صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات کی تاریخی معلومات کیسے مسخ ہوتی رہی ہیں؟

تاریخی معلومات کیسے مسخ ہو جاتی ہیں؟

آپ نے دور جدید اور عہد قدیم تاریخی معلومات  کے مرتب کرنے کے پراسیس کا جو مطالعہ کیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ یہ بات جان سکتے ہیں کہ اس پورے پراسیس میں بہت سے ایسے خلا موجود ہیں ، جن کی مدد سے تاریخی معلومات مسخ ہو سکتی ہیں۔  یہ کام غیر ارادی طور پر ہوتا  ہے اور ارادی طور پر بھی۔  ہم ان دونوں امور کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

غیر ارادی طور پر تاریخی معلومات کا مسخ ہو جانا

آپ نے وہ کھیل تو دیکھا ہو گا جس میں شریک ایک شخص کے کان میں کوئی بات کہی جاتی ہے، وہ یہ دوسرے کے کان میں بیان کرتا ہے اور وہ تیسرے کے، لیکن  جب یہ بات آخری شخص بیان کرتا ہے تو بات بالکل تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔ جو واقعات تو ایسے ہوں کہ انہیں ہزاروں افراد نے دیکھا ہو، وہ بالکل ٹھیک ٹھیک اگلی نسلوں تک منتقل ہو جاتے ہیں لیکن جن واقعات کے گواہ ایک دو افراد ہی ہوں، ان کی صحیح تصویر اگلی نسلوں تک منتقل نہیں ہو پاتی ہے۔  اس کی وضاحت ہم ایک مثال سے کرتے ہیں۔ جیسے کوئی جنگ ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہزاروں افراد شریک ہوں گے، جن میں سے اگر آٹھ دس بھی اس جنگ کے واقعہ ہونے کو بیان کر دیں تو بعد کے دور کے مورخین کے لیے تاریخ لکھنے کا کافی مستند مواد دستیاب ہو جائے گا۔  مورخ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ ان صاحبان کے بیانات کا ایک دوسرے سے موازنہ کر کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس جنگ کے آغاز میں کسی کمانڈر نے اپنے تین قریبی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر کیا خفیہ پلاننگ کی؟  یہ وہ بات ہے کہ جس تک رسائی بہت ہی مشکل کام ہے۔  ہماری انفارمیشن ایج میں بھی شاید کوئی صحافی یا مورخ اس کی صحیح تفصیلات بیان نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات کے بارے میں تو مورخین میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوتا ہے لیکن جزوی تفصیلات کے بارے میں ان کے ہاں اکثر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔

 علوم الحدیث کا تعارف ۔۔۔ جعلی احادیث کا فتنہ اور لوگوں پر معاشی اور نفسیاتی فراڈ۔۔۔ سند راویوں کی شخصیت پر ریسرچ

جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، واقعہ کی تصویر پر گرد پڑتی چلی جاتی ہے اور اس کے بارے میں تحقیق و تفتیش مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ اب سے سو سال بعد ایک مورخ ہمارے زمانے کی تاریخ لکھنا چاہتا ہے۔ اہم واقعات کی رپورٹنگ کا کام ہمارے زمانے کے صحافی کر رہے ہیں اورتجزیہ نگار  ان کی تصویر مکمل کرتے جا  رہے ہیں۔  سو سال بعد کا مورخ جب ہمارے زمانے کی تاریخ لکھے گا تو اس کے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ واقعات کی از سر نو چھان بین کرے کیونکہ اس وقت تک واقعے کے گواہوں میں شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو ۔ دیگر قرائن و آثار بھی ضائع ہو چکے ہوں گے ۔ مورخ کے لیے صرف اور صرف صحافیوں اورتجزیہ نگاروں کا کیا ہوا کام باقی بچے گا۔ اگر اخبارات اور نیوز چینلز نے اپنے آرکائیوز میں پرانے اخبارات اور خبروں کی ویڈیوز سنبھال کر رکھی ہوں گی تو شاید یہ مورخ کو دستیاب ہو جائیں ورنہ صرف تجزیہ نگاروں کا کام ہی اس مورخ کو مل سکے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تجزیہ نگاروں کی تحریریں یا ویڈیوز اس مورخ کو نہ مل سکیں اور اسے دیگر وسائل  جیسے سابقہ مورخین کے کام ہی پر اکتفا کرنا پڑے۔

اس مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ دور جدید کے مورخین کے لیے بھی تاریخ کی تصویر پر  پڑی گرد ہٹانا  ایک مشکل کام ہے۔ ہمارے پڑوس میں رات کے وقت تنہائی میں کسی کو قتل کر دیا جائے تو بھی ہمارے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل رکھتے ہوئے ہم صحیح مجرم تک پہنچ جائیں، کجا یہ کہ سینکڑوں برس پہلے کے کسی قتل یا اور واقعے سے متعلق ہم صحیح مجرم تک پہنچ سکیں جب نہ اخبارات تھے اور نہ صحافی، نہ نیوز چینل تھے اور نہ ہی تجزیہ نگار اور کمپیوٹر یا پریس تو بہت دور کی بات، کاغذ بھی پوری طرح دستیاب نہ تھا۔  آج کے اس دور میں جب کمیونی کیشن کا انقلاب آ چکا ہے اور وسائل نقل و حمل اس درجے میں ایجاد ہو چکے ہیں کہ چند گھنٹوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کا سفر ممکن ہے، ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے ہیں کہ ہر ہر بات بالکل صحیح طریقے پر ریکارڈ ہو رہی ہے اور بالکل ٹھیک ٹھیک اگلی نسلوں تک منتقل ہو رہی ہے۔پھر یہ دعوی پرانے زمانے کے بارے میں کرنا کیسے ممکن ہے؟

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ محض غلط فہمی کی وجہ سے بات صحیح طور پر منتقل نہیں ہو پاتی۔ ایک شخص اس واقعے یا بات کو صحیح سمجھ نہیں سکا اور اپنی ناقص فہم کو اس نے آگے منتقل کر دیا۔ بعد میں یہ بات کتب تاریخ کا حصہ بن گئی۔

جان بوجھ کر تاریخی معلومات کا مسخ کیا جانا

اوپر دی گئی تفصیلات سے ہم یہ جان چکے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  محض غلط فہمی یا لاپرواہی یا معلومات کی کمی کے باعث تاریخی معلومات صحیح طور پر اگلی نسلوں کو منتقل نہیں ہوتیں۔ اس عمل میں اس وقت زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے جب کوئی شخص یا گروہ اپنے شخصی یا گروہی مفادات کے تحت جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرے۔سیاسی معاملات میں چونکہ لوگ اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد میں مصروف  ہوتے ہیں، اس وجہ سے وہ تاریخ کو بھی محض اپنا ہتھیار ہی سمجھتے ہیں اور اسے مسخ کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں متعدد سیاسی جماعتیں وجود پذیر ہو چکی تھیں۔  ان میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اقتدار اسے نصیب ہو۔ اس دور کی سیاسی جماعتوں کو ہم اپنے دور کی پارٹیوں پر قیاس نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانے میں جو بھی اقتدار کا خواہش مند ہوتا ، اس کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ بغاوت برپا کرے اور لڑ جھگڑ کر اقتدار حاصل کر لے۔ ہر پارٹی کی کوشش یہ تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کر لے تاکہ اسے سیاسی کارکن  دستیاب ہو سکیں۔ اس کے لیے ہر پارٹی نے  اپنے مقاصد کے حصول کے پراپیگنڈا کا ہتھیار استعمال کیا۔ ہٹلر کے قریبی ساتھی اور اس کی پراپیگنڈا مشینری کے انچارچ گوئبلز کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ جھوٹ کو اتنی مرتبہ بولو کہ لوگ اسے سچ مان لیں۔  پراپیگنڈا گوئبلز کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ہزاروں برس سے لوگ اسی قول پر عمل کرتے آئے ہیں جن میں مسلمانوں کی پہلی دو صدیوں کی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔

دوسری صدی ہجری میں جن لوگوں میں تاریخ دانی کا شوق پیدا ہوا، وہ بالعموم انہی میں سے کسی ایک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی تعصبات کے مطابق سچی جھوٹی ہر قسم کی روایات  اکٹھی کیں اور ان پر کتابیں لکھیں۔ ان متعصب مورخین  کو اس سے غرض نہ تھی کہ بات مستند ہے یا نہیں، انہیں تو اپنی تصویر مکمل کرنا تھی اور اس کے لیے انہیں جو بھی رطب و یابس ملا، قبول کر کے انہوں نے اپنے ذہن کے مطابق تصویر مکمل کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں جب تاریخ طبری اور دیگر کتب لکھی گئیں، تو  یہی سچی جھوٹی روایتیں ان کا حصہ بھی بن گئیں۔ اس کے بعد ہر ہر گروہ اپنے اپنے نظریات کے مطابق جب تاریخ کی کوئی تصویر بنانا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا مصالحہ انہی تاریخی کتب سے مل جاتا ہے۔ 

تاریخ سے متعلق یہ تمام حقائق  ہم اپنے پاس سے بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ علم التاریخ کے بانی ابن خلدون نے بھی یہی بات کہی ہے۔ اپنے شہرہ آفاق مقدمہ تاریخ میں لکھتے ہیں۔ (d. 808/1405)

چونکہ خبر میں جھوٹ اور سچ کا امکان ہوتا ہے، اس لیے تاریخ میں بھی جھوٹ اور سچ اور غلطی ہو سکتی ہے۔  تاریخ میں غلطیوں کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔

پہلا سبب اختلاف آراء و نقطہ ہائے نظر ہے۔ جب ذہن راہ اعتدال پر ہوتا ہے اور کوئی بات سنتا ہے تو اس کی تحقیق کرتا ہے اور اس میں غور و فکر کرتا ہے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی۔ لیکن جب ذہن کسی رائے یا نقطہ نظر میں ڈوبا  ہوتا ہے تو وہ فوراً اس خبر کو  درست مان لیتا ہے جو اس کی رائے یا نقطہ نظر کے موافق ہو کیونکہ اس کی بصیرت پر تعصب و محبت کی پٹی بندھی ہوتی ہے جو اسے تحقیق و تنقید سے روک دیتی ہے۔ اب وہ جھوٹی خبر قبول کر کے غلطی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس جھوٹی خبر کو بلا تامل آگے نقل کر دیتا ہے۔

دوسرا سبب نقل کرنے والوں پر بھروسہ ہے کہ اس کے خیال میں وہ قابل اعتماد ہیں اور غلط بیانی ان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ جرح و تعدیل کے اصول پر ان کے احوال کی جانچ پڑتال نہیں کرتا ہے۔

تیسرا سبب مقصد سے لاپرواہی ہے۔ بہت سے راوی اپنی  مشاہدہ کی ہوئی یا سنی ہوئی خبروں کے اغراض و مقاصد سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ وہ محض اپنے گمان اور اٹکل پچو کی بنیاد پر روایت کر دیتے ہیں۔ اس لیے وہ غلطی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

چوتھا سبب کسی خبر کے بارے میں سچا ہونے کا وہم ہے۔ یہ کئی طرح سے پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ راویوں پر اعتماد کر لیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خبروں کو (اس دور کے) دیگر خارجی واقعات سے میچ نہیں کیا جاتا ہے تاکہ اس خبر اور دیگر واقعات میں مطابقت  پیدا ہو جائے۔ اس تطبیق سے عدم واقفیت کے باعث جعلی اور من گھڑت باتوں کو بھی فروغ حاصل ہو جاتا ہے اور صحیح و غلط کی تمیز نہیں رہتی ہے۔ سننے والا خبر کو جوں کا توں نقل کر دیتا ہے حالانکہ وہ جعلی ہونے کے سبب سچائی سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔

پانچواں سبب معزز اور بڑے لوگوں کی خوشامد کر کے انہیں خوش کرنا اور ان کا قرب حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اکثر خوشامدی لوگ بڑے لوگوں کی ہر بات خوبصورت رنگ میں رنگ کر اسے پھیلا دیتے ہیں اور س طرح وہ جھوٹی خبریں دنیا میں پھیل جاتی ہیں کیونکہ انسان کو فطری طور پر اپنی تعریف اچھی لگتی ہے۔ لوگ دنیا اور اس کے مال و متاع کے انتہائی حریص ہوتے ہیں او رحقیقی فضیلت اور اہل فضیلت کو نہیں چاہتے ہیں۔

چھٹا سبب  جو مذکورہ بالا تمام اسباب سے زیادہ اہم ہے، اس معاشرے کے احوال سے ناواقفیت ہے (جس کی وہ خبر ہو۔) ہر زمانے کا ایک مخصوص ماحول ہوتا ہے اور اس زمانے کے ہر واقعے کے لیے، اس زمانے کی خصوصیات  سے مطابقت ضروری ہوتی ہے۔ اگر خبر سننے والا، اس ماحول کے تقاضوں اور واقعات کی مخصوص خصوصیات سے باخبر ہو تو اسے اس خبر کی تحقیق میں بڑی مدد ملے گی۔ ۔۔۔

بعض اوقات لوگ بالکل ہی محال و ناممکن خبروں پر یقین کر کے انہیں نہ صرف مان لیتے ہیں بلکہ دوسروں سے روایت بھی کر دیتے ہیں۔ لوگ ان سے یہ خبریں نقل کرتے چلے آئے ہیں۔ [1]

اس کے بعد ابن خلدون نے تاریخ کی سابقہ کتب سے بعض مثالیں نقل کی ہیں جیسے اسکندر یونانی کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس نے اسکندریہ شہر آباد کرنا چاہا تو سمندری بلاؤں نے اس کی مخالفت کی۔ اس نے شیشے کا ایک صندوق بنوایا اور اس میں بیٹھ کر سمندر میں اترا۔ یہاں اس نے تہہ میں موجود کچھ شیطانی جانوروں کی تصاویر کھینچ لیں اور واپس آ کر  ان کے مجسمے بنوا کر ساحل پر لگوا دیے۔ بلائیں جب رکاوٹ ڈالنے آئیں تو ڈر کر بھاگ گئیں اور اس طرح اسکندریہ کے شہر میں رکاوٹ دور ہو گئی۔ اس قسم کی بہت سی داستانیں داستان گو حضرات نے محض اس لیے گھڑیں کہ ان کی مدد سے وہ لوگوں کو محظوظ کر سکیں۔  بعض مورخین نے زیادہ تردد کیے بغیر انہیں بھی کتب تاریخ کا حصہ بنا دیا۔

تاریخی معلومات کیسے منتقل ہوتی ہیں؟

تواتر اور انفرادی رپورٹس

Continually Information from Each Generation vs. Only One Person Information

عہد صحابہ بلکہ ہر دور ہی سے متعلق  معلومات  ہمیں بالعموم دو شکلوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک شکل تواتر کہلاتی ہے جبکہ دوسری خبر واحد (جمع اخبار احاد ) یعنی انفرادی رپورٹس ہوں یا نہ ہوں، کو دوسرے لوگوں اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے بنیادی طور پر یہی دو طریقے استعمال ہوئے ہیں۔ تواتر سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبرکو ہر دور میں اتنے زیادہ افراد بیان کرتے ہوں  کہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ اس کے برعکس خبر واحد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق کسی خبر کو ایک دو یا چند افراد بیان کرتے ہوں اور ان کے بیان میں غلطی یا شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ جائے۔

تواتر کی مثال  یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر2001 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوگیا۔ یہ واقعہ رونما ہوتے ہی اس کی خبر دنیا بھر کے ٹی وی چینلز، اخبارات اور انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس واقعے کو موقع پر جا کر ہزاروں افراد نے دیکھا اور بیان کردیا۔ اس معاملے میں دنیا بھر میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا کیونکہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اب سے پندرہ بیس برس تک کے  بعداس واقعے کو دنیا بھر کے اربوں افراد اپنی آنے والی نسل کو سنائیں گے، اس واقعے کے بارے مضامین لکھے جاتے رہیں گے، ویڈیو فلمیں دیکھی جاتی رہیں گی اور اس کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ ہمارے بعد والی نسل کے افراد انہی طریقوں سے ان معلومات کو اپنے سے اگلی نسل میں منتقل کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب سے ہزار سال بعد بھی اس بات میں کوئی شک و شبہ موجود نہیں ہوگا کہ 11 ستمبر 2001کو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر جہازوں کے ٹکراؤ سے تباہ ہوگئے تھے۔ یہ پورا پراسیس تواتر کا عمل کہلاتا ہے۔ 

اس ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات حتمی اور قطعی ہوتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہم لوگ پوری قطعیت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ1947 میں برصغیر آزاد ہوا تھا، 1857 میں برصغیرمیں جنگ آزادی ہوئی تھی، سولہویں صدی عیسوی میں اکبر نام کا ایک بادشاہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، پندہرویں صدی میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا، بارہویں صدی میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگیں لڑی تھیں، ساتویں صدی میں سانحہ کربلا وقوع پذیر ہوا تھا، اور اسی ساتویں صدی کے عرب میں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت کی مہذب دنیا کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا۔ پہلی صدی عیسوی میں فلسطین میں سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے دین حق کا علم بلند کیا تھا، 1400 قبل مسیح میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے پر آنے والا فرعون سمندر میں غرق ہوگیا تھا، 2000 قبل مسیح میں سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے نمرود کی خدائی کو چیلنج کیا تھا، اور اس سے بھی کہیں پہلے سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں زمین پر ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ وہ معلومات ہیں، جن کا کوئی ذی عقل اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ان حقائق کا انکار کرتا ہو تو وہ سورج کے روشن ہونے ، دن اور رات کی تبدیل ہونے اور زمین کے گول ہونے کا بھی انکار کر سکتا ہے۔

ہمارے علمی ذخیرے میں ایسی بہت سی معلومات ہیں جو تواتر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں اور ان  کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ بعض معلومات کے منتقل کرنے کا سلسلہ اگلی نسلوں میں پہنچ کر کسی وجہ سے منقطع ہو جائے اور یہ تواتر ٹوٹ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بادشاہوں کے وجود اور زمانوں کے بارے میں تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ ان معلومات کی اتنی اہمیت نہ تھی کہ کوئی انہیں محفوظ رکھنے کا اہتمام کرتا۔ اس کے برعکس انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بعض دیگر مذاہب کے بانیوں کے بہت سے واقعات تواتر کے ساتھ منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں کیونکہ ان کی اہمیت کے پیش نظر انہیں محفوظ رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا گیا تھا۔ یہی اہتمام تواتر کہلاتا ہے۔

تاریخ میں بہت سی معلومات ہمیں خبر واحد (ایک دو افراد کی دی ہوئی خبر) کی صورت میں بھی ملتی  ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کا منظر کسی عینی شاہد نے دیکھا۔ اس نے اپنے ذہن میں موجود تفصیلات کو کسی دوسرے تک منتقل کردیا۔ دوسرے شخص نے ان معلومات کو تیسرے تک ، تیسرے نے چوتھے تک اور چوتھے نے پانچویں شخص تک منتقل کردیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان معلومات میں اس قسم کی باتیں ہو سکتی ہیں کہ اس نے جہازوں کے ٹکرانے سے پہلے کسی شخص کو مشکوک انداز میں اس عمارت سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا، سب سے پہلے 79 ویں منزل تباہ ہوئی تھی، پچاسویں منزل پر موجود فلاں شخص کس طرح زندہ بچا،  وغیرہ وغیرہ ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تباہ ہونا تو تواتر سے ثابت ہے لیکن اس کی جزوی تفصیلات خبر واحد سے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی خبروں میں جزوی سا فرق پایا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد ایک دو انسانوں کے مشاہدے اور یاد رکھنے پر ہوتی ہے۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے اخبارات کسی بھی بڑے واقعے کی جب رپورٹنگ کرتے ہیں تو ان میں  اس کے بارے میں بعض تفصیلات میں اختلاف موجود ہوتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مرنے والے یا زخمی ہونے والوں کی تعداد کیا تھی، حادثے میں قصور کس کا تھا، جیسے معاملات میں اخباری رپورٹرز کے بیانات کے فرق کی وجہ سے مختلف اخبارات مختلف معلومات دیتے ہیں جبکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہ چیز بھی عام مشاہدے میں دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک شخص دوسرے کے سامنے واقعے کو بالکل درست بیان  کردیتا ہے لیکن دوسرا تیسرے کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے کسی مفاد کے تحت، یا پھر محض غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس میں کچھ کمی بیشی بھی کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے  ہیں کہ  کانوں کان بات پہنچانے کے کھیل میں جب اصل جملہ آخری فرد سے پوچھا جاتا ہے تو اس کا جواب اصل جملے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں تواتر سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد قطعی اور یقینی    ہوتی ہیں اور ان  میں کسی قسم کے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس خبر واحد سے حاصل ہونے والی معلومات سو فیصد یقین کے درجے پر نہیں پہنچتیں بلکہ ان میں کسی نہ کسی حد تک شک و شبہ پایا جاتا ہے۔ اس شک و شبہ کو تحقیق کے طریقوں سے کم از کم سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اصول حدیث کا فن ایجاد کیا تاکہ خبر واحد سے حاصل کردہ معلومات کو پرکھا جا سکے۔

تواتر سے حاصل کردہ معلومات میں کسی قسم کی ہیرا پھیری کرنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ انفرادی روایتوں میں جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہمارے دور سے متعلق کبھی بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ مثلاً نائن الیون تو کبھی ہوا ہی نہیں یا امریکہ نے تو کبھی افغانستان یا عراق پر حملہ نہیں کیا۔ ہاں جزوی واقعات سے متعلق غلط بیانی کی جا سکتی ہے۔  جیسے اگر امریکیوں کے لٹریچر کا جائزہ لیا جائے تو وہ نائن الیون کا الزام مسلمانوں پر دھرتے ہیں جبکہ مسلمان اس کا الزام یہودیوں یا خود امریکیوں پر دھرتے ہیں۔  ممکن ہے کہ اب سے پانچ سو یا ہزار برس بعد تک یہی اختلاف موجود رہے۔

تواتر کے معاملے میں ایک ایسی صورت ہے جس میں گڑبڑ کی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مصنوعی سا تواتر پیدا کر دیا جائے۔ یہ پروپیگنڈا کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔ جیسے آج کوئی شخص قتل ہو جائے تو اس کا کوئی دوست یہ دعوی کر دے کہ شخص فلاں اس کا قاتل تھا۔  اس کے بعد وہ اس بات کی تشہیر کر دے، میڈیا پر بیان دے اور  اخبارات میں خبریں چھپوائے۔ اس کی بات پر یقین کر کے اور دس بیس لوگ یہی بات دوہرانے لگ جائیں اور پانچ دس سال بعد یہ لوگ تعداد میں اتنے زیادہ ہو جائیں کہ ان کی بات پر تواتر کا گمان ہونے لگے۔   بعد میں کوئی مورخ اسی کی بنیاد پر اگر اپنی کتاب میں یہ لکھ دے کہ C نے A کو قتل کیا تھا تو بات پوری طرح پھیل جائے گی اور لوگ بلا تامل اسے مان لیں گے۔

ایسے مصنوعی تواتر کی جانچ پڑتال آسان ہے کیونکہ اگر  عین اس وقت کے زمانے میں اس کے دعوے سے  ہٹ کر دیگر وسائل سے اس واقعے کا جائزہ لیا جائے گا  تو بات واضح ہو جائے گی کہ سوائے اس ایک شخص کے اور کوئی یہ بات نہیں کہتا ہے۔ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ تواتر کا یہ دعوی بے بنیاد ہے اور مصنوعی قسم کا تواتر پیدا کیا گیا ہے۔

عہد صحابہ کی تاریخ کے کون سے واقعات تواتر سے منقول ہیں  اور کون سے اخبار احاد سے؟

عہد صحابہ کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات تواتر سے منقول ہیں  جیسے خلفاء راشدین کون کون تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مرتدین سے جنگیں ہوئیں اور روم و ایران سے جنگوں کا آغاز ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں روم اور ایران کو شکست دی گئی اور یہ اعلی درجے کی خوشحالی کا دور تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نہایت نیک دل خلیفہ تھے اور باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں خانہ جنگیاں ہوئیں۔ حضرت حسن نے معاویہ رضی اللہ عنہما سے صلح کر لی وغیرہ وغیرہ۔ 

انہی واقعات کی جزوی تفصیلات ہمیں اخبار احاد کے ذریعے ملتی ہیں۔ ان میں سچی جھوٹی ہر قسم کی روایات شامل ہیں۔  مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کے اپنے ساتھیوں سے کیا مشورے ہوئے؟ آپ کی بیعت کن حالات میں ہوئی؟  جنگ جمل و صفین کے اسباب کیا تھے؟ یہی وہ تفصیلات ہیں جن میں  ہمیں بے شمار تضادات اور اختلافات ملتے ہیں ۔

اخبار احاد میں سند  اور متن کی اہمیت کیا ہے؟

علم روایت میں کسی بھی انفرادی روایت کے دو حصے مانے جاتے ہیں: ایک حصہ اس کی سند اور دوسرا متن۔ سند سے مراد وہ حصہ ہوتا ہے جس میں تاریخ کی کتاب کے مصنف سے لے کر واقعے کے عینی شاہد تک کے تمام راویوں (روایت بیان کرنے والوں) کی مکمل یا نامکمل زنجیر کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔  اس کی مثال ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور یہاں دوبارہ بیان کر رہے ہیں: “زید نے ہم سے لکھ کر بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے خالد سے یہ بات سنی۔ خالد نے کہا کہ انہوں نے اسلم سے یہ بات سنی اور اسلم نے کہا کہ میں نے یہ واقعہ ہوتے دیکھا: ۔۔۔۔۔ سند کے بعد روایت کا متن شروع ہوتا ہے جو کہ روایت کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں اصل واقعہ بیان کیا گیا ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں تاریخی ریسرچ کے ماہرین سند اور متن دونوں کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت کس حد تک قابل اعتماد ہے۔  یہاں ہم اسی طریقہ کار کی تفصیل بیان کر رہے ہیں تاکہ اس طریقہ کار کو سیکھ کر اس کا اطلاق عہد صحابہ سے متعلق معلومات سے کیا جا سکے۔


[1]  ابن خلدون، مقدمہ 1/46۔ الکتاب الاول: فی طبیعۃ العمران۔ بیروت: دار الفکر۔ www.waqfeya.net (ac. 30 Sep 2006)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات کی تاریخی معلومات کیسے مسخ ہوتی رہی ہیں؟
Scroll to top