سورۃ النساء 4 کے مطالعے میں ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور بنی اسرائیل سے متعلق سوالات

سوال: سورة بقرہ کی آیت ١٢٤ سے ١٦٢ تک مطالعے کے دوران کچھ سوالات پیدا ہوئے ہیں، میں انہیں آپ کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں؟ کیا  کعبہ سب سے پہلے  ابرہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا یہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے؟

اسامہ ذوالفقار عباسی، آزاد کشمیر

جواب:  ایسا نہیں ہے۔ عبادت گاہ تو ہمیشہ ہی رہی ہے کہ جب انسان حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے شروع ہوئے تو اسی وقت ہی عبادت گاہ جسے ہم مسجد کہتے ہیں، وہ بن گئی تھی۔ پھر ہمیشہ ہی مسجدیں بنتی رہیں اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اسی طرح نماز پڑھتے رہے۔ 

2000BC

حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے 2000 قبل مسیح سے تاریخی کتابیں  لکھی جانی شروع ہوئی ہیں۔

اس لیے  وہاں سے زیادہ کلیئر حالات کا علم ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں جو حج جاری ہے جس کا سلسلہ  ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے مکہ مکرمہ میں شروع کیا تھا۔ اس سے پہلے پری ہسٹری کا ٹائم ہے۔ عین ممکن ہے کہ پہلے ہی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام حج کرتے کرواتے ہوں گے۔ اب کس جگہ کرتے ہوں گے، اس کا ہمیں کچھ کنفرم نہیں ہے۔ پرانی روایتوں میں یہ بات ہے کہ مکہ مکرمہ ہی میں پہلے حج ہوتا تھا۔ اب اس روایت کو ری چیک کرنے کا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ 

 سوال: کیا حج امت محمدیہ ﷺ کے مسلمانوں سے پہلی امتوں پربھی فرض تھا؟

جواب: جی ہاں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر آج تک تو کنفرم ہے۔ آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام اسی جگہ سیٹل ہوئے۔ آپ کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی نسل جسے بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، تو وہ بھی حج کرنے آتے تھے۔ تاریخی کتابیں جو  بائبل میں ہیں، ان میں یہ ملتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام بھی تشریف لائے تھے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی حج کرتے رہتے تھے ۔ 

حج کا مقصد یہی رہا ہے کہ اس زندگی میں ایک بار حج کر لیں تاکہ ہم پریکٹیکل ایکسرسائز کر لیں کہ ہم شیطان کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ 

 سوال:  اللہ کا رنگ اختیار کرنے سے کیا مراد ہے؟

جواب:  کسی بھی زبان میں حقیقی معنی بھی ہوتا ہے اور مجازی معنی بھی۔ مجازی معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ لفظ حقیقت میں تو کچھ اور ہوتا ہے لیکن مجازی معنی میں اسے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً آپ اردو، کشمیری ، پنجابی اور ہندی زبان میں دیکھتے ہیں کہ  کسی بہادر آدمی کو آپ شیر کہہ دیتے ہیں۔ اب حقیقت میں شیر تو جانور ہے لیکن  مجازی معنی میں انسان کو شیر کہہ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ  یہ کوئی جنگلی انسان ہے بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ بہت بہادر انسان ہے۔ 

اسی طرح اللہ تعالی کے رنگ کو مجازی معنی ہی مراد ہے۔ اللہ تعالی سے محبت اور اللہ تعالی کے احکامات پر عمل یہ سب ہی رنگ کی شکلیں ہیں۔  اس آیت میں بنی اسرائیل کو ان کی غلطی بتائی گئی تھی کہ ان کے جومختلف فرقوں نے الگ الگ رنگوں کے کپڑے بنا لیے ہیں۔ اللہ تعالی کے نزدیک ان فرقہ ورانہ رنگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ آپ کو صرف اور صرف اللہ تعالی کے رنگ یعنی اللہ تعالی کی محبت اور شریعت پر عمل کرکے ہی ہمارا رنگ اپنانا چاہیے۔ 

 سوال:  قبلہ کی تبدیلی کے بارے میں تفصیل سے بتا دیں؟

جواب: اس کے لیے آپ تاریخ کی پہلی کتاب میں پڑھ لیجیے اور اس پر لیکچرز بھی سن سکتے ہیں۔ قبلہ کی حیثیت صرف یہی ہے کہ نماز کے وقت سب ایک ہی ڈائرکشن میں نماز پڑھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جب کعبہ مکرمہ کی تعمیر کر دی تو سب کو یہی سمجھا دیا کہ آپ نماز کا رخ کعبہ کی طرف کرکےہی پڑھیں کیونکہ کعبہ مسجد ہے۔ 

بنی اسرائیل بھی ایسا ہی کرتے رہے اور بائبل میں یہی ملتا ہے کہ جب حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام بنی اسرائیل کی  سینا کے علاقے میں تربیت کر رہے تھے تو انہیں جنوب کی طرف ہی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ اسے آپ گوگل میپ میں دیکھ لیجیے  کہ سینا کا جنوب مکہ مکرمہ کی طرف ہے۔ 

https://www.google.com/maps/@27.1967277,35.9353667,1461206m/data=!3m1!1e3

اس کے بعد جب بنی اسرائیل کی حکومت فلسطین میں بن گئی تو حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد اقصی بنائی جس کا رخ مکہ مکرمہ کی طرف ہی تھا۔ کافی عرصے بعد جب بنی اسرائیل گمراہ ہو گئے تو انہوں نے مسجد اقصی کو ہی اپنا قبلہ بنا دیا۔ پھر ان کے فرقے الگ ہوئے تو یہودیوں نے مسجد اقصی کی مغربی دیوار کو قبلہ بنا دیا اور عیسائیوں نے مشرقی دیوار کو قبلہ بنا دیا۔  اسے بھی آپ گوگل میپ میں دیکھ لیجیے۔ 

East Wall & West Wall in Jerusalem

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے آباؤ اجداد کعبہ ہی کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ پھر جب مدینہ منورہ پہنچے تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ آپ مسجد اقصی کی طرف ہی قبلہ بنا لیں۔ اس کا مقصد بھی ارشاد ہوا جو قرآن مجید میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اس کا مقصد یہی تھا کہ انسان اپنے فرقے کے تعصب کو چھوڑ کر اللہ تعالی کے حکم کے مطابق عمل کریں۔ اس میں امتحان مکہ مکرمہ والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی تھا اور بنی اسرائیل پر بھی جن کے تین قبیلے مدینہ منورہ میں رہتے تھے۔ کچھ ماہ تک استعمال کر کے اللہ تعالی نے دوبارہ کعبہ مکہ مکرمہ ہی کو قبلہ بنا دیا تاکہ آئندہ کبھی فرقہ واریت نہ کریں۔  

https://mubashirnazir.org/2022/11/25/%d9%82%d8%b1%d8%a2%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a8%d8%a7%d8%a6%d8%a8%d9%84-%da%a9%db%92-%d8%af%db%8c%d8%b3-%d9%85%db%8c%da%ba/

سوال:  بنی اسرائیل نے کون کون سے نبیوں کو ناحق قتل کیا تھا؟

جواب:  اس کے لیے بنی اسرائیل ہی نے اپنی تاریخ کی کتابیں لکھ دی ہیں۔ ان میں اہم ترین کتابیں بائبل میں شامل ہیں۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا نام معلوم نہیں ہے لیکن چند کے نام حاضر ہیں۔ خاص طور پر حضرت زکریا اور حضرت یحیی علیہما الصلوۃ والسلام کو شہید کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں بنی اسرائیل کے لیڈرز نے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو شہید کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے انہیں بچا دیا۔ اس سے پہلے حضرت الیاس علیہ الصلوۃ والسلام کو شہید کرنے کی کوشش انہوں نے کی تھی لیکن اللہ تعالی نے انہیں بچا کر دوسرے ملک میں امیگریشن کروا دی۔ 

سوال: قرآن میں دو مختلف اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں نبی اور رسول، ان میں کیا فرق ہے؟

جواب:  بہت شاندار سوال ہے۔ نبی وہ حضرات تھے جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیں اور دعوت و تربیت کا کام کریں۔ رسول بھی وہ حضرات تھے جو نبی تھے، لیکن انہیں ایک خاص ذمہ داری بھی دے دی گئی تھی۔ پہلے دعوت و تربیت کا کام کریں اور اس کے بعد وہ اسی زندگی میں جزا اور سزا کا سلسلہ کر کے دکھا دیں۔  ہر انسان کی جزا یا سزا کا سلسلہ تو آخرت میں ہے لیکن انسان چونکہ نہیں سمجھتا ہے تو انہیں پریکٹیکل جزا و سزا کو لیبارٹری کے طور پر کر کے دکھا دیا اور یہ ذمہ داری رسول پر تھی۔ 

نارمل انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام میں یہ ہو سکتا تھا کہ انہیں کوئی شہید کر دے لیکن جو رسول تھے، انہیں کوئی انسان قتل نہیں کر سکا تھا۔ اس کی مثال آپ دیکھ لیجیے کہ حضرت موسی، عیسی اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام وہ رسول تھے جنہوں نے اسی زندگی میں جزا و سزا کو کر کے دکھا دیا۔  جیسا کہ آپ سورۃ النساء میں پڑھ چکے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اللہ تعالی نے انہیں بچا کر اٹھا لیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ تعالی نے انہیں بھی بچا لیا۔ پھر مدینہ منورہ میں بھی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔ 

جزا و سزا کا بھی آخر میں پریکٹیکل تجربہ کر کے دکھا دیاجس کا مطالعہ آپ سورۃ التوبہ میں کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جزا یہ  ملی کہ انہیں افغانستان سے لے کر مراکش تک کی حکومت مل گئی۔ جو منکرین تھے، انہیں اسی زندگی میں موت کی سزا دے دی گئی۔ جو منافقین تھے تو ان کی سزا یہ تھی کہ انہیں ذلیل بنا دیا گیا۔ بنی اسرائیل کی سزا یہ تھی کہ انہیں مغلوبیت کی سزا ملی کہ وہ انڈر بن کر رہیں گے۔ 

 سوال: سورۃ النساء آیت ١٦٠ میں ہے کہ ہم نے یہودیوں پر ایسی چیزیں حرام کر دی تھیں جو پاکیزہ تھیں۔ یہ کون سی چیزیں تھیں اور ان کے حرام کرنے کی کیا حکمت تھی؟

جواب:  اس کا جواب تو شاید پہلے بھی دیا جا چکا تھا۔ یہودیوں کے فقہاء نے حلال کام کو بھی حرام کہہ دیا تھا اور ان کے مرید اسی پر عمل کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے یہ کلیئر کر دیا جو قرآن مجید میں ہے کہ یہ جائز اور حلال کام ہے۔ اس کی مثال آپ آگے سورۃ المائدہ میں پڑھ لیں گے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ یہودی اونٹ کا گوشت حرام سمجھتے تھے۔ اللہ تعالی نے بتا دیا کہ یہ بالکل حلال گوشت ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی پر عمل کیا۔ اس پر یہودی آپ پر تنقید کرنے لگے کہ یہ کیسے رسول ہیں جو حرام کام کو حلال کہہ رہے ہیں؟ اس پر اللہ تعالی نے ان پر تبصرہ فرمایا ہے  جسے آپ نے آیت 160 میں پڑھا ہے جس میں ان کی احمقانہ حرکتیں  بیان کی گئی ہیں۔  پھر انہوں نے الٹی حرکتیں بھی کیں کہ جو تورات میں حرام عمل تھا، اسے وہ حلال کرنے لگے۔ 

مزید آپ پڑھنا چاہیں تو بائبل میں ان کی اپنی لکھی ہوئی تاریخ میں غلطیاں ہیں۔ اس کے لیے آپ کو بہت دلچسپ تبصرے وہ پڑھیں گے جو  حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے  ان پر کئےتھے۔  عیسیٰ علیہ السلام کے ان ارشادات میں کچھ میں نقل کئے دیتا ہوں، کیونکہ یہی غلطیاں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔ جب تک تمہاری زندگی شریعت کے عالموں اور فریسیوں سے بہتر نہ ہو گی تم آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گے۔ (اس میں یہود کے اہل علم کی بے عملیوں کی طرف اشارہ ہے۔)

۔۔۔۔۔۔ جو کوئی اپنے بھائی کو گالی دیتا ہے وہ عدالت عالیہ میں (خدا کے سامنے) جوابدہ ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔ تم سن چکے ہو کہ زنا نہ کرنا، لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی کسی عورت پر بری نظر ڈالتا ہے وہ اپنے دل میں پہلے ہی اس کے ساتھ زنا کر چکا ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اپنے مذہبی فرائض محض لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کرو کیونکہ تمہارا آسمانی باپ اس پر تمہیں اجر نہ دے گا۔

۔۔۔۔۔۔ جب تم خیرات تو ڈھنڈورا پٹوا کر نہ دو۔ جب تم روزہ رکھو تو ریا کاروں کی طرح اپنا منہ اداس نہ بناؤ۔ ریاکاروں کی طرح عبادت خانوں اور بازاروں کے موڑ پر کھڑے ہو کر دعا مت کرو۔ دعا میں رٹے رٹائے جملے نہ دوھراؤ۔

۔۔۔۔۔۔ اگر تم لوگوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا خدا بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔ اپنے لئے زمین پر مال و زر جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ لگ جاتا ہے اور چور نقب لگا کر چرا لیتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر خزانہ جمع کرو جہاں کیڑا اور زنگ نہیں لگتا اور نہ چور نقب لگا کر چراتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تمہارا مال ہو گا وہیں تمہارا دل ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔ عیب جوئی نہ کرو تاکہ تمہاری عیب جوئی بھی نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔ پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سوروں کے آگے نہ ڈالو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں پاؤں سے روند کر پلٹیں اور تمہیں پھاڑ ڈالیں۔ (یعنی اچھی چیز کم ظرف لوگوں کو نہ دو ورنہ وہ تمہی کو نقصان پہنچائیں گے۔)

۔۔۔۔۔۔ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔ وہ تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں لیکن باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ تم ان کے پھلوں (تعلیمات) سے انہیں پہچان لو گے۔ (اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹے نبیوں اور مذہبی راہنماؤں کا فتنہ بنی اسرائیل میں بھی تھا۔)

 سوال:  کیا یہود و نصاری یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ خدا کی اولاد ہیں؟

جواب:  بائبل میں وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کی اولاد ہیں کیونکہ ان کی زبان میں اللہ تعالی کو باپ سمجھتے ہیں۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں ورنہ وہ اپنے آپ کو سچ مچ جسمانی اولاد نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یہ غلطیاں کر لی ہیں کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام  کو اللہ تعالی کا سچ مچ  جسمانی اولاد سمجھ لیا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آپ پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح یہودیوں کے ایک فرقے نے بھی حضرت عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دیا تھا۔ 

بعض ان پڑھ لوگ مجازی معنی کو حقیقی معنی سمجھ بیٹھتے ہیں جس میں ایسی غلطیاں پیدا ہوئیں۔  مثلاً آپ کسی دوست کو شیر کہہ دیں  تو وہ مجازی معنی سمجھتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ میں بہت طاقتور ہوں۔ لیکن اگر وہ دوست بے وقوف ہو اور اسے مجازی معنی نہ سمجھیں تو آپ کو لڑنا شرو ع کر دے گا کہ  تم نے مجھے جانور کیوں کہا ہے؟  ایسی ہی غلط فہمیوں کا ارتکاب اہل کتاب میں ہوا اور مسلمانوں کے بعض فرقوں میں بھی ایسی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ اسی وجہ سے آپ کو مختلف فرقے نظر آتے ہیں۔ 

 

Your questions should go to mubashirnazir100@gmail.com.

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse

Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse

Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse

Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us

Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33

Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114

Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War

Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory

Quranic Studies

Comments on “Quranic Studies Program”

Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5

علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33

علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49

علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66

علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

سورۃ النساء 4 کے مطالعے میں ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور بنی اسرائیل سے متعلق سوالات
Scroll to top