سوال: کیا دوسرے فرقے کی مسجد میں ہم داخل ہوں اور ان کے پیچھے کیا ہم نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: کسی بھی فرقہ کے حضرات کے ساتھ نماز پڑھنے میں قرآن و سنت میں منع نہیں کیا گیا ہے۔ امام جو بھی ہو، ہر انسان کو اس کی اپنی نیت کے لحاظ سے اسے اجر ملنا ہے۔ اب چاہےکسی بھی فرقہ سے متعلق حضرات ہوں، ہمیں حسن ظن ہی رکھنا چاہیے کہ ان بھائیوں کو غلط فہمی ہو گئی ہو گی۔ باقی اگر باجماعت نماز پڑھیں گے تو ہمیں اپنی نیت کے مطابق ہی اجر ملنا ہے اور امام صاحب کو اپنی نیت کے مطابق۔
مختلف فرقوں کے حضرات سب ہی اسلام میں داخل ہیں کیونکہ وہ سب اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ شریعت کے متعلق جنہیں جو معلوم ہے، اس پر وہ عمل بھی کرتے ہیں ۔ رہی نیت تو ہر انسان کو اس کی نیت کے لحاظ سے جزا و سزا کا سلسلہ آخرت میں ہو گا۔ جو فلسفیانہ آئیڈیاز انسانوں کے ذہن میں پیدا ہوئے ہیں، تمام فرقے اسی بنیاد پر پیدا ہوئے ہیں۔
یہ حضرات اپنے فلسفیانہ آئیڈیاز کو دین کا حصہ سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ وہ آئیڈیاز قرآن مجید اور قابل اعتماد احادیث میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے یہی سمجھنا چاہیے کہ ان تمام بھائیوں میں غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ کسی کی نیت پر ہمیں کچھ نہیں کہنا چاہیے کہ اس کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالی ہی فرمائے گا۔
سوال: کچھ فرقوں میں کچھ ایسے نظریات پائے جاتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے منافی ہیں جیسا کہ جیسے اللہ کے فوت شدہ بندوں کو پکارنا، زکوة کا انکار کرنا، اللہ کی کتاب سے پانچ صلاة کا اشارہ ملتا ھے، اس کے مطابق صلاة ادا نہ کرنا، عبادت گاہوں کو مسجد کی بجائے امام بارگاہ کا نام دینا۔ باقی جو خرافات جن کو دین سمجھ کر کیا جاتا ھے۔ جن کا دین اسلام سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں ھوتا بلکہ اسی ہی کو اصل دین اسلام سمجھ کر کیا جاتا ھے۔ کیا یہ قرآن مجید کی واضح تعلیمات کی نفی نہیں ہے؟ جب کبھی قرآن کی آیات ان کے سامنے رکھی جائیں تو کچھ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ لے جاؤ اپنا قرآن، تو کیا پھر بھی یہ غلط فہمی ہی کہی جائے گی ؟ اگر اس کو غلط فہمی سمجھ لیا جائے تو کیا ایسی غلط فہمی کا فائدہ قرآن مجید میں کفار کو بھی دیا گیا ؟
جواب: سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت کئے دیتا ہوں کہ جب ہم کسی گروہ کا نام لے کرتنقید کرتے ہیں تو اس سے تعصب پیدا ہوتا ہے۔لہذا نامزد کئے بغیر صرف نظریات کو زیر بحث لانا زیادہ مناسب ہے۔ اس لئے کوشش کیجئے کہ آئندہ گفتگو میں بھی کسی شخص یا گروہ کا نام بالکل ہی نہیں آنا چاہیے۔ ورنہ پھر لوگوں میں نفرتیں زیادہ پیدا ہو جاتی ہیں۔
باقی بھائی آپ نے جو سوالات دریافت کئے ہیں ، ان کی وضاحت مرحلہ وار درج ذیل ہے؛
کچھ فرقوں میں کچھ ایسےنظریات پائےجاتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے منافی ہیں؟
ج۔یہاں پر غلط فہمی ہی موجود ہے کیونکہ اپنے زعم میں وہ جو کچھ مان رہے ہیں قرآن و سنت کے مطابق ہی مان رہے ہیں۔
جیسا کہ اللہ کے فوت شدہ بندوں کو پکارنا۔
ج۔یہ غلط فہمی ہی ہے ، صوفی ازم کی بنیاد پر کئی مسلمان گروہوں میں ایسا تصور موجود ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں یہ موجود ہی نہیں ہے، اس لیے لوگوں میں غلط فہمی پائی جاتی ہے جب کہ ہماری ذمہ داری ان کو دلائل کے ساتھ حقیقت کو بیان کرنا ہے۔
زکوۃ کا انکار
ج۔ زکوۃ سے متعلق مسلمانوں میں کوئی گروہ بھی انکار نہیں کرتا ۔ اختلاف بس یہ ہے کہ یہ زکوۃ کون حاصل کرے گا؟ مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک یہ ہے کہ زکوۃ موجودہ حکومت حاصل کرے گی اور غریب لوگوں میں ادا کرے گی۔ دوسرے گروہ کے نزدیک حکومت صرف امام کو حاصل ہونی چاہئے۔ جب بھی غائب امام سامنے آئیں گے تو اس وقت زکوۃ انہیں ادا کی جائے گی۔
اللہ کی کتاب سے پنج گانہ صلاة کا اشارہ ملتا ھے، اس کے مطابق صلاة ادا نہ کرنا۔
ج۔ تمام مسلمان پانچ نمازوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے دین کا حکم سمجھتے ہیں۔ اکثریت کے نزدیک پانچ نمازیں صحیح ٹائم پر ادا کرنا ضروری ہے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک یہ جائز ہے کہ دو نمازوں کو اکٹھا ادا کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشا کو اکٹھا کر دیتے ہیں۔
عبادت گاہوں کو مسجد کی بجائے امام بارگاہ کا نام دینا ۔
ج۔ یہاں پر لفظ کی غلط فہمی ہے۔ ان گروہ کے نزدیک امامت کا تصور موجود ہے۔ اس لیے وہ مسجد کو امام بارگاہ کہہ دیتے ہیں کہ امام ہی مسجد کے امام ہوں گے۔
باقی جو خرافات جن کو دین سمجھ کر کیا جاتا ھے۔ جن کا دین اسلام سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں ھوتا بلکہ اسی ہی کو اصل دین اسلام سمجھ کر کیا جاتا ھے۔ کیا یہ قرآن مجید کی واضح تعلیمات کی نفی نہیں ہے؟
ج۔ یہاں پر یہ ضرورت ہے کہ ہمیں چاہیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں۔ اس میں دین کا اور ایمان کا تصور مکلم طور پرموجود ہے۔ اس سے باہر جو کچھ بھی آئیڈیا زلوگوں میں آ گئے ہیں،اگر وہ قرآن میں نہیں ہیں تو اسے ہمیں چھوڑ دینا چاہیے اور اسے انسانی آئیڈیاز ہی سمجھنا چاہیے جو غلط بھی ہو سکتے ہیں اور اگر لاجیکل ہوں تو پھر ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں۔
جب کبھی قرآن کی آیات ان کے سامنے رکھی جائیں تو کچھ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ لے جاؤ اپنا قرآن، تو کیا پھر بھی یہ غلط فہمی ہی کہی جائے گی ؟ اگر اس کو غلط فہمی سمجھ لیا جائے تو کیا ایسی غلط فہمی کا فائدہ قرآن مجید میں کفار کو بھی دیا گیا ؟
ج۔ جو شخص بھی کہے گا کہ قرآن کو لے جاؤ تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کا انکار کر رہا ہے۔ ایسے شخص سے ہمیں دور ہی رہنا چاہیے۔ یقیناًیہ انکار کرنے والا کوئی شخص انفرادی حیثیت میں ہی ہو گا۔ ویسےکسی گروہ کا نقطہ نظر اور عقیدہ یہ نہیں ہے بلکہ اس مخصوص شخص نے انکار کیا ہے۔ جو شخص کفر کرے گا تو اللہ تعالی ہی اسے سزا دے گا۔ یہ ہماری ذمہ داری اور اسکوپ نہیں ہے کہ ہم انہیں سزائیں دینا شروع کریں۔
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.