فرقہ واریت اور گروہی تعصب : کچھ عملی مسائل

فرقہ واریت اور گروہی تعصب کس طرح پیدا کیا جاتا ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے، ہم نے پیچھے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔اب ہم اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ عملی طور پر یہ معاشرے میں کس قسم کا انتشار اور مسائل پیدا کرتا ہے۔

معاشرتی انتشار اور فساد

 تعصبات کا فروغ ہر پہلو سے ایک منفی عمل ہے۔آج معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر جو نفرت اور خلفشار ہے، جومناظرے اور فرقہ واریت عام ہے،مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر بے رحمانہ قتل و غارت کا جو سلسلہ جاری ہے وہ سب اسی کی عطا ہے۔یہی ایک چیز کافی ہے جو اس رویے کے باطل ہونے کا سب سے بڑاثبوت ہے۔تاہم اس پر تفصیلی گفتگو کی اس لیے ضرورت نہیں کہ یہ وہ نقصانات ہیں جو آ ج کھل کر سب لوگوں کے سامنے آچکے ہیں۔ عوام و خواص سب نہ صرف ان مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں کس طرح معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہیں۔

نہ صرف عام لوگ بلکہ مذہبی پس منظر کے لوگوں کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ جن جب بے قابو ہوجاتا ہے تو بات الزام و بہتان اور فتویٰ بازی تک محدود نہیں رہتی۔ وہ زمانہ گزرگیا جب آپ کسی فرقے کے خلاف ایک تقریر کرکے اور اپنے لوگوں سے داد سمیٹ کر واپس گھر لوٹ آتے تھے۔ اب نفرت پھیلانے کے بعد آگ لگ جاتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے۔ یہ خون کسی ایک فریق کا نہیں ہوتا بلکہ تمام گروہ کم یا زیادہ اس کا نشانہ بننے لگتے ہیں۔ نفرت پھیلانے والا جلد یا بدیر خود اس نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے۔اس لیے الحمدللہ تمام مکاتب فکر کے معقول لوگ اور اہل علم اب اس طرف توجہ دلانے لگے ہیں کہ یہ رویہ درست نہیں ہے۔

 باشعور لوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب

تعصب اور فرقہ واریت کا میرے نزدیک ایک اور بہت بڑا نقصان ہے مگر بالعموم لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔یہ مسئلہ ہے پڑھے لکھے اور باشعور مسلمان کا ذہنی اور فکری ارتداد [یعنی ذہنی طور پر اسلام سے دوری] جو اس تعصب، دھڑے بندی اور فرقہ واریت کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے۔میں اسے تفصیل سے سمجھانے کے لیے بطور کیس اسٹڈی ذاتی مثال زیر بحث لارہا ہوں۔ آپ اسے معاشرے کے ایک عام نوجوان ذہن کی داستان سمجھ کر پڑھیے گا۔اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ فرقہ واریت اور تعصب وہ دو دھاری تلوار ہے جو کچھ لوگوں کو غلو، تشدد اورقتل و غارت گری تک لے جاتا ہے تو کچھ اور لوگوں کو خود دین ہی سے برگشتہ کردیتا ہے۔خاص کر وہ باشعور لوگ جو معاشرے پر اثر انداز ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک وضاحت

میں جس داستان کوسنانے جارہا ہوں اس سے قبل یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ اس میں بعض معاصر مکاتب فکر کے بارے میں کچھ سخت تبصرے  ملیں گے۔ لیکن یہ ہرگز ہرگز میرے الفاظ اور میرا نقطہ نظر نہیں بلکہ دل پر جبر کرکے میں نے یہ چیزیں اس لیے نقل کی ہیں کہ یہ بتاسکوں کہ کچھ لوگ جب تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں تو کس طرح ایک دوسرے کے خلاف سخت ترین زبان اختیار کرتے ہیں۔میں ان تمام مکاتب فکر سے محبت کا تعلق رکھتا ہوں۔ میراا پنا ذاتی نقطہ نظر ان سب کے بارے میں یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اصول میں ٹھیک جگہ کھڑے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید اور سنت کی شکل میں جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کو دے کر گئے ہیں اس کی ایک زندہ روایت اِنہی کے ہاں جاری و ساری ہے۔ بدقسمتی سے یہ اہم ترین بات ان لوگوں کے ہاں بہت کم اہم رہ گئی ہے اور ان کے باہمی فروعی اختلافات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اس کی بنیادپر ایک د وسرے کے خلاف سخت الزام و الفاظ کا تبادلہ عام ہے۔

میں نے ان تمام مکاتب فکر اور دیگر اہل علم سے بھی استفادہ کیا ہے اور میں ان کے بارے میں اچھی رائے ہی رکھتا ہوں۔ اس تحریر کا اصل مقصد بھی لوگوں اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ فروعی اختلافات کو چھوڑیں اور جن بنیادی اصولوں پر اتفاق ہے ان کو نمایاں کریں۔کیونکہ یہی مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔

ویسے مجھے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی کیونکہ جو بات میں بیان کرنے جارہا ہوں وہ اپنے پس منظر میں بالکل صاف اور واضح ہے۔ مگر کیا کیجیے اس معاشرے میں بدقسمتی سے ایسی بیمار ذہنیت بھی موجود ہے جو مخالفت پر آمادہ ہوکر کسی بھی بات کا بالکل الٹا مطلب نکالنے میں ماہر ہے۔ اسے ایک مثال سے یوں سمجھیے۔ مشہور مناظر احمد دیدات جنھوں نے ساری زندگی مسیحی مشنری سے مناظرے کرکے اسلام کا دفاع کیا ، ان کے ایک مخالف نے ان پر الزام لگایا کہ وہ درحقیقت مغرب کے ایجنٹ ہیں جو مسیحیت پھیلارہا ہے۔ پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ جواب ملا : ’’کیا احمد دیدات کی ہر تقریر میں بائبل کا حوالہ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر نہیں ہوتا؟ یہی ان کے عیسائی ہونے کا ثبوت ہے۔‘‘

 آپ چاہیں تو اس صورتحال پر ہنسیں یا روئیں یہ آپ کی مرضی ہے مگر یہ مریضانہ سوچ بہرحال ہمارے ہاں موجود ہے جس کے سامنا ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے جوہمارے ہاں اسلام کے دفاع کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔

ایک نوجوان کی داستان

میں بچپن سے گہرے مذہبی رجحانات رکھنے والا شخص ہوں۔میرے گھر کے قریب جو مسجد تھی وہ ایک خاص مکتب فکرکی تھی۔مسجد کے امام صاحب  جلالی طبیعت کے مالک ایک زبردست خطیب تھے جن کی زندگی کا مشن تمام دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے  حضرات کو گستاخ رسول، گمراہ، بددین اور مرتد و زندیق ثابت کرنا تھا۔

کئی برس اس ماحول میں گزارنے کے بعد میری ذہنی ساخت اس درجہ متعصبانہ ہوچکی تھی کہ مجھے دیگر مسالک کے لوگوں سے سخت نفرت ہوچکی تھی۔تاہم میری ایک خوش قسمتی یہ تھی کہ مجھے بچپن ہی سے بے پناہ مطالعے کی عادت تھی۔ مگر چونکہ ہمیں یہی سکھایا جاتا تھا کہ کبھی کسی دوسرے مسلک کے گمراہ اور بددین عالم، گلابی کافراور کالے کافرکی کتاب نہیں پڑھنا، اس لیے زیادہ تر مطالعہ کہانیوں کا تھا۔وہ نہ ملتیں تو اپنے بڑے بھائی بہنوں کی کورس کی کتابیں چاٹ جاتا۔میں جب مڈل اسکول میں تھاتب بھی بی اے تک کی سطح کی مذہبی،تاریخی اور ادبی کتابیں پڑھنا میرا معمول تھا۔خاص کر علامہ اقبال کا تو میں شیدائی تھا اور ان کے کلام کو سمجھنے کے لیے پروفیسر سلیم چشتی اور دیگر اہل علم کی تشریحات خرید کر لاتا اور کلام اقبال کو سمجھ کر پڑھتا۔میں مطالعے کا اتنا عادی تھا کہ کوئی نئی کتاب نہ ملتی تو بیسیوں دفعہ پڑھی ہوئی کتاب پھر پڑھ جاتا۔

میری دوسری خوش قسمتی یہ ہوئی کہ چند برس بعد مذکورہ مولانا  صاحب کسی اور علاقے کی مسجد میں چلے گئے ۔ یوں دوسرے اہل علم کے بارے میں نفرت میں مبتلا کرنے کا ماحول باقی نہ رہا۔حالات نے تیسری مثبت کروٹ یہ لی کہ اسی زمانے میں میں اپنے گھروالوں کے ہمراہ سلسلہ وارثیہ کے ایک صوفی بزرگ سے بیعت ہوگیا۔یوں مذہبی ذوق کا رخ مناظرانہ نفرت کے بجائے اذکار وتسبیحات کی طرف مڑ گیا۔صوفی ویسے بھی عام مذہبی لوگوں کی طرح نفرت نہیں پھیلاتے۔اس لیے دیگر مسالک کے خلاف نفرت کم نہیں ہوئی تو بڑھی بھی نہیں۔

اسی دوران میں بڑے بھائی گھر میں ایک بڑی تفسیر کا سیٹ لے آئے، جس کے مصنف مسالک کے بارے میں غیر جانب دار تھے۔میری چوتھی خوش قسمتی یہ تھی کہ مولانا  صاحب نے کبھی ان مفسر  کوبراہ راست موضوع نہیں بنایا تھااور ان کے خلاف کوئی منفی بات ذہن میں نہیں تھی۔ ورنہ ہمارے ہاں جس طرح نفرت، تعصب اور بائیکاٹ کرنے کا ذہن بنایا جاتا ہے،اس کے بعد ممکن ہی نہیں تھا کہ میں ان مفسر کی کوئی تصنیف پڑھتا۔ بہرحال میں نے اس تفسیر کا مطالعہ شروع کردیا۔یہ ایک انتہائی آسان اور دلچسپ تفسیر ہے جو معلومات کا بھی بے پناہ ذخیر ہ اپنے اندر رکھتی ہے۔

تاہم اس کے مطالعے کے دوران بارہا ایسے مقامات آجاتے جو میرے تعصبات کے خلاف تھے۔ ایسے میں بلامبالغہ دل یہ چاہتا کہ وہ مفسر میرے سامنے آجائیں اور میں ان کی کتاب ان کے سر پر دے ماروں۔ (مجھے اب تو ان خیالات پر بھی ندامت ہے، مگر اس وقت تعصب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہی حال ہوتا تھا،جبکہ آج نوجوانوں کو فریق مخالف کو قتل کرنے پر اکسایا جاتا ہے۔)میں وہ تفسیر بند کرکے میں رکھ دیتا مگرپڑھنے کی عادت اتنی پختہ تھی کہ جب مطالعے کے لیے کچھ اور نہ ملتا مجبوراً دوبارہ اسے کھول کر بیٹھ جاتا اورپڑھتا رہتا۔

کچھ سوالات

یہ کتاب جو قرآن، تفسیر، حدیث ، فقہی اور تاریخی معلومات کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے،آخر کار میرے ذہن میں اپنے نقطہ نظر اور تعصبات کے متعلق کچھ سوالات پیدا کرگئی ۔مزید یہ کہ اس نے دیگر مسالک کے علما کی کچھ اور کتابوں کے مطالعے کا راستہ بھی ہموار کردیا۔ مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ جن بنیادوں پر میں دوسرے لوگوں کو گمراہ سمجھتا تھاوہ سرتاسر غلط تھیں۔یہ غلط فہمیاں تھیں جو پھیلائی گئی تھیں۔

یہ تعصبات تھے جو ذہن میں بٹھائے گئے تھے۔ یہ جھوٹ اور بہتان تھا جس کی گرد نے ہر منظر کو آلودہ کردیا تھا۔پھر دوسرے لوگوں کی میرے اس مسلک، جس سے میں اب تک وابستہ رہا تھا، کے خلاف لکھی گئی کتابیں علم میں آئیں تو پتہ چلا کہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے بھی ان کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا۔  وہی الزام، وہی بہتان،وہی بدنیتی پر مبنی تحریریں اور تقریریں، وہی پورے اعتمادسے بولا گیا جھوٹ اور وہی پورے یقین سے لگائے گئے کفر، شرک ،بدعت اور گمراہی پر مبنی فتوے، وہی بات کو سیاق وسباق سے کاٹنا، وہی الفاظ کے موقع محل کو نظر انداز کرنا، وہی مجموعی شخصیت اور تعلیم کو کونے میں رکھ کر اپنے مطلب کی باتیں نکالنا۔ میں اپنے قارئین سے سچ عرض کرتا ہوں کہ یہ تمام تحریریں ایسی ہیں کہ کسی شخص پر اور مکتب فکر پر آپ کا اعتماد باقی نہیں رہ سکتا۔

خیر اس وقت اِن سب کے ساتھ قرآن مجید کے براہ راست مطالعے نے یہ واضح کرناشروع کردیا تھا کہ جن چھوٹی اور ناقابل تذکرہ باتوں اور چیزوں پر ہمارے ہاں کفر و ضلالت کے فتوے جاری ہوتے ہیں،  وہ قرآن کریم میں سرے سے زیر بحث ہی نہیں آتے۔ حالانکہ لوگوں کا کفر و ایمان ہی قرآن مجید میں سب سے بڑھ کر زیر بحث رہا ہے۔

بہرحال اس پورے مطالعاتی عمل سے یہ دھماکہ خیز سوال پیدا ہوا کہ اگر مذکورہ مولانا  صاحب پورے یقین (ان کے یقین کا عالم یہ تھا کہ دوران خطاب منبر پر تقریر کے دوران میں یہ کہتے تھے کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں وہی قیامت کے دن کہوں گا چاہے مجھے اللہ تعالیٰ جہنم میں پھینک دے)اور اعتمادکے ساتھ گفتگو کرکے اگر غلط رہنمائی کرسکتے ہیں،  تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ دیگر لوگ بھی یقین و اعتماد سے بات کرکے یہی معاملہ نہیں کرسکتے۔یقین سے اپنی بات کو بیان کرنا میرے لیے اتنا بے وقعت ہوچکا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوگیا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ خود قرآن مجید جو کچھ بیان کررہا ہے وہ سب ٹھیک ہے۔

اس آخری بات کا پس منظر یہ تھا کہ میں اس زمانے میں بیسویں صدی کے معروف ملحد اسکالر اور سائنسدان کارل ساگان کے ذریعے سے الحاد،  انکار خدا اور مذہب کے مغربی تصور سے متعارف ہونا شروع ہوچکا تھا۔یہاں ہر جگہ سائنٹفک دلیل کی بات ہوتی تھی جبکہ میں قرآن مجید کا ایک بالکل ابتدائی طالب علم تھا،  جس کا خیال یہی تھا کہ قرآن میں بس یقین واعتماد کے ساتھ ایک ہستی کلام کررہی ہے جسے دلیل سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔

دلائل قرآن

یہاں میں جملہ معترضہ کے طور پر یہ عرض کردوں کہ قرآن مجید بلاشبہ یقین کی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ عالم کے پروردگار کو اسی شان کے ساتھ کلام کرنا چاہیے،مگر ہمارا رب ہمارا معلم بھی ہے۔ اس نے توحید،رسالت اور آخرت کے عقائد کو یقین کی زبان میں بیان کرنے کے ساتھ انتہائی سائنٹفک بنیادوں پر سمجھایا بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے قرآن ہمارے ہاں اس پہلو سے بہت کم زیر بحث آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس بندہ عاجز پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ قرآن مجید کے یہ سائنٹفک دلائل اس نے اپنے فضل سے اس گناہ  گار پرٹھیک اسی وقت واضح کیے تھے جب میں جب زندگی شروع ہوگی کی تصنیف سے فارغ ہوا تھا۔اب میری زندگی کی یہ سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں قرآن مجید کے ان سائنٹفک، منظم، مرتب دلائل جو سرتاسر عقل عام پر مبنی ہیں۔  ایک ڈاکومنٹری کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کروں۔ جس طرح کارل ساگان نے اپنی شہرہ آفاق ڈاکومنٹری کاسموس سے ایک دنیا کو متاثر کیااور خدا کے بغیر کائنات کا تعارف کرایا،  میں خدا کی بنیاد پر کائنات کا وہ تعارف کراسکوں جس طرح قرآن مجید انہیں پیش کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے میں نے اپنی کتابوں کی اشاعت سے ہونے والی آمدنی مختص کردی ہے۔جو میں کرسکتا تھا وہ میں نے کردیا۔ باقی معاملہ اب مالک کائنات کے ہاتھ میں ہے۔و الی اللہ المستعان۔

سب ہی کافر

خیر اس زمانے میں میرا خیال یہی تھا کہ قرآن مجید میں اس نوعیت کے دلائل نہیں پائے جاتے،  جو سائنٹفک بنیادوں پر کوئی مقدمہ ثابت کرسکیں۔مگر متعصبانہ دینی فکر کی اصل خرابی یہ تھی کہ یہاں ہر شخص دوسرے کوخود ساختہ دلائل سے گمراہ ثابت کرنے میں مشغول تھا۔ایک مسلک کے لوگ اگر اپنے نقطہ نظر میں درست نہیں تھے اور تعصب کی بنیاد پر کھڑے تھے تو باقی لوگوں کا معاملہ بھی بالکل یہی تھا۔  وہی الزام، بہتان، کفر و گمراہی کے فتوے۔

ایک فریق کے ہاں مخالف گستاخ رسول تھے تو دوسرے فریق کے لیے یہ مشرک تھے ۔ یہاں سے بددین کی صدا بلند ہوتی تو وہاں سے بدعتی کا نعرہ بلند ہوتا تھا۔یہاں سے کفرو ضلالت کے فتوے جاری ہوتے تووہاں سے ارتداد اور گمراہی کے سرٹیفیکٹ جاری کیے جاتے ۔ ہمارے زمانے میں تو خیر فرقہ وارانہ مخالفت پر مبنی یہ کتابیں بڑی مشکل سے ملتی تھیں اور میرے جیسا کتابی کیڑا ہی ان کو ڈھونڈ کر چاٹ سکتا تھا، مگر اب تو انٹر نیٹ پر بڑی آسانی سے یہ سب دستیاب ہے۔

تمام مسالک اور مکاتب فکر کے ایک دوسرے کے خلاف دیے گئے کفر و گمراہی کے ثبوت آپ جب چاہیں بآسانی ڈھونڈ کر استعمال کرسکتے ہیں۔مسالک اور مکاتب فکر کے بیان سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے علاوہ دیگر تنظیموں، اداروں اور اہل علم کو کفر وضلالت کی اس مہم سے کوئی استثنا حاصل ہے۔ہر وہ عالم یا جماعت،  جو عوام میں مقبول ہوئی،  ان سب کے خلاف لکھا اور بولا گیا ۔ یہ سارا مواد جس میں آپ ان پر لگائی گئی گمراہی اور کفر کے الزامات کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں،  بآسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔

میرے جیسے ایک سادہ طبیعت نوجوان کے لیے دوسروں کو کافر وگمراہ قرار دینے والے لٹریچر کا حاصل مطالعہ یہ تھا، اور آج کے ذہین نوجوانوں کے لیے بھی یہی ہے کہ ان سب نے ایک دوسرے کو توگمراہ ثابت کردیا ہے،اگلا نتیجہ جو خود بخود نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب ہی کافر اور گمراہ ہیں۔ بلکہ مذہب اپنی ذات میں ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ مذہب اہل مذہب کی ایجاد ہے جو اپنے مفادات اور تعصبات کے لیے خدا، رسول اور آخرت جیسے تصورات کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ نتائج فکر ہیں جن تک پہنچتے ہوئے کسی نوجوان کو زیادہ دیر نہیں لگتی ہے۔

تمام مذاہب کا معاملہ یہی ہے

یہ معاملہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام مذاہب کا ہے ۔جیسا کہ غالباً برٹرینڈ رسل نے بیان کیا تھا کہ ایک غیر مسلم راہب اپنا نفس مارنے کے لیے آٹھ سال پتھر سے ٹیک لگاکر کھڑا رہا۔وہ اس ریاضت سے فارغ ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ ایک دوسرا راہب یہ کام دس برس تک کرچکا ہے جس پر وہ غصے سے جھنجھلااٹھا۔ یہی مروجہ مذہبیت کی کل حقیقت مجھے سمجھ آئی کہ ساری دینداری ، ریاضت اور تقویٰ کے بعد بھی جہاں حسد،نفرت،غصہ اور جھنجھلاہٹ ہی ہو وہ مذہب نہیں مذہب کا استعمال ہے۔یہ دین کی خدمت نہیں دوکانداری ہے۔

یہ وہ وقت تھا،  جب میں اپنے شہر کے سب سے بڑے کالج کا طالب علم تھا ۔ میرے گھر والے اور بالخصوص میری والدہ میری غیر معمولی ذہانت اور تعلیمی کامیابیوں کی بنا پر یہ توقع رکھتے تھے کہ میں فنانس یا میڈیکل جیسے کسی شعبے میں اعلیٰ مقام حاصل کروں گا۔ مگرکالج کے یہ سال میں نے بڑے اضطراب میں گزارے ۔ آخر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ سب سے آسان راستہ اس مسئلے کو حل کرنے کا یہ ہے کہ جس ہستی کی وجہ سے یہ سارا مسئلہ پیدا ہورہا ہے،  اس سے براہ راست معاملہ کیا جائے۔قرآن مجید کو ترجمے سے بار بار پڑھنے کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات سے اچھی طرح واقف ہوچکا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ وہ کس اعتماد کے ساتھ کہتا ہے کہ میں سب جانتا ہوں اورمجھے ہر شے کی خبر ہے۔ اگریہ بات درست ہے تو راستہ آسان تھا۔ اس سے بات کرکے دیکھ لی جائے۔ وہ ہوگا تو تھوڑے عرصے میں جواب آجائے گا، نہیں ہوگا تو کہانی ختم۔

نفسیاتی بحران اور نصرت الہی

اس کے بعد میں کم و بیش ایک برس تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہا۔مغرب اور عشا کے درمیان مراقبہ اور اذکار میرا معمول تھے۔دراصل اس پورے فکری عمل میں میں نے عملی عبادات کبھی نہیں چھوڑی ہیں،بے دلی سے سہی مگرانہیں اختیار کیے رکھا۔اذکار کے بعد میں نے آدھے پونے گھنٹے تک دعا کرنا معمول بنالیا۔تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کوئی خواب بھی نہیں آیا۔البتہ یہ ہوا کہ میٹرک میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے والا طالب علم انٹر میں کالج کے ان گنتی کے طالب علموں میں شامل ہوچکا تھا جن کی سیکنڈ ڈویژن آئی تھی۔جس ذہنی اضطراب میں میں تھا اس میں یہ ہونا بھی معجزہ تھا۔ اگلے سال اسی حال میں پرسنٹ ایج بہتر کرنے کی کوشش کی ۔ نتیجہ اور خراب ہوگیا۔ البتہ اس برس گھر والوں کے ساتھ عمرہ کرنے چلا گیا۔سچی بات ہے یہ ایک رسمی عمل تھا۔میری کیفیت غالب کے الفاظ میں یہ تھی۔

بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بے کسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیں

لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم

دُردِ یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا وچہ دیں

(مناظر دنیا میں نہ عبرت رہی نہ ذوق کی تسکین ملی، خواہشات دنیا کی پوری ہوئیں نہ دین کی۔علم و دانش ہو یا عبادت سب لایعنی ہوچکے ہیں اور دین و دنیاغفلت کے پیالے کی تہہ میں بیٹھی بیکار کیچڑ بن چکے ہیں۔)

یہ دو تین برس بظاہر بے عملی، ناکامیوں اور شکستوں کے سال تھے، مگر زندگی کی تبدیلی کے برس بھی یہی تھے۔کیونکہ اللہ کو پکارنا کبھی بے کار نہیں جاتا۔ خواب دکھانا ان کا اصل طریقہ نہیں بلکہ وہ راستے ہموار کردیتے ہیں۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔اس دورمیں میرا سارا مطالعہ ختم ہو گیا اور میری توجہ صرف اور صرف قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف ہوگئی۔ نجانے کس طرح میرا دل اس طرف آگیا حالانکہ پہلے یہ مجھے ایک بالکل بورنگ کام لگتا تھا۔

پہلے میں تفسیر پڑھتا تھااور ترجمہ قرآن کو سرسری طور پر دیکھتا تھا۔ مگر اب تفسیر کو چھوڑ کر میں نے قرآن کریم کے اصل الفاظ کو سمجھ کرگہرا مطالعہ شروع کردیا تھا۔اس طریقے سے فائدہ یہ ہوا کہ مجھ پر قرآن مجید کی بنیادی دعوت بالکل واضح ہوگئی۔ یہ دعوت توحید، رسالت اور  آخرت کی دعوت اور اعلیٰ اخلاقی رویوں کو اختیار کرنے کی دعوت تھی۔یہ وہ دعوت تھی جو ہماری متعصبانہ اور فرقہ وارانہ فکر میں سرے سے غائب ہے۔ اسی طرح یہ بات سامنے آئی کہ الحاد و انکار خدا کے علمبردار بڑے اہل علم جیسے برٹینڈ رسل وغیرہ کا اصل اعتراض اس دعوت پر نہیں بلکہ اہل مذہب کے پیش کردہ تصور مذہب پر تھا۔عقائد پر ان کا جو اعتراض تھا وہ نامکمل علم اور اپنے مخصوص مذہبی پس منظر کی بنا پر تھا۔

مثلاً وہ نفس مذہب اور وجود باری تعالیٰ کے منکر تھے مگراس کی اصل وجہ برٹینڈ رسل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب کے مقدمے میں اس طرح بیان کی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علیم و قدیر اور خدائے مہربان یہ وسیع و عریض کائنات اربوں برس پر مشتمل مراحل سے گزار کر اس لیے تخلیق کرے کہ آخر کار یہاں ہٹلر، اسٹالن اور ہائیڈروجن بم جیسی چیزیں ظہور پذیر ہوں۔ رسل کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں۔

There is to me something a little odd about the ethical valuations of those who think that an omnipotent, omniscient, and benevolent Deity, after preparing the ground by many millions of years of lifeless nebulae, would consider Himself adequately rewarded by the final emergence of Hitler and Stalin and the H-bomb. (Why I am not a Christian?)

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں۔

I am firmly convinced that religions do harm as I am that they are untrue.

میں پوری طرح اس بات پر قائل ہوں کہ مذاہب جھوٹے ہونے کے ساتھ نقصان دہ بھی ہیں۔

اگر قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیا جائے اور سامنے صرف وہ مذہبی فکر رکھی جائے جو رسل کے سامنے تھی یا پھر جس کاذکر میں اس مضمون میں کررہا ہوں تو رسل کا اعتراض اور نتائج فکر سو فیصد درست ہیں۔تاہم خوش قسمتی سے ختم نبوت کے بعد قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اس کا ترجمہ پڑھ کر بھی ایک عام انسان اس کی بنیادی دعوت سمجھ سکتا ہے جو اس اعتراض کی کمزوری واضح کردیتی ہے۔ یعنی یہ اعتراض مروجہ مذہبی فکر اور مذاہب کے علم برداروں پر درست ہے، قرآن مجید پر نہیں۔ قرآن مجید واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اصل اہمیت آخرت کی ہے دنیا کی نہیں اور وہاں کامیابی ان لوگوں کو ملے گی جو اعلیٰ اخلاقی رویوں پر قائم رہے۔

حق کی تلاش

خیر خلاصہ یہ کہ میں سمجھ چکا تھا کہ قرآن مجید کی دعوت پر وہ اعتراض بنتا نہیں جوملحدین اٹھارہے ہیں۔ یوں وجود باری تعالیٰ پر میرافکری اعتماد بحال ہوگیا۔ مگر ایک دوسرا پہاڑ اب سامنے آچکا تھا۔کیا اس سفر کو آدھا چھوڑ دیا جائے یا پھر سچائی کی دریافت کے اس سفر کو آخری منزل تک پہنچایا جائے۔اللہ ہے لیکن وہ عملی طور پر کس گروہ کے ہاں پایا جاتا ہے۔ کس کی بات سچی ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی بھی حق پر نہ ہو۔یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے میرے راستے خود متعین کردیے۔میں نے بطور کیرئیر جن چیزوں کو اختیار کرنے کا سوچا تھا، انٹر میڈیٹ کی ناکامی کے بعد ان کے لیے ضروری تعلیم کا حصول اب کم نمبروں کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تھا۔میں نے کوئی اور فیلڈ اختیار کرنے کے بجائے علوم اسلامی کی باقاعدہ تحصیل کا فیصلہ کیا۔

ہدایت اگر مقصود تھی تو اس کے لیے جدو جہد ضروری تھی۔ اس کا سبب قرآن مجید کا وہ ارشاد تھا کہ ہدایت کی ذمہ داری ان لوگوں کے لیے لی گئی ہے جو جدوجہد کے لیے تیار ہوتے ہیں۔[1] اسی طرح قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بھی واضح تھا کہ کفار مکہ اور یہود ونصاریٰ کی طرح تعصبات ، آباءو اجداد کے دین اور پرانی وابستگی سے چمٹے رہنے سے بھی اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتے بلکہ بارہا انسان اپنے نفس کی تاریکی کو اجالا سمجھ کر دھوکہ کھاجاتا ہے۔چنانچہ اس عزم کے ساتھ میں نے رسمی تعلیم اور کیرئیر کوچھوڑ کرباقاعدہ دینی علوم سیکھنے شروع کیے کہ سچائی جس جگہ نظرآئی اور میرے نظریات کے چاہے جتنا بھی خلاف ہو، اسے میں بلا تعصب قبول کرلوں گا۔ خوش قسمتی سے ایک ایسے تعلیمی ماحول میں میں نے علوم اسلامی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں حوصلہ افزائی کرنےو الے اور اختلاف رائے کی اجازت دینے والے اساتذہ تھے۔ ساتھ ہی علمی کتب کا ایسا ذخیر ہ یہاں موجود تھا جس میں نہ صرف اسلاف بلکہ برصغیر کے تمام نمایاں علمی روایات اور بڑے اہل علم کی کتابیں شامل تھیں۔

یہاں سے ایک دوسری جدو جہد شرو ع ہوئی ۔مگر اس دفعہ پاؤں  میں تعصب کی زنجیریں نہ تھیں اور شوق کا زاد راہ ہمراہ تھا۔ابتدا میں تمام الہامی مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور مسیحیت اوراہم غیر الہامی مذاہب یعنی ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کا مطالعہ کیا۔ پوری دیانت داری اور علمی طور پر یہ سمجھنا چاہا کہ ان تمام مذاہب اور اسلام میں کیا پہلو مختلف ہیں اور کون سے معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔وہ کیا پہلو ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ایک مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ کس طرح آپ کی لائی ہوئی ہدایت دوسرے انبیا کے مقابلے میں قیامت تک کے لیے فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکی ہے۔

خلاصہ فکر

اس کے بعد میں نے مسلم فرقوں اور مسالک کا مطالعہ کیا۔میں نے بلا تعصب ہر بڑے عالم کو سنا اور پڑھا۔ جس سے براہ راست استفادہ کرنا ممکن تھا، استفادہ کیا۔ ان کے دلائل سمجھے۔ قرآن کی کسوٹی پر انہیں پرکھا۔لوگوں کے رویے کو سیرت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینے میں جانچا۔جو اس کسوٹی پر پورا اترا اسے ہر پسند و خواہش کے برخلاف بھی قبول کیا۔اور جواس کسوٹی پر پورا نہ اترااسے دل و دماغ سے کھرچ کر پھینک دیا۔ا س سفر میں آج تک اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر قدم پر دستگیر ی کی ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔مگراس کی تفصیل چونکہ اصل موضوع سے متعلق نہیں اس لیے اسے چھوڑ رہا ہوں۔

تاہم اس سفر کے نتائج فکر اس طرح بیان کروں گاکہ میں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سچائی باقی رکھنے کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ اصل حفاظت قرآن اور دین کے عملی ڈھانچے یعنی سنت کی ہے۔ ان دونوں کو اس نے مسلمانوں کی اکثریت جو مسلمانوں کا مین اسٹریم بھی ہے اس میں اس طرح جاری کردیاہے کہ اصل دین ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔یہ مین اسٹریم کسی ایک خاص مکتب فکر میں نہیں ہے بلکہ ان تمام کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ان کے تمام تر فروعی اختلافات کے باوجود اصل دین اعتقادات اور عمل کی سطح پر الحمدللہ سب جگہ متفقہ طور پر موجود ہے۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سبھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالی ایک ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں اور سبھی آخرت میں اللہ تعالی کے حضور جواب دہی پر یقین رکھتے ہیں۔ سبھی مانتے ہیں کہ تکبر، حسد، تعصب اور بددیانتی بڑے جرم ہیں اور سبھی مانتے ہیں کہ اخلاص، توبہ، انابت، صبر، شکر، عجز و انکسار بڑی نیکیاں ہیں۔ سبھی نماز، روزہ، حج، زکوۃ، نکاح، طلاق، معیشت، سیاست، معاشرت سے متعلق دین کی بنیادی باتوں پر متفق ہیں۔

 اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے د وسرا اہتمام یہ کیا ہے کہ وہ مسلسل ایسے اہل علم پیدا کرتارہتا ہے جو اس اصل دین کی شرح و وضاحت بھی کرتے رہتے ہیں اور کوئی گمراہی اور بدعت در آنے کی کوشش کرے تو بڑے سلیقے اور واضح دلائل کے ساتھ اس کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اصل ماخذ محفوظ ہیں اس لیے وہ اکثر اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر کوئی افراط و تفریط پیدا ہوتو کوئی اور عالم تصحیح کردیتا ہے۔ اس اہتمام کے نتیجے میں عملی انحراف پیدا بھی ہوجائے تو وہ کبھی مسلمانوں کا اجتماعی عمل نہیں بن پاتا۔

مسلمانوں کے تمام اہل علم کا احترام کرنا بھی یہیں سے میں نے سیکھا۔کیونکہ اب میں یہ سمجھ سکتا تھا کہ کسی کو غلطی لگی ہے تو کہاں سے لگی ہے۔ اسی احترام کی بنا پر کم و بیش ہر مسلک اور ہر فکر کے عالم سے بلا تعصب میں نے استفادہ کیا اور کبھی کسی تعصب کو حصول علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنایا۔ میں اگر ان اہل علم کے نام لکھوں جن سے میں نے استفادہ کیا ہے تو لوگ حیران رہ جائیں گے کہ جس دور میں لوگ صرف ایک عالم اور ایک فرقے کے اسیر ہوتے ہیں کوئی شخص اس قدرمتضاد خیالات کے اہل علم سے بیک وقت کیسے استفادہ کرسکتا ہے۔

 یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص مولانا احمد رضا خان بریلوی سے بھی عقیدت و محبت رکھتا ہو اور اس شخصیت یعنی مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی کسب فیض کیا ہو جن پرمولانا رضا نے باقاعدہ کفر کا فتویٰ دیا ۔ایک شخص مولانا مودودی سے بھی دین سیکھتا ہو اور ان کے سب سے بڑے ناقد مولانا وحید الدین خان کا بھی معترف ہو۔ڈاکٹر اسرار کی نشستوں میں بھی برسوں بیٹھ کر قرآن کریم سمجھا ہو اور علامہ جاوید احمد غامدی سے بھی استفادہ کیا ہو، اہل تصوف سے وابستگی بھی جس کی اٹھان کا حصہ ہو اور ان کے بدترین ناقد اہل حدیث افکار بھی اس کے علم کا حصہ ہوں، اہل تشیع کے تصورات کو بھی جس نے تحمل سے سمجھا اور اہل سنت کے نقطہ نظرسے بھی واقف ہو،جدید دور کے اہل علم کے کام سے بھی واقف ہو اور اسلاف کی علمی روایت کی بھی جسے خبر ہو۔الحاد کے علمبرداروں کے اعتراضات کو بھی جو براہ راست سمجھتا ہو اور مذہب کے استدلال سے بھی بخوبی واقف ہو۔

یہ ہمہ گیر استفادہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب دل سے نفرت اور تعصب ختم ہوگیا۔نفرت اور تعصب کے ساتھ انسان صرف کنویں کا مینڈک بن جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں لاوا پکتا ہے اور زبان سے زہر اگلتا ہے۔قلم میں سیاہی کی جگہ پوٹاشیم سائنائڈ بھر جاتا ہے اور دل غضب کے شعلوں کا الاؤ  بھڑکاتا ہے۔یوں نفرت کا مریض صرف نفرت تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی انسان کو وسعت اور تحمل دیتی ہے۔ دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور یہی محبت انسان دوسروں میں تقسیم کرتا ہے۔یوں محبت کا درد رکھنے والے صرف محبت تقسیم کرتے ہیں جبکہ نفرت اور تعصب کی گود میں پلنے والے صرف نفرت تقسیم کرسکتے ہیں۔

نفرت اور تعصب کا نتیجہ

 اس طول بیانی سے میرا اصل مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی فرقہ وارانہ اختلاف اور تعصبات پرمبنی دینداری کس طرح نوجوانوں میں یا تو نفرت اور انتہا پسندی پیدا کرتی ہے یا پھران کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔خاص کر انٹرنیٹ اور کیبل کے اس دور میں جب اسلام کے خلاف ہر طرح کا مواد انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب ہے یہ عمل کتنا تیز ہوچکا ہوگا۔ میرے پاس بہت سے نوجوان یہی مسائل اور الجھنیں لے کر آتے ہیں لیکن پروردگارکی عنایت سے میں اب اس قابل ہوں کہ ہر سوال کا جواب دے سکوں۔ لیکن جو لوگ تعصبات پر مبنی دینداری اختیار کرتے ہیں درحقیقت آج بھی وہ جانے انجانے میں باشعورلوگوں کو دین سے دور کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور برٹینڈ رسل یا موجودہ دور میں رچرڈ ڈاکنز جیسے ملحدین کی سچائی کا زندہ ثبوت بن کر مذہب کا کفن بُن رہے ہیں۔

(ابو یحیی، www.inzaar.org )

نوٹ: مصنف کی تحریر میں ان کی اجازت سے کچھ تصرفات کیے گئے ہیں۔ اپنے سوالات کا آپ ای میل کر دیجیے۔

mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ مصنف کی تحریر سے قطع نظر یہ بتائیے کہ مختلف مسالک کے لوگوں میں پائی جانے والی نفرت کے اسباب آپ کے اپنے خیال میں کیا ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ ان تعصبات اور نفرتوں کو کس طرح سے دور کیا جا سکتا ہے؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

فرقہ واریت اور گروہی تعصب : کچھ عملی مسائل
Scroll to top