ہم جنس پرستی

کچھ عرصہ پہلے اردن کے سفر کے دوران میرا گزر ڈیڈ سی  کے جنوبی حصے سے ہوا۔ اس حصے میں عجیب و غریب کٹے پھٹے پہاڑ موجود تھے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ اس علاقے میں کوئی ایٹم بم پھٹا ہو گا جس کے باعث ان پہاڑوں کی یہ حالت ہوئی ہو گی۔ میرے ذہن میں قرآن مجید اور بائبل کی یہ آیات گونجنے لگیں۔

پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو الٹ پلٹ کر دیا اور ان پر پکی مٹی کے پتھر برسائے جس میں سے ہر پتھر تیرے رب کے ہاں سے (اپنے ہدف کے لئے) نشان زدہ تھا۔ (ہود 11:82)

دوسرے دن صبح سویرے ابرہام اٹھے اور اس مقام کو پلٹے جہاں وہ خداوند کے حضور (نماز کے لئے) کھڑے ہوتے تھے۔ انہوں نے نیچے سدوم اور عمورہ اس میدان کے سارے علاقے پر نظردوڑائی اور دیکھا کہ اس سرزمین سے کسی بھٹی کے دھویں جیسا گہرا دھواں اٹھ رہا تھا۔ (کتاب پیدائش 19:27-28)

جی ہاں، جہاں سے ہم گزر رہےتھے،  یہ علاقہ سدوم اور عمورہ کا علاقہ تھا۔ جب لوط علیہ الصلوۃ والسلام یہاں آباد ہوئے تو بائبل کے بیان کے مطابق، یہ دور دور تک سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ اہل سدوم نہایت ہی بدکار قوم تھی۔ یہ لوگ دوسری اخلاقی خرابیوں کے علاوہ ہم جنس پرستی کے مرض میں بھی مبتلا تھے۔ بعض احمق لوگ اس فعل بد کو لواطت کہتے ہیں۔ سیدنا لوط علیہ الصلوۃ والسلام وہ پاکباز ہستی ہیں جنہوں نے اس فعل بد کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس فعل کو آپ سے موسوم کرنا یقیناً آپ کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے۔

جھوٹے نبیوں (اور راہنماؤں) سے ہوشیار رہنا۔ وہ تمہارے پاس بھیڑوں کی طرح آئیں گے مگر حقیقت میں وہ بھیڑیے کی طرح خطرناک ہوں گے۔ تم ان کے کاموں (اور تعلیمات) سے انہیں پہچان لو گے۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

    اللہ کے رسول کو جھٹلانے اور اپنی برائی پر اصرار اور سرکشی کے باعث قوم لوط پر اللہ کا عذاب آیا۔ قرآن مجید کے مطابق ان پر مٹی کے دہکتے پتھروں کی بارش کر کے انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ بائبل کے مطابق اس میں گندھک کی آمیزش بھی تھی۔ امریکی محقق رون وائٹ نے اس علاقے کی مٹی کے بارے میں جو تحقیقات کی ہیں، ان کے مطابق اس علاقے میں گندھک کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اس علاقے میں عام زمین کے اوپر ایک اور زمینی تہہ جیو لاجیکل  پائی جاتی ہے جو رون کی تحقیقات کے مطابق عذاب والے مٹی اور پتھروں کی تہہ ہے۔ ان کی تحقیقات کو دیکھنے کے لیے اس لنک کو کلک کیجیے۔

 http://wyattmuseum.com/cities-of-the-plain.htm

    قرآن مجید نے جہاں جہاں اس قوم کا ذکر کیا وہاں ان کی اس بدفعلی کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس مقام پر قرآن مجید کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پڑی کہ یہ بھی کوئی برائی ہے۔ قرآن نے اس کا ذکر ایک طے شدہ برائی کے طور پر کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوری تاریخ انسانیت میں ہم جنس پرستی کو ایک برائی کی حیثیت ہی حاصل رہی ہے۔ اس سے استثنا صرف سدوم اور قدیم یونان کے لوگوں کو حاصل ہے یا پھر آج کے اہل مغرب میں سے ہم جنس پرستوں گیز کا ایک اقلیتی گروہ ہے جو اس فعل کی حمایت میں سرگرم ہوا ہے۔

ہمارے میڈیا میں اربوں روپیہ ایڈورٹائزنگ پر صرف کیا جاتا ہے۔ کیا اس ایڈورٹائزنگ سے معاشرے کو حقیقی فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ موجودہ ایڈورٹائزنگ کے ہماری اصل زندگی یعنی آخرت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔

    اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی کا جو شعور ودیعت کیا ہے، انسانوں کی قلیل تعداد اس فطرت کو کبھی کبھی مسخ بھی کر لیا کرتی ہے جیسا کہ انسانوں نے اللہ تعالیٰ کی آسمانی ہدایت کو بھی کہیں کہیں مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔

    اس موقع پر اچھا ہے اگر میں سید مودودی صاحب کا ایک اقتباس نقل کرتا چلوں کیونکہ فطرت کے اس بیان کے لئے میں ان سے بہتر الفاظ نہیں پا رہا۔:

یہ بات بالکل صریح حقیقت ہے کہ مباشرت ہم جنسی قطعی طور پر وضع فطرت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی نے تمام ذی حیات انواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسل اور بقائے نوع کے لئے رکھا ہے اور نوع انسانی کے لئے اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لئے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنائی گئی ہیں، ان میں ایک دوسرے کے لئے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے، ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لئے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشا کو پورا کرنے کے لئے بیک وقت داعی و محرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی۔ مگر جو شخص اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدد جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔

اولاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خلل عظیم برپا کر دیتا ہے جس سے دونوں کے جسم، نفس اور اخلاق پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجا آوری اور کسی فرض اور حق کی ادائگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چرا لیتا ہے۔

ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بددیانتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ ایجاباً مضرت رساں ہے۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نااہل بناتا ہے، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے، اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (تفہیم القرآن ج 2، ص 52)

آج کے ہم جنس پرست اپنے غلیظ کاموں کے جواز میں جو پروپیگنڈا کر رہے ہیں، اس کی بنیاد میں وہ بائیو کیمسٹری کے کچھ تصورات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق ہم جنس پرست انسان کے جسم و دماغ میں کچھ کیمیکلز ایسے ہوتے ہیں جن کے باعث اس کا فطری میلان صنف مخالف کی بجائے اپنی ہی صنف کی طرف ہو جاتا ہے۔ یہ میلان ان کے ڈی این اے میں ہی ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے۔ چونکہ یہ چیز ان کے اختیار میں نہیں، اس لیے معاشرے کو ہم جنس پرستوں کو قبول کر لینا چاہیے۔

    ان کے اس مغالطے کا کم از کم اردو لٹریچر میں مجھے جواب نہیں ملا اس لیے اس پر کچھ جملے لکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ اگر ہم جنس پرستوں کے کیمیکلز میں کچھ مسئلہ ہے بھی، تو معاشرے کو ان کے مضر اخلاقی اثرات سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کا علاج کیا جائے۔ میڈیکل سائنس اب اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ ادویات کی مدد سے اس مسئلےکو دور کیا جا سکتا ہے۔ رہا مسئلہ جینز اور ڈی این اے کا تو یہ ابھی تک محض ایک مفروضہ ہے جسے کوئی بھی ثابت نہیں کر سکا۔ ہم جنس پرستوں کے مسائل پر کی گئی تحقیقات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کم عمری ہی میں بری صحبتوں کا شکار ہو کر یہ عادات اپنا لیتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کسی اچھے ماہر نفسیات بالخصوص ہپناٹسٹ یا پھر اچھے سائیکاٹرسٹ کی مدد سے ان عادات سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

 اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
 mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ہم جنس پرستی کی اصل وجہ کیا ہے؟ جسم کی بائیو کیمسٹری یا بری صحبت؟

۔۔۔۔۔۔ ہم جنس پرستی کا علاج کیسے کرنا چاہیے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

ہم جنس پرستی
Scroll to top