خدا کے چہیتے کرکٹرز

 مارچ 2011 کو موہالی میں کرکٹ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل  پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا ۔ میچ سے قبل پوری پاکستانی قوم نے خوب دعائیں مانگیں۔ کچھ لوگ اسے کفر و اسلام کا مسئلہ سمجھنے لگے، کچھ یہ دعوٰی کرتے نظر آئے کہ کالی  کے پجاریوں پر ایک تنہا خدا کے ماننے والوں کو فتح یقینی ہے۔ کہیں آیت کریمہ کا ورد ہوا تو کہیں کسی اور صورت میں کامیابی کی  تمنا کی گئی۔لیکن ان تمام  کےباوجود نتیجہ بتوں کو پوجنے والی قوم کے حق میں نکلا اور تنہا خدا کو ماننے والی قوم ہار گئی۔ اس شکست پر کئی سوالات نے جنم لیا۔ کیا خدا ہم سے ناراض ہے؟ کیا ہماری دعائوں میں اثر نہیں؟ کیا خدا کو ہمارے جذبات کا کوئی احساس نہیں؟شکست سے متعلق یہ تجزیہ غلط فہمی اورمفروضات کا نتیجہ ہے۔ان سب باتوں کے درست  جواب کے لئے اللہ کے قوانین کو سمجھنا  ضروری ہے۔

اس دنیا کے قوانین اللہ تعالیٰ نے اسباب و علل کے تحت بنائے ہیں مثال کے طور پر آگ کی تاثیر جلانا ہے ،زہر خوری ہلاکت کا باعث ہے وغیرہ۔ چونکہ یہ اسبا ب خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں لہٰذا وہ لوگوں کو ان قوانین کا پابند بناتا  اور انکی عمومی خلاف  ورزی پر  انہیں سزا دیتا ہے۔البتہ اللہ ان اسباب کا پابند نہیں اور وہ جب چاہے آگ کو گلزار بنادیتا اور زہر خوری کے نتیجے کو روک سکتا ہے۔ لیکن وہ  اختیار کے باوجود عام طور پر ایسا نہیں کرتا اور معاملات کو اسباب و علل کے تحت ہی ہونے دیتا  اور لوگوں کو انکے مطابق عمل کی تاکید کرتا ہے۔

 دوسری جانب دعا اور توکل کی حقیقت یہ ہے کہ  تمام مہیا اسباب اور تدابیر پوری کرلینے کے بعداسی پر بھروسہ کیا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے تاکہ انسانی کوتاہی اور لغزش کو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے مکمل کردیں۔توکل کی ابتدا عمل سے ہوتی ہے بے عملی سے نہیں ۔ اسی فلسفے کی تعلیم  نے ہمیشہ پیغمبروں  نےدی ۔ مثال کے طور پر بدر میں جنگ لڑنے سے  پہلے مشاورت کی گئی، میدان کا جائزہ لیا گیا، صف بندی کی گئی اور پھر ۳۱۳ مجاہدین کے ساتھ تمام ممکنہ اسباب مہیا کرنے کے  بعد یہ دعا کی گئی کہ جو ہم کرسکتے تھے کرلیا ،اب آگے تو سنبھال لے۔اس کے بعد خدا کی نصرت فرشتوں کی صورت میں آپہنچی۔ دوسری جانب جب جنگ احد میں تیر اندازوں کے گروہ نے کمزوری دکھائی تو اس کا نتیجہ وقتی ہزیمت کی صورت میں نمودار ہوا۔ اسی طرح جنگ حنین میں بھی جب کچھ مسلمانوں میں تکبر  آگیا تو صفوں میں ابتری پھیلنے لگی۔یہی صورتحال  حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے دور میں  جنگ جمل اور جنگ صفین کی صورت میں نمودار ہوئی جس کا سبب مسلمانوں کے داخلی انتشار تھا۔

بدقسمتی سے مسلمانوں کی قیادت نسیم حجازی اور اس طرح کے جذباتی ناول نویسوں اور لیڈروں کے ہاتھ آگئی  جنہوں نے پوری قوم کا رشتہ اسباب اور حقیقت کی دنیا سے منقطع کرکے معجزوں اور جھوٹی امیدوں سے جوڑ دیا۔ کبھی انہوں نے بے تیغ لڑنے کی دعوت دی تو کبھی کشتیاں جلانے کو موضوع بنایا۔

کرکٹ میں ہماری شکست ایک بہت ہی معمولی موضوع سہی لیکن ہمارے قومی روئیے کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔ چھ کیچز چھوڑنے  اور خراب   بیٹنگ کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ جیت جائیں۔ بالکل اسی طرح ہم میں سے کچھ جذباتی لوگ کرپشن کے باوجود ترقی کرنا چاہتے،نااہل حکمرانی کے باوجود دنیا پر حکومت کے متمنی  اور تعلیم و اخلاق میں پیچھے ہونے کے علی الرغم دنیا کو اخلاقیات کا درس  دینے پر مصر ہیں ۔

کوئی شخص اگر جانتے بوجھتے زہر کھائے  اور پھر خدا سے دعا کرے تو وہ درحققیت  آزما رہا ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے  زہر میں  زیادہ تاثیر ہے یا اسکی دعا میں۔ اسی طرح کوئی قوم اسباب و علل سے ماورا ہوکر فتح کی خواہش مندہے تو وہ چاہتی ہے کہ خدا میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئےاسے نواز دے۔خود کو خدا کا چہیتا سمجھنا خوش فہمی ہے اور خوش فہمی کی بنیاد پر فتح کی خواہش غلط فہمی۔ (پروفیسر محمد عقیل)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ توکل کے معاملے میں ہم لوگ اکثر کیا غلطی کرتے ہیں؟

۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں کرکٹ کو جنگ کا میدان کیوں بنا دیا جاتا ہے اور اس معاملے میں اللہ تعالی سے یہ توقع کیوں رکھی جاتی ہے کہ وہ ہماری مدد کرے؟  ہم کھیل کو کھیل کیوں نہیں سمجھتے اور اس معاملے میں جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں؟

۔۔۔۔۔ کرکٹ کے میدان میں شکست سے ہمیں عملی زندگی میں  فتح حاصل کرنے کے لیے کیا سبق ملتا ہے؟

تعمیر شخصیت لیکچرز اور قرآن مجید

خدا کے چہیتے کرکٹرز
Scroll to top