حسد

اس تحریر کا مقصد

اس مضمون کے مطالعے بعد آپ جان لیں گے کہ۔

۔۔۔۔۔ کس فعل کو حسدکہتے ہیں اور کونسا   عمل حسد نہیں ہے؟

۔۔۔۔۔ حسد اور رشک میں کیا فرق ہے؟

۔۔۔۔۔ حسد کن وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے؟

۔۔۔۔۔ حسد سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟

قرآن کی آیت

اور(میں پناہ مانگتا ہوں رب کی) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔( الفلق 5:113)

احادیث

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر  حسد نہ کرنے لگو ۔ ( صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1218)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ تعالی بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (قطع تعلق کرے) ۔(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1003)

ضمرہ بن ثعلبہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہ  لوگ ہمیشہ  بھلائی  سے رہیں گے جب تک وہ حسد سے  بچتے رہیں گے۔(طبرانی فی الکبیر 7157)

کیس اسٹڈی

رابعہ ، عقیلہ  اور حسینہ تین بہنیں تھیں۔ان میں حسینہ سب سے خوبصورت تھی۔ رابعہ اور عقیلہ اپنی واجبی شکل و صورت کی بنا پر   حسینہ کے حسن کا زیادہ اثر لیتی تھیں۔لیکن  عقیلہ واجبی  صورت ہونے کے باوجود انتہائی ذہین اور معاملہ فہم تھی۔ وہ اکثر تعلیم کے میدان میں پوزیشن لے کر آتی تھی۔ سب سے بڑی بہن رابعہ ان دونوں خصوصیات سے تو محروم تھی لیکن وہ خدا پرستی  اور دین داری جیسی صفات سے مزین تھی۔ اسے اپنی ان کمیوں کا احساس تو ستاتا  اور کبھی کبھی د  ل وحشت زدہ بھی ہوجاتالیکن وہ اس احساس کو دباکر صبر کی کوشش کرتی۔دوسری جانب حسینہ  اپنی بہن عقیلہ سے کی ذہانت سے  متاثر  تھی اور چاہتی تھی کہ وہ بھی اس کی طرح ذہین ہوجائے۔ اس کے لئے وہ بادام کھاتی اور حافظے کو بہتر بنانے کی ترکیب اختیار کرتی۔  جبکہ عقیلہ حسینہ کے حسن سے متاثر تھی۔ وہ نہ صرف خود حسین ہونا چاہتی بلکہ یہ بھی خواہش رکھتی تھی کہ حسینہ اپنے حسن سے محروم ہوجائے۔  اس کے لئے وہ حسینہ کے بیوٹی باکس  کی چیزیں غائب کردیتی تو کبھی اس پر جملے کس کے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتی۔

سوالات

۔۔۔۔۔ کیا رابعہ کا اپنی بہنوں کی خوبیوں پر احساس کمتری محسوس ہونا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ حسینہ کا اپنی بہن عقیلہ کی ذہانت سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا کیا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ کونسی بہن حسد میں مبتلا تھی اور کیوں؟

ان سوالات کے جواب آپ اس مضمون کے مطالعے کے بعد دیجئے۔

وضاحت

ہر اخلاقی برائی نقصان دہ ہے ۔ کبھی یہ نقصان دنیاہی میں نظر آجاتا اور کبھی آخرت تک موقوف ہو جاتا ہے۔ حسد  یا جلن ایک ایسی ہی بیماری ہے جس کا شکار دنیا ہی میں نفسیاتی اذیت اٹھاتا اور دل ہی دل میں گھٹ کر مختلف ذہنی و جسمانی امراض میں مبتلاء ہو جاتا ہے۔یعنی حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے کیونکہ وہ اس باؤلے پن میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو آگ۔ لہٰذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے اس بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔

حسد کی نوعیت

 حسد کے لغوی معنی کسی دوسرے شخص کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان کے درپے ہونا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کے بھائی کے پاس کار آگئی ہے تو وہ آرزو کرتا ہے کہ کاش یہ کار اس سے چھن جائے، اس کی کار کو کوئی نقصان پہنچ جائے تاکہ اس  کی راحت میں اضافہ ہو ۔

حسد کے لوازمات

حسد ثابت ہونے کو لئے مندرجہ ذیل لوازمات کا پورا ہونا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔ کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس ہو نا اور ناخوش ہونا

۔۔۔۔۔ اس کے نقصان کی تمنا کرنا یا نقصان ہوجانے پر خوش ہونا

حسد کا ٹیسٹ

پہلے مرحلے میں یہ معلوم کریں کہ آپ حسد کا شکار ہیں یا نہیں۔اس کا ٹیسٹ یہ ہے کہ اگر آپ کو دوسروں کی تکلیف پر خوشی اور ان کی کامیابی پر دکھ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی  آپ اس کے نقصان کے متمنی اور اس کی نعمت چھننے کے منتظر ہیں تو آپ حسد میں مبتلا ہیں۔

حسد اور رشک میں فرق

حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چھننے کی خواہش کرنا ہے۔ جبکہ رشک میں کسی شخص کی خوبی سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے لیکن رشک میں وہ نعمت محسود  (جس سے حسد کیا جائے)سے چھن جانے  یا اس نعمت کو  نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ چنانچہ حسد ایک منفی جبکہ رشک  ایک مثبت جذبہ ہے۔

حسد کیا نہیں ہے؟

ایک جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات بھی سمجھ لیں کہ محض کسی کی کوئی چیز (مکان ، کپڑے وغیرہ) کا اچھا لگنا حسد نہیں۔مزید یہ کہ اس شے کوجائز حدود میں حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی بذاتِ خود برا عمل نہیں بلکہ اس سے مقابلے کی فضا پروان چڑ ھتی اور ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔اسی طرح وہ وسوسے بھی حسد کے زمرے میں نہیں آتے جو اچانک غیر ارادی طور پر آپ کے دل میں آجائیں البتہ ان خیالات کو پختہ ارادے کے ساتھ پروان چڑھانا قابلِ مذمت  ہے۔

 حسد (رشک) کب مستحسن ہے؟

ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حسد (رشک )صرف دو چیزوں پر جائز (مستحسن )ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالی نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1324)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، حسد (رشک) صرف دو شخصوں پر (مستحسن) ہے، ایک اس شخص پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہے اور وہ اسے دن رات پڑھتا ہے اور اس کا پڑوسی اسے سن کر کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی طرح پڑھنا نصیب ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا، دوسرے اس شخص پر جسے اللہ تعالی نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے، پھر کوئی اس پر رشک کرتے ہوئے کہے ہے کہ کاش مجھے بھی یہ مال میسرآتا تو میں بھی اسے اسی طرح صرف کرتا۔( صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 18)

اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی امور میں رشک کرنا ایک مستحسن عمل ہے کیونکہ اس سے دینی میدان میں ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ لیکن دنیاوی میدان میں بھی رشک کرنا کوئی ممنوع عمل نہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم دوسرے اسٹوڈینٹ کے اچھے نمبر دیکھ کر  رشک کرتا اور جائز حدود میں رہتے ہوئےاس سے زیادہ  نمبر لانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بھی ایک مستحسن عمل ہے۔

حسد کی مختلف شکلیں

ہماری سوسائٹی میں حسد عام طور پر مندرجہ ذیل صورتوں میں پایا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔ کسی  کی اچھی  چیزوں   سے جلناجن میں اچھے کپڑے ،  زیورات ، مکان، موبائل، کار اور دیگر سامان تعیش وغیرہ شامل ہیں

۔۔۔۔۔ کسی کے ظاہری اوصاف سے حسد جس میں اچھی شکل و صورت ، وجاہت  یاشخصیت کےظاہری خدوخال شامل ہیں

۔۔۔۔۔ کسی کی باطنی  خصوصیات سے حسد جن میں خوش اخلاقی، ملنساری، ہر دلعزیزی ، دینداری و عبادت گذاری شامل ہیں

۔۔۔۔۔ کسی کی مالی ترقی سے جلن جیسے کاروبار کی ترقی، اعلیٰ تعلیم یا  اچھی ملازمت  وغیرہ

۔۔۔۔۔ کسی کی اولا د بالخصوص اولادِ نرینہ سے حسد یا اولاد کی ترقی پر جلن

۔۔۔۔۔ کسی کی شہرت ،عزت، قابلیت یا عہدے سے حسد

۔۔۔۔۔ کسی کی صحت  ، تندرستی ، اطمینان، خوشی اور راحت سے حسد اور جلن

۔۔۔۔۔ اجتماعی معاملات میں ترقی یافتہ قوموں اور ممالک سے جلنا اور ان کی تباہی کی امید کرنا

۔۔۔۔۔ اسکے علاوہ بھی حسد کرنے کی لامحدود صورتیں ہیں جو ایک حاسد اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔

حسد کے نقصانات

حسد کے بے شمار دنیاوی اور اخروی نقصانات ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

۔۔۔۔۔ حسد نفرت کی آگ میں جلاتا ہے۔

۔۔۔۔۔ حسد کئی  نفسیاتی امراض کا باعث ہے جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری، چڑچڑا پن وغیرہ

۔۔۔۔۔ حسد دشمنی  اور دشمنی فساد کی جانب لے جاسکتی ہے جس سے  گھر اورمعاشرے میں فساد پھیل سکتا ہے

۔۔۔۔۔ حسد دیگر اخلاقی گناہوں کا سبب بنتا ہے جن میں غیبت، بہتان، تجسس اور جھوٹ شامل ہیں

۔۔۔۔۔ حسد آخرت میں اللہ کی ناراضگی کا موجب ہے

حسد کے اسباب اور ان کا تدارک

حسد کرنے کے عام طور پر مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔ محرومی یا احساسِ کمتری۔ خدا کے فلسفہ آزمائش سے لا علمی۔ نفرت و کینہ

۔۔۔۔۔ غرورو تکبر۔ منفی سوچ۔ دیگر اسباب

اب ہم انہیں الگ الگ بیان کرتے ہیں۔

محرومی یا احساسِ کمتری

 حسد کا بنیادی سبب تو یہی ہے کہ حاسد اس نعمت سے محروم ہے جو دوسرے کو مل گئی ہے(لیکن کبھی کبھی نعمت کی موجودگی میں بھی حسد ہوجاتا ہے)۔ مثال کے طور پر جب ایک بس کا مسافر ائیر کنڈیشن کار میں بیٹھے لوگوں کو دیکھتا ہے تو فطری طور پر اسے اپنی محرومی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اس احساس کا ہونا غیر اختیاری ہے لیکن کا ر والوں کی برائی چاہنا اختیاری اور گناہ کا عمل ہے۔

 اس کا علاج یہ ہے کہ حتی الامکان ان لوگوں کے بارے میں سوچنے سے گریز کریں جو آپ سے کسی معاملے میں بہتر پوزیشن میں ہیں اور اگر کوئی خیال آجائے تو اپنے سے نیچے کے لوگوں پر تفکر کریں ۔نیچے والوں پر غور کرنے کا مطلب یہ نہیں  مال و دولت کے لحاظ سے ہی موازنہ کیا جائے۔ اس میں صحت، تندرستی، ذہنی سکون اور دیگر معیارات پر بھی  موازنہ کی جاسکتا ہے۔ دوسرا تدارک یہ ہے کہ جب تک پختگی نہ آجائے اس وقت تک زیادہ وقت ان لوگوں میں گذاریں جو آپ جیسے ہیں۔ مزید یہ کہ خدا کی آزمائش کی اسکیم پر غور کریں جسکا بیان آگے آرہا ہے۔

خدا کے فلسفہ آزمائش سے لا علمی

فلسفہ آزمائش سے لا علمی اور دنیاوی نعمتوں کو دائمی سمجھ لینا بھی حسد کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اللہ نے جو شکل وصورت ،دولت ، گاڑی، مکان ،اولاد اور دیگر سامانِ زندگی عطا کیا ہے یا عطا نہیں کیا ہے،  اس کی بنیادی وجہ آزمائش ہے۔ وہ کسی کو نعمتیں دے کر آزماتا ہے اور کسی سے  نعمتیں لے کر۔ اللہ کے نزدیک ا س دنیاوی سازو سامان کی حیثیت ایک مردہ بکری کے بچے سے بھی کم ہے۔ ایک حاسد شخص ان نعمتوں کو حقیقی اور مقصود سمجھ کر ان کے حصول کو کامیابی اور ان سے محرومی کو ناکامی گردانتا ہے۔ وہ دنیا کی محبت اور حرص میں پاگل ہو جاتا اور دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر جل اٹھتا ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو حسد کرنے والے کا معترض ہونا بالواسطہ طور پر خدا کی تقسیم اور اس کی حکمت پر اعتراض کرنا ہے۔ لیکن یہ حاسد شخص حسد کی آگ میں جلتے جلتے خدا کی مخالفت بھی گوارا کرلیتا ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ خدا کی آزمائشی اسکیم کو سمجھا جائے، دنیا کی حرص و محبت کو کم کیا جائے اور خدا کی حکمت اور تقسیم پر ہر حال میں راضی رہا جائے کیونکہ یہاں کا ملنا ملنا نہیں اور یہاں کی محرومی محرومی نہیں۔

نفرت و کینہ

 کسی کے خلاف نفرت بھی آپ کو مجبور کرسکتی ہے کہ آپ اس شخص کے نقصان کے متمنی ہوں۔حسد نفرت کو اور نفرت حسد کو جنم دے سکتی ہے۔چو نکہ اس حسد کی بنیادی وجہ نفرت اور کینہ ہے لہٰذانفرت کے اسباب اور اس کے تدارک کا علاج کیجئے جب نفرت ختم ہو جائے گی تو اس کی بنا پر پیدا ہونے والا حسد خود بخود دور ہو جائے گا۔

غرور و تکبر

بعض اوقات غرور اور تکبر بھی حسد کا سبب ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت اور کامیابی پر ان کی اجارہ داری اور ان کا حق ہے ۔اس سے نمٹنے کے لئے تکبر سے نجات ضروری ہے کہ استکبار صرف اللہ ہی کو زیبا ہے اور انسان کا تکبر اسے جہنم میں لے جاسکتا اور جنت کی ابدی نعمتوں سے محروم کرسکتا ہے۔لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ دنیا وی نعمتوں  کو اللہ کی جانب سے ایک عطا تصور کیا جائے اور ان پر اپنا تسلط جمانے سے بریز کیا جائے ۔ مزید یہ کہ تمام خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے وہ جس کو چاہے اور جس طرح چاہے نوازے۔ اس   تقسیم پر کسی قسم کا اعتراض براہِ راست خدا کی حکمت پر اعتراض کے مترادف  ہوسکتا ہے۔

منفی سوچ

کچھ لوگوں کی سوچ منفی خیالات پر ہی مشتمل ہوتی ہے ۔ یہ لوگ ہر مثبت یا نیوٹرل بات میں منفی پہلو نکالنے اور نکتہ چینی کے ماہر ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ کسی کی کامیابی پر ناخوش اور اس کی نعمتوں میں کیڑے نکالتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اختیا ر کرکے لوگوں کی کامیابیوں کو سراہا جائے اور ان کی خوشیوں میں شریک ہو کر اپنے حسد اور منفی طرزِعمل کی تطہیر کی جائے۔

دیگر اسباب

 اسکے علاوہ بھی حسد کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں مثلاََ کسی قدرتی آفت سے اپنی نعمتوں کا چھن جانا ، استحقاق کے باوجود مادی کامیابیوں سے محروم رہنا، ہم عصروں کا کامیابی کے جھنڈے گاڑنا، کسی کا طنزیہ گفتگو سے محرومی کا احساس دلانا وغیرہ۔ان تما م اسباب کا تدارک مندرجہ بالا بحث اور مندرجہ ذیل ہدایات میں موجود ہے۔

حسد سے گریز کے لئے عمومی ہدایات

پہلے مرحلے میں آپ حسد کی نوعیت اور اس کا سبب معلوم کرلیں پھر اس سبب کے مطابق اس کاتجویز کردہ علاج آزمائیں۔اسکے ساتھ ہی ذیل میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔

۔۔۔۔۔ جن نعمتوں پر حسد ہے ان پر اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو بھی مل جائیں اگر وہ اسبا ب و علل کے قانون کے تحت ممکن ہیں یعنی ناممکن چیزوں کی خواہش سے ذہن مزید پراگندگی کا شکار ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔ وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کریں۔

۔۔۔۔۔ نفس کو جبراََ غیر کی نعمتوں کی جانب التفات سے روکیں اور ان وسوسوں پر خاص نظر رکھیں۔

۔۔۔۔۔ محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کو ان تما م امور میں مزید کامیابیاں دے جن پر آپ کو حسد ہے۔

۔۔۔۔۔ محسود (جس سے  آپ کو حسد ہے)سے محبت کا اظہار کیجئے اور اس سے مل کر دل سے خوشی کا اظہار کریں۔

۔۔۔۔۔ ممکن ہو تو محسود (جس سے  آپ کو حسد ہے)کے لئے کچھ تحفے تحائف کا بندوبست بھی کریں۔

۔۔۔۔۔ اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو ہو تو محسود(جس سے  آپ کو حسد ہے)سے مل کر اپنی کیفیت کا کھل کر اظہار کردیں اور اس سے اپنے حق میں دعا کے لئے کہیں۔لیکن اس با ت کا بھی خیال رکھیں کہ کہیں بات بگڑ نہ جائے۔

غور فرمائیے

اوپر تحریر کئے گئے کیس کو دوبارہ پڑھیں اور ان سوالات کے جواب دیں۔

۔۔۔۔۔ کیا رابعہ کا اپنی بہنوں کی خوبیوں پر احساس کمتری محسوس ہونا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ حسینہ کا اپنی بہن عقیلہ کی ذہانت سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا کیا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ کونسی بہن حسد میں مبتلا تھی اور کیوں؟

 ان سوالات کے علاوہ درج ذیل سوالوں کے جواب بھی دیجئے اور معلوم کریں کہ آپ کس حد تک حسد کے بارے میں جان چکے ہیں۔

۔۔۔۔۔ اکثر لوگوں کا امریکہ کی تباہی کی دعا کرنا کیا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ کسی کے عالیشان مکان کو حسرت دیکھنا اور دل میں گھٹن محسوس کرنا کیا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ اکمل نے جب یہ سنا کہ اس کا دوست امتحان میں فیل ہوگیا ہے۔ وہ یہ سن کر دل ہی  میں  خوش ہوا۔کیا اس کا یہ خوش ہونا حسد ہے؟

۔۔۔۔۔ قرآن کے مطابق  تاریخ کا پہلا  حسد  کس نے کیا؟(شیطان نے یا قابیل نے)

۔۔۔۔۔ امیروں کو دیکھ کر کچھ غریب حسد کرتے ہیں اس کا  بنیادی سبب کیا ہے؟

۔۔۔۔۔ حسد کرنے کی پانچ شکلیں بیان کریں۔

۔۔۔۔۔ حسد کرنے کے پانچ نقصانات بیان کریں۔

مزید غور کیجیے

۔۔۔۔۔ کیا آپ حسد کی اوپر بیان کی گئی تعریف کے مطابق حسد میں مبتلا ہیں؟

 ۔۔۔۔۔ اگر ہاں توآپ ان لوگوں کے نام لکھیں جن سے آپ کو حسد محسوس ہوتا ہے

۔۔۔۔۔ ان چیزوں یا صورتوں کو تحریر کریں جن کی بنا پر حسد ہوتا ہے جیسے کپڑے، مکان،  تعلیم صحت وغیرہ۔

۔۔۔۔۔ حسد کو ختم کرنے کے لئے آپ اقدام تحریر کریں اور یہ بتائیں کہ کتنی مدت میں آپ حسد سے نجات حاصل کرلیں گے۔

۔۔۔۔۔ آئندہ حسد سے بچنے کے لئے  تدابیر بیان کریں۔

 (پروفیسر محمد عقیل، aqilkhans.wordpress.com, aqilkhans@gmail.com )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں  کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

جوابات

سوال: کیا رابعہ کا اپنی بہنوں کی خوبیوں پر احساس کمتری محسوس ہونا حسد ہے؟

جواب:  نہیں ۔ کیونکہ اس کی کوئی ایسی تمنا نہیں  کہ یہ نعمتیں اس کی بہنوں سے چھن جائیں۔

سوال: حسینہ کا اپنی بہن عقیلہ کی ذہانت سے متاثر ہونا اور اس جیسا بننے کی کوشش کرنا کیا حسد ہے؟۔

جواب: نہیں  بلکہ یہ رشک ہے۔ اور چونکہ یہ جائز حدود میں ہے اس لئے ممنوع نہیں۔

سوال: کونسی بہن حسد میں مبتلا تھی اور کیوں؟

جواب: صرف  عقیلہ حسد میں مبتلا تھی کیوں کہ وہ حسینہ سے اس کے حسن کے چھن جانے کی خواہش مند تھی۔

 سوال: اکثر لوگوں کا امریکہ کی تباہی کی دعا کرنا کیا حسد ہے؟

جواب۔ اگر یہ دعا محض اس لئے ہے کہ یہ نعمتیں ان سے چھن جائیں اور اس کا تعلق کسی دینی وجہ سے نہیں ہے تو یہ حسد ہے۔

سوال: کسی کے عالیشان مکان کو حسرت دیکھنا اور دل میں گھٹن محسوس کرنا کیا حسد ہے؟

جواب۔ نہیں ۔ لیکن یہ حسد کی جانب لے جاسکتی ہے۔

سوال: اکمل نے جب یہ سنا کہ اس کا دوست امتحان میں فیل ہوگیا ہے۔ وہ یہ سن کر دل ہی  میں  خوش ہوا۔کیا اس کا یہ خوش ہونا حسد ہے؟

جواب۔ اگر وہ ابتدا ہی سے اس کے فیل ہونے کی تمنا کرتا تھا تو حسد ہے ۔

سوال: قرآن کے مطابق  تاریخ کا پہلا  حسد  کس نے کیا؟(شیطان نے یا قابیل نے)

جواب۔ پہلا حسد شیطان نے کیا  جس نے خدا کوچیلنج کیا کہ وہ انسان کو جنت کے استحقاق سے محروم کردے گا۔

سوال: امیروں کو دیکھ کر کچھ غریب حسد کرتے ہیں اس کا  بنیادی سبب کیا ہے؟

جواب ۔آزمائش کے فلسفے سے لاعلمی

سوال: حسد کرنے کی پانچ شکلیں بیان کریں۔

جواب۔ کسی کے اچھے کپڑوں یا  زیورات سے حسد ۔ ۲۔ کسی کی اچھی شکل و صورت ، شخصیت  یا ظاہری اوصاف سے حسد۔

سوال: کسی کے کاروبار، تعلیم یا ملازمت میں ترقی سے حسد۔ ۴۔ کسی کی اولا د بالخصوص اولادِ نرینہ سے حسد یا اولاد کی ترقی پر جلن۔  ۵۔کسی کے مکان، جائداد، کار اور دیگر سا مانِ تعیش سے جلنا اور کڑھنا۔ ۶۔کسی کی شہرت ،عزت، قابلیت یا عہدے سے حسد۔ ۷۔کسی کے تقویٰ اور عبا دت گذاری سے حسد کہ یہ سب کچھ اس سے چھن جائے۔ ۸۔کسی کی صحت  اور تندرستی سے حسد۔ ۹۔ اجتماعی معاملات میں ترقی یافتہ قوموں اور ممالک سے جلنا اور ان کی تباہی کی امید کرنا۔

سوال: حسد کرنے کے چند  نقصانات بیان کریں۔

جواب۔ ۱۔ آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہی۔ ۲۔ مثبت عمل سے محرومی۔ ۳۔ نفسیاتی بیماری۔ ۴۔جرائم کی بنیاد۔  

 (پروفیسر محمد عقیل aqilkhans.wordspress.com)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں  کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  

mubashirnazir100@gmail.com

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

حسد
Scroll to top