دو چہرے ایک رویہ

مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ان کے ایمان، محبت اورعقیدت کا محور ہے۔ ایک مسلمان چاہے کتنا بھی بے عمل کیوں نہ ہو وہ آپ کی محبت اور عقیدت کے معاملے میں بے حد حساس واقع ہوا ہے۔ حضورکی طرح ہی آپ کا لایا ہوا دین، آپ کی دی ہوئی شریعت اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب بھی مسلمانوں کے نزدیک بہت محترم ہے۔

کیا موجودہ دور میں بھی الحاد پایا جاتا ہے؟ الحاد نے مغربی اور مسلم معاشروں کو کس بری طرح متاثر کیا ہے؟ یورپ میں مذہب سے بغاوت کیوں پیدا ہوئی؟ مسلم دنیا میں الحاد کس طرح سرایت کر رہا ہے۔  ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔

حضور کی بے مثل شخصیت اور آپ کی لائی ہوئی آفاقی تعلیمات نے ہر دورمیں انسانوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ لیکن دوسری طرف اعدائے اسلام نے بھی ہر دور میں انہی دو چیزوں کو نشانہ بنا کر نہ صرف اچھے غیر مسلموں کو اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ مسلمانوں کا بھی اسلام پر اعتماد مجروح کرنا چاہا ہے۔

    اسلام کے ان دشمنوں کا طریقہ کار ہمیشہ سے سادہ رہا ہے۔ یہ لوگ کبھی اسلام کے مثبت اور اچھے پہلوؤں کو لوگوں کے سامنے نہیں لاتے بلکہ چن چن کر اسلامی تعلیمات اور سیرت پاک کے ان پہلوؤں کو لوگوں کے سامنے لاتے ہیں جہاں سطحی طور پر دیکھنے میں ایک چیز اخلاقی اور عقلی پیمانوں کے بالکل خلاف نظر آتی ہے۔ حالانکہ جیسے ہی تمام باتوں کو ان کے موقع محل اور حالات میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے، اصل بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔

    ان کا دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ حقائق کی سادہ توجیہ کرنے کے بجائے ایک انتہائی رکیک اور منفی توجیہ کرتے ہیں۔ اسلام کے خلاف اس طرح کی خلاف عدل باتیں وہی لوگ کرتے رہے ہیں جو حق کی دشمنی میں بالکل اندھے ہو جاتے ہیں یا پھر اپنے پیروکاروں کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ انہیں ہر اخلاقی اصول سے بالکل بے نیاز کر دیتا ہے۔ کسی کی دشمنی میں اندھے ہو کر خلاف عدل معاملہ کرنا یا اپنے مفادات کی خاطر اخلاقی اصول کو پامال کر دینا ایک خاص قسم کا منفی کردار ہے۔

    یہ کردار ضروری نہیں کہ کسی دشمن اسلام میں پایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ یہ کردار کسی مسلمان میں بھی موجود ہو۔ چنانچہ قرآن وحدیث میں مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس قسم کے رویے اور کردار سے دور رہیں۔ ہم مثال کے طور پرصرف ایک آیت نقل کر رہے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔

اے ایمان والو! عدل کے علم بردار بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے۔ اورکسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔ اوراللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو بے شک اللہ اس سے باخبر ہے۔(مائدہ5:8 )

بدقسمتی سے مسلمانوں اور خاص کر مذہبی حلقوں میں دین کی [اخلاقی] تعلیم بالکل غیر اہم سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ جب وہ کسی کی دشمنی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو عدل و انصاف کی ہر حد پامال کرجاتے ہیں۔ مخالفین کے بارے میں لکھی ہوئی ان کی تحریریں  کبھی پڑھ لیجیے، اختلاف کرنے والوں  کے بارے میں ان کی تقریریں ذراسن لیں تو اندازہ ہوگا کہ ان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین، کفار و منافقین اور اسلام دشمنوں کے طریقہ واردات میں  کوئی فرق نہیں۔

    جھوٹ، دروغ گوئی، خلاف واقعہ الزام تراشی، بات کو سیاق وسباق سے جدا کر کے پیش کرنا، معاملے کی غلط اور رکیک تاویل کرنا، واقعہ کو موقع محل سے الگ کرکے بیان کرنا، تحقیر و تذلیل پر مبنی اسلوب اختیار کرنا، کفر و ضلالت اور شرک و بددینی کے فتویٰ لگانا، جان، مال اور آبرو کے درپے ہو جانا۔۔۔۔ یہ وہ رویے ہیں جو اسلام دشمن عناصر بھی اختیار کرتے ہیں اور اسلام کے نام پر کھڑے ہوئے لوگوں  کے معمولات میں بھی شامل ہیں ۔

سیاسی غلامی سے اگرچہ کسی قوم کو آزادی مل جائے لیکن اگر انہیں ذہنی طور پر غلام بنا دیا جائے اور احساس کمتری کا شکار کر دیا جائے تو وہ سیاسی آزادی کے باوجود نسل در نسل غلام رہنا قبول کر سکتے ہیں۔ لارڈ میکالے

یہ رویہ اختیارکرنے والے لوگ بظاہر خدا پرستی اور تقویٰ کے لبادے میں خود کو چھپاتے ہیں۔ مگر قرآن کے مطابق یہ لوگ خلاف عدل بات کہہ کر خدا اور تقوی دونوں سے کوسوں دور ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں  کا اس کے سوا کوئی انجام نہیں ہوگا کہ قیامت کے دن خدا کے حضور یہ لوگ مجرموں  کی طرح پیش ہوں  گے اور خدا ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو اسلام  کے دشمنوں کے ساتھ ہوگا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔۔ مذہبی اور غیر مذہبی افراد کسی سے اختلاف رائے کی صورت میں جو رویہ اختیار کرتے ہیں، اس کی ایک مثال اپنی عملی زندگی سے پیش کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔۔ اختلاف رائے کی صورت میں اس قدر برے رویے کی وجہ بیان کیجیے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

علوم الحدیث کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

دو چہرے ایک رویہ
Scroll to top