک خبر
Scroll to top