بحث و مباحثہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

میری حیات النبی کے  مسئلے پر کچھ علماء کے ساتھ بحث چل رہی ہے۔ اس کے لیے ابن قیم کی کتاب الروح مطلوب ہے تاکہ مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔

ایک دوست

حیدر آباد، پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کتاب الروح ورڈ ورژن اٹیچ کر رہا ہوں جو مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ پر دستیاب ہے۔ مکتبہ مشکاۃ، وقفیہ، المصطفی اور صید الفوائد پر کم و بیش ہر مشہور کتاب مل جاتی ہے۔

جہاں تک مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بحث کا تعلق ہے تو اس مسئلے پر سبھی متفق ہیں کہ برزخی زندگی ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ شہداء کے بارے میں تصریح ہے کہ وہ اپنے رب کے پاس رزق پاتے ہیں اور اعلی درجے کی زندگی گزارتے ہیں مگر ہمیں اس کا کوئی شعور نہیں ہے۔ اسی پر انبیاء کرام کو قیاس کر لیا جاتا ہے۔ اختلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات ہونے پر نہیں بلکہ اس پر ہے کہ کیا یہ حیات اس نوعیت کی ہے کہ جس میں آپ اپنے امتیوں کی فریاد سنیں اور ان کی مدد کو پہنچیں۔ اس بارے میں کوئی دعوی کرنے کی بجائے مخالفین سے دلیل طلب کریں تو وہ کوئی دلیل پیش نہ کر سکیں گے۔

 جہاں تک اس ضمن میں میری مدد کا تعلق ہے تو میں نے ایک عرصہ تک بحث و مباحثہ کا تجربہ کر کے دیکھ لیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ ہر مکتب فکر کے لوگوں کا ذہن یہی ہوتا ہے کہ بس ہر قیمت پر مخالف کو منہ توڑ جواب دینا ہے اور اسی میں جانبین کی زندگیاں گزر جاتی ہیں مگر جواب در جواب کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ انسان اگر یہ ٹھان لے کہ اس نے دلیل کو قبول نہیں کرنا ہے تو وہ اس کے حق میں بہت سے دلائل تراش لیتا ہے اور اپنے مسلک پر جما رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں اب بحث و مباحثہ سے ہمیشہ اجتناب کرتا ہوں اور یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں کہ ہم اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہماری وابستگی حق کے ساتھ ہونی چاہیے نہ کہ کسی خاص نقطہ نظر یا مسلک کے ساتھ۔ جس مسلک کی جو بات قرآن و سنت کی روشنی میں درست معلوم ہو، اسے اختیار کر لینا چاہیے اور رجوع کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ جب کبھی بھی ہم پر اپنی غلطی واضح ہو تو اس پر رجوع کر لیں۔

اگر میں محسوس کروں کہ سامنے والا اسی رویہ کا حامل ہے تو اس سے بحث کی بجائے ڈائیلاگ کر لیتا ہوں جس کا مقصد فریق مخالف کو منہ توڑ جواب دینا نہیں بلکہ صرف اپنی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ اس میں جذبہ یہ نہیں ہوتا کہ فریق مخالف کو بدلنا ہے بلکہ جذبہ یہ ہوتا ہے کہ مجھ پر اگر حق واضح ہو جائے تو میں اپنی بات سے رجوع کر لوں گا۔ رہا فریق مخالف کا معاملہ کہ وہ قائل ہوتا ہے یا نہیں تو وہ اس کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔ اگر میں یہ محسوس کروں کہ فریق مخالف کا رویہ یہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیش نظر صرف اپنے مسلک کی حمیت و حمایت ہے تو پھر میں اس سے کبھی بحث نہیں کرتا اور سلام کہہ کر رخصت اختیار کر لیتا ہوں۔

میرا مشورہ ہے کہ آپ بھی بحث و مباحثہ کو چھوڑ کر اگر حق پرستی کا رویہ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو اس سے کم وقت میں کہیں زیادہ فائدہ ہو گا۔

دعاؤں کی درخواست ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

بحث و مباحثہ
Scroll to top