پریس کانفرنس

ملک کے ایک مشہور سیاستدان پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس کے دوران کہنے لگے: ایک دن میں نے گورنر صاحب سے پوچھا کہ ۔۔۔کے والد کون تھے تو گورنر صاحب ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولے کہ ڈاکٹر صاحب یاد نہیں۔ پھر میں پوچھا کہ میرے والد کون تھے تو انہوں نے کہا کہ انہیں کون نہیں جانتا وہ تو ایک مشہور و معروف شخصیت تھے ۔ یہ بات کرنے کے بعد ان سیاستدان نے فخریہ انداز میں اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک خاندانی اور جدی پشتی آدمی ہیں جبکہ انکی مخالف پارٹی کے افراد ایسے نہیں ہیں۔ ان کی اس بات سے نسل پرستی ، تفاخر اور تکبر کا تاثر ملتا ہے۔ ممکن ہے کہ میں اپنی جگہ پر غلط ہوں اور ان صاحب کا وہ مقصد نہ ہو جو میں نے سمجھا۔ چنانچہ میں اپنی بحث کو جنرل رکھتے ہوئے چند اصولی باتوں تک ہی خود کو محدود رکھوں گا۔

خاندانی اور غیر خاندانی کی تقسیم برصغیر کی فرسودہ  روایات کا حصہ ہے جب لوگوں کے شجرے محفوظ کئے جاتے اور انہیں آبا ءو اجداد کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔اس کے پیچھے ایک خوش گمانی کا  جذبہ کار فرما تھا کہ نیک والدین کے بچے نیک ہی ہونگے۔ لیکن تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں۔ بت پرست آذر کے گھر ابراہیم علیہ السلام  کی ولادت اور پیغمبر  نوح علیہ السلام کے ہاں کافر  فرزندکی تولید ، لوط علیہ السلام کی بیوی کافرہ اور فرعون کی بیوی مومنہ یہ سب حقائق  اس مفروضے کے اوپر ایک سوالیہ نشان ہیں۔چنانچہ یہ مفروضہ محض ایک مفروضہ ہی ہے اور اس کی بنیاد پر کوئی اصول بنا لینا اور اس پر فخر و تکبر کا مظاہرہ کرنا کسی طور جائز نہیں۔

جہاں تک  اسلام  کا تعلق ہے تو اس میں کسی قسم کی نسل پرستی  یا نسلی تفاخر کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلا ل حبشی رضی اللہ عنہ ایک غلام ہونے کے باوجود خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیتے ہیں تو کہیں حجتہ الوداع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم علی الاعلان یہ فرماتے ہیں کہ کسی کالے کو گورے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کا بیٹا ہونا کوئی فخر اور تکبر بات نہیں۔اگر کوئی فخر کرتا تو فاطمہ بنت  محمد رضی اللہ عنہا کرتی جن کے والد  پوری امت کے سردار ہیں ۔ لیکن وہی والد اپنی بیٹی کو تنبیہ کرتے ہوئے خدا کا تقوٰی اختیار کرنے کی نصیحت کرتے اور قیامت کے روز انہیں اپنے اعمال کے ذریعے نجات حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

نسب اور نسلی تفاخر پر چند احادیث ملاخطہ فرمائیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں میں دو چیزیں کفر ہیں : نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 229)

حضرت جابر بن عتیک سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: غیرت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو وہ جو اللہ تعالی کو پسند ہے دوسری وہ جو اللہ تعالی کو ناپسند ہے۔  اللہ کے نزدیک پسندیدہ غیرت وہ ہے جو شک کے موقعہ پر ہو (جیسے بیوی کے مشکوک کردار پر) اور وہ غیرت جو اللہ کو پسند نہیں وہ ہے جو شک کے بغیر ہو اسی طرح غرور اور تکبر بھی دو طرح کا ہے ایک پسندیدہ اور دوسرا ناپسندیدہ۔ پسندیدہ غرور وہ ہے جو آدمی کافروں کے مقابلہ میں جہاد کے موقعہ پر کرے اور صدقہ دیتے وقت (یعنی بخوشی ادا کرے) اور جو ناپسندیدہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی غرور کرے ظلم وتعدی میں اور فخر کرے نسب میں۔( سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 886)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے کسی مومن سے دنیا میں مصیبتوں کو دور کیا اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں کو دور کرے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی، اللہ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گا۔ اللہ اس بندے کی فرماتے ہیں جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوتا ہے۔ جو شخص ایسے راستے پر چلے جس میں علم کی تلاش کرتے اللہ تعالی اسکے لئے ذریعہ جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کی تعلیم میں مصروف ہوتے ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتے ہیں۔ جس شخص کو اس کے اپنے اعمال نے پیچھے کردیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2356 )

  چنانچہ اس دنیا اور آخرت دونوں میں کوئی شخص اگر سرخرو ہوتا ہے تو وہ اپنے ذاتی کردار ، قابلیت  اور صلاحیت کی بنا پر ہوتا ہے۔ جبکہ اپنے آبا ء اجدا د کی اچھائیوں کا کریڈٹ لینے والے لوگ نہ صرف  خوش  فہمی کا شکار ہیں  بلکہ ان کا رویہ جھوٹی انا، تکبر اور تفاخر کا سبب  بنتا ہے جو انتہائی غیر اخلاقی اور غیر اسلامی ہے۔

 (پروفیسر محمد عقیل)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر غرور کیوں کرتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ آباء پرستی اور خاندان پر فخر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں کیسے پیدا ہوا؟ اس کی تاریخی وجوہات کیا ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ اپنا اور اپنے اہل خاندان کا محاسبہ کیجیے کہ آباء پرستی سے متعلق کیا رویے آپ کےہاں پائے جاتے ہیں؟ تین مثالیں تلاش کیجیے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

پریس کانفرنس
Scroll to top