تاریخی معلومات کی ریسرچ کیسے ممکن ہے؟

تاریخی معلومات کیسے منتقل ہوتی ہیں؟

تواتر اور انفرادی رپورٹس

(Perpetuity and Solitary Reports)

عہد صحابہ بلکہ ہر دور ہی سے متعلق  معلومات  ہمیں بالعموم دو شکلوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک شکل تواتر (ہر ٹائم میں ہزاروں لوگوں کی بیان کردہ انفارمیشن) کہلاتی ہے جبکہ دوسری خبر واحد (جمع اخبار احاد ) یعنی انفرادی رپورٹس جس میں اکے دکے انسان کی بیان کردہ انفارمیشن۔ تاریخ میں کسی بھی قسم کی معلومات ، خواہ وہ مذہبی ہوں یا نہ ہوں، کو دوسرے لوگوں اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے بنیادی طور پر یہی دو طریقے استعمال ہوئے ہیں۔ تواتر سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبرکو ہر دور میں اتنے زیادہ افراد بیان کرتے ہوں  کہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس کے برعکس خبر واحد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبر کو ایک دو یا چند افراد بیان کرتے ہوں اور ان کے بیان میں غلطی یا شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جائے۔

تواتر کی مثال  یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوگیا۔ یہ واقعہ رونما ہوتے ہی اس کی خبر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس واقعے کو موقع پر جا کر ہزاروں افراد نے دیکھا اور بیان کردیا۔ اس معاملے میں دنیا بھر میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا کیونکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اب سے پندرہ بیس برس تک کے  بعداس واقعے کو دنیا بھر کے اربوں افراد اپنی آنے والی نسل کو سنائیں گے، اس واقعے کے بارے مضامین لکھے جاتے رہیں گے، ویڈیو فلمیں دیکھی جاتی رہیں گی اور اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ہمارے بعد والی نسل کے افراد انہی طریقوں سے ان معلومات کو اپنے سے اگلی نسل میں منتقل کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب سے ہزار سال بعد بھی اس بات میں کوئی شک و شبہ موجود نہیں ہوگا کہ 11 ستمبر 2001کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر جہازوں کے ٹکراؤ سے تباہ ہوگئے تھے۔ یہ پورا پراسیس تواتر کا عمل کہلاتا ہے۔ 

اس ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات حتمی اور قطعی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم لوگ پوری قطعیت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ1947 میں برصغیر آزاد ہوا تھا، 1857  میں برصغیرمیں جنگ آزادی ہوئی تھی، سولہویں صدی عیسوی میں اکبر نام کا ایک بادشاہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، پندہرویں صدی میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا، بارہویں صدی میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگیں لڑی تھیں، ساتویں صدی میں سانحہ کربلا وقوع پذیر ہوا تھا، اور اسی ساتویں صدی کے عرب میں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت کی مہذب دنیا کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا۔ پہلی صدی عیسوی میں فلسطین میں سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے دین حق کا علم بلند کیا تھا، 1400 قبل مسیح میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے پر آنے والا فرعون سمندر میں غرق ہوگیا تھا، 2000 قبل مسیح میں سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے نمرود کی خدائی کو چیلنج کیا تھا، اور اس سے بھی کہیں پہلے سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں زمین پر ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ وہ معلومات ہیں، جن کا کوئی ذی عقل اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ان حقائق کا انکار کرتا ہو تو وہ سورج کے روشن ہونے ، دن اور رات کی تبدیل ہونے اور زمین کے گول ہونے کا بھی انکار کر سکتا ہے۔

ہمارے علمی ذخیرے میں ایسی بہت سی معلومات ہیں جو تواتر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں اور ان  کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ بعض معلومات کے منتقل کرنے کا سلسلہ اگلی نسلوں میں پہنچ کر کسی وجہ سے منقطع ہو جائے اور یہ تواتر ٹوٹ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بادشاہوں کے وجود اور زمانوں کے بارے میں تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ ان معلومات کی اتنی اہمیت نہ تھی کہ کوئی انہیں محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتا۔ اس کے برعکس انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بعض دیگر مذاہب کے بانیوں کے بہت سے واقعات تواتر کے ساتھ منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں کیونکہ ان کی اہمیت کے پیش نظر انہیں محفوظ رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ یہی اہتمام تواتر کہلاتا ہے۔

تاریخ میں بہت سی معلومات ہمیں خبر واحد (ایک دو افراد کی دی ہوئی خبر) کی صورت میں بھی ملتی  ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا منظر کسی عینی شاہد نے دیکھا۔ اس نے اپنے ذہن میں موجود تفصیلات کو کسی دوسرے تک منتقل کردیا۔ دوسرے شخص نے ان معلومات کو تیسرے تک ، تیسرے نے چوتھے تک اور چوتھے نے پانچویں شخص تک منتقل کردیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان معلومات میں اس قسم کی باتیں ہو سکتی ہیں کہ اس نے جہازوں کے ٹکرانے سے پہلے کسی شخص کو مشکوک انداز میں اس عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا، سب سے پہلے 79 ویں منزل تباہ ہوئی تھی، پچاسویں منزل پر موجود فلاں شخص کس طرح زندہ بچا،  وغیرہ وغیرہ ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تباہ ہونا تو تواتر سے ثابت ہے لیکن اس کی جزوی تفصیلات خبر واحد سے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی خبروں میں جزوی سا فرق پایا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک دو انسانوں کے مشاہدے اور یاد رکھنے پر ہوتی ہے۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے اخبارات کسی بھی بڑے واقعے کی جب رپورٹنگ کرتے ہیں تو ان میں  اس کے بارے میں بعض تفصیلات میں اختلاف موجود ہوتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مرنے والے یا زخمی ہونے والوں کی تعداد کیا تھی، حادثے میں قصور کس کا تھا، جیسے معاملات میں اخباری رپورٹرز کے بیانات کے فرق کی وجہ سے مختلف اخبارات مختلف معلومات دیتے ہیں جبکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ چیز بھی عام مشاہدے میں دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک شخص دوسرے کے سامنے واقعے کو بالکل درست بیان  کردیتا ہے لیکن دوسرا تیسرے کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے کسی مفاد کے تحت، یا پھر محض غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس میں کچھ کمی بیشی بھی کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے  ہیں کہ  کانوں کان بات پہنچانے کے کھیل میں جب اصل جملہ آخری فرد سے پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب اصل جملے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں تواتر سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد قطعی اور یقینی    ہوتی ہیں اور ان  میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس خبر واحد سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد یقین کے درجے پر نہیں پہنچتیں بلکہ ان میں کسی نہ کسی حد تک شک و شبہ پایا جاتا ہے۔ اس شک و شبہ کو تحقیق کے طریقوں سے کم از کم سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اصول حدیث کا فن ایجاد کیا تاکہ خبر واحد سے حاصل کردہ معلومات کو پرکھا جا سکے۔

تواتر سے حاصل کردہ معلومات میں کسی قسم کی ہیرا پھیری کرنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ انفرادی روایتوں میں جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہمارے دور سے متعلق کبھی بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ مثلاً نائن الیون تو کبھی ہوا ہی نہیں یا امریکہ نے تو کبھی افغانستان یا عراق پر حملہ نہیں کیا۔ ہاں جزوی واقعات سے متعلق غلط بیانی کی جا سکتی ہے۔  جیسے اگر امریکیوں کے لٹریچر کا جائزہ لیا جائے تو وہ نائن الیون کا الزام مسلمانوں پر دھرتے ہیں جبکہ مسلمان اس کا الزام یہودیوں یا خود امریکیوں پر دھرتے ہیں۔  ممکن ہے کہ اب سے پانچ سو یا ہزار برس بعد تک یہی اختلاف موجود رہے۔

تواتر کے معاملے میں ایک ایسی صورت ہے جس میں گڑبڑ کی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مصنوعی سا تواتر پیدا کر دیا جائے۔ یہ پروپیگنڈا کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔ جیسے آج کوئی شخص الف قتل ہو جائے تو اس کا کوئی دوست ب یہ دعوی کر دے کہ شخص پ اس کا قاتل تھا۔  اس کے بعد وہ اس بات کی تشہیر کر دے، میڈیا پر بیان دے اور  اخبارات میں خبریں چھپوائے۔ اس کی بات پر یقین کر کے اور دس بیس لوگ یہی بات دوہرانے لگ جائیں اور پانچ دس سال بعد یہ لوگ تعداد میں اتنے زیادہ ہو جائیں کہ ان کی بات پر تواتر کا گمان ہونے لگے۔   بعد میں کوئی مورخ اسی کی بنیاد پر اگر اپنی کتاب میں یہ لکھ دے کہ C نے A کو قتل کیا تھا تو بات پوری طرح پھیل جائے گی اور لوگ بلا تامل اسے مان لیں گے۔

ایسے مصنوعی تواتر کی جانچ پڑتال آسان ہے کیونکہ اگر ب  کے زمانے میں اس کے دعوے سے  ہٹ کر دیگر وسائل سے اس واقعے کا جائزہ لیا جائے گا  تو بات واضح ہو جائے گی کہ سوائے اس ایک شخص کے اور کوئی یہ بات نہیں کہتا ہے۔ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ تواتر کا یہ دعوی بے بنیاد ہے اور مصنوعی قسم کا تواتر پیدا کیا گیا ہے۔

عہد صحابہ کی تاریخ کے کون سے واقعات تواتر سے منقول ہیں  اور کون سے اخبار احاد سے؟

عہد صحابہ کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات تواتر سے منقول ہیں  جیسے خلفاء راشدین کون کون تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتدین سے جنگیں ہوئیں اور روم و ایران سے جنگوں کا آغاز ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں روم اور ایران کو شکست دی گئی اور یہ اعلی درجے کی خوشحالی کا دور تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نہایت نیک دل خلیفہ تھے اور باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں خانہ جنگیاں ہوئیں۔ حضرت حسن نے معاویہ رضی اللہ عنہما سے صلح کر لی وغیرہ وغیرہ۔ 

انہی واقعات کی جزوی تفصیلات ہمیں اخبار احاد کے ذریعے ملتی ہیں۔ ان میں سچی جھوٹی ہر قسم کی روایات شامل ہیں۔  مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کے اپنے ساتھیوں سے کیا مشورے ہوئے؟ آپ کی بیعت کن حالات میں ہوئی؟  جنگ جمل و صفین کے اسباب کیا تھے؟ یہی وہ تفصیلات ہیں جن میں  ہمیں بے شمار تضادات اور اختلافات ملتے ہیں ۔

اخبار احاد میں سند  اور متن کی اہمیت کیا ہے؟

علم روایت میں کسی بھی انفرادی روایت کے دو حصے مانے جاتے ہیں: ایک حصہ اس کی سند اور دوسرا متن۔ سند سے مراد وہ حصہ ہوتا ہے جس میں تاریخ کی کتاب کے مصنف سے لے کر واقعے کے عینی شاہد تک کے تمام راویوں (روایت بیان کرنے والوں) کی مکمل یا نامکمل زنجیر کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔  اس کی مثال ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور یہاں دوبارہ بیان کر رہے ہیں: زید نے ہم سے لکھ کر بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے خالد سے یہ بات سنی۔ خالد نے کہا کہ انہوں نے اسلم سے یہ بات سنی اور اسلم نے کہا کہ میں نے یہ واقعہ ہوتے دیکھا: ۔۔۔۔۔ سند کے بعد روایت کا متن شروع ہوتا ہے جو کہ روایت کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں اصل واقعہ بیان کیا گیا ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں تاریخی ریسرچ کے ماہرین سند اور متن دونوں کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت کس حد تک قابل اعتماد ہے۔  یہاں ہم اسی طریقہ کار کی تفصیل بیان کر رہے ہیں تاکہ اس طریقہ کار کو سیکھ کر اس کا اطلاق عہد صحابہ سے متعلق معلومات سے کیا جا سکے۔

تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کا طریقہ کیا ہے؟

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے روایات ایجاد کیں اور انہیں پروپیگنڈا کے ذریعے پھیلا دیا۔ ان میں سے بہت سی روایات کتب تاریخ کا حصہ بن  گئیں اور سچ کے ساتھ جھوٹ کی آمیزش ہو گئی۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جھوٹ کو سچ سے الگ کیسے کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم واقعات کی صحیح تصویر تک پہنچ سکیں؟ 

مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جھوٹ گھڑنے والا کوئی نہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے اس کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔  اس کے بیان میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ سچ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے جبکہ جھوٹ متعدد ہو سکتے ہیں۔  اس کی ایک مثال وہ مشہور واقعہ ہے جس میں ایک راوی شخص نے بیان کیا کہ میں نے فلاں شخص سے یہ حدیث سنی ہے۔ سامعین میں ایک بڑے محدث بیٹھے تھے۔

انہوں نے پوچھا: آپ کی عمر کتنی ہے؟ بولے: 80 سال۔ محدث نے کہا: پھر آپ یہ حدیث ان صاحب سے نہیں سن سکتے کیونکہ وہ آپ کی پیدائش سے 10 برس پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ اسی طرح کسی عباسی خلیفہ کے زمانے میں خیبر کے یہودیوں نے ایک دستاویز پیش کی جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں کچھ حقوق عطا فرمائے تھے۔ وقت کے ایک محدث نے اس دستاویز کو دیکھتے ہی جعلی قرار دیا  کیونکہ اس میں بطور گواہ حضرت سعد بن معاذ او رمعاویہ رضی اللہ عنہما کے دستخط تھے۔ ان میں سے ایک صحابی اس واقعے سے پہلے ہی شہید ہو چکے تھے اور دوسرے ابھی ہجرت کر کے مدینہ نہیں آئے تھے۔

علم تاریخ کے محققین نے اس مقصد کے لیے ایک  طریقہ کار وضع کیا ہے جسے تاریخی ریسرچ کا طریقہ کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ تحقیق کے اصول ہم یہاں اس کے ماہرین کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں۔ تفصیل کے لیے آپ کسی بھی انسائیکلو پیڈیا میں تاریخی ریسرچ کا عنوان دیکھ سکتے ہیں۔[1] بنیادی طور پر تاریخی معلومات کی جانچ پڑتال کے لیے چار اعتبار سے تحقیق کی جاتی ہے۔

ماخذ کی تحقیق (Source Criticism)

داخلی تحقیق (Internal Criticism)

خارجی تحقیق (External Criticism)

تاریخی وجوہات کا تجزیہ (Historical Reasoning)

اب ہم انہیں ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں۔

ماخذ کی تحقیق

(Source Criticism)

اس تحقیق میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ تاریخی معلومات کا ماخذ سورس کیا ہے اور وہ کس درجے میں قابل اعتماد ہے؟ یہ معلومات محض سنی سنائی  ہیں یا ان کے لیے ٹھوس ثبوت موجود ہیں؟ کیا ان معلومات کا ماخذ ایک ہی شخص ہے یا متعدد افراد ہیں؟ اگر متعدد ہیں تو ان کے درمیان کوئی باہمی تعلق تو نہیں؟ کیا معلومات کے یہ مآخذ متعصب تو نہیں۔ اگر بہت سے مآخذ سے متفقہ طور پر ایک ہی بات سامنے آ رہی ہو، تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ علم حدیث کی اصطلاح میں اسے تواتر کہا جاتا ہے۔ جیسے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ یا سانحہ کربلا کا وقوع پذیر ہونا بے شمار مآخذ سے ثابت ہے۔ اگر مختلف افراد اس واقعے کے بارے میں متضاد باتیں پیش کر رہے ہوں تو تاریخی تحقیق کے ماہر کو  یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کس شخص کی بات درست ہے؟  اس ترجیح کے اصول یہ ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ اگر ایک شخص واقعے کا عینی شاہد ہے اور دوسرے نے کسی اور سے سن کر بات بیان کی ہے، تو عینی شاہد کی بات کو ترجیح ہو گی۔ مثلاً ایک شخص جنگ جمل میں شریک تھا، اس کا بیان اس شخص کی نسبت کہیں اہمیت رکھے گا جو سو سال بعد پیدا ہوا۔

۔۔۔۔۔۔ اگر ایک شخص واقعے سے متعلق کسی قسم کا تعصب رکھتا ہے اور دوسرا تعصب نہیں رکھتا، تو غیر متعصب کو ترجیح حاصل ہو گی۔ جیسے کسی جنگ میں فریقین کے فوجیوں کی نسبت آزاد مبصرین اور صحافیوں کی بات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اگر ایک شخص کی بات کی تصدیق دوسرے آزاد ذرائع سے بھی ہو جاتی ہے، تو اس کی بات کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گی۔  اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے بیان میں محض منفرد ہے اور اس کے بیان کی تصدیق دوسرے آزاد ذرائع سے نہیں ہوتی، تو اس کی بات کی اہمیت کم ہو گی۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے  کہ تصدیق کرنے والے ذرائع کا آزاد ہونا ضروری ہے۔ مثلاً اگر ایک واقعے کو پانچ  افراد الف، ب، پ، ت، چ بیان کرتے ہیں۔ ان میں تین افراد الف، ب، پ کا بیان ملتا جلتا ہے جبکہ دو افراد ت، چ کا بیان ان سے مختلف ہے مگر وہ آپس میں متفق ہیں۔  اب محض اس وجہ سے پہلے تین افراد کے بیان کو ترجیح حاصل نہ ہو گی کہ وہ اکثریت میں ہیں۔ یہ دیکھا جائے گا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کوئی تعلق تو نہیں رکھتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ تینوں ایک ہی سیاسی پارٹی سے تعلق  رکھتے ہوں؟ یا ب، پ دونوں کہیں اے کے شاگرد تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ان کی گواہی کو تین نہیں بلکہ ایک فرد کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔اگر ایک فریق کی بات کی تصدیق دیگر ثبوتوں جیسے فنگر پرنٹس، ڈی این اے یا اسی نوعیت کی کسی اور چیز سے ہوتی ہے، تو اس کی بات قابل ترجیح ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔ اگر کسی ایک فریق کی بات کو ترجیح دینا ممکن نہ ہو، تو پھر مورخ اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے تحقیق کے دیگر طریقے اختیار کرے گا جن کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ [2]

داخلی تحقیق

(Internal Criticism)

جو تاریخی روایت مل رہی ہے، اس کے متن کا تجزیہ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک قابل اعتماد ہے۔  چونکہ یہ تحقیق متن کے اندرونی تجزیے سے متعلق ہوتی ہے، اس وجہ سے اسے داخلی تحقیق  کہا جاتا ہے۔ اس میں درج ذیل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ معلومات پر مبنی جو رپورٹ ہے، کیا اس کے اندر کوئی اندرونی تضاد موجود ہے؟

۔۔۔۔۔۔ جو شخص رپورٹ دے رہا ہے، کیا وہ عینی شاہد ہے یا اس نے کسی اور سے سن کر یہ معلومات لکھی ہیں؟  اگر یہ زبانی روایت ہے تو پھر کیا اس کی سند (تمام لوگوں کے نام) مکمل ہے یا نامکمل؟ کیا یہ تمام کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔ اس شخص نے واقعے کی رپورٹ کب اور کہاں بیان کی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ واقعے کی رپورٹ پچاس سال بعد بیان کر رہا ہے جب اس کے دیگر عینی شاہدین دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ اس شخص نے وہ رپورٹ کن اشخاص کے سامنے بیان کی ہے؟ کیا وہ ان پر اثر انداز ہونا چاہتا تھا یا پھر محض معلومات کی منتقلی ہی اس کا مقصد تھا؟

۔۔۔۔۔۔ جو بیان وہ دے رہا ہے، کیا وہ عقلاً ممکن ہے؟ جیسے آج کل کا کوئی شخص اگر یہ دعوی کرے کہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے اور کوئی حدیث بیان کرے تو یہ عقلاً محال ہے۔

۔۔۔۔۔۔ جس واقعے کے بارے میں وہ شخص بیان دے رہا ہے،  کیا اسے سمجھنے کے لیے کسی خصوصی مہارت کی ضرورت ہے؟ جیسے کسی تاریخی شخصیت کی بیماری کو کوئی طبیب ہی صحیح طور پر بیان کر سکتا ہے۔[3]

خارجی تحقیق

(External Criticism)

اس قسم کی تحقیق میں تاریخی معلومات کے متن سے ہٹ کر دیگر بیرونی ذرائع سے ان معلومات کی تحقیق کی جات ہے۔ اسی وجہ سے اسے خارجی تحقیق کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ ٹیسٹ شامل ہوتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ معلومات کو کب بیان کیا گیا؟  کیا انہیں اصل واقعے کے فوراً  بعد بیان کیا گیا یا کافی عرصہ بعد؟

۔۔۔۔۔۔ معلومات کہاں مرتب کی گئیں؟  کہیں معلومات کسی ایسے علاقے میں مرتب تو نہیں کی گئیں جو اس واقعے سے متعلق کسی متعصب فریق کا گڑھ تھا؟

۔۔۔۔۔۔ معلومات کس شخص نے مرتب کیں؟ کہیں وہ کسی  متعصب گروہ سے تعلق تو نہیں رکھتا تھا؟

۔۔۔۔۔۔ معلومات کیا براہ راست ماخذ سے حاصل کی گئی ہیں یا پھر  کسی تیسرے ماخذ سے؟ اگر یہ ثانوی ماخذ سے حاصل کی گئی ہیں تو اس کا درجہ کیا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ کیا معلومات اپنی اصل حالت میں ہیں یا اس میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے؟

۔۔۔۔۔۔ کیا لوگ طویل عرصے تک ان معلومات کو اسی طرح سے مانتے آئے ہیں یا کسی دور میں ان کا انکار بھی کیا گیا ہے؟

کیا ان معلومات کا تاریخی تجزیہ کرنے کی پہلے بھی کوشش کی گئی ہے یا انہیں بغیر تحقیق کے محض عقیدت مندی یا تعصب میں بس مان لینے کا رجحان رہا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ دیگر قرائن و آثار سے ان معلومات کی تصدیق ہوتی ہے یا نہیں؟ [4]

ان میں سے پہلے چار اصولوں کو بالائی تحقیق (ہائی کریٹیسزم) اور بقیہ دو کو زیریں تحقیق (لوئر کریٹیسزم) کا نام دیا جاتا ہے۔

تاریخی اسباب و علل  کی تحقیق

(Historical Reasoning)

اس طریقہ کار میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ زیر تحقیق تاریخی معلومات دیگر تاریخی  معلومات اور حالات سے مطابقت رکھتی ہیں یا نہیں۔  تاریخ میں واقعات کا ایک تسلسل ہوتا ہے جس میں اسباب اور علل کی ایک زنجیر رونما ہو رہی ہوتی ہے۔ اگر ایک واقعہ اس زنجیر میں سرے سے فٹ ہی نہ بیٹھتا ہو تو اس کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے۔  زیر تحقیق واقعے کے اسباب اور وجوہات تلاش کی جاتی ہیں، پھر ان کے نتائج پر غور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی واقعہ غیر متوقع ہو، تو اس سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ ابن خلدون چونکہ علم التاریخ کے بانی ہیں، اس وجہ سے انہوں نے بھی اس معیار کو بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔

خبروں کی تحقیق معاشرے کی طبیعت کو سمجھنے پر موقوف ہے اور تحقیق کا یہ طریقہ انتہائی قابل اعتماد اور اچھا ہے۔ اس سے سچی اور جھوٹی خبروں میں امتیاز ہو جاتا ہے ۔ اگرچہ خبروں کی سچائی ، راویوں کی دیانت داری سے بھی معلوم ہو جاتی ہے لیکن اس دیانت داری کی حیثیت ثانوی ہے جبکہ معاشرے کے طبعی حالات سے تحقیق کا درجہ مقدم ہے۔ راویوں کی دیانت داری کی تحقیق تو تب کی جائے گی جب خبر میں سچائی کا امکان ہو۔ جب خبر ہی ناممکن اور بعید از عقل ہو تو پھر جرح و تعدیل سے کیا فائدہ ہے۔ بعض عقل مند لوگوں نے خبر کے سلسلے میں ایک طریقہ یہ نکالا ہے کہ الفاظ سے ناممکن معانی لے لیے جائیں یا پھر عقل سے خارج ہو کر اس واقعے کی کوئی تاویل گھڑ لی جائے۔شرعی اخبار و آثار میں راویوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے تاکہ کم از کم ان کی سچائی کا غالب گمان تو ہو۔ [5]

کیا یہ تحقیق ہر تاریخی واقعے سے متعلق کی جاتی ہے؟

اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر تاریخی واقعے سے متعلق اتنی معلومات دستیاب نہیں ہوتی ہیں کہ اوپر بیان کردہ تمام پروسیجرز کا اطلاق اس پر کیا جا سکے۔ عام تاریخی واقعات کے بارے میں اگر کوئی اختلاف سامنے نہ آئے تو انہیں زیادہ تحقیق کے بغیر قبول کر لیا جاتا ہے۔  تفصیلی تحقیق عام طور پر ان واقعات کی ہوتی ہے جن سے کوئی بڑا علمی، سیاسی یا  مذہبی اختلاف پیدا ہو رہا ہو۔ چھوٹے موٹے واقعات کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جیسے کسی سفر کے دوران کسی بادشاہ  نے کہاں پڑاؤ ڈالا؟ اس نے کسی شخص کو کیا انعام دیا؟ بادشاہ کی شادی کس خاتون سے ہوئی؟ اس قسم کے عام معاملات میں زیادہ تحقیق نہیں کی جاتی ہے لیکن اہم تاریخی واقعات ، جن کے بارے میں کوئی بڑا اختلاف موجود ہو،  کے بارے میں یہ تحقیقات کی جاتی ہیں۔ جیسے کوئی بڑی جنگ کیوں ہوئی؟ اس کے اسباب کیا تھے؟  اس کے نتائج کیا نکلے؟ وغیرہ وغیرہ۔

حدیث اور تاریخ سے متعلق تحقیق میں کیا فرق ہے؟

حدیث چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق معلومات کا ریکارڈ ہے، اس وجہ سے اس کے معاملے میں تحقیق کا اعلی ترین معیار اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے خود اپنے متعلق فرمایا کہ مجھ سے جھوٹ منسوب کرنے والا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر قسم کی احادیث کے لیے تحقیق کا کڑا معیار برقرار رکھا گیا ہو بلکہ احکام کی احادیث کی چھان بین بہت ہی باریک بینی سے کی گئی جبکہ سیرت طیبہ سے متعلق عام تاریخی واقعات  کی بہت زیادہ چھان بین نہیں کی گئی ہے۔ ہاں اگر کسی معاملے میں کوئی اختلاف پیدا ہوا ہے تو اس کی تحقیق تفصیل سے کی گئی ہے۔

تاریخی واقعات میں عام طور پر یہ  معیار برقرار نہیں رکھا جا سکا ہے اور مورخین نے ہر قسم کا رطب و یابس اکٹھا کر دیا ہے۔ ان میں سے عام واقعات کی چھان بین تو بہت مشکل ہے تاہم ایسے واقعات جن سے امت کے اندر کوئی بڑا سیاسی یا مذہبی اختلاف پیدا ہوا ہے، کی چھان بین تفصیل سے کی جانی چاہیے۔ اس پر مزید بحث ہم اگلے باب میں کریں گے۔

خلاصہ باب

تاریخی معلومات مرتب کیے جانے کا عمل چار مراحل سے گزرتا ہے: (۱) واقعہ کا رونما ہونا اور عینی شہادتیں۔ (۲) واقعہ کی تفصیلات کو نوٹ کرنا۔  (۳) اس کا تجزیہ کر کے اس کی ایک مکمل تصویر بنانا۔ (۴) مختلف واقعات کی تصاویر کو لے کر تاریخ مرتب کرنا۔

تاریخی معلومات بہت مرتبہ راویوں کی بے احتیاطی، اضافی معلومات کی عدم دستیابی ، راویوں کے تعصب اور سیاسی و مذہبی وجوہات کے سبب مسخ ہو جاتی ہیں۔

جو تاریخی معلومات تواتر سے منتقل ہوتی ہیں، ان کے بارے میں شک نہیں ہوتا مگر جو انفرادی لوگوں کی خبروں سے منتقل ہوتی ہیں، ان کی مضبوط انفارمیشن کے بارے میں شک رہتا ہے۔ عہد صحابہ کی تاریخ کا بہت کم حصہ ہے جو تواتر  سے منتقل ہوا ہے۔

تاریخی روایات کی چھان بین کے لیے متعدد طریق ہائے کار ہیں، جن میں سے یہ نمایاں ہیں: (۱) ماخذ کی تحقیق۔ (۲) داخلی تحقیق۔ (۳) خارجی تحقیق۔ (۴) تاریخی وجوہات کی تحقیق۔

تمام تاریخی روایات کی چھان بین نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف انہی روایات کی چھان بین ہوتی ہے جن میں کوئی بڑا سیاسی، علمی یا مذہبی اختلاف پیدا ہو۔

اگلے باب میں ہم دیکھیں گے کہ عہد صحابہ سے متعلق تاریخی معلومات کیسے مرتب ہوئیں اور ان کی تحقیق کا طریقہ کیا ہے؟


[1] Wikipedia. Article: Historical Method.en.wikipedia.org/wiki/Historical_method. ac. 16 Feb 2012

[2] Bernheim (1889) and Langlois & Seignobos (1898). Wikipedia. Article: Historical Method. http://en.wikipedia.org/wiki/Historical_method. ac. 16 Feb 2012

[3] R. J. Shafer. Ibid.

[4] Garrakhan. Ibid.

[5]  ابن خلدون۔ 1/48

تاریخی معلومات کی ریسرچ کیسے ممکن ہے؟
Scroll to top