سوال: سورہ المائدہ مکمل ہو گئی۔ اس میں آیت 101 میں ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت ایسے سوالات نہ کریں۔ پہلے لوگ بھی ایسے سوال کرتے تھے اور منکر ہو گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ علماء سے دینی سوالات نہیں کر سکتے ہیں؟ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے۔ آمین۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے کچھ سوالات کے بارے میں روکا۔ اب یہ سوالات کیا تھے تو اس کا اندازہ احادیث ہی میں مل سکتا ہے۔ عام طور پر اس زمانے میں فلسفہ سے متعلق سوالات پیدا ہوتے تھے جو اللہ تعالی کے وجود اور اللہ تعالی کی پلاننگ سے متعلق ہوتے تھے۔ اسی طرح جنت اور جہنم کی جو چند مثالیں قرآن مجید میں دیں تو لوگ اس پر بحث کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں ہیں جو پھر فلسفہ کی تاریخ میں آتے ہیں جو لوگ پوچھتے تھے۔
۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کا جسم کیسا ہو گا؟ معاذ اللہ۔
۔۔۔۔۔ اللہ تعالی مستقبل میں جو کر رہا ہے تو کس ستارے کی تبدیلی سے ہو گا؟ مثلاً بڑا ستارہ اگر مشرق کی طرف ہوا تو کیا ہو گا؟
۔۔۔۔۔ جنت میں درخت کیسا ہو گا، کتنا بڑا ہو گا وغیرہ۔
۔۔۔۔۔ جہنم کی آگ کیسی ہو گی؟
اس نوعیت کے جو احمقانہ سوالات تھے تو اللہ تعالی نے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سمجھا دیا کہ انسان اسے نہیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی تجربہ کر سکتا ہے۔ اس لیے ان سوالات کو چھوڑیں اور صرف انہی سوالات تک رہیں کہ جس کا موجودہ زندگی میں جو معاملہ ہو۔ اسے آپ نے سورۃ آل عمران میں شروع میں پڑھا ہو گا جس میں لفظ ہے متشابہات۔ متشابہات کا معنی ہے کہ ملتی جلتی چیزیں۔ اب ظاہر ہے کہ مستقبل کی اشیاء کو انسان نہیں سمجھ سکتا بلکہ جب تک تجربہ نہ ہو تو اسے معلوم نہیں ہوتا ہے۔
فرض کیجیے کہ آپ کو ایک ہزار سال پرانا انسان مل جائے اور آپ سے پوچھے کہ کس طرح تم گفتگو کرتے ہو۔ آپ کیسے بتا سکتے ہیں کہ ہم کمپیوٹر اور موبائل سے بات کرتے ہیں۔ بتا بھی دیں تو وہ انسان سمجھ نہیں سکے گا۔ اسے سمجھانے کے لیے متشابہات کا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جسے کچھ اندازہ ہو جائے۔ آپ کہیں گے کہ ہمارے پاس ایسی روشنی موجود ہے جس سے ہم ہزاروں کلومیٹر کے دوسرے ممالک میں چند سیکنڈ میں بات چیت کر لیتے ہیں۔ خط لکھتے ہیں تو وہ بھی چند لمحوں میں چلے جاتے ہیں۔ اب وہ انسان اندازہ سمجھ لے گا لیکن پریشان ہو گا کہ اتنی جلدی سے بات ہو جاتی ہے۔ ہاں، انہیں کمپیوٹر اور موبائل کو سامنے کر کے ایک سال تک تجربہ کروائیں تو تب اس انسان کو سمجھ آئے گی۔
یہی معاملہ اللہ تعالی کے حضور اور آخرت میں مستقبل میں ہونا ہے۔ جب ہم پہنچیں گے تو اس وقت سمجھ آئے گا کہ جنت میں درخت، جھیل، نہریں ، باغ، کھانا کیسا ہو گا؟ ابھی تو بس اندازہ ہی ہے۔ اسی طرح جہنم کو دیکھیں گے تو تب معلوم ہوگا کہ آگ کیسی ہے؟ ابھی تو بس اندازہ ہی ہے۔ اس لیے فلسفیانہ بحثوں سے روکا گیا ہے۔
آپ میری تاریخی کتابوں میں پڑھیں گے کہ پھر بھی مسلمانوں نے جب فلسفہ پر ان سوالات پر بحثیں کرتے رہے تو ان کے فرقے بھی الگ ہوئے اور اس کے ساتھ دین کے ایمان سے بھی دور ہو گئے۔ موجودہ زمانے میں الہاد کا فلسفہ جب پھیلا تو لوگ ایمان سے دور ہو گئے۔ جو کہنے کو تو مسلمان کہتے ہیں لیکن اللہ تعالی سے تعلق چھوڑ دیتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے سمجھایا کہ ایسے احمقانہ سوالات پر بحث نہ کریں کہ لوگ اپنا ایمان بھی چھوڑ دیں گے۔ صرف انہی سوالات کا پوچھیں جو ہماری موجودہ زندگی میں جو کچھ ہے۔
سوال: ہمارے ہاں علماء یہ فرماتے ہیں کہ علماء سے اختلاف کرنا اور سوالات کرنا گناہ ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اس کے ساتھ دوسرے فرقوں کے علماء پر تنقید کرتے ہیں تو پھر وہ اپنے لیے اختلاف کو حرام کہتے ہیں اور دوسروں پر اختلاف کرتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے یا نہیں؟
جواب: ابھی تو پریکٹیکل سوال ہے جس میں سارے انسانوں میں اتنے فرقے بنے ہیں۔ وہ سوال تھا کہ اللہ تعالی سے ہمارا تعلق کیسے بن سکتا ہے اور ہم گفتگو کیسے کر سکتے ہیں اور سن سکتے ہیں؟ اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے بتا دیا کہ آپ موجودہ زندگی میں گفتگو نہیں کر سکتے ہیں بلکہ اللہ تعالی کے ارشادات پر عمل ہی کریں اور آخرت میں ملاقات ہو گی۔
جن انسانوں نے اس ارشاد پر مطمئن نہ ہوئے تو فلسفہ بنا دیا کہ خدا، انسان کی شکل میں آ جاتا ہے۔ اسی سے ہندو مت اور بدھ مت مذاہب پیدا ہو گئے اور بہت سے مشرکانہ مذاہب بن گئے۔ یہودی اور عیسائی حضرات نے خدا کی اولاد مان کر اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر پوجا کر رہے ہیں۔
مسلمان تو یہ نہیں سمجھے کہ خدا انسان کی شکل میں نہیں آتا لیکن اپنے ساتھی ولی اللہ سے گفتگو ہوتی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اسی ولی کے مرید بنیں تو وہ ولی، ہمارا مرشد ہمیں اللہ تعالی سے ملاقات کروا لے گا۔ اس میں پھر صوفی ازم کے گروپس بن گئے۔
پھر اختلاف ہوا کہ کون ولی ہے؟ اس میں کچھ مذہبی حضرات نے امام کا تصور بنا دیا۔ انہی کے بعض حضرات تو حاضر امام کو مانتے ہیں اور خود وہ اپنے امام کی پوجا کرتے ہیں جبکہ بعض حضرات نے غائب امام کی پوجا کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مسجد کو امام بارگاہ کہہ دیتے ہیں یعنی یہ امام کا مرکز ہے۔ بعض حضرات نے اپنے پسندیدہ بزرگوں کو ولی بنا دیا اور انہی کے مزارات بنا دیے۔ اس پر انہی مذہبی حضرات کے فرقے بھی بنے اور ہر ایک نے اپنے اپنے فرقہ کی مسجدیں بنا دی ہیں۔ پڑھے لکھے تو اس ولی سے دعا کی درخواست کرتے ہیں جبکہ ان پڑھ اس مزار میں سجدہ بھی کر لیتے ہیں۔
یہ مثال آپ دیکھیے کہ کس طرح انسان اس ایک سوال سے بہت سی گمراہیوں میں آ گئے ہیں۔
سوال: سورۃ الانعام کی آیت 50 میں ذکر ہے کہ ” اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجیےکہ نا میرے پاس اللہ پاک کے خزانے ہیں، نا میں غیب جانتا ہوں اور نا آپ سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔
بڑے اچھے طریقے سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں وضاحت کر دی گئ ہے۔ اسکے باوجود ہمارے ہاں اس چیز پے بحث چلتی رہتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور تھے یا بشر۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غیب کا علم تھا یا نہیں۔ کیا ان بحث کرنے والوں کو یہ آیت نظر نہیں آتی؟ مزید یہ ان چیزوں میں بحث کیوں کرتے ہیں جس سے ان کو کوئ زیادہ فائدہ نہیں ہوتا الٹا نفرت اور تعصب بڑھتا ہے؟
جواب: آپ نے بالکل صحیح طریقے سے سمجھ لیا ہے۔ ہمارے ہاں وہی فلسفے کے احمقانہ ایشوز کو بنایا اور ان پر بحثیں بنا دیں۔ اب یہ فلسفہ بنا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں یا نور اور پھر غیب جانتے ہیں۔ اس وقت ان حضرات نے اس آیت کا مطالعہ ہی نہیں کیا ہے۔ کئی صدیوں تک قرآن مجید کا مطالعہ ہی نہیں کرتے رہے اور بس تلاوت کے طور اپنے وفات شدہ لوگوں کی بخشش کے لیے کرتے رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ شاہ ولی اللہ صاحب نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا تو ان پر کفر کا فتوی لگا دیا کہ انہوں نے گستاخی کر دی ہے۔
کافی عرصے بعد جا کر انہوں نے قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر کرنے لگے۔ پھر اس آیت پر بالکل غور ہی نہیں کیا ہے اور دوسرے ایشوز پر ہی بحثیں کرتے رہے ہیں۔ اس سے آپ خود تجزیہ کر سکتے ہیں کہ تفاسیر میں کہاں کہاں غلطیاں ہوئی ہیں۔ آپ یہ دیکھیے کہ ترجمہ میں بالکل صحیح بات کر دی ہے۔ آپ احمد رضا بریلوی صاحب کا ترجمہ دیکھ لیجیے، اسی آیت کا۔
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عان دِي خَزَائان اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ اني مَلَكٌ ۖ ان أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ. (50)
تم فرما دو میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی آتی ہے تم فر ماؤ کیا برابر ہو جائیں گے اندھے اور انکھیارے تو کیا تم غور نہیں کرتے۔ (سورۃ الانعام 6)
جب ان پر اعتراض کیا گیا کہ آپ پھر نبی کے غیب کو کیوں مانتے ہیں تو وہ پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالی جب غیب دے دیتا ہے تو پھر اتنا علم غیب اور اتنا خزانہ آ جاتا ہے۔ جب نہیں تھا تو پھر اس وقت نہیں تھا۔
اس میں مزید بحث یہ جاری رہی کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں پر کوئی خزانہ اور کوئی غیبی علم دیا ہے تو پھر یہ بتا دیجیے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ کیا کیا علم غیب بتایا ہے اور کیا کیا نہیں؟ اور جو علم غیب رسول کو دیا ہوا ہے تو پھر ہمیں کیسے ملے گا؟
اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو واقعی کچھ معمولی سا علم غیب اور دنیاوی خزانہ بھی دیا لیکن اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علم غیب کی یہ مثال حدیث میں ہے کہ جیسے معراج میں اللہ تعالی نے آخرت کی اشیاء دکھا دی تھیں تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دیکھ لیا تھا۔ اس کا معاملہ اللہ تعالی اور رسول کے آپس میں معاملہ تھا اور اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہمیں تو یہی بتایا گیا کہ ہم قرآن مجید پر عمل کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ہم جنت میں پہنچ جائیں گے۔
بس اتنی سی بات تھی جس کا ہم لوگوں سے کوئی معاملہ ہی نہیں تھا تو ہمیں اس بحث کی ضرورت کیا ہے؟ یہ وہی متشابہات کی بحثیں ہیں جس کا نہ دین سے کوئی فائدہ ہے بلکہ اس بحث میں نقصانات ہی ہیں کہ فرقے بنتے رہے ہیں۔
سوال: سورۃ الانعام کی 108 آیت میں ہے بتوں کو گالیاں دینے سے منع کیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ پاک کو گالیاں نا دیں۔ ہمارے ہاں تو بڑے بڑے علماء صاحبان بھی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ قرآن کے ساتھ تضاد نہیں؟
جواب: آپ کا اعتراض بالکل درست ہے۔ آپ اس کا ترجمہ پڑھ لیجیے۔
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مان دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ. (108)
آپ لوگ ہرگز ان (بتوں کو) گالی نہ دیجیے گا جن کو اللہ تعالی کے سوا (ان اوتار سمجھ کر خدا سمجھ کر) پکارتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تجاوز کرکے یہ بن سمجھے اللہ تعالی کو گالیاں دینے لگیں۔ (اِس لیے کہ) ہر گروہ کے عمل کو ہم نے اِسی طرح اُس کے لیے خوش نما بنانے دیا ہے، پھر (ایک دن) انہیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، اُس وقت وہ انہیں بتا دے گا جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (سورۃ الانعام)
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علماء اور امت مسلمہ کو یہ سمجھا دیا کہ عمدہ اور اچھے طریقے سے دعوت کا کام کریں۔ محبت کے ساتھ اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیں۔ اگلا مانے یا نہ مانے، اس پر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہماری دعوت تو صرف کورئیر کی طرح ہے کہ ہم نے اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ ان پر کوئی جبر ہم نہیں کر سکتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ غیر مسلم جنہیں اپنا خدا سمجھتے ہیں، اس میں بدتمیزی کریں گے تو وہ اللہ تعالی کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کر لیں گے۔
تعمیر شخصیت میں یہی حکم ہے کہ آپ شائستگی کے ساتھ دعوت پہنچائیں۔ آپ کے پاس جب بھی ٹائم ہو گا تو دعوت دین کی میری کتاب اور لیکچر پڑھ سن لیجیے گا، اس میں اسی آیت اور دیگر آیات کے احکامات ہیں۔
سوال: 164 آیت میں ہے کہ قیامت کے دن اپنے اعمال کا بوجھ ہر کوئی خود اٹھائے گا۔ پھر ہمارے ادھر یہ بات عام کیوں کی جاتی ہی کہ بچوں کو حافظ بناؤ وہ 10 لوگوں کو جنت میں لے جائے گا۔ مطلب کہ ہمارا بچوں کو حافظ بنانے کا مقصد ہی جنت کا حصول ہے؟
جواب: ہمارے کلچر میں یہی احمقانہ رویہ ہے کہ بچوں کو زبردستی جبر کے ساتھ مدارس میں پڑھا دیتے ہیں اور حافظ یا عالم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ بچوں کی شخصیت کا تجزیہ پہلے کرنا ضروری ہے کہ بچوں کو کس کام میں دلچسپی ہے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو عالم یا حافظ بنانے کی صلاحیت ہی نہیں دی ہوتی ہے۔ کسی بچے کو ڈاکٹر، انجینئر، بزنس پرسن یا عالم یا کوئی اور صلاحیت دی ہوتی ہے۔ اگر اس بچے کی تعلیم اس کی صلاحیت کے ساتھ پڑھائی جائے تو وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جبراً کسی کام میں زبردستی لگا دیا تو پھر وہ ناکام ہوتے ہیں۔
میں نے اپنے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ والد صاحب نے زبردستی مدرسہ میں عالم اور حافظ بنانے کی کوشش کی۔ پھر یہ دیکھا کہ یہ بچے نوجوان ہوئے تو پھر وہ بھاگ کر مدرسے سے نکل گئے۔ ایک بیٹا ڈرائیور بنا اور دوسرے کو ایک مسجد ہی میں جگہ مل گئی۔ پھر تعلیم حاصل کر کے ابھی وہ بینک میں کیشئر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تیسرے بیٹے نے کسی حد تک اپنے والد کی خواہش پوری کی اور وہ حافظ بن گئے کیونکہ انہیں یاد کرنے کی صلاحیت اچھی تھی۔
ان کے والد صاحب اپنے بیٹوں پر بڑے دکھ اور غم میں رہے ، پہلے مارتے رہے اور اپنے دو بیٹوں کو گھر سے بھی نکال دیا تھا۔ بعد میں والد صاحب کے انتقال کے بعد وہ دونوں بیٹے ہی والدہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اپنی تین بیٹیاں تھیں تو انہیں بھی مدرسہ میں داخل کیا تھا۔ انہیں بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لیے عالمہ تو نہیں بن سکیں۔ پھر ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہروں نے کوئی جبر نہیں کیا تو وہ اچھی طرح اپنے بچوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ اس کیس اسٹڈی سے آپ خود تجزیہ کر لیجیے اور آپ کو مشورہ یہی دوں گا کہ اپنی شادی کے بعد اپنے بچوں پر زبردستی تعلیم نہ کروائیے گا۔
ایک بہن نے اپنے بیٹوں کو زبردستی ڈاکٹر اور انجینئر بنا دیے تھے۔ ان میں انجینئر میں تو صلاحیت تھی، وہ تو کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر والے بیٹے کو تعلیم تو پسند تھی لیکن وہ پاکستان میں ڈاکٹر نہیں بننا چاہتے تھے۔ اپنی تعلیم کے بعد کچھ مہینوں تک تو سرکاری ہاسپٹل میں رہے لیکن جلد ہی انہیں امریکہ کا ویزا مل گیا اور وہ چلے گئے۔ انجینئر بیٹے نے بھی سرکاری جاب کی اور دوسرے شہر میں رہتے ہیں۔ اب بہن کو اپنے بیٹوں پر دکھ ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہتے ہیں۔ بہن کے انتقال کے بعد سب بھائی کبھی کبھار ایک دوسرے کو مل لیتے ہیں ورنہ اپنے اپنے ملک میں رہتے ہیں۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اب یہاں پے یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے۔ کیوں کہ ہمارے علماء نے قرآن پڑھنے اور صرف پڑھانے کو ہی کیوں بہتر سمجھا ہوا ہے۔
جواب: حدیث میں سکھائے سے مراد وہی تعلیم کا حصہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم میں سب کو شاندار عربی آتی تھی اور وہ بچے بھی سیکھ لیتے تھے۔ اب اساتذہ انہیں خود سیکھتے اور پڑھاتے تھے۔ یہ بچے ہی حافظ بنے لیکن وہ محض رٹا کر کے یاد نہیں کیا تھا بلکہ وہی بڑے علماء بنے۔ بالخصوص آپ صحابہ کرام میں دیکھیے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سب سے بڑے عالم بنے۔ پھر تابعین میں انہی کے شاگرد عالم بنے کیونکہ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سیکھا تھا۔
انہی بچوں کو جوانی میں عثمان رضی اللہ عنہ نے جاب دی کہ آپ قرآن مجید کی کاپیاں لکھیں تاکہ مختلف ممالک کے شہروں تک اسی کو اسٹینڈرڈ مل جائے اور کوئی غلطی نہ کرے۔ انہوں نے یہی کیا اور اب تک قرآن مجید میں کوئی غلطی موجود نہیں ہے۔ انہی حفاظ علماء نے جو قرآن لکھا تھا، دو کاپی ابھی بھی موجود ہے۔ ان سب کو مختلف شہروں میں بھیجا گیا کہ وہ عالم بن کر وہاں کے لڑکوں کو پڑھاتے جائیں۔ کوئی عالم اور حافظ بن سکا، جو نہ بن سکا تو تب بھی وہ کم از کم عالم دین بن گیا۔
سوال: علماء سے کیا مراد ہے؟ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پے عمل کرتا اور یونیورسٹی میں پڑھاتا ہو۔ کیا اسکو عالم کہیں گے؟
جواب: یہی تو علماء دین ہیں۔ خود قرآن مجید اور احادیث نبوی پر عمل کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو پڑھاتے ہیں۔ اس میں خواہ وہ کسی یونیورسٹی، کالج، اسکول ، مدرسہ کہیں بھی پڑھا رہے ہوں۔ موجودہ زمانے میں آن لائن تعلیم بھی کر رہے ہیں۔ جب انفارمیشن ایج شروع ہوئی تو مجھے یہی خواہش تھی کہ آن لائن تعلیم کے ذریعے علماء بن سکیں۔ اس لیے ان کی خدمت ہم کر رہے ہیں۔
کئی عالم بن کے یونیورسٹی، کالج یا مدرسہ میں پڑھا رہے ہیں۔ چند نام عرض کرتا ہوں: ڈاکٹر غوری، پنجاب یونیورسٹی۔ شکیل عاصم رینالہ خورد کالج۔ صدف بیٹی، اپنے گھر کی استاذ۔ نجم الحسن، علی پور کالج۔ ڈاکٹر محمد شبلی، لکھنؤ شبلی اکیڈمی انڈیا۔ عارفہ بیٹی، لڑکانہ اسکول۔ ڈاکٹر ساجد ، فیصل آباد یونیورسٹی۔ عبدالرؤف، مدرسہ سکھے کی۔ غلام قادر، امام مسجد پونچھ ، کشمیر انڈیا۔ یہ چند ہی نام علماء الدین کی ہیں۔ اس کے علاوہ 3000 سے زیادہ علماء بنے ہیں الحمد للہ۔ سب اپنا کوئی کام کرتے ہیں لیکن دعوت اور کسی حد تک تعلیم کا کام کرتے ہیں الحمد للہ۔ آپ چاہیں تو ای میل سے آپ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
الحمد للہ۔ اس پلان کو آپ اس کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: علماء انبیاء کے وارث ہیں یہ بات بارہا سننے کو ملتی ہے۔ انبیاء کے وارث ظلم کے خلاف خاموش کیوں رہتے ہیں؟ انبیاء کے وارث حاکم وقت جو ظلم کر رہا ہو اسکو تنبیہ کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا یہ قول و فعل میں تضاد نہیں؟
جواب: بہت سے اچھے علماء ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قرآن و حدیث کی تعلیم پڑھا رہے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو اس پر صحیح طرح عمل نہیں کر رہے ہیں جس پر اعتراض آپ نے بالکل درست کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم میں قرآن مجید اور احادیث کو کم پڑھایا جاتا ہے لیکن اپنے پرانے علماء کے فتوے ہی زیادہ پڑھاتے ہیں۔ اس طرح پرانے علماء میں اگر کہیں فرقہ بنا تو یہ اسٹوڈنٹس بھی اسی فرقہ کے مرید اور نفسیاتی غلام بن جاتے ہیں۔
اسی وجہ سے تعلیمی نظام کے لیے یہ حقیر کاوش میں نے بھی کی ہے کہ یونیورسٹی، کالج، مدارس کے علماء دین کی خدمت کر سکوں تاکہ انہوں نے جو کچھ نہیں پڑھا ہے، وہ پڑھ سکیں اور تعصب سے دور ہو جائیں۔ الحمد للہ اتنے بھائی بہنوں میں فائدہ ہوا ہے، انشاء اللہ اگلی نسل میں مزید بہتر ہو گا۔
اس میں آپ اس میں بہتر طریقہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ اٹیچ فائل کو پڑھ لیجیے گا اور اس میں اضافہ کر لیجیے گا۔
سوال: سر جی ایک سوال اور یہ تھا کہ اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیں تو کیا انکو جہنمی کہہ سکتے ہیں۔
جواب: تعمیر شخصیت کے لیے یہی طریقہ ہے کہ ان لوگوں پر جہنمی یا گناہگار یا کافر بالکل نہیں کہنا چاہیے۔ حسن ظن یہ کرنا چاہیے کہ سمجھیں کہ اس شخص کو والدین ، اساتذہ اور ماحول نے تاریخ کی مسخ جعلی کہانیاں سنا دی ہیں جس سے یہ ایسی حرکت کر رہا ہے۔ ہم اگر خود کو اس کی جگہ پر پہنچ کر محسوس کریں کہ اگر ہم بچپن میں اس فیملی میں پیدا ہو جاتے تو ہم کیا کرتے؟ اس طرح دوسرے کی احمقانہ اور بے وقوف بدتمیز لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ اسی فرقہ کے حضرات میں معقول اور اچھے لوگ ہیں جو ایسی گالیاں وغیرہ نہیں کرتے ہیں۔
خانیوال کے میرے خالو اسی فرقہ کے تھے لیکن انہوں نے کبھی گالیاں یا بدتمیزی نہیں کی ہے اور ان کے بیٹوں نے بھی ایسی حرکت نہیں کی ہے۔ بلکہ دلچسپ سورتحال بنتی تھی کہ انہیں ماتم میں جانا پڑتا۔ اب ان کے ساتھی تو اپنے آپ کو زخمی کر دیتے لیکن خالو صاحب تو آہستہ سا سینے پر نرم ٹچ کرتے تھے۔ اب ماتم کا تماشہ جو دوست دیکھتے تو خالو پر بہت ہنستے تھے کہ تم کیا ماتم کر رہے ہیں؟ ان کے دوست انہیں جگت بھی کرتے تو خالو بھی ایسی جگت کر دیتے تھے۔
باقی رہا جنت یا جہنم کا رزلٹ تو اس میں فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالی نے ہی کرنا ہے۔ ہمیں خود کو دوسری کی جگہ کھڑے کر کے سوچیں کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میں اگر شیعہ فیملی میں پیدا ہوتا تو اب میں کھلے ذہن میں آزاد ہو چکا ہوتا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں ایک فرقے کے محلے میں پیدا ہوا تو انہی کی مسجدوں میں پڑھتا تھا۔ پھر اسی فرقہ کی پارٹی میں شامل ہو گیا تو شدت پسند بھی ہو گیا۔ لیکن پڑھنے کا شوق تھا تو میں نے اسی فرقہ کے معقول علماء کی کتابیں پڑھیں تو پھر بریلویت سے نکل آیا۔ الحمد للہ۔ اسی طرح کسی اور فرقے میں بھی پیدا ہوتا تو نکل آتا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com