اسلام نے غلاموں کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کیوں نہیں کی؟

اس موضوع پر ہم تفصیل سے باب 8 میں بحث کر چکے ہیں۔ یہاں ہم اسی بحث کو دوبارہ نقل کئے دیتے ہیں۔

          عہد رسالت سے پہلے غلاموں کی خرید و فروخت ایک انسان کی خرید و فروخت تھی جسے بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کے حقوق سے متعلق جو اصلاحات عملاً اپنے معاشرے میں رائج فرمائی تھیں، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ غلاموں کی خرید و فروخت، اب محض خدمات کی خرید و فروخت بن کر رہ گئی کیونکہ کسی بھی آقا کو غلام پر جسمانی تصرف کا کوئی حق نہ رہ گیا تھا۔ ایک شخص کو اگر غلام کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے تو وہ ان خدمات کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کر دے۔ یہ معاملہ کچھ اسی طرح کا تھا کہ جیسے آج کل کوئی کمپنی اپنے ملازم کو کام کرنے کے لئے دوسری کمپنی میں بھیج دے۔

          غلاموں کی اس منتقلی سے متعلق ایک اہم قانون بنایا گیا اور وہ یہ تھا کہ اس منتقلی کے دوران غلام کے خاندان کو کسی صورت تقسیم نہ کیا جائے بلکہ انہیں اکٹھا رکھا جائے۔

حدثنا عمر بن حفص بن عمر الشيباني أخبرنا عبد الله بن وهب أخبرني حيي عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن أبي أيوب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من فرق بين والدة وولدها فرق الله بينه وبين أحبته يوم القيامة۔ قال أبو عيسى وفي الباب عن علي وهذا حديث حسن غريب۔ والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم كرهوا التفريق بين السبي بين الوالدة وولدها وبين الولد والوالد وبين الأخوة ۔ (ترمذی، کتاب الجهاد، حديث 1566)

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس نے ماں اور اس کے بچے کو الگ کیا، اللہ قیامت کے دن اس کو اس کے پیاروں سے الگ کر دے گا۔

ترمذی کہتے ہیں، یہ حدیث حسن غریب درجے کی ہے اور اس کی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علماء صحابہ اور دیگر اہل علم کا عمل بھی یہی ہے۔ وہ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ غلاموں میں ماں اور بچے، باپ اور بچے اور بہن بھائیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔

اس پابندی نے عملی طور پر بردہ فروش طبقہ جسے نخاش  کہا جاتا تھا، کے مفادات پر کاری ضرب لگائی۔ اگر کوئی کسی غلام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کرنا چاہے تو اس کے لئے لازم تھا کہ وہ غلام کی پوری فیملی کی خدمات کو خریدے اور پھر اسے دوسرے شہر میں منتقل کرے۔

          اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دور میں غلاموں کی خرید و فروخت سے قطعی طور پر منع کیوں نہ کیا گیا؟ یہ سوال دراصل اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے وہ صورتحال نہیں ہے جس میں یہ معاملہ ہو رہا تھا۔ اس وجہ سے ہمیں موجودہ دور کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اس صورتحال کی وضاحت کرنا ہو گی۔

          فرض کر لیجیے کہ ایک شخص کسی وجہ سے اپنا کاروبار ختم کر رہا ہے یا کسی اور وجہ سے اسے ملازمین کی ضرورت نہیں ہے۔ اس صورت میں کیا اس کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ وہ تاعمر اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرتا رہے؟ مالک اور ملازمین کے لئے بہترین صورت یہی ہو گی کہ وہ ان کی ملازمت کو کسی اور کمپنی میں منتقل کر دے۔ اس طرح سے ملازمین بھی فوری طور پر بے روزگار نہ ہوں گے اور مالک بھی اپنے کاروبار کو کم سے کم نقصان پر بند کر سکے گا۔

          بالکل یہی صورتحال اس دور میں تھی۔ ایک شخص کو غلام کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اس غلام کا کیا کرے؟ اس کے سامنے تین ہی راستے ہیں: یا تو وہ اس غلام کو ساری عمر بٹھا کر اس کے اخراجات برداشت کرتا رہے یا پھر اسے آزاد کرے یا پھر اس کی خدمات کسی دوسرے کو منتقل کر دے۔ پہلی صورت تو بہرحال مالک کے لئے ممکن نہ ہو گی۔ دوسری صورت دین اسلام کے مطابق سب سے بہتر ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس مالک نے ایک بڑی رقم لگا کر غلام کی خدمات حاصل کی تھیں اور اس کے مالی حالات ایسے ہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم کے ڈوبنے کو افورڈ نہیں کر سکتا، تو اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ غلام کی خدمات کو دوسرے شخص کو منتقل کر دے۔

          اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر غلام کو نئے مالک کی شخصیت اور عادات پسند نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ اس مسئلے کا حل دین اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ وہ اپنی خدمات کی منتقلی کے اگلے روز بھی اپنے مالک سے مکاتبت کر کے اس سے فوری نجات حاصل کر سکتا ہے۔ مکاتبت کرتے ہی وہ اپنے مالک کی سروس کا پابند نہ رہتا بلکہ آزادانہ طور پر رقم کما کر اپنے مالک کو آسان قسطوں میں ادائیگی کر کے اپنی آزادی خرید سکتا تھا۔

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانے میں غلاموں کو یہ سہولت بھی میسر تھی کہ اگر ان کا مالک مکاتبت پر تیار نہ ہو تو وہ معاملے کو حکمران کی عدالت میں لے جا سکتے تھے اور حکمران بھی ایسے تھے جن کے ہاں کوئی دربان اور سکیورٹی فورس نہ تھی جو غلام کو آنے سے روکے۔

          اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تو یہاں تک مثال قائم کر دی تھی کہ ایک کنیز بھی آ کر آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتی اور اپنا مسئلہ حل کرنے کا کہہ سکتی تھی۔ خلفاء راشدین کے معاملے میں بھی یہی صورتحال تھی اور وہ ہر نماز کے وقت مسجد میں دستیاب رہا کرتے تھے۔ یہی معاملہ ان خلفاء کے مقامی گورنروں کا بھی تھا۔ اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلاموں کی خدمات کی منتقلی کا اس سے بہتر اور کوئی حل دستیاب ہی نہ تھا۔

          بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر غلام اور آقا کے مزاج نہ ملتے ہوں تو غلام کو یہ حق بھی دیا گیا تھا کہ وہ عدالت میں یہ مقدمہ دائر کرے کہ اس کا مالک اس کی خدمات کو کسی اور مالک کو منتقل کر دے۔ مشہور محقق ٹی ڈبلیو آرنلڈ لکھتے ہیں۔

The slaves, like other citizens, had their rights, and it is even said that a slave might summon his master before the Qadi for ill usage, and that if he alleged that their tempers were so opposite, that it was impossible for them to agree, the Qadi could oblige his master to sell him. (T. W. Arnold; Preaching of Islam)

دوسرے شہریوں کی طرح غلاموں کے حقوق بھی تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برے سلوک پر ایک غلام اپنے آقا کے خلاف مقدمہ بھی قاضی کے پاس لے کر جا سکتا ہے۔  اگر وہ یہ الزام لگا دے کہ (اس کے اور اس کے آقا  کے) مزاج میں بہت فرق ہے اور ان کا اتفاق ناممکن ہے تو قاضی آقا کو حکم جاری کر سکتا ہے کہ وہ اس غلام کی خدمات کسی اور فروخت کر دے۔

جہاں تک غلاموں کی بین الاقوامی تجارتی منڈیوں کا تعلق ہیں تو یہ بہت بعد میں بنو عباس کے دور میں ارتقاء پذیر ہوئی ہیں۔ اس تجارت کے لئے اسلام کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہاں اس دور کے مسلمان بہرحال اس معاشرتی برائی کو قائم کرنے کے لئے اللہ کے ہاں جواب دہ ضرور ہوں گے۔

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

اسلام نے غلاموں کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کیوں نہیں کی؟
Scroll to top