جہیز کی رسم ۔۔۔ دینی تناظر میں

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

میں آپ سے جہیز اور بارات کے اور ان جیسی دیگر رسومات کے بارے میں آپ کا نظریہ جاننا چاہتاہوں ؟ دوسری بات یہ کی میں نے اس سوال کو ایک مولانا کے سامنے رکھا تھا تو انہوں نے جہیز کو ناجائز اور باراتیوں کا بارات میں دعوت کھانا حرام کہا تھا۔ پھر میں نے ایک دن ایک اور عالم سے پوچھا تو انہوں  نے کہا کی دونوں جائز ہیں بشرطیکہ جہیز کی مانگ نہ کی گئی ہو اور برات کے آدمیوں کی تعداد کی اجازت لڑکی والوں سے لی ہو۔  جن عالم نے ناجائز کہا تھا، انہوں نے یہ دلائل دیے تھے جیسے قرآن کی ایک آیت جس میں الله نے دولہا کو حکم دیا ہے کی وہ دولہن کو کچھ دے ، اب اگر دولہا پہلے دولہن سے ایک لاکھ کا سامان لےلیتا ہے ، پھر اسکو کچھ مہر میں پانچ دس ہزار رپے دے بھی دیتا ہے تو یہ الله کی بات کا مذاق بنانا ہے اور باراتیوں کی چونکہ دعوت نہیں کی گئی تھی اس لئے انکا کھانا بھی درست نہیں ہے ، اور یہ دونوں رسمیں ہندوؤں سے لی گی ہیں۔ جائز کہنے والے عالم نے کچھ دلیل نہیں دی تھی ۔

اب کچھ عام مسلمانوں کی بات بتاتا چلوں۔  ایک اخبار نے ایک سروے کیا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ تقریباً سبھی لوگ جو لڑکیوں کو وراثت میں حصّہ نہیں دیتے وو اسی لئے نہیں دیتے کیوں کہ انہوں نے لڑکی کی شادی میں جہیز دیا تھا ،کیا اس طرح وراثت کا حق ادا ہو جاتا ہے ؟ کیوں کہ میں نے اپنے دادا سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بہنوں  کو وراثت میں حصّہ دیا تھا تو ان کا بھی جواب یہی تھا کہ ہم نے جہیز بہت دیا تھا۔  جو مسلمان جہیز کو صحیح کہتے ہیں وو ایک حدیث بیان کرتے ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو جہیز دیا تھا۔

تیسری بات یہ ہے کہ جو بھی کام انسانوں کے لئے برا ہے وو اسلام میں منع ہے اور جہیز کی برائی اب کوئی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے ، جہیز مانگنا برا ہے، یہ سبھی جانتے ہیں لیکن اسکا حل تبھی نکلےگا جب اسکو دینا ہی برا مان لیا جائیگا ، جہیز مانگنے والے تو بہت کم ہیں باقی تو سبھی اپنی عزت بچانے کے لئے ہی جہیز دیتے ہیں ، ہمارے ایک بھائی نے بنا جہیز اور بارات کے شادی کی اور ولیمہ بھی کیا تو سب نے انکی مذاق بنائی ۔  یے سوال پوچھنے کی نوبت مجھے یوں ہوئی کہ ہمارے یہاں ایک جہیز کی مخالفت کرنے والی تنظیم ہے جو ہندوؤں کی ہے اسی تنظیم کے ایک آدمی (راکیش) سے میری جان پہچان ہے اس نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ تم لوگ کہتے ہو کہ اسلام میں کوئی برائی جائز نہیں ہے تو پھر کیا تم لوگوں کو جہیز میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ۔  میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی پر اس نے کہا کی میں نے ایک مولانا سے پوچھ تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ جائز ہیں، تو اب میں آپ کا جواب اسے دکھاؤں گا انشا الله ۔ جزاک اللہ خیرا۔

سید مشرف انصاری

مظفر نگر، یو پی، انڈیا

ڈئیر مشرف بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کی میل سے خوشی ہوئی کہ آپ اللہ تعالی کے احکامات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنا تعارف کروا دیجیے تو عنایت ہو گی۔ جواب یہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔ جہیز بنیادی طور پر ایک معاشرتی رسم ہے جو ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی اور ان سے مسلمانوں میں آئی۔ خود ان کے ہاں اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اسلام نے نہ تو جہیز کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا کیونکہ عرب میں اس کا رواج نہ تھا۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ اس رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔

۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لڑکے والے اگر اس میں سے کوئی چیز استعمال بھی کریں گے تو اس کے لیے لڑکی کی آزادانہ اجازت انہیں درکار ہو گی۔ دباؤ ڈال کر اجازت لینا، جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔ جہیز سے ہرگز وراثت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون اللہ تعالی نے دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ والدین اپنے بیٹوں کی تعلیم پر جو کچھ خرچ کرتے ہیں، کیا اسے بھی وہ وراثت میں ایڈجسٹ کرتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ اس وجہ سے کسی بھی تحفے کو وراثت میں ایڈجسٹ کرنا جائز نہیں ہے۔

اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو جہیز کا مطالبہ ناجائز ہے۔ ہاں اگر باپ اپنی بیٹی کو اپنی آزادانہ مرضی سے کوئی تحفہ دینا چاہے، تو اس کی اجازت ہے۔  واضح رہے کہ آزادانہ مرضی سے مراد واقعی آزادانہ مرضی ہے۔ ہمارے ہاں دباؤ ڈال کر اور قطع تعلق کی دھمکی دے کر جو رضا مندی حاصل کی جاتی ہے، اسے آزادانہ مرضی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

دعاؤں کی درخواست ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

https://mubashirnazir.org/category/islamic-studies/islamic-studies-english/quranic-studies-english-lectures/

تعمیر شخصیت لیکچرز

جہیز کی رسم ۔۔۔ دینی تناظر میں
Scroll to top