غلبہءِ دین اور اقامت دین کیا ہے اور اس میں کیا اختلافات موجود ہیں؟

سوال:   کچھ دنوں سے میرے ذہن میں دین کی اقامت کے حوالے سے سوالات جنم لے رہے تھے، میں ایک ترتیب کے ساتھ ان کے جوابات معلوم کرنا چاہوں گا، سوالات یہ ہیں؛

طلحہ خضر، لاہور

قرآن مجید کے مطابق رسول ﷺ کی بعثت دین کو  دیگر ادیان پر غالب کرنے کے لیے ہوئی تھی۔کیا یہ غلبہ ٔ دین صرف سر زمین ِ عرب تک محدود تھی یا  یہ مقصد صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا؟ اگر ایسا تھا تو صحابہ  رضی اللہ عنہم نے رسول ﷺ کے بعد دوسرے ممالک سے کس حکم کے تحت جنگ کی اور دین کو غالب کیا؟

جواب:  غلبہ دین کا معاملہ تمام رسولوں کے ذریعے ہوا۔ جیسا کہ آپ حضرت نوح، ھود، صالح، ابراہیم، لوط علیہم الصلوۃ والسلام کے زمانے میں غلبہ دین یہی ہوا کہ چند لوگ ہی ایمان لائے تو اللہ تعالی نے انہیں ایک شاندار زندگی دے دی اور وہ دین پر عمل کرتے رہے اور دعوت پہنچاتے رہے۔ ان کی اپنی قوم کو فرشتوں کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا گیا جو اس قوم پر سزا ہوئی تھی۔ 

صرف دو رسول ایسے ہیں جس میں سزا کا یہ سلسلہ انسانوں کے ہاتھوں ہوا ہے۔  ایک حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام اور دوسرا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ دونوں کے معاملے میں ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایکشن کیا اور یہ محض جنگیں نہیں تھیں بلکہ ان قوموں پر سزا کا ایکشن ہوا تھا۔ 

سزا صرف انہی قوموں کو دی گئی جس میں رسولوں نے کلیئر طریقے سے انہیں دعوت پہنچا کر ان کی غلطیوں کو واضح کردیا تھا۔  حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے معاملے میں سزا کو صرف فلسطین کی رینج میں کیا گیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب قبائل اور پھر رومن اور پرشین ایمپائر کے بادشاہوں اور لیڈرز پر  یہی سزا جاری کی گئی۔ اب آپ کا سوال جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ہوا، وہ یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، وہ دعوت نہیں تھی بلکہ اس میں فائنل الٹی میٹم تھا۔ اس میں آپ خطوط کا ترجمہ خود پڑھ سکتے ہیں۔ 

اس زمانے کی دو ہی سپر پاورز تھیں، روم اور ایرانی سلطنت۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صرف انہی دونوں پر ایکشن کیا اور آسانی سے غلبہ بھی ہو گیا کیونکہ اللہ تعالی نے سزا جاری کر دی تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کوئی مشکل معاملہ نہیں ہوا ہے۔  ان دونوں سپر پاورز میں دعوت پہلے ہی کئی سال سے پہنچ چکی تھی۔ الٹی میٹم کی بنیاد پر خود روم اور ایرانی بادشاہوں نے خود ہی جنگ شروع کر دی تھی۔ 

ایک حدیث آپ نے پڑھی ہو گی جس میں حبشی فوجیوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ اگر وہ جنگ کریں تو آپ جنگ کریں ورنہ آپ نہ کریں۔ چنانچہ خود حبشی بادشاہ ایمان لے آئے اور ان کے انتقال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر  نماز جنازہ بھی ادا کی۔ ان کی وفات کے بعد اگلے بادشاہ نے جنگ نہیں کی بلکہ دعوت پر  بھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین نے اریٹیریا، سوڈان اور دیگر ممالک میں صرف دعوت کا کام جاری رکھا اور ان کے ایمان لانے پر دعوت کے ہاتھوں ہی اکثر لوگ ایمان لائے اور غلبہ انہوں نے خود ہی کر دیا تھا۔ 

سوال:   جہاں تک میں سمجھا ہوں،دین تو پورا ایک نظام ہے ، اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم صرف ارکانِ اسلام پر کاربند رہیں  قطعِ نظر اس کے کہ نظام کفر کا ہو  یا اسلام کا ، ہم دین پر عمل پیرا نہیں ہیں  کیونکہ ارکان ِ اسلام پر عمل  کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام بھی نافذ کرنا ہو گا ۔ یہی اقامتِ دین کا تقاضا ہے۔

میں نے جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی سنا ہے۔ ان کے مطابق  دین  کی اقامت کوئی اسلامی فریضہ نہیں ہے۔ یعنی اقامتِ دین کا معاملہ رسول ﷺ تک خاص تھا ۔  اگر یہی صورت، حال تھی تو  اس کا مطلب ہے کہ  ہم کفار کی رعایا  بن کر رہیں اور اقا متِ  دین کو چھوڑ دیں ۔ بالفاظ ِ دیگر ، ہمارا  کام صرف نماز ، روزہ ، حج، زکوۃ  یا زیادہ سے زیادہ  وعظ و نصیحت کرنا ہے ۔  لہذا ہمیں الگ سے کوئی نظام بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں درست رویہ کیا ہے؟

جواب:  اس میں آپ مودودی صاحب اور جاوید  غامدی صاحب کے دلائل کو خود دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی کتابوں میں ہے اور میں نے ان کے دلائل کو تقابلی مطالعہ کی کتاب CS06 میں اکٹھا کر دیا ہے۔ فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ کتاب کا لنک یہ ہے؛

https://drive.google.com/drive/u/0/folders/12ODWBkAskGyloH1KMaU1b_1uPuhM9fW0

حقیقت یہی ہے کہ مودودی صاحب 1930 کے زمانے میں اس وجہ سے متاثر ہوئے تھے کہ انگریز سپر پاور تھے۔ انہوں نے  پرانے زمانے سے رعایا ہی کا ماحول دیکھا تھا۔  ان کی کتاب تنقیحات پڑھ لیجیے گا۔ بعد میں انہوں نے جب یہ دیکھا کہ تمام اقوام میں مذہبی جبر ختم ہو گیا ہے تو پھر اقامت دین کا طریقہ یہی ہے کہ ہم ہر طرف دعوت پہنچا دیں۔ ان کی زندگی میں صرف روس اور چین ہی تھا جس میں مذہبی جبر موجود تھا اور مسلمانوں کو رعایا ہی بنایا گیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد روس اور چین میں بھی مذہبی آزادی کا سلسلہ ہو گیا تو جاوید صاحب اور مولانا وحید الدین خان صاحب نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ 

https://archive.org/details/20200622_20200622_0641

https://www.ebooksall.com/tabeer-ki-ghalti-by-waheeduddin-khan/

سوال:   پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرنظام نہیں بنانا تھا، صرف دعوت دینا اور دین پر عمل کرنا ہی معاملہ کی صحیح صورت تھی تو رسول ﷺ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ جانے کی کیا ضرورت تھی ، نماز ، روزہ ، حج، زکوۃ یا وعظ و نصیحت  کا کام تو قریشِ مکہ سے معاہدہ کر کے بھی ادا کیے جا سکتے تھے۔ مزید یہ کہ رسول ﷺ نے صرف یہی نہیں بلکہ اقامتِ دین  کے لیے جہادو قتال بھی کیا۔ میری یہ کنفیوژن بھی دور کیجئے؟

جواب:   مکہ مکرمہ میں مذہبی جبر ہی موجود تھا اور وہ نمازاور  زکوۃ  ادانہیں کرنے دیتے اور حج پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرت کا حکم دیا گیا اور اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ منورہ میں صرف دعوت کے نتیجے میں حکومت بن گئی۔ جہاد و قتال کا سلسلہ  تو اس لیے شروع ہوا کہ قریش نے مذہبی جبر  کی بنیاد پر جنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے بھی اپنی سزا  جنگ بدر ہی میں جاری کر دی اور ان کے لیڈرز مارے گئے۔ باقی لوگوں نے پھر بھی جنگ  احد اور خندق کی کر دیں۔ 

قریش  معاہدے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پھر مجبوراً وہ معاہدہ کر بیٹھے لیکن پھر بھی اس معاہدے کے خلاف ایکشن کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے عوام کے لیے بھی سزا سنا دی جس میں مکہ فتح ہو گیا اور وہاں کی پوری قوم ہی ایمان لے آئی۔

پھر سورۃ التوبہ نازل ہوئی اور اس کے لیے حج کے موقع پر سب کو اعلان کر دیا۔ اس کے نتیجے میں سارے قبائل ایمان لے آئے تو سزا نافذ نہیں ہوئی۔ ہاں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکومت میں جنہوں نے بغاوت کی تو ان پر بھی ایکشن ہو گیا۔ 

 سوال:    آپ کے جواب سے معلوم ہوا کہ ہمیں مکی اسلام پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ مدینہ والا اسلام رسول ﷺ کی زندگی تک محدود تھا۔ اگر ہمیں مکی اسلام پر عمل کرنا ہے تو نماز ، روزہ ، حج، زکوۃادا کرنے کے احکامات تو مدینہ میں نازل ہوئے ہیں، وہ  ہم ادا کیوں کرتے ہیں ؟ شراب، سود اور جوابھی جائز ہونا چاہیئے۔ کیونکہ یہ بھی مدینہ ہی میں حرام ہوئے ہیں۔آپ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب:  حقیقت میں موجودہ زمانہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکی دور تھا۔ اگرچہ مسلم ممالک آزاد تو ہو گئے ہیں لیکن ہم اکنامکس  کے اعتبار سےجبر کے ہاتھوں  ہی مجبور ہیں جس میں غیر مسلم لوگ ہماری کرنسی کو گرا دیتے ہیں۔ باقی آپ کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کے احکامات اور شراب، سود، جوا پر پابندی پر عمل نہ کریں۔ مکہ مکرمہ میں بھی اہل ایمان پر یہی احکامات جاری تھے ،تورات میں یہی احکامات اب تک موجود ہیں۔ 

مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز، روزہ، حج، زکوۃ سب پر عمل کرتے تھے بلکہ نبوت سے پہلے بھی اسی طرح عمل کرتے تھے۔ شراب، سود، جوا وغیرہ بھی حرام عمل تھے جو نبوت سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مخلص  حضرات ان حرام امور پر عمل نہیں کرتے تھے۔ زکوۃ کو ذاتی طور پر ادا کرتے تھے اور تب ہی تو غلاموں کوآزاد کرواتے رہے۔ حج کرتے رہے، ہاں مدینہ جا کر قریش نے اہل ایمان پر پابندی لگا دی۔ اس میں آپ سیرت نبوی بلکہ اس سے پہلے کے دور کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔ 

https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1qBg8D6KnsutiyG16lwLLEePpNqgd_Pbh

مدنی پیریڈ میں فرق صرف اتنا ہواکہ ان حرام  امور پر حکومت کے ذریعے پابندی لگوادی گئی۔ نماز، زکوۃ پر اجتماعی عمل کرتے رہے۔ حج و عمرہ 7 سال تک نہ کر سکے  کیونکہ قریش نے پابندی لگا دی تھی، لیکن معاہدے کے ساتھ  عمرہ کرنے لگے۔ فتح مکہ کے بعد حج بھی جاری رہا۔  روزے رکھنے پر پہلے بھی عمل کرتے رہے۔ قرآن مجید میں جب رمضان کے روزے  خاص فرض کر دئے گئے تو پھر اسی پر عمل جاری رہا۔ 

ہم بھی اب اسی طرح عمل کریں گے اور جو غیر اخلاقی حرکتیں ہیں، اس سے ہم ذاتی طور پر اسے چھوڑتے رہیں گے جیسے جوا، شراب، سود وغیرہ۔ قرآن مجید میں  آپ سارا مطالعہ کر لیجیے تو اس میں تب آیات نازل ہوئیں جب مسلمانوں نے غلطیاں کیں۔ جب کبھی بھی ہمیں حکومت مل سکی تو اس پر اجتماعی طور پر عمل بھی کریں گے اور بری حرکتوں پر سزا پر نافذ کریں گے۔ لیکن حکومت نہ ملی تو ذاتی طور پر تو ہمیں  دین پرعمل کرنا ہی ہے اور ساتھ  میں اس کی دعوت بھی دینی ہے۔ 

سوال:   آپ کی گفتگو سے جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اقامت ِ دین کا صحیح طریقہ مسلح جہاد وقتال کے ذریعے شریعت کا نفاذ نہیں ہے  بلکہ پہلے دعوتِ اسلام کو لوگو ں تک پہنچانا ہے ۔ اگر  لوگ اس کو قبول کر لیں تو  ٹھیک ورنہ ان کو بزورِ شمشیر  مسلمان  نہیں بنایا جائے گا  اور نہ ان کے ملک پر قبضہ کیا جائے گا کیونکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ  لا اکراہ فی الدین کیونکہ اگر ان کے ساتھ زبردستی کی جائے تو یہ ان کے اختیارِ کفر  پر ایک حملہ ہے  جو کہ اسلامی فلسفۂ جہاد و قتال کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ  متعدد آیات ایسی ہیں جو لوگوں کو ایمان و کفر  میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیتی ہیں۔

جواب:  آپ نے بالکل صحیح طرح سمجھا ہے۔  ظاہر ہے کہ ہم نبی اور رسول تو نہیں ہیں۔ اب جو انسان بھی کفر کرتا ہے تو اسے اللہ تعالی ہی فیصلہ کر کے سزا دے گا۔  رسولوں کے زمانے میں اللہ تعالی سزا کا اعلان کر دیتا تھا اور پھر فرشتے یا رسول خود ایکشن لیتے تھے۔ اب ختم نبوت ہو گئی تو ہم اب نہیں جانتے ہیں کہ کوئی انسان قابل سزا ہے یا نہیں۔ ہاں اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے متعلق جرم کرتا ہے تو پھر حکومتی عدالت ہی سزا دےسکتی ہے۔

سوال:    مزید برآں یہ کہ ، ہم بذریعہ  قلم و زبان  ان کو دعوتِ اسلام پہنچانے کا  طریقہ اپنائیں گے  لیکن ان کے اصرارِ کفر پر ان کو زبر دستی ذمی نہیں بنائیں گے؟

جواب:  آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔ ذمی کا مطلب عرض کر دیتا ہوں کہ قدیم زمانے میں حکمران ایک ایک انسان پر ٹیکس لگا دیتے تھے جسے ذمی کہا جاتا تھا۔ سورۃ التوبہ میں اللہ تعالی نے یہ سزا بنی اسرائیل کے لیے دی کہ انہیں مغلوب کیا جائے اور ان سے ذمی لی جائے۔ اس ذمی کے بدلے حکومت یہ کرتی تھی کہ کبھی بھی جنگ ہوئی تو غیر مسلم پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ  فوج کا حصہ بن کر اپنی قربانی کروائے۔ جبکہ مسلمانوں پر پابندی تھی کہ وہ ذمی نہیں دیں گے، لیکن اگر جنگ ہوئی تو مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ جہاد میں شامل کریں۔ 

ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ جب عراق فتح ہوا تو یہاں کے غیر مسلم قبیلوں کو ذمی بنا لیا گیا۔ یہاں عراق میں کچھ عیسائی قبیلے تھے اور انہوں نے جا کر خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سے  درخواست کی کہ ہمیں ذمی نہ لیں بلکہ ہم زکوۃ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ پھر ایران کے ساتھ جہاد ہوا تو یہ عیسائی قبائل بھی مسلم فوج کا حصہ بن گئے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایران سے جنگ کریں گے۔ 

ذمی کا ایک اور واقعہ ہوا کہ  سیریا میں حمص کے شہر میں ذمی سے ٹیکس جزیہ لیا گیا جو امیروں پر 20 درہم سالانہ، متوسط لوگوں پر 10 درہم سالانہ اور غریب لوگوں  پر 1 درہم یا اس سے بھی کم کر لیا گیا۔ کچھ مہینوں پر بعد مسلم فوج کو حمص سے نکلنا پڑا کہ انہوں نے دوسری جگہ جہاد کرنا تھا۔ اس موقع پر کمانڈر ان چیف  اور فائنانس منسٹر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے عیسائی آبادی کے سامنے اعلان کیا کہ آپ اپنا ٹیکس واپس لے لیں کیونکہ اگلے کچھ ٹائم کے لیے ہم آپ  کی سکیورٹی نہیں کر سکتے ہیں۔ 

اس پر ہزاروں عیسائی افراد نے اپنا ٹیکس واپس لیا اور خود روتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کی کہ  یا اللہ! انہی لوگوں کو واپس ہمارے پاس لے آئیں۔ اس سے پہلے خود عیسائی بادشاہ اپنے عیسائی افراد سے جزیہ بھی لیتے تھے اور پھر جب ضرورت ہوتی تو مزید ٹیکس لے آتے تھے جبکہ مسلمان تو الٹا ٹیکس ہمیں واپس کر رہے ہیں۔ 

 سوال:  جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ اگر اسلامی ریاست و حکومت وجود میں آتی ہے تو دین و شریعت کا نفاذ فرضِ عین ہوگا اور جو لوگ اس کی مخالفت کریں گے ان کے خلاف قتال فی سبیل اللہ کا جواز ثابت ہو جا ئے گا۔ کیا میرا تجزیہ  صحیح ہے؟

جواب:  اب اسلامی حکومت بنی تو اس میں وہی اصول ہو گا کہ ان سے ٹیکس لیا جائے گا لیکن ان پر جنگ میں کوئی ذمہ داری نہیں ہو گی بلکہ مسلمانوں پر ذمہ داری ہو گی کہ وہ غیر مسلموں کی سکیورٹی کریں۔ ہاں، اگر غیر مسلم حضرات اپنے آزادانہ فیصلے پر خود جنگ میں شامل ہوں تو ان کی اپنی مرضی ہے۔ 

 سوال:  مولانا مودودی علیہ الرحمۃ  نے اقامت ِ دین کا  جوتصور تفہیم القرآن  میں  پیش کیا ہے ، آیا وہ ٹھیک ہے؟ کیونکہ ان کے نزدیک اَن اقیم الدین ۔۔۔ کا مطلب نظام قائم کرنا ہے،  جو معاشی ، معاشرتی اور سیاسی طور پر  مکمل اسلامی ہو۔لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ اگر یہ نظام قائم  ہے تو اسے قائم رکھیں اور اگر قائم نہیں ہے تو اسے قائم کریں۔کیونکہ حدود اللہ کا نفاذ  کفر کی رعایا  بن کر نہیں ہو سکتا۔

جواب:  مودودی صاحب کے ارشاد پر میں پوری طرح متفق ہوں۔ ان اقیم الدین ۔۔۔ میں پہلے ہمیں ذاتی طور پر خود شریعت پر عمل کرنا ہے۔ پھر جو مخلص لوگ ہوں تو انہی کو ووٹ کرنا چاہیے۔ جب انہی مخلص حضرات کی حکومت بنے تو ان پر لازم ہے کہ وہ شریعت کے احکامات پر عمل کریں۔ الحمد للہ، پاکستان میں قانونی طور پر شریعت کے مطابق ہی قوانین بنائے جا چکے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ موجودہ حکمرانوں کو مشورہ  دیں کہ اس  شرعی قانون پر عمل بھی کروائیں۔

اس میں زیادہ اچھا ہے کہ تقابلی مطالعہ کر لیجیے جس میں مودودی صاحب اور وحید الدین خان صاحب کے دلائل پر خود فیصلہ کر لیجیے۔ میں نے ان کے نقطہ ہائے نظر اور دلائل کو چھٹی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ بغیر تعصب کے آپ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ کیا بات درست ہے اور کہاں غلطی ہے۔

اس کے لیے یہ دیکھا ہے کہ سٹیٹ بینک پاکستان نے تمام اسلامی بینکوں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ سود نہیں کمائیں گے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے ان کے ذریعے ہی اصول لگوا دیے ہیں۔ اب اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ اس میں آپ کو  کہیں پر عمل نظر آئے گا اور کہیں پر نہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ سٹیٹ بینک کو مشورہ  ضرار دیں۔ پھر  جب بھی مخلص حضرات کو حکومت ملی تو وہ اس پر عمل بھی کروائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ 

Accounting & Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI)

You can send questions through email at mubashirnazir100@gmail.com.

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice

Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

اصول الحدیث لیکچرز

علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات

اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ

Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں

اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟

قرآن اور بائبل کے دیس میں

 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر

سفرنامہ ترکی

اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں

Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات

Social Sciences سماجی علوم

مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

غلبہءِ دین اور اقامت دین کیا ہے اور اس میں کیا اختلافات موجود ہیں؟
Scroll to top