انکار حدیث اور درایت کے اصول

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میری ایک منکر حدیث عالم سے گفتگو ہوئی جنہوں نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ حدیث پیش کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

محمد علی

حیدر آباد، انڈیا

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اگر آپ اردو میں لکھ سکیں تو آسانی ہو جائے گی کیونکہ طویل میل میرے لیے رومن اردو میں پڑھنا مشکل ہے۔ کمپیوٹر میں اردو این ایبل کو گوگل میں سرچ کر سکتے ہیں۔

منکرین حدیث کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چند احادیث اگر انہیں قرآن یا عقل عام کے خلاف نظر آئیں تو وہ انہیں لے کر حدیث کے پورے ذخیرے کا انکار کر دیتے ہیں۔ یہ روش درست نہیں ہے۔ انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ قرآن یا عقل عام سے مخالفت پر حدیث ترک کر دینے کا حکم ہے تو یہ بات اصولی طور پر درست ہے اور محدثین اس اصول پر عمل کرتے ہیں۔ آپ میری کتاب کے آخری یونٹ میں درایت کا باب دیکھ لیجیے جو کہ اس لنک پر دستیاب ہے:

 اس میں فن حدیث کی امہات فن میں سے کتاب الکفایہ کے حوالے سے یہ پوری بحث موجود ہے۔ ہاں ایک دم کسی صحیح سند سے منقول حدیث کو مسترد کر دینا ہرگز علمی رویہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے ایک پورے پراسیس پر عمل کیا جائے گا۔

 اگر کسی حدیث میں کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے تمام طرق (مختلف راویوں سے حاصل کردہ روایتیں) اکٹھے کیے جائیں اور بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ حدیث کو قرآن کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کے مختلف پہلو دیکھے جائیں، تاویل اگر ممکن ہو تو تاویل کر کے دیکھا جائے۔ اگر پھر بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو تب جا کر یہ کہا جائے گا کہ حدیث قرآن یا عقل عام کے خلاف ہے اور اس وجہ سے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں ہے۔

 جادو سے متعلق احادیث میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کرنے کی کوشش کی۔ اس میں انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور نہ ہی اللہ تعالی اپنے پیغمبر پر اس قسم کا کوئی وار کامیاب ہونے دیتا ہے۔ کوشش تو آپ کو شہید کرنے کی بھی ہوئی مگر اللہ تعالی نے واضح طور پر قرآن مجید میں یہ قانون بیان کر دیا ہے کہ اس کے رسول پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔ اس وجہ سے وہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ احادیث میں کفار کی کوشش کا ذکر ہے اور کوششیں کرنے میں وہ آزاد تھے۔ سوال یہ ہے کہ احادیث کے مطابق اس جادو کا اثر ہوا یا نہیں؟ اگر اثر ہوا تھا تو پھر وہ احادیث قرآن کے خلاف ہوں گی ورنہ تو ان میں محض کفار کی ایک چال کا بیان ہے۔ انہوں نے اپنے تئیں کوشش کی اور ناکام رہے۔

 اگر آپ اجازت دیں تو ایک برادرانہ مشورہ دیتا چلوں کہ منکرین حدیث یا کسی سے بھی بحث و مناظرہ ایک بے کار عمل ہے۔ مناظرے سے انسان کبھی حق بات تک نہیں پہنچتا۔ مناظرے کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کو ہرانا یا خاموش کرنا ہے۔ اس میں حق طلبی کی نفسیات نہیں ہوتی۔ ہمیں مناظرے کی بجائے تحقیق اور حق طلبی کا طریقہ اختیار کیجیے۔ جس شخص کی جو بات بھی درست ہو، اسے مان لیجیے۔ یہ نہ دیکھیے کہ وہ معتزلی ہے یا محدث، شیعہ ہے یا سنی بلکہ یہ دیکھیے کہ جو بات کہی جا رہی ہے، وہ درست ہے یا نہیں۔ اس کے بعد جس شخص کی جو بات درست اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو، مان لیجیے۔

منکرین حدیث سے سوالات کے ضمن میں اتنا عرض کر دوں کہ پہلے فن حدیث کا پورا مطالعہ کر لیجیے، پھر خود بخود آپ کو ان کے نقطہ نظر کی کمزوریاں سمجھ میں آ جائیں گی۔ ہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ منکرین حدیث کہتے کسے ہیں؟ منکر حدیث وہ شخص ہے جو احادیث کے پورے مجموعے کا انکار کر دے۔ کسی انفرادی روایت پر گفتگو سے انسان منکر حدیث نہیں بن جاتا ہے۔  عین ممکن ہے کہ ایک عالم تحقیق کر کے  ایک حدیث کو صحیح قرار دے  اور دوسرا اسے ضعیف سمجھے کیونکہ دونوں کے علم، عقل اور انداز تجزیہ میں فرق ہو سکتا ہے۔ یہ اختلاف حدیث کے انکار یا اقرار کا نہیں ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب درست ہے یا نہیں۔ ایک یا چند احادیث میں اختلاف کے باعث کسی کو منکر حدیث نہیں کہنا چاہیے۔ منکرین حدیث وہ لوگ ہیں جو بحیثیت مجموعی حدیث اور سنت کے پورے ذخیرے کو دین کا ماخذ نہیں مانتے۔

 دعاؤں کی درخواست ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

انکار حدیث اور درایت کے اصول
Scroll to top