کیا صحابہ کرام کے القاب یا کنیت پر نام رکھنا درست ہے؟

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔  آپ سے ایک سوال ہے۔ آج کل مسلمانوں کے جو نام رکھے جاتے ہیں، وہ اس طرح ہوتے ہیں: ابوبکر، حیدر، فاروق، غلام مصطفی۔ صوبہ پختونخواہ میں حضرت عمر، حضرت علی تک نام رکھ لیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ابوبکر تو ٹائٹل تھا جو خاص وجہ سے رکھا گیا تھا۔ ان کے پاس بکریاں وغیرہ تھیں، اس وجہ سے۔ اسی طرح حیدر کا لقب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا گیا تھا۔ اب یہ لقب اور ٹائٹل کوئی اور بطور نام استعمال کر سکتا ہے  یا ان لوگوں کے لیے خاص کیا گیا تھا؟ اور آج غلام علی، غلام مصطفی نام رکھنا ٹھیک ہے؟

عاصم

کراچی ، پاکستان

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا احوال ہیں؟

ّآپ کا سوال دلچسپ ہے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام کا نعوذ باللہ بکریوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بکر ایک عام نام ہے جو عربوں میں استعمال ہوتا ہے اور عربی میں بکریوں کو غنم کہتے ہیں۔ آپ کا نام لقب نہیں بلکہ کنیت ہے جس کا معنی ہے “بکر کا والد۔” عربوں کے ہاں کنیت کا عام رواج اب تک ہے جیسے ابو محمد، ابن زبیر وغیرہ۔ یہ لوگ کنیت کو اولاد سے ہٹ کر بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ جیسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بلیوں وغیرہ کو  پالتے تھے تو ان کا نام ابوہریرہ پڑ گیا۔

اسی طرح فاروق، حیدر وغیرہم القاب ہیں لیکن یہ نام کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ دین نے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ ہاں اگر نام میں کوئی اخلاقی یا شرعی قباحت ہو تو پھر ایسا نام منع ہے جیسے عبد العزی کا مطلب ہے عزی دیوی کا بندہ۔ اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مشرکانہ نام تبدیل کر دیتے تھے۔

غلام مصطفی یا غلام علی وغیرہ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ان میں کوئی اخلاقی یا شرعی قباحت نہیں ہے۔ یہ نام محض بطور عقیدت رکھے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مصطفی کا غلام یا علی کا غلام۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

اور حضرت علی، حضرت عمر نام رکھنا کیسا ہے۔ پاکستان میں پٹھان لوگ اس طرح نام رکھتے ہیں؟

عرب میں اپنے باپ یا بیٹے سے لوگ صرف بلاتے تھے۔ ہمارے ہاں یہ نام رکھ لیے گئے ہیں۔ اصل نام تو ان کے کچھ اور ہوتے تھے۔ ہم نے کنیت کو پکار کر نام رکھنا شروع کر دیا ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ لاعلمی نہیں؟  اگر ہم ابوبکر یا ابوہریرہ نام رکھ لیں تو ان کا کوئی مطلب نہیں نکلتا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نام کا اچھا مطلب ہونا چاہیے۔ اور اگر صحابہ کی نسبت سے نام رکھنے ہوں تو کیا ان کے اصل نام نہیں رکھنے چاہییں؟

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہ کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے۔ اردو میں لفظ ‘حضرت’ محض ادب و احترام کے لیے بطور پروٹو کول لگاتے ہیں۔ ہر علاقے کا کلچر الگ ہوتا ہے۔ پٹھان لوگ اگر حضرت عمر یا حضرت علی نام رکھ لیں تو اس سے دینی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں کیونکہ دین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ان سب امور کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ اس معاشرے کے رواج (عرف و عادت) کا اعتبار کیا جائے گا۔ اب اگر پشتون کلچر میں حضرت علی یا حضرت عمر نام رکھنے کو ادب کے منافی سمجھا نہیں جاتا ہے تو پھر ہمیں بھی اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟

ابوبکر یا ابوہریرہ کا لفظی مطلب تو متعلق نہیں ہے لیکن ایسا نام رکھنے پر ان ہستیوں سے عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ ایک اچھی بات ہے۔ اس لیے کہ اس طرح ہم لوگ اپنے بچوں کے نام ان جلیل القدر صحابہ کے ناموں پر رکھ کر ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ ان کے اصل ناموں پر نام رکھے جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ چونکہ یہ صحابہ اپنی کنیت سے مشہور ہو گئے ، اس وجہ سے لوگ ان کی مشہور کنیت  پر نام رکھ لیتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے دونوں طرح ٹھیک ہے  اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

https://mubashirnazir.org/category/islamic-studies/islamic-studies-english/quranic-studies-english-lectures/

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا صحابہ کرام کے القاب یا کنیت پر نام رکھنا درست ہے؟
Scroll to top