تنقید کو موثر کیسے بنایا جائے؟

نوٹ: یہ مضمون ایک ڈسکشن فورم میں سے لیا گیا ہے، جو اسلامک اسٹڈیز پروگرام کے طلباء و طالبات کے درمیان جاری رہا۔ اس میں ریحان احمد یوسفی صاحب نے تمام طالب علموں کو کچھ نصیحتیں کی ہیں، جو یہاں سب کے فائدے کے لیے شائع کی جا رہی ہیں۔

ایک چیز ہے جسے میں خیر خواہی کے جذبے سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ اس امید پر کہ آپ سب طالب علم ہیں اور اسی جذبے سے مبشر سے دین سیکھ  رہے ہیں۔ یہ چیز اتنی اہم ہے کہ اگر نہ سمجھی جائے تو آدمی کبھی اچھا طالب علم اور عالم نہیں بن سکتا۔ میری  خوش قسمتی ہے کہ بڑے اہل علم کی صحبت میں یہ بات میں  نے اپنی علمی زندگی  کے آغاز میں بیس برس قبل ہی  سیکھ لی تھی۔

وہ بات یہ ہے کہ جب کبھی ایک مختلف ، نیا یا نامانوس نقطہ نظر سامنے آتا ہے تو دماغ غیر شعوری طور پر اس کے خلاف سوچنا شروع کردیتا ہے۔ اچھا طالب علم وہ ہوتا ہے جو ذہن کو یہ عمل کرنے سے روک دیتا ہے۔ وہ پہلے اس نئی یا مختلف چیز کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اتنی اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ اس نقطہ نظر کو اس کے پیش کرنے والے سے زیادہ اچھا بیان کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اگر کوئی تنقید بھی کرے گا تو یقیناً وہ بہت معقول ہوگی۔ وگرنہ اگر ذہن کو ابتدا ہی میں لاشعوی طور پر مخالفت کرنے کے لیے چھوڑدیا تواس کے بعد کوئی اعلیِ یا علمی تنقید وجود میں نہیں آتی۔انسان  اکثر انسان  پھر اپنے جذبات کا اظہار کررہا ہوتا یا پھر اپنے ان خیالات کا جن کا ممکن ہے کہ دوسرے نقطہ نظر سے کوئی تعلق بھی نہ ہو۔

اس کا دو طرفہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان نہ خود اپنے علم میں کوئی ارتقا کرتا ہے اور نہ سامنے والی ہی کسی کمزوری کو درست طور پر پیش کرپاتا ہے۔مبشر سے میری یہ درخواست ہے کہ سنجیدہ طالب علموں کو سب سے پہل آبجیکٹو تھنکنگ پر کوئی کورس کرائیں۔ دین اس کے بعد سکھانا شروع کریں۔

والسلام

ریحان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سب سے پہلے تو یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میری کیا اوقات کہ میں دین سکھاؤں۔ میں تو خود طالب علم ہوں اور اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت کر رہا ہوں جو دین کو سیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلامک اسٹڈیز پروگرام کے یہ کورسز وغیرہ تو بس فسیلیٹی ہے، باقی تو ہر بھائی اور بہن نے دین کو خود سیکھنا ہے اور اس راہ میں اگر میں ان کی کچھ خدمت کر سکوں تو یہ میری خوش نصیبی ہے۔

ریحان بھائی کا آئیڈیا اچھا ہے۔ آبجیکٹو تھنکنگ کے موضوع پر ایک کورس انشاء اللہ ضرور تیار کروں گا۔ اس کے بنیادی پوائنٹ میرے ذہن میں ہیں۔ آپ کے ذہن میں بھی کوئی اچھا مواد ہو تو ضرور عنایت کیجیے۔

Put yourself in others shoes.

اس موقع پر اپنا ایک تجربہ شیئر کرتا چلوں کہ ہم سب سیکھ رہے ہیں۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ پٹ یوور سلف ان ادھر یوز۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسرے کے نقطہ نظر کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس سے بات پوری طرح سمجھ نہیں آتی اور بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر خود کو اس شخص کی جگہ رکھ کر دیکھا جائے تو بات پوری طرح سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اب اگر اس نقطہ نظر میں کوئی خامی موجود ہو تو اس پر تنقید بھی بہت تعمیری رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اب ہم مخاطب پر اس کے اپنے مائنڈ سیٹ کے اعتبار سے تنقید کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی قبولیت کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔مثال کے طور پر میری کسی تحریر میں آپ کو فرقہ واریت، تنگ نظری یا تعصب کی جھلک نظر آئے اور آپ اس پر اس حوالے سے تنقید کریں تو میں اسے فوراً قبول کر لوں گا کیونکہ میں خود ان امور سے بچنا چاہتا ہوں۔

ابھی حال ہی میں ایک بڑا دلچسپ تجربہ ہوا۔ ہمارے پروگرام میں شریک ایک طالب علم، شجاعت بھائی ممبئی گئے تو وہاں ایک عالم دین سے مجھ ناچیز کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ ان بھائی کو مجھ سے متعلق کچھ غلط فہمی ہو گئی تھی جس پر انہوں نے شجاعت بھائی اور چند اور لوگوں کے سامنے مجھے بے نقط سنائیں۔ شجاعت بھائی اور ایک اور صاحب نے اس ضمن میں مجھ سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جس بات پر تنقید فرما رہے تھے، اس سے تو میرا دور کا بھی کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ شروع میں مجھے اس پر غصہ آیا لیکن جب میں نے خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچا تو سارا غصہ رفع ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے روایتی دینی حلقوں میں چونکہ اس بات کی تربیت کا اہتمام نہیں ہوتا کہ بات کو پوری طرح سمجھ کر تنقید کی جائے، اس وجہ سے وہ بھائی معذور تھے۔ چونکہ میرا گہرا تعلق بھی روایتی دینی حلقوں سے رہا ہے، اس وجہ سے اس زمانے میں میں بھی ایسا ہی کیا کرتا تھا۔

اس موضوع پر کافی عرصہ پہلے ایک تحریر لکھی تھی۔

سب بھائیوں سے گزارش ہے کہ ان ای میلز میں کسی تبصرے کو ذات پر تبصرہ نہ سمجھیے گا۔ ہم سب سیکھ رہے ہیں اور یہ سب عمومی تبصرے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں ہم اپنی تجزیاتی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکیں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

تنقید کو موثر کیسے بنایا جائے؟
Scroll to top