دیت کے قرآنی حکم کی حکمت

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مبشر بھائی کیسے ہیں آپ؟ چند سوالات ہیں جو آپ سے پوچھنے تھے۔

سورہ البقرہ آیت 178 میں قتل کے مقدمے کا ذکر ہے۔ قانون جو اللہ نے اس میں بیان فرمایا ہے وہ یے ہے کہ جو قاتل ہے سزا بھی اسی کو ملنی چاہیے۔ اور اگر قاتل کا بھائی اس سے نرمی اختیار کرے تو خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح تو امیر انسان چاہے جتنے بھی قتل کرتا رہے اور مقتول کے خاندان والوں کو پیسے دیکر اپنی جان چھڑا لے؟ یہ قانون تو پھر دولت والوں کے لیے ہوا؟

حمیر داؤد، کراچی، پاکستان

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا سوال دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں؟ اپنی پراگریس سے آگاہ کرتے رہا کیجیے۔

دیت سے متعلق آپ نے جوسوال بیان کیا ہے، یہ تب درست ہوتا جب دولت مندوں کو یہ حق دے دیا جاتا کہ وہ پیسہ پیش کر کے جان چھڑا لیں۔ اس کے برعکس اللہ تعالی نے یہ اختیار مقتول کے وارثین کو دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی آزادانہ مرضی سے قبول کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وارثین دیت کو اپنی مرضی سے قبول کر رہے ہیں یا ان پر کوئی دباؤ ڈالا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جس بھائی کا ذکر ہے ، وہ قاتل نہیں بلکہ مقتول کا وارث ہے۔ جذبہ بیدار کرنے کے لیے آیت کریمہ میں اس کا بھائی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ آیت کریمہ یہ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنْ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔

اے اہل ایمان! قتل کے معاملے میں آپ لوگوں پر قصاص کو فرض کر دیا گیا ہے۔  قاتل آزاد ہو تو اسی آزاد  (سے قصاص لیا جائے)، غلام ہو تو اسی غلام سے، عورت ہو تو اسی عورت سے۔ ہاں اگر، کسی شخص کو اس کا بھائی معاف کر دے، تو اس سے معروف طریقے کی پیروی کرتے ہوئے اچھے طریقے سے دیت ادا کر دینی چاہیے۔ یہ آپ لوگوں کے رب کی جانب سے ایک تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کے بعد بھی جس نے سرکشی کی تو اس کے لے بڑا درد ناک عذاب ہے۔

دیت کی بڑی حکمتیں ہیں اور اس کی بدولت طویل دشمنیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے، اس وجہ سے اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے یہ اجازت عطا فرمائی ہے۔اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو دشمنیاں آگے چلتی جاتیں اور ایک کے بدلے دوسرا قتل ہوتا چلا جاتا۔ بعض کیسز میں ورثا کی ہمدردی مقتول کی بجائے قاتل کے ساتھ ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل ہیں۔ ایسی صورت میں حکومت خود مدعی بن سکتی ہے اور دیت کی بجائے قصاص کو نافذ کر سکتی ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

Quranic Studies – English Lectures

تعمیر شخصیت لیکچرز

 دیت کے قرآنی حکم کی حکمت
Scroll to top