ایک مرتبہ میں سڑک پر جا رہا تھا۔ اس دن چھٹی ہونے کے باعث رش کم تھا۔ میری طرف کا سگنل کھلا ہوا تھا لیکن اس سگنل کو پار کرنے والا میرے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔ دوسری طرف کے بند سگنل سے ایک موٹر سائیکل سوار سے رہا نہ گیا اور اپنی طرف کا سگنل توڑ کر روڈ میں آ گیا۔ مجھے اس کی توقع نہ تھی چنانچہ میں نے ایمر جنسی بریک لگائی لیکن گاڑی سڑک پر گھسٹتی ہوئی موٹر سائیکل کے پچھلے پہیے سے ٹکرا گئی۔ وہ صاحب گھوم کر گرے اور انہیں کچھ چوٹیں آئیں۔ میری گاڑی کا ریڈی ایٹر بھی لیک کرنے لگ گیا اور بمپر میں ڈینٹ پڑ گئے۔
اللہ تعالی سے دوستی کرو۔ کیونکہ جب مسافر کسی شہر پہنچتا ہے تو وہاں کسی دوست کی موجودگی اسے بہادر بنا دیتی ہے۔ کنفیوشس |
موقع پر موجود پولیس مین نے یہ پورا منظر دیکھا۔ وہ دوڑے آئے اور ان صاحب کو اٹھنے میں مدد دی۔ پولیس مین نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا جو نقصان ہوا ہے اس کا کیا ہو گا۔ مجھے ان صاحب کی حالت دیکھتے ہوئے کوئی مطالبہ کرنا مناسب محسوس نہ ہوا اور معاملہ ختم ہو گیا۔ میں نے ان صاحب کو ہسپتال لے چلنے کی آفر کی۔ انہوں نے اس کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہ کی۔
اس واقعے سے میں نے سبق سیکھا کہ دوسروں سے غلطی کی توقع رکھنی چاہیے۔ اگر آپ مین روڈ پر کسی ایسے مقام سے گزر رہے ہیں جہاں کوئی چھوٹی سڑک مین روڈ سے آ کر مل رہی ہو تو یہ فرض کر لیجیے کہ کوئی اچانک اس چھوٹی سڑک سے تیز رفتاری سے نمودار ہو گا۔ اگر آپ کی طرف کا سگنل کھلا ہوا ہے تو یہ توقع رکھیے کہ دوسری طرف سے کوئی سگنل توڑ کر اچانک آپ کے سامنے آ جائے گا۔ اگر آپ کے آگے کوئی گاڑی جا رہی ہے تو یہ توقع رکھیے کہ وہ اچانک بریک لگا دے گی۔
اگر آپ یہ توقعات پہلے ہی سے وابستہ رکھ رہے ہیں تو پھر ایکسیڈنٹ سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک غیر متوقع صورتحال اچانک سامنے آنے سے لے کر بریک لگانے تک کا وقت اس صورت میں بچ سکتا ہے اور حادثے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
یہ اصول صرف ڈرائیونگ ہی میں نہیں بلکہ پوری زندگی میں کار فرما ہے۔ جو لوگ دوسروں سے غلطی کی توقع نہیں کرتے، وہ غلطی ہونے پر پوری طرح سنبھل نہیں پاتے اور ان کے نقصان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ صحیح طرز عمل یہ ہے کہ غیر متوقع صورتحال کی توقع رکھی جائے اور اس کے لئے مناسب تیاری پہلے سے کر رکھی جائے۔
موجودہ دور کی بین الاقوامی سیاست میں کیا عوامل کار فرما ہیں؟ عصر حاضر کی اسلامی تحریک کو امریکی دانشور کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ اسلام اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم کی حرکیات کیا ہیں؟ اسلامی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب مشہور امریکی مصنف جان ایل ایسپوزیٹو نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
ترقی یافتہ ممالک میں اسی اصول پر ڈیزاسٹر میجنمنٹ اور ڈیزاسٹر ریکوری ایک باقاعدہ آرٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ان کے ہاں بھی سیلاب، سمندری طوفان، زلزلے، برفانی طوفان، دہشت گردی ہر قسم کے معاملات پیش آتے ہیں لیکن وہ لوگ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کی تیاری کر کے رکھتے ہیں جس کے باعث کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کا نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسی اصول کو اپنانا چاہیے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ غیر متوقع واقعاتأ کی توقع رکھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔ اپنا جائزہ لیجیے کہ کیا آپ غیر متوقع واقعات کے لئے تیار رہتے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز