سوال: سورۃ الانفال میں جنگ میں پیٹھ دکھانے کو جہنم کی سزا فرمایا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ محمد وکیل، کروڑپکہ
جواب: پیٹھ دیکھنے سے مراد مجازی ہے۔ اس کا معنی یہی ہے کہ جہاد کی جنگ کے دوران ہی فوجی ڈر کر بھاگ جائے۔ ہاں اگر جنگ ہی کی ضرورت ہو تو پھر فوج کو آگے پیچھے ہونا پڑتا ہے جو جائز ہے۔ مثلاً ایک یونٹ کو آگے کیا اور دوسری کو پیچھے کیا ہے، تو یہ نارمل ہے۔ گناہ تب ہی ہوتا ہے جب اللہ تعالی کے جہاد میں مجرموں، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں سے ڈر کر بھاگنا ہو۔
سوال: آیت 24 میں ہے کہ ایک عرصے کے بعد اللہ تعالی آدمی اور اس کے دل کے درمیان ہائیل ہو جاتا ہے۔ اس کی وضاحت کر دیجیے۔
جواب: دل ہائیل ہونے کے لیے آپ اگلی پچھلی آیات کے لحاظ سے سوچ سکتے ہیں۔ یہاں موٹیویشن کی آیات ہیں جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فوج کی تربیت ہو رہی ہے کیونکہ اللہ تعالی ان کے ہاتھوں ہی منکرین کو سزا دینا چاہتا ہے۔ اس لیے موٹیویشن میں انہیں بتا دیا کہ اللہ تعالی آپ کے دلوں کو کنٹرول کر لیتا ہے۔ زندگی میں مہلت تو یہی ہے جب تک ہماری زندگی ہے کہ ہم نیکی یا برائی کا اختیار کر لیں۔ پھر اللہ تعالی زندگی میں کسی کسی ٹائم آپ کے دل میں موٹیویشن پیدا ہوتی ہے کہ یہ نیکی کر لوں مثلاً نماز پڑھنا شروع کر دوں، زکوۃ ادا کرنا شروع کر دوں۔
اس موٹیویشن کے ذریعے ہی آدمی نیکی کرتا ہے تو پھر اس کا کنٹرول چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اب اپنی مرضی سے اسی نیکی کو پوری زندگی تک جاری رکھے۔ پھر اللہ تعالی نے ہر انسان کی ٹائم لائن طے کی ہوئی ہے جس تک اس کی مہلت ہے۔ پھر انسان وفات ہو جاتا ہے اور اب تک اس کی پرفارمنس پر اسے جنت یا جہنم میں جانا ہے۔
جہاد کی موٹیویشن میں بتا دیا کہ اپنی موت کو کوئی نہیں بھگا سکتا ہے۔ اس لیے جہاد کی جب ذمہ داری ہو تو اس وقت موت سے نہ ڈریں بلکہ پوری طاقت سے جہاد کریں۔
سوال: یہ آیت 65 میں بیان ہے کہ 20 اہل ایمان، 200 منکروں پر غالب ہوں گے یعنی کہ یہ نسبت بتائی گئی ہے جنگ میں۔ آج کہ دور میں کیا نسبت ہو گی اس میں۔ پھر اگلی آیت میں 1000 اہل ایمان کو 2000 منکروں پر غالب ہونے کا فرمایا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہماری نسبت کیا ہو گی؟
جواب: یہ سورتیں بہت اہم ہیں جس میں جنگی جہاد کے لیے ذمہ داری کی لمٹ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنگ بدر میں 10% طاقت کی بنیاد پر ذمہ داری دی گئی۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ. (65)
الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ. (66)
اے نبی ! اِن اہل ایمان کو جنگ پر ماٹیویٹ کر دیجیے اگر آپ کے لوگوں میں 20 آدمی ثابت قدم ہوں گے تو 200 پر غالب آئیں گے اور اگر آپ کے 100 سپاہی ہوں گے تو 1000 منکروں پر بھاری رہیں گے، اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بصیرت نہیں رکھتے۔
اِس وقت، البتہ اللہ تعالی نے آپ کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، اِس لیے کہ اُس نے جان لیا کہ (نئے اہل ایمان کی تربیت ابھی نہیں ہوئی ہے اور) آپ میں کچھ کمزوری آ گئی ہے۔ چنانچہ (اب ذمہ داری 3 کے بعد یہ ہو گی کہ) آپ 100 ثابت قدم ہوں گے تو 200 پر غالب آئیں گے اور اگر آپ 1000 ایسے ہوں گے تو اللہ تعالی کے حکم سے 2000 پر بھاری رہیں گے۔ اللہ تعالی اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو (اُس کی راہ میں) ثابت قدم رہیں۔ (سورۃ الانفال)
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ طویل عرصے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت حاصل کر چکے تھے اور وہ سب میں ایمان اور عمل صالح کی انتہائی حالت میں تھے۔ اس سے اچھی امت مسلمہ موجود تھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر آپ میں منکرین کی نسبت آپ میں 10% طاقت ہے تو جہاد آپ پر فرض ہے۔ آپ دیکھیے کہ سورۃ الانفال میں پوری ڈسکشن جنگ بدر ہی کی ہے۔
اس وقت جنگ بدر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فوجی 313 تھے اور منکرین کی فوج 1000 تھے۔ اگر صحابہ کرام کی فوج صرف 100 ہوتی، تب بھی ان پر جہاد کی ذمہ داری ہوتی اور انہیں فتح کی گارنٹی دی گئی تھی۔ اس میں یہی ہوا کہ منکرین کے فوجی اچھے پہلوان اور جنگجو لوگ تھے، لیکن اللہ تعالی نے ان کی موٹیویشن کو گرا دیا اور آسانی سے وہ سب مارے گئے۔ اب 70 لیڈرز قتل ہوئے اور 70 قیدی بنے جبکہ باقی سب بھاگ گئے تھے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں صرف 14 نوجوان ہی شہید ہوئے۔
جب یہ انفارمیشن مختلف قبائل میں پہنچی تو انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ تعالی کی مدد سچ مچ آئی ہے تو یہ سچے رسول ہی کی دعوت ہے۔ اس میں بہت سے لوگ تیزی سے ایمان لانے لگے۔ اگلے ایک سال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فوج 1000 ہو چکی تھی۔ان نئے اہل ایمان پر ایمان اور عمل صالح کی تربیت کی ضرورت تھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے ذمہ داری کو کم کر دیا اور اسے 50% تک لے گئے۔ اگر تمہاری طاقت 50% سے کم ہے تو پھر جہاد کی ذمہ داری نہیں ہے اور اتنی ہو تو پھر اتنی طاقت بنے تو آپ پر ذمہ داری ہے۔ یہ لمٹ آخر تک رہی جو آپ آگے سورۃ توبہ میں پڑھیں گے۔
اب سوال آپ کا آیا کہ موجودہ زمانے میں ہماری لمٹ کیا ہے؟ اس میں سوچ لیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ایمان اور عمل صالح کیسا تھا اور ہمارا کیسا ہے؟ کیا ہم اس حد تک اچھا عمل کر رہے ہیں جب تک ہیں تو پھر وہی 50% جتنی طاقت مل گئی تو جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے کم ہے تو پھر فرض نہیں ہوا ہے۔
عہد رسالت میں تمام انسانوں کی فوجوں کی طاقت ان کی فوجیوں کی مسل پاور ہی تھی۔ ہر انسان اپنے ہاتھ پاؤں، ذہن کے ذریعے ہی جنگ چلتی تھی۔ تلوار، تیر وغیرہ بھی اپنے ہاتھ سے ہی چلتے تھے۔ اس لیے انسانی فوج اپنے مسلز کی طاقت زیادہ ہوتی تو اسے فتح مل جاتی تھی۔ موجودہ زمانے میں انسانی جسم کی طاقت کی اہمیت نہیں بلکہ اسلحے کی طاقت سے جنگ چلتی ہے۔ اب سے تین سو سال پہلے تو بندوق، توپ وغیرہ کی طاقت اہم تھی۔ اب میزائلز ، بم، سافٹ ویئر وغیرہ کے ذریعے ہی اسلحہ چلتا ہے۔ فوجی کو زیادہ تر ذہن کو استعمال کرتے ہوئے سافٹ وئیر کے ذریعے بم، میزائل چلاتے ہیں۔ پھر آخر میں جا کر جب شہر ملک فتح ہوں تو تب جا کر وہ بندوق، پستول اور توپ کی ضرورت آتی ہے۔
اب آپ سوچیے کہ ہمارے اسلحے کی طاقت ، منکرین کی نسبت کتنی ہے؟ اگر منکرین کی طاقت کی نسبت ہم بھی 50% لیول تک میزائل، بم وغیرہ بنا سکتے ہیں تو تب ہم پر جہاد فرض ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارا ایمان و عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کم از کم کسی لیول تک ہو جائے۔
ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ یعنی ہماری فوجیں نہ تو ایمان و شریعت و اخلاقیاتی عمل صحابہ کرام سے 5% لیول تک بھی نہیں ہے۔ منکرین کی نسبت اسلحہ بھی 1% سے کم ہے۔ یہی وجہ ہے اب تک 300 سال تک جتنی کوشش جہاد کے نام پر کی گئی ہے، تب بھی ناکامی نظر آئے گی۔ یہیں سے ہمیں امت مسلمہ کی ناکامی کی وجوہات سامنے آ جاتی ہیں۔ ایمان، عمل صالح کی کمی اور ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی کمی ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ مغلوبیت کی سزا لے رہی ہے۔ مسلمانوں کی آخری بڑی فوج سلطنت عثمانیہ کو 1924 میں شکست ہوئی اور آج تک ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ جن پارٹیوں نے پرائیویٹ فوجیں بنائی ہیں تو انہوں نے منکرین کو کچھ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں ہی کو قتل کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیڈرز کی اکثریت ایمان ، اخلاقیات اور عمل صالح کو کم از کم اتنا تو کر لیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے 10% جتنا ہی آ جائے، اس کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے ہم منکرین کی نسبت 50% جتنی طاقت کر سکیں تو پھر ہم جہاد کریں۔ اس وقت تک صرف اپنے ملک کے اندر ڈاکو، دہشت گردوں کے خلاف ہی جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ تمام مسلمانوں کے لیے قرآن مجید کی تربیت کرتے جائیں کہ یہی ذہنی جہاد کی ضرورت ہے۔ اپنی امت کی ٹائم لائن کو دیکھ لیجیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com