السلام و علیکم مبشر صاحب ، کیا حا ل ہے آپ کا، امید ہے کہ خیریت سے ہونگے- اور آپ کو اور آپ کی فیملی کو گزشتہ عید بھی مبارک۔
میں کچھ مصروفیت اور اپنی سٹڈی کی وجہ سے کافی عرصے سے سوالوں جواب نہ کر سکا، میرے ذہن میں کچھ سوال ہیں جن کے بارے میں تھو ڑی رہنمائی فرما دیجیئے۔
مثلا دو بیٹیوں کے باپ کو اپنی اولاد کی تربیت کس طرح کرنی چاہئے کہ ان میں دین سے محبت پیدا ہو اور بڑے ہو کر وہ دین کے راستے پر چلے اسلام کے مطابق اپنے آپ کو بنائے اور باپردہ با حیا بنے، اور کبھی گمراہ نہ ہوسکے، آج کل ہر طرف فتنے، انتشار ، بدامنی ہے اور میڈیا کے زریعے پیش کے جانے والے ڈراموں پروگراموں سے اورموبائل فون سے زہنوں و دلوں کو آلودہ و گندہ کیا جا رہا ہے اور جیسے جیسے وقت گزرتے جا رہا ہے آگے پتہ نہیں کیا کیا فتنے رونما ہو جائے، ایسی صورت میں جب کہ ماں کا رجحان بھی دین کی طرف نہ ہو اور دنیا داری سے ہی لگاوہو پھر والد کو اپنا کردار کیسے ادا کرنا چاہیئے ، اپنے اردگرد کے معاشرے کو دیکھ کر مستقبل کی بہت مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے اب تو یہاں پر اسلام کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی نئی جنریشن تو بالکل ہی الگ تہزیب کی لگتی ہے اپنی اولادوں کی تربیت کیسے کریں کہ وہ احساس کمتری میں بھی مبتلا نہ ہو اور دین سے بھی محبت کرنے والی اور نمازیں، عبادتیں کرنے والی ہو-
بہت شکریہ
والسلام
عرفان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ عرفان بھائی
موجودہ زمانے میں انفارمیشن ایج کا سلسلہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے زمانے میں والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کو قابو کر لیتے تھے اور بچوں کو دینی تعلیم زبردستی کر لیتے تھے۔ اس کا رزلٹ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا کہ بچوں میں کوئی خواہش نہیں ہوتی تھی اور زبردستی دینی رجحانات کی کوشش کی جاتی تو بچے جوان ہو کر والدین اور اساتذہ کے سامنے منافق ہی بن جاتے تھے۔ وہ جو خواہش کرنا چاہتے، وہ خاموشی سے باہر نکل کر عیاشی کر لیتے تھے اور والدین و اساتذہ کے سامنے نماز بھی پڑ لیتے تھے۔ ہاں جن بچوں میں دین کا شوق پیدا ہوجاتا تھا تو وہ خلوص کے ساتھ دین پر عمل کرتے رہتے تھے۔
اب فرق صرف اتنا آیا ہے کہ بچے جوان ہو کر کھلے عام ہی جو خواہش ہوتی، وہ کر لیتے ہیں۔ اب فرق یہی آیا ہے اولاد اور شاگرد منافق نہیں بنتے ہیں بلکہ دین میں شوق ہے تو دین پر عمل کر لیتے تھے ورنہ نہیں کرتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ دین کی خواہش جس میں پیدا ہو، وہی بچے اور شاگرد عمل پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ جن میں دین کی خواہش ہی نہ ہو بلکہ دنیا پرستی کا شوق ہو، وہ دین پر عمل نہیں کرتے ہیں اور پہلے زمانے میں وہ منافق ہی بنتے تھے۔ اب وہ کھلے عام ہی گناہ کرنا چاہیں تو کر لیتے تھے اور پہلے گناہ کو خفیہ طریقے سے کر لیتے تھے۔
اب موجودہ زمانے میں حل وہی ہے جو پہلے زمانے میں بھی تھا۔ اس میں کچھ ٹپس حاضر خدمت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ بچوں خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں ہوں، ان پر مذہبی جبر مسلط کبھی نہ کریں۔ بلکہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں میں خود عمل کر کے دکھاتے رہیں اور ساتھ ہی بچوں میں خوشی کی کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔ ڈانٹ ڈپٹ چلانا بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پھر لڑکیوں میں منافقت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں پر منافقت کی بہت سی مثالیں میں نے خود دیکھی ہیں۔ وہ والدین اور اساتذہ کے سامنے بظاہر دیندار ہوتے تھے اور باہر نکل کر فحاشی اور دیگر غیر اخلاقی حرکتیں بھی کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ اللہ تعالی سے محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس پر رزلٹ نہ بھی ہو، تب بھی دس پندرہ سال تک کوشش کرتے رہیں۔ اس میں صرف محبت کی خواہش ہی کرتے جائیں او رخود عمل کرتے دکھاتے رہیں۔ اس کے لیے میڈیا میں جو اچھے ڈرامے اور دینی شاعری کے گانے کو بھی گھر میں لگا دیں۔ اس میں بچیوں میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اچھے گانے کی مثال جیسے حمد و ثنا کا گانا، عمدہ نعت جس میں کوئی مشرکانہ شاعری نہ ہو، اخلاقیات کی شاعری کا گانا وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔ ہر نماز کے اندر ہی اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں کہ اپنی اولاد ہدایت پر قائل رہیں۔
۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد اولاد پر رزلٹ کو اللہ تعالی کے حضور چھوڑ دیجیے۔ حقیقت یہی ہے کہ جوانی تک رزلٹ بہت کم بچوں میں پہنچتا ہے۔ لڑکیوں میں دین کا شوق اور اللہ تعالی سے محبت پیدا نہیں ہوتی ہے ۔ ہاں اس کا رزلٹ انہیں 35-40 سال کی عمر میں محبت اور شوق کا رزلٹ آتا ہے۔ اس لیے طویل عرصے تک انتظار ہی کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔ بچوں میں گمراہی اور گناہ پیدا ہوں تو ان کے دشمن بالکل نہیں بننا چاہیے۔ اس میں سزا بالکل نہیں دینی چاہیے بلکہ آہستہ آہستہ اسے زہر کو دکھانا چاہیے۔ شیطان کے خلاف نفرت پر ضرور ڈسکشن کو جاری رکھیں۔ کبھی خود، کبھی اچھے لیکچرز وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔ بچوں اور بچیوں میں کھیل کی خواہش ہوتی ہے۔ اس میں انہیں اچھا کھیل کروائیں۔ مثلاً آپ گھر میں بھی ٹریڈمل وغیرہ خرید سکیں تو بچیاں ایکسرسائز کر سکتی ہیں۔ اس سے یہ فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جوانی کی اینجرجی صحیح راہ میں چل پڑتی ہے۔
کچھ آرٹیکلز حاضر خدمت ہیں، ان میں دیکھ لیجیے اور جو کام کے پوائنٹ سامنے آ جائیں تو انہیں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ ابویحیی بھائی نے اس موضوع پر بہت سے آرٹیکلز “انذار” ویب سائٹ میں لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ یوٹیوب میں مولانا وحید الدین خان صاحب کے والدین ، اولاد اور شاگردوں پر جو کچھ لکھا اور پڑھایا ہے، وہ کافی فائدہ مند ہے۔
اس پوری کوشش سے اللہ تعالی ہی اجر ہمیں دیں گے۔ جوانی میں سب لڑکوں لڑکیوں میں گمراہی اور گناہ تو جاری رہیں گے، پھر 35-45 سال میں سب میں دین کا شوق بھی آ جائے گا۔ آپ کی کاوش کا رزلٹ پھر اس وقت آئے گا۔ تب تک ہمیں صبر ہی کرنا ہے کیونکہ پرانے بزرگ جبر کرتے تھے تو اپنی اولاد اور شاگردوں کو صرف منافق ہی بنا لیتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ بزرگ اپنے آپ کو ڈپریشن ہی میں رہتے رہتے تھے اور کئی بیماریوں میں آ جاتے تھے۔
اولاد اور خدا ۔ ابویحییٰ
مضامین قرآن (82) شخصی رویے : ،غفلت، ظاہر پرستی اور لغویات ۔ ابویحییٰ
http://www.inzaar.pk/?s=%D8%A7%D9%88%D9%84%D8%A7%D8%AF
بچوں کی ضد، وجوہات اور علاج ۔ شفقت علی
The Mother and Child
اپنے کل کو روشن کیجیے ۔ بچوں کی تربیت سے متعلق ایک رہنما تحریر ۔ ابویحییٰ
یہ نعمت مصیبت کیوں بن گئی ہے ۔ ابویحییٰ
http://www.inzaar.pk/fahash-sites-aur-hamary-nojawan-by-abu-yahya/
اس میں کیس اسٹڈیز شیئر کرتا ہوں۔ ہمارے رشتے دار بزرگ تھے جو وہ ایک مدرسہ کے مفتی تھے۔ ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ سارے بچے دیندار بنیں اور عالم دین بنیں۔
بیٹوں کو مدرسہ میں شامل کیا لیکن دو بیٹے تو جلد ہی چھوڑ کر بھاگ گئے کیونکہ مدرسہ کا کلچر جبر ہی کا تھا۔ والد نے بیٹوں پر مارا بھی اور کوشش کرتے رہے لیکن دونوں بیٹوں میں شوق نہیں ہوا۔ مجبوراً انہیں اسکول میں شامل کیا تو پھر وہ بیٹے سیٹل ہو گئے۔ تیسرے بیٹے کو حافظ بننے کا شوق تھا، اس لیے وہ حافظ بن گئے لیکن عالم دین بننے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی تو وہ تعلیم نہیں کر سکے۔
ایک بیٹی مدرسہ میں شامل ہوئی لیکن مشکل سے تین سال ہی وہ پڑھ سکیں اور آخر وہ واپس گھر میں آ گئیں۔ والد صاحب نے تینوں بیٹیوں کو اپنے عالم دین شاگردوں سے شادی کر دی تاکہ وہ ان کی تربیت کریں۔ اب تینوں کے شوہروں نے کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ایک بیٹی اب 40 سال کی عمر میں دیندار بن گئیں۔ وہ نماز میں ریگولر شوق نہیں ہوا لیکن روزہ اور دعاؤں کا شوق ہے اور وہ کر لیتی ہیں۔ اس کے ساتھ بچوں کی تربیت بھی کرتی رہتی ہیں۔ دوسری بیٹیاں صرف نماز ہی پڑھتی ہیں اور وزہ کرتی ہیں۔ عالم دین بننے کا انہیں ابھی تک شوق نہیں ہوا ہے۔
اس سے آپ دیگر دیندار حضرات کی فیملی کے رزلٹ کی کیس اسٹڈیز کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں وہی وزڈم ملے گی کہ اولاد کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ مردوں میں میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ MBA کے جو کلاس فیلوز تھے، ان کی اکثریت میں دیندار بننے کا شوق نہیں تھا۔ چند ایک ہی تھے جن میں دیندار عالم بننے کا شوق تھا اور وہ بن گئے۔ باقی سب میں دلچسپی نہیں رہی لیکن اب دیکھا ہے تمام لوگ 50 سال کی عمر میں دیندار بن چکے ہیں اور ریگولر نماز پڑھتے ہیں۔ اکثر کو عالم دین بننے کا شوق ابھی پیدا نہیں ہوا بلکہ محفلوں میں ملاقات ہوتی ہے تو ان کا شوق وہی سیاست کی ڈسکشن ہی جاری رہتی ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔ اس میں اس تجربے کا اضافہ بھی کر لیتا ہوں۔ جس وقت ہندوستان میں تعلیمی نظام کی تبدیلی آئی تو اس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔ مغل حکومت میں ایجوکیشن کا سلسلہ ۱۷۰۷ تک جیسا چلتا تھا، اورنگزیب عالمگیر صاحب کے انتقال کے بعد یہی جاری رہا۔ اس کے باوجود کہ ۱۷۶۴ میں بنگال میں انگریزوں کی حکومت بن گئی لیکن تعلیم میں تبدیلی نہ آئی۔ انگریزوں کو جس علاقے تک حکومت ملی، انہوں نے پرانے تعلیمی نظام ہی کے انڈین لوگوں کو ملازمت دی جس میں مسلمان جج اور بیوروکریٹس بنتے رہے۔
جب ۱۸۳۵ میں میکالے صاحب نے مشورہ دیا کہ جدید تعلیم ہونی چاہیے تاکہ انڈین لوگ جسم کی حد تک انڈین لیکن ذہنی طور پر انگریز بن جائیں تو پارلیمنٹ نے اتفاق کر دیا۔ پھر جب ۱۸۵۷ میں پورے ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت بن گئی تو اس پر تعلیم میں تبدیلی کر لی گئی۔
1. That the great object of the British Government ought to be the promotion of European literature and Science amongst the natives of India that “all funds appropriated for the purpose of education would be best employed on English education alone”.
2. “All the existing professors and students at all the institutions under the superintendence of the committee shall continue to receive the stipends but no stipend shall be given to any students that may hereafter enter at any of these institutions”.
3. “The Government Funds were not to be spent on the printing of oriental works”.
4. “All the funds at the disposal of the Government would be henceforth be spent in imparting to the Indians a knowledge of English literature and Science”.
اس کے رزلٹ میں مسلمانوں نے پرانی تعلیم کو جاری رکھنا چاہا۔ چنانچہ ۱۸۶۷ میں دیوبند مدرسہ بن گیا اور پھر پورے ہندوستان میں مدارس کا نیٹ ورک بن گیا۔ یہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس کا رزلٹ یہ ہے کہ جو لوگ جدید تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، وہ دین سے دور رہتے ہیں۔ جب میں دین کا شوق ہوتا ہے تب بھی ان کے ذہن میں شبہات اور سوالات جاری رہتے ہیں۔
اب ضرورت یہی ہے کہ ہمیں دور جدید زبان میں دینی علوم کی خدمت کرنی چاہیےتاکہ تعلیم یافتہ افراد میں دین کا علم حاصل ہو۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ افراد میں علماء دین بن سکیں۔ اس میں چاہیں تو جدید تعلیم یافتہ اسٹوڈنٹس کو عالم دین بنا دیں یا پھر مدارس کے علماء کو دور جدید کی تعلیم کی جا سکے۔ اس کا رزلٹ یہ ہو کہ عام آدمی کے ذہن میں دین سے متعلق جو شبہات اور سوالات پیدا ہوں، ان کی خدمت ہم کر سکیں۔
اسی ڈیمانڈ پر یہ حقیر کاوش ہم نے کی ہے ۔ آپ سے یہ درخواست ہے کہ آپ اس میں اضافہ فرما دیں تاکہ جن سوالات کا جواب باقی ہے، اس کی خدمت بھی کر دیں۔ اسی طرح جن علوم کی ضرورت ہے اور ہم نے ابھی کام نہیں کیا ہے تو اس کا اضافہ کر سکیں۔ اس میں آپ بھی تعلیمی ٹیکسٹ بکس اور لیکچرز کا اضافہ کر دیجیے تاکہ سب کی خدمت کر سکیں۔ ابھی آپ اپنے کالج میں تو پڑھا رہے ہوں گے۔ اس وقت صورتحال اس لنک پر حاضر ہے اور اس پلان کی فائل اٹیچ ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
آلسلام و علیکم مبشر صاحب، آپ کا بہت شکریہ آپ نے مزید معلومات شیئر کیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی اسلامک ایجوکیشن پر جدید رجحانات کے مطابق نئے موضوعات پر لکھا کرو۔ اور اس وقت معاشرے میں دین پر عمل کرتے ہوئے یا کسی کو دینی تعلیمات کی طرف راغب کرنے کے لیے جو مسا ئل پیش آرہے ہیں ان کی نشاندہی کر کے ان مضامین پر کچھ لکھا کرو، میں کوشش کروں گا۔ ویسے میں پرائیویٹ فرم میں جاب کرتا رہا ہوں اور کسی کالج میں کیھی لیکچر نہیں دیا اور نہ کبھی ٹیچینگ کی ہے ویسے شوق تو تھا لیکن اتنا اعتماد نہیں تھا کیونکہ کالج میں پڑھانے کے لئے بہت ایجوکیشن کی ضرورت ہے، بہر حال میں اپنی یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اسلامک ھسٹری سے ، انبیاءکرام علیہ السلام کے واقعات سے بچپن ہی سے بہت دلچسپی لیتا رہا ہوں اور مختلف کتابیں ، آرٹیکلز پڑھتا ہوں علماء کرام کو سنتا ہوں اس طرح تھوڑا سی اسلامی معلومات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ آپ نے جو پلان شیئر کیا ہے اس پر میں اپنا رجحان دیکھتا ہوں جو مجھے زیادہ سوٹ کرتا ہے اس پر کام کرنے کی کوشش کروں گا۔ انشاءﷲ
والسلام
عرفان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ عرفان بھائی
معذرت کہ میں آپ کو کالج کی جاب سمجھا تھا۔ آپ کس کمپنی میں کام کر رہے ہیں اور کام کیا ہے؟
آپ کی تحریر کا انتظار کروں گا ۔ مختصر آرٹیکلز سے آپ شروع کر سکتے ہیں اور اسے میگزین میں پبلش کر لیا کریں گے انشاء اللہ۔ اس کے بعد آپ میں جب ذوق ہوا تو آپ کتابیں بھی لکھ سکتے ہیں۔ انہیں بھی ویب سائٹ میں پبلش کر دوں گا انشاء اللہ۔ لیکچرز کا شوق ہوا تو آپ اپنے موبائل پر ہی ریکارڈ کر کے یو ٹیوب میں اپلوڈ خود کر سکتے ہیں۔
عوام کے لیے تو بس 2-3 منٹس کا ہو تو وہ سن لیتے ہیں اور مختصر آرٹیکلز پڑھ لیتے ہیں۔ پھر ٹک ٹاک کے ذریعے سب کو پہنچا سکتے ہیں۔ جن میں علمی ذوق ہو تو وہ میرے جیسی کتابیں بھی پڑھ لیتے ہیں اور لیکچرز سن لیتے ہیں لیکن عوام میں ایسی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔ ہاں یہ رجحان دیکھا ہے کہ پاکستان اور انڈیا میں اگلی جنریشن یعنی 1990 سے آگے جو پیدا ہوئے ہیں، ان میں علمی ذوق زیادہ ہو چکے ہیں ۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Web: www.mubashirnazir.org
Institute of Intellectual Studies & Islamic Studies (ISP)
Learn Islam to make your career in the afterlife
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com