کیا اولو الامر  سے مراد ہر فرقے کا بڑا مولوی ہے اور کس فرقے یا جماعت کے امام کی پیروی کریں؟

سوال:قرآ ن وحدیث میں جو لفظ اولو الامر آتا ہے اس کا کیا مطلب ہے  کیا اولو الامر  سے مراد ہر فرقے کا بڑا مولوی ہے؟

ڈاکٹر رفعت نواب، فیصل آباد

جواب:  قرآن و حدیث میں اولو الامر کا لفظ جو استعمال ہوا ہے، وہ لٹرل معنی میں وہی ہے جو عربی زبان میں ہے۔ لفظ اولو کا معنی ہے ذمہ دار شخص اور امر کا مطلب ہے معاملہ۔ اوور آل مطلب یہ بنے گا کہ معاملے میں ذمہ دار شخص۔ عام طور پر  اگر پوری قوم کا معاملہ ہے تو پھر یہ معنی حکومت سے متعلق ہوتا ہے۔ اب کسی بھی حکومت کا سب سے بڑا ذمہ دار شخص اس قوم کا صدر، وزیر اعظم یا بادشاہ جو کچھ بھی ہے۔ سادہ الفاظ میں اولو الامر کا معنی ہے حکمران۔ 

قرآن مجید میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ اولو الامر یعنی حکمران کی اطاعت کریں اور اگر حکمران کوئی غلط عمل کر رہا ہے تو اس کو مشورہ دیں کہ یہ غلط ہے بلکہ آپ اس طرح ٹھیک کر دیں۔ 

اگر معاملہ پوری قوم سے متعلق نہیں ہے تو پھر اس معاملے کے اولو الامر کو آپ منیجر یا کوئی اور معنی میں استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلاً کسی تعلیمی ادارہ کا اولو الامر اس  کالج یا اسکول کے پرنسپل کو کہیں گے۔  اگر معاملہ کسی کے گھر کا ہے تو اس گھر کا ذمہ دار شخص عموماً اباجان بن جائیں گے۔ اولو الامر کا  معنی پھر ہر معاملے میں مختلف ہو جائے گا اور اس معاملے کو سمجھ کر ہی اسے اولو الامر کہا جائے گا۔ 

سوال:  بھائی ،اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہر مذہبی تنظیم کا سربراہ خود کو مسلمانوں کا اولولامر سمجھے ہوئے ہے اور وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کررہا ہے بلکہ بیعت لے رہا ہے۔ حالانکہ  ملک کا صدر، وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور دیگر سرکاری مشینری بھی موجود ہے۔ کیا ایسی صورت میں یہ تنظیمی اولوالامر جعلی اولوالامر نہیں قرار پائیں گے؟

جواب:  جی ایسی صورت میں پارٹی کا لیڈر ہی اولو الامر بن جاتا ہے اور لفظی معنی میں درست ہے۔ لیکن یہاں غلطی یہی ہے کہ اس پارٹی میں شامل ہو جانا۔ اسی میں پھر وہ قرآن مجید کا لفظ  اولو الامر استعمال کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے مریدوں کو قابو کر سکیں۔ لڑکوں کی غلطی یہی ہوتی ہے کہ وہ اس پارٹی کا ممبر بن جاتے ہیں اور ان کا لیڈر  انہیں غلط استعمال کرتے ہیں۔ انہیں یہی چاہیے ہوتا ہے کہ وہ اس پارٹی کا حصہ نہ بنتے لیکن یہ نوجوان یا بچے ہی ہوتے ہیں۔ ان میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور انہی کے لیے میں نے نفسیاتی غلامی کی کتاب لکھی او رلیکچرز بھی  بنا دیے ہیں تاکہ لڑکے لڑکیاں مستقبل میں بچ سکیں۔ 

قرآن مجید میں جہاں پر بھی لفظ اولو الامر منکم سے متعلق ہے تو آپ اس کے پورے جملے کو پڑھ کر اس کا معنی سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں حکومت سے متعلق معاملہ ہے۔  اس کے لیے صرف ایک لفظ ہی نہیں بلکہ اگلی پچھلی آیات کو پڑھ کر سمجھنا چاہیے۔ یہ ذکر سورۃ النساء میں ہے۔ 

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا۔

(اہل ایمان ! اللہ تعالی  نے آپ کو ایک عظیم حکومت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس موقع پر) اللہ تعالی  آپ  کو  ہدایت کرتا ہے کہ ذمہ داریاں  اُن کے حقداروں  کو  (میرٹ کے ساتھ) ادا کریں۔ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ کریں۔  نہایت اچھی بات ہے یہ جس کی اللہ تعالی  آپ  کو  نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ تعالی  سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ 

اہل ایمان ! (یہ اللہ  تعالی  کی حکومت  ہے، اِس میں) اللہ تعالی  اور اُس کے رسول کی اطاعت کیجیے  اور اُن کی بھی جو آپ میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے جائیں۔ پھر اگر کسی معاملے میں آپ میں اختلاف رائے ہو تو (فیصلے کے لیے) اُسے اللہ تعالی  اور اُس کے رسول کی طرف لوٹا دیجیے، اگر آپ اللہ تعالی  پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔  (النساء: 58،59)

سوال:  بھائی فرقہ اور مکتبہ فکر میں کیا فرق ہے؟

جواب:  بھائی، مکتبہ فکر تو محض ایک علمی طریقہ ہے کہ مختلف اسکالرز ایک نقطہ نظر پر متفق ہوں تو وہ اپنے آپ کو ایک علمی گروپ کے طور پر مکتبہ فکر یا اسکول آف تھاٹ کہہ دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی سلسلہ جاری ہو تو ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کریں تو دوسرے گروہ کے علماء میں الگ مکتبہ فکر بن سکتا ہے۔ اس میں سائنس اور سوشل سائنسز کے مختلف مکتبہ ہائے فکر پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے اور مختلف مکتبہ فکر کے اہل علم اسکالرز آپس میں اچھی طرح ملتے ہیں اور عزت کے ساتھ اختلافی ڈسکشن کرلیتے ہیں اور پھر محبت کے ساتھ مل کر چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ فقہاء کے ہاں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، جعفری مشہور مکاتب فکر ہیں۔ 

اگر ایسا حادثہ پیدا ہو جائے کہ اختلاف میں ایک دوسرے سے نفرت پیدا ہونے لگے تو پھر وہ مکتبہ فکر  آگے جا کر فرقہ بھی بن جاتا ہے۔  اس کے لیے علمی اختلاف نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ  اپنے مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے، جس میں ایک دوسرے کے خلاف منفی تبصرے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ لمبے عرصے تک جاری رہے تو پھر وہ مناظرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے  کے خلاف صحیح  معنوں میں فرقے پیدا ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر مذہبی امور میں فرقہ بن جاتا ہے جبکہ سائنس کے اندر تو عموماً مکتبہ فکر ہی رہتا ہے۔ 

ایک بار میں نے ایک ہندو اسکالر سے ان کے فرقوں کی صورتحال پوچھ لی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ حقیقت یہی ہے کہ ایک شخص پورے گروپ کا ہیڈ بلکہ CEO بننا چاہتا ہے لیکن گروپ کے کئی لوگ اسے اس صورتحال تک نہیں بنانے دیتے تو پھر وہ شخص اپنے ساتھیوں کو ملا کر فرقہ بنا لیتا ہے۔ ان کی صورتحال کو دیکھ کر میں نے یہی دیکھا کہ مسلمانوں کے ہاں بھی فرقے اسی طرح بنے ہیں اور اس کے لیے اختلاف میں شدت پسندی پیدا اس لیے کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے جذبات کو استعمال کر کے اپنے گینگ میں طاقت بڑھا سکیں۔ 

اگر اس لیڈر کو سارے ہی لوگ اپنا ہیڈ بنا لیتے تو پھر فرقہ پیدا نہ ہوتا ۔ علمی اختلاف کی حد تک ہی معاملہ رہے تو پھر فرقہ پرستی پیدا  نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے  ہم گروہوں کی سیاست کو دیکھ سکتے ہیں اور یہ سوشیالوجی کا ایک اہم چیپٹر ہے۔ 

فرقوں کو چھوڑ کر دعوتِ دین دینے کے متعلق سوال

سوال:  اگر لوگ موجودہ  جماعتوں، تنظیموں اور فرقوں کو چھوڑ دیں تو  کیا اس طرح دین کی تعلیم اور دعوت و تربیت کا کام رک نہ جائے گا؟ اور جیسا کہ اب  لوگ تقسیم در تقسیم ہوچکے ہیں،اس کا متبادل نظام کیا ہے؟

جواب:  دین کی تعلیم و تربیت کے لیے کسی فرقہ یا  پارٹی کے بغیر ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کام ہم خود کر سکتے ہیں:

۔۔۔۔۔۔ اپنی فیملی کے ممبرز جیسے بیوی، بچے، کزن، بھائی، بہن سب کی تربیت کو جاری رکھیں۔ جس حد تک یہ خود پڑھنا سمجھنا چاہ سکیں، ان کی خدمت ہم خود کریں۔ 

۔۔۔۔۔۔ اپنی تعلیم ہم خود بڑھاتے جائیں جس کے لئے کتابیں پڑھتے جائیں۔ پھر اسی میں ہم خود اپنی تحریر کر سکتے ہیں اور لیکچرز بھی ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہم فیس بک اور یو ٹیوب کے ذریعے عوام میں پہنچا سکتے ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔ اگر چاہیں تو تعلیمی ادارے میں ہم تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اس میں ہم خود بھی پڑھ سکتے ہیں اور ساتھ وہاں پڑھا سکتے ہیں۔ اس میں بس یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ اس تعلیمی ادارے کا تعلق کسی فرقہ یا پارٹی سے نہ ہونا چاہیے۔ 

۔۔۔۔۔۔ اپنے گھر کے پاس مسجد میں خطبہ دے سکتے ہیں۔ جو لوگ بھی سننا چاہیں تو ان کی خدمت ہم کر سکتے ہیں۔ جو ہماری تعلیم میں دلچسپی نہیں رکھتے تو ان پر کبھی زبردستی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں اپنی حالت میں چھوڑ دینا چاہیے۔ 

۔۔۔۔۔۔ اپنی تعلیم و تربیت سے دوست مل جائیں گے۔ پھر ہم انہی دوستوں کے ساتھ سلسلے کو جاری رکھیں۔ بس ان دوستوں سے پارٹی نہیں بنانی چاہیے ورنہ پھر ہم خود آگے جا کر فرقہ بھی بنا سکتے ہیں۔ 

سوال:  حدیث میں آتا ہے کہ  قیامت تک ایک جماعت حق پر قائم رہے گی اور وہ اپنے مخالفین پر بھاری رہے گی، ان کے مخالفین اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے۔اسی طرح ایک اور حدیث میں امت  کے  تہتر فرقے بن جانے کا ذکر آتا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بہتر  جہنمی گروہ ہوں گے اور صرف ایک  جنتی جماعت ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ آج کے دور میں  وہ قیامت تک حق پر رہنے والی جماعت کونسی ہے  اور دوسری حدیث کے مطابق آج کے دور میں  جنتی گروہ کونسا ہے؟

جواب:   اس سوال کا جواب تو خود حدیث میں ہی  موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنتی گروہ  اسے ارشاد فرمایا ہے  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے  مطابق عمل کرنے والی ہو۔وہ  احادیث آپ نیچے دیکھ بھی  سکتے ہیں۔ عربی میں لفظ جماعت سے مراد وہ  مینج کرنے والا گروہ ہے جو منظم طریقے سے حکومت چلانے والے ہوں۔ اب ہم خود اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سنت نبوی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے طریقہ پر عمل کرنے والے ہیں، تو پھر ان شاء اللہ ہم بھی اس جنتی گروہ کا حصہ ہی بنیں گے اور جو لوگ اس سے دور رہیں گے، وہی پھر اپنی سزا اللہ سے  پا لیں گے۔ 

احادیث میں جو 72گمراہ فرقوں  کا ذکر ہے، اس میں اصل میں نمبرز اہم نہیں ہے بلکہ یہ مجازی معنی ہے کہ بہت بڑی تعداد میں گمراہ فرقے بنتے جائیں گے۔ یہ بالکل اس طرح ہوتا ہے کہ بہت بڑے مجمعے کو ہم مجازی طور پر کہتے ہیں کہ ہزاروں، لاکھوں کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب تعدادنہیں ہوتا بلکہ بڑی تعداد مراد ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہم امت مسلمہ کی تاریخ  کا مطالعہ کر سکتے ہیں کہ اب تک  ہزاروں گمراہ فرقے پیدا ہوتے رہے  ہیں، جو سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف عمل کرتے رہے۔ بہت سے فرقے پیدا ہوئے اور کچھ عرصے بعد ختم ہو گئے جبکہ کچھ ابھی باقی ہیں۔ 

اس حوالے سےاحادیث کا مطالعہ آپ کر سکتے ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے جس میں بات  تقریباًایک ہی ہے۔ چند احادیث یہ ہیں۔ 

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَهْمَا أُوْتِيْتُمْ مِنْ کِتَابِ اﷲِ فَالْعَمَلُ بِهِ لَا عُذْرَ لِأَحَدٍ فِي تَرْکِهِ فَإِن لَمْ يَکُنْ فِي کِتَابِ اﷲِ فَسُنَّةٌ مِنِّي مَاضِيَةً فَإِنْ لَمْ يَکُنْ سُنَّتِي فَمَا قَالَ أَصْحَابِي إِنَّ أَصْحَابِي بِمَنْزِلَةِ النُّجُوْمِ فِي السَّمَاءِ، فَأَيُمَا أَخَذْتُمْ بِهِ اهْتَدَيْتُمْ وَاخْتِلاَفُ أَصْحَابِي لَکُمْ رَحْمَةٌ.رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ.

أخرجه البيهقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1 / 162، الرقم : 152، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 / 275، الرقم : 1346، وابن عبد البر في التمهيد، 4 / 263، والخطيب بغدادي في الکفاية في علم الرواية، 1 / 48، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 160، الرقم : 6497.

ایک روایت میں عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بھی تمہیں کتاب اللہ کا حکم دیا جائے تو اس پر عمل لازم ہے، اس پر عمل نہ کرنے پر کسی کا عذر قابل قبول نہیں، اگر وہ (مسئلہ) کتاب اللہ میں نہ ہو تو میری سنت میں اسے تلاش کرو جو تم میں موجود ہو اور اگر میری سنت سے بھی نہ پاؤ تو (اس مسئلہ کا حل) میرے صحابہ کے اقوال کے مطابق (تلاش) کرو. بے شک میرے صحابہ کی مثال آسمان پر ستاروں کی سی ہے ان میں سے جس کا بھی دامن پکڑ لو گے ہدایت پا جاؤ گے اور میرے صحابہ کا اختلاف (بھی) تمہارے لیے رحمت ہے۔‘‘

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : وَعَظَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : أُوْصِيْکُمْ بِتَقْوَی اﷲِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ يَرَی اخْتِـلَافًا کَثِيْرًا، وَإِيَاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ، فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَالِکَ مِنْکُمْ، فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ، عَضُّوْا عَلَيْهَا بَالنَّوَاجِذِ.رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ لَيْسَ لَهُ عِلَّةٌ۔

22 :أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 / 44، الرقم : 2676، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 / 200، الرقم : 4607، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 / 15، الرقم : 42، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 126، الرقم : 17184، وابن حبان في الصحيح، 1 / 178، الرقم : 5، والحاکم في المستدرک، 1 / 174، الرقم : 329، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 246، الرقم : 618.

’’ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے.

ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے۔ یا رسول اﷲ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور اطاعت کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو. اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کر لے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا)۔

اس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی علت نہیں ہے۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ میرے بعد شدید اختلاف دیکھیں گے۔ اس وقت آپ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ۔ اس پر مضبوطی سے جمے رہنا، دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ (ابن ماجۃ :۴۷)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کر کے میری سنت کی حفاظت کرو پھر تابعین اور تبع تابعین کے طریقہ پر چلو پھر اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا۔ (ابن ماجہ کتاب الاحکام :۲۳۶۳)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں بہترین زمانہ میرا ہے، پھر اس کے بعد والا( تابعین کا) زمانہ، پھر اس کے بعد والا (تبع تابعین کا)زمانہ، پھر ایسی قومیں پیدا ہونگی جو بغیر مطالبے کے جھوٹی گواہیاں دیں گی اور خیانت کریں گی، اس لیئے انہیں امین نہیں بنایا جائے گا اور ان میں موٹا پا عام ہو جائے گا۔(مسلم:۲۵۳۵۔ ترمذی : ۱۸۱۰)

اس حدیث میں تابعین سے مراد وہ علماء اسکالرز ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سٹوڈنٹس تھے۔  لوگوں نے لفظ تابعین سے مراد اس طرح سمجھ لیا ہے کہ جو لوگ بھی 11 سے 130 ہجری میں پیدا ہوئے ان سب لوگوں کو تابعین سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ غلط فہمی ہے۔ اصل میں تابعین وہ  اس زمانے میں علماء ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پڑھتے رہے تھے مثلاً عمر بن عبدالعزیز، ابوحنیفہ، مالک، زین العابدین، جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہم تابعین تھے۔  اسی زمانے میں بہت سے گمراہ لوگ بھی تھے جو سیاست کی بنیاد پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف جعلی پراپیگنڈا  بھی کرتے رہے تھے، اس لیے انہیں تابعین نہیں کہنا چاہیے۔ 

Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.

Quranic Studies – English Lectures
Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures
علوم القرآن اردو لیکچرز
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114
Hadith Research English Lectures
Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research
علوم الحدیث اردو لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف
Personality Development
تعمیر شخصیت لیکچرز
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر
امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ
BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
کیا اولو الامر  سے مراد ہر فرقے کا بڑا مولوی ہے اور کس فرقے یا جماعت کے امام کی پیروی کریں؟
Scroll to top