حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں سیاسی اسٹریٹیجی کا اختلاف کس وجہ سے تھا؟

سوال:  سر کیسے ہیں امید ہے اپ خیریت سے ہونگے۔ میرا سوال یہ ہے کہ  بیعت کے لیے شام کو علی رضی اللہ عنہ نے خط بھیجا، بیعت کا مطالبہ کیا گیا کوفہ والے  مان گئے مگر امیر معاویہ نے جواب نہ دیا اور ایک قاصد علی کے پاس گیا جس نے کہا میں پیچھے ایسی قوم چھوڑ ایا ہوں جو قصاص چاہتے ہیں ،علی نے اپنی صفائی پیش کی کہ وللہ میں نے یہ قتل نہیں کیا اور پھر اپ نے ایک سیف بن عمر کی روایت کا حوالہ دیا ہے کہ شام پر لشکر کشی کی گئی ۔

سر یہ لشکر کشی آپ لکھتے ھیں علی رضی اللہ عنہ نے نہیں کی کیونکہ یہ بات معقول لگی ہے اپ لکھتے ہیں یہ لشکر کشی کسی اور نے کی ہوگی سر ادھر شک کا عنصر غالب ہے، لشکر کشی کیوں کی گئی وہ علاقہ امیر معاویہ کے پاس تھا محفوظ ہاتھیوں میں تھا، اگر لشکر کشی ہوئی کسی اور کی طرف سے تو علی نے منع کیوں نہیں کیا ادھر میری یہ کنفیوزن دور کریں ۔( مسلم تاریخ اور عہد صحابہ۔ صفحہ :267)

فیاض الدین، پشاور

جواب: بہت دلچسپ سوال ہے۔ اس کا جواب میری اس کتاب عہد صحابہ سے متعلق دور جدید کے شبہات میں حاضر خدمت ہے۔ 

آپ نے جو  روایت بیان کی ہے، اس کی حقیقت یہی تھی کہ دہشت گرد پارٹی کا مقصد یہی تھا کہ وہ حکومت پر قبضہ کر لیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا  اور انہیں اندازہ تھا کہ اگلے خلیفہ پر کنٹرول کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر جعلی خط لکھ کر کئی گورنرز کو بھیج دیئے کہ حکومت چھوڑ دو تاکہ گورنر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ دہشت گر د پارٹی کا لیڈر گورنر بن جائے۔

اس زمانے میں گورنر کی حیثیت یہ تھی کہ وہ موجودہ کئی ملکوں کے حکمران تھے۔ اب جعلی خطوط کے نتیجے میں اکثر گورنرز تو استعفی دے بیٹھے کیونکہ انہیں یہی لگا کہ خط خلیفہ علی رضی اللہ عنہ کا ہے  جبکہ یہ جعلی خط تھا۔ صرف ایک گورنر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی تھے جو دہشت گرد پارٹی کے لیڈرز کو اچھی طرح سمجھ سکے تھے بلکہ ان کی سیکرٹ انٹیلی جنس بہت عمدہ طریقے سے کام کر رہے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس جعلی خط کو قبول نہیں کیا بلکہ اپنے قاصد کو علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیا تاکہ اصل بات سامنے آئے۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جنوبی عراق میں دہشت گرد پارٹی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور حقیقت میں یہ دہشت گرد ، حکومت کی فوج کے ملازم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ عراق چلے گئے تاکہ انہیں کنٹرول کر سکیں۔ انہیں معلوم تھا کہ دہشت گرد پارٹی کے بہت سے سادہ لوگ  اصلاح کے ذریعے ٹھیک ہو جائیں گے۔

اس کی تفصیل شیعہ حضرات کی بڑی کتاب نہج البلاغہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطبات میں لکھی ہوئی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں پوری فوج اور دہشت گرد پارٹی کے سادہ لوح لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بحیثیت گورنر ہٹانے کی کوشش نہ کریں ورنہ عام لوگ قتل ہو جائیں گے۔ سادہ لوح لوگ تو مان گئے لیکن شدت پسند لیڈرز نے تو فیصلہ یہی کیا کہ وہ الشام میں جنگ کریں تاکہ وہ اپنے بندوں کو گورنر بنا دیں۔ 

یہ عرض کر دوں کہ عربی میں الشام کا علاقہ وہ ہے جس میں موجودہ فلسطین، اردن، سیریا اور لبنان شامل ہیں۔ اردو میں ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم سیریا کو شام کہتے ہیں۔  حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت اتنے بڑے علاقے میں تھی۔ 

شدت پسند پارٹی کے لوگ بغاوت کے طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو گرانے کے لیے نکلنے لگے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ  اپنے مخلص ساتھیوں کے ساتھ چلے گئے تاکہ اس جنگ کو ختم کر سکیں۔ انہیں یہ خطرہ بھی نظر آ رہا تھا کہ عراق سے لے کر سیریا تک بہت سے شہر اور گاؤں میں تباہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ تشریف لے گئے اور پھر ایک ماہ تک علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں مذاکرات کا سلسلہ  جاری رہا۔ شدت پسند پارٹی نے پھر زبردستی جنگ کر دی جسے علی رضی اللہ عنہ نے بڑی مشکل سے ختم کروایا۔ 

اس جنگ کے خاتمے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے مشورے پر یہی کر دیا کہ اب علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو جج بنیں گے جو خلافت کا فیصلہ کریں۔ دونوں جج نے فیصلہ یہی کیا کہ علی اپنے علاقے کی حکومت کو سنبھالیں گے اور معاویہ اپنے علاقے کی حکومت کو چلائیں گے۔ 

شدت پسند پارٹی کو اس سے اتنی نفرت  ہوئی کہ انہوں نے حضرت علی، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم پر کفر کا فتوی لگا دیا اور انہیں شہید کرنے کی کوشش کی۔ یہ  لوگ علی رضی  اللہ عنہ کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما شہید نہیں ہو سکے۔ اس دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بتا دیا تھا کہ آپ عراق کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے، اس لیے معاویہ کو ہی حکومت دے دینا۔ اس لیے عراق میں اگلے حکمران حسن رضی اللہ عنہ بنے اور انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مذاکرات کیے۔ پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بلینک کاغذ میں سائن کر دیا کہ حسن بیٹا! آپ خود ہی شرائط طے کر دیں۔ 

اسی کے نتیجے میں  حسن رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکومت دے دی اور اس وقت جتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندہ تھے، ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اسے انہوں نے عام الجماعۃ کا سال 40 ہجری قرار دیا۔ حسن رضی اللہ عنہ نے شرط یہی رکھی کہ 10 لاکھ دینار عراق میں لوگوں کو  ہر سال دیا کریں تاکہ شدت پسند پارٹی ختم ہو جائے اور اکثر لوگ اس پارٹی کو چھوڑتے جائیں۔ اسی کے نتیجے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے ذمہ داری حسن اور حسین رضی اللہ عنہما پر دی کہ وہ اس 10 لاکھ دینار کو عراق میں ہر سال تقسیم کیا کریں۔ 

نتیجہ یہی ہوا کہ وہ شدت پسندی ختم ہو گئی اور 20 سال تک کوئی دہشت گردی نہیں ہوئی لیکن انہی کے باقی شدت پسندوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ اس کےبعد 60 ہجری میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا    انتقال ہوا تو عراق میں پھر دہشت گردی شروع ہو گئی۔  اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہی عراق میں گئے تاکہ اسے ختم کریں۔ اس موقع پر یزید حکمران بن گئے تھے اور انہوں نے ڈبل رقم  حسین رضی اللہ عنہ کو دی کہ وہ 20 لاکھ  دینار ادا کریں۔ ان کی اسی کاوش میں یہ ہوا کہ شدت پسند پارٹی نے  سانحہ کربلا کر دیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ  اور ان کے ساتھیوں کو بھی شہید کر دیا۔ پھر سات سال تک یہی دہشت گردی جاری رہی۔ 

یہ وہی صورتحال بنتی ہے جسے آپ نے اپنی زندگی میں دیکھ لیا ہے کہ افغانستان اور پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں  1990-2023 تک  جو واقعات ہوتے رہے ہیں۔ یہی صورتحال اب عراق، سیریا اور یمن میں بھی جاری ہے۔ 

اس میں  یہ بھی عرض کر دوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق کو کنٹرول نہیں کر سکے تھے۔ انہوں نے منع کرنے کا بہت کچھ کیا اور اصلاح کرتے رہے۔ اس میں 50% افراد تو قائل ہو گئے لیکن باقی  نہیں مانے اور انہوں نے صفین جنگ کے لیے لشکر  چلا دیا۔اسی جنگ کو ختم کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ ساتھ چلے گئے کیونکہ یہی ڈر تھا کہ راستے میں آبادیوں کو تباہ نہ کر سکیں۔  

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ہو گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کنٹرول کیوں نہیں کر سکے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قبائلی علاقے میں کنٹرول آسان نہیں ہے۔ آپ خود دیکھ چکے ہوں گے کہ پختونخواہ کے قبائلی علاقے کو حکومت کنٹرول نہیں کر سکی ہے۔ پشاور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، مردان، کوہاٹ وغیرہ  میں تو  کافی حد تک حکومت امن کر سکی ہے لیکن چھوٹے قصبوں اور دیہات میں مشکل کام ہے۔   قبائلی علاقے میں جیسے بنوں، مینگورہ شہر تک ہی امن ہے لیکن دیہات میں مشکل صورتحال ہے۔ بلوچستان اور پنجاب کی شکل بھی یہی ہے۔ 

جنگ صفین کا حل تو یہی نکل سکا کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما آپس میں سائن کر کے اپنے اپنے علاقوں کو سنبھالیں۔ اس کے بعد مزید 2 سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے اور اس کے لیے انہوں نے خوارج پر جنگ بھی کرنی پڑی اور اکثریت کو قتل بھی کیا۔ باقی جو لوگ رہ گئے تو انہوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ 

سوشل سائنسز کے بانی عالم ابن خلدون نے اصل وجہ یہی بیان کی ہے کہ قبیلے کے لوگوں کا مزاج بچپن سے پیدا ہوا ہے کہ ہم تو اپنے قبیلے کے لئے کام کریں گے، چاہے سردار کی بات درست ہو یا غلط۔ جس نے ہمارے قبیلے کے ایک آدمی کو قتل کیا، ہم اس کے بدلے میں ہزاروں کو قتل  کر دیں گے۔ 

اب آپ یہ دیکھیے کہ عہد صحابہ میں تمام لوگ اپنے اپنے قبیلے کے ساتھ تھے۔ اب یہ صرف عرب قبیلے ہی نہیں تھے بلکہ تاجکستان سے لے کر مراکش تک قبائلی علاقے تھے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے حضرت طلحہ، زبیر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم نے کوشش کی۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھایا کہ آپ نے 1000 لوگوں کو آپ نے بصرہ میں قتل کیا ہے تو اس میں 10,000 دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کر دیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ بڑی مشکل سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بچا سکے۔ 

کافی عرصے کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی کامیاب رہی کہ وہ 10 لاکھ دینار ادا کر کے ہی عراق میں امن پیدا کر سکے۔ ان کی وفات کے بعد پھر یہی   شدت پسندی پیدا ہوئی اور سات سال تک بغاوت ہی جاری رہی۔ پھر حجاج نے عراق کو قابو کیا  اور 67-133 ہجری تک امن رہا لیکن پھر وہی کہانی شروع ہو گئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک عراق کی حالت موجود ہے۔ 

اس کا پرماننٹ حل یہی ہے کہ قبیلے کے بچوں کو وہاں سے نکال کر الگ اسکول میں پرورش کی جائے۔ پھر  جوانی میں بڑے شہروں میں وہ آباد ہوں اور وہاں کی معاش کا سلسلہ اچھا ہو۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ختم نہ ہو بلکہ لامحدود حد تک یہی کرتے رہے تو تب جا کر امن  ہمیشہ رہ سکتا ہے۔  پنجاب بھی قبائلی علاقہ ہی تھا اور پنجاب کی تاریخ میں یہی صورتحال باقی رہی۔

اب آ کر جب پاکستان بنا تو جب بڑے شہر بنے ہیں ، تعلیم و تربیت اور معاش کا مسئلہ حل ہوا ہے تو تب جا کر نسبتاً بہتر حالت ہے۔ لیکن سرائیکی علاقوں میں جہاں قبائلی کلچر ہے تو وہاں کی وہی حالت ہے۔ یہی شکل آپ پختونخواہ ، بلوچستان اور سندھ میں دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا کی صورتحال بھی یہی ہے۔ ان کے ہاں بس منموہن سنگھ کا زمانہ گزرا ہے ، تب انڈیا میں امن پیدا ہوا ہے  جب انہوں نے ہندو، مسلمان، سکھ میں امن پیدا ہوا اور سب کو معاشی مشکلات آسان کی ہیں۔ لیکن اس کے بعد پھر وہی شدت پسندی جاری ہو گئی ہے اور معاش کا مسئلہ جاری ہے۔    

سوال:  سر آپ نے صفحہ 285 پر لکھا ھے کہ سیدنا علی نے تدبیر کے طور سیدہ کے بھائی کو بھیجا ،اونٹ کو زخمی کیا تاکہ جنگ رک جائے۔ لیکن اس کا حوالہ میرے خیال میں کتاب میں نہیں ھے کہ سیدنا علی نے واقعتا اسی خیال سے کیا تھا یا ہم یوں سمجھیں کہ یہ ان کی تدبیر ہوسکتی ھے؟

جواب: اس کے لیے پوری صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس ماحول میں خود کو وہا ں پہنچا کر  ہی اصل شکل سامنے آ سکتی ہے۔ فرض کیجیے کہ ہم ایک ایسی جنگ میں کھڑے ہیں اور جنگ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ ہر طرف سے تیر اڑائے جا رہے ہیں۔ ہماری والدہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ بیٹھی ہیں اور اب کیا کریں؟ 

اس صورتحال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو بچانے کا حل یہی نکلا کہ اونٹ کو زخمی کر دیں اور ان کے بھائی کو حکم دیا کہ آپ کو گرنے سے پہلے پکڑ کر اتار دیں۔ اس سے زیادہ اچھی حکمت عملی کیا ہو سکتی تھی؟

اسی موقع پر دونوں بڑے صحابہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما تو تلوار چھوڑ چکے تھے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ جنگ ہوئی تو دشمنوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ لیکن رات میں ان پر دہشت گردوں کے لشکر نے حملہ کر دیا۔  انہیں نفرت تو حضرت طلحہ، زبیر  اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم سے تھی کیونکہ کچھ ماہ پہلے ہی بصرہ میں وہ ایکشن کر چکے تھے اور 1000 کے قریب دہشت گرد قتل ہو چکے تھے۔ 

طلحہ رضی اللہ عنہ تیر کی وجہ سے شہید ہو گئے اور زبیر رضی اللہ عنہ رات سے پہلے ہی نکل چکے تھے۔ نماز کے اندر ہی انہیں شہید کر دیا گیا۔ اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہی حکمت عملی تھی کہ کسی طرح جنگ ختم ہو  اور زخمیوں کو صحت یاب کر سکیں۔ اس  طرح نفسیاتی اعتبار سے محبت سے سمجھا سکیں تاکہ وہ دہشت گردی  پارٹی سے نکل آئیں۔ 

اس صورتحال کا عمدہ تجزیہ ابن خلدون نے العصبیتہ میں لکھا ہے۔ اس کا مختصر ترجمہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ 
https://iri.aiou.edu.pk/wp-content/uploads/2016/07/06-Ibn-e-Khuldon.pdf

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک

571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750

 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258

 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924

 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی

نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟

Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”

سوال: اس کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہمارے فرقوں کی لڑائی اسی بات پے ہے کہ خلافت کا حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تھا یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا؟ کیا ہمیں اس آیت کے مطابق اس مسئلے کو چھوڑ دینا چاہیے نا کیونکہ اس سئ ہمیں کچھ فائدہ نہیں بلکہ تفرقہ بازی بن رہی ہے۔

جواب: آپ قرآن مجید کا مطالعہ کر لیں تو پھر آپ تاریخ کا مطالعہ کیجیے گا۔ آپ تاریخ کو محدثین کے طریقہ کار پر ریسرچ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں آپس میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ باغی تحریکیں پیدا ہوئی تھیں جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، پھر انہوں نے حضرت علی، طلحہ اور زبیر  رضی اللہ عنہم کو بھی شہید کر دیا اور معاویہ  اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کو بھی شہید کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ وہ حکومت پر قبضہ کر سکیں۔ 

شیعہ حضرات نے ایک بڑی مقدس کتاب “نہج البلاغۃ” میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیکچرز کو شامل کیا ہے۔ اسی میں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومتی فوج کے اندر باغی پارٹیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ معاویہ کی  حکومت کو برا نہ سمجھو ورنہ  لوگ آپس میں ایک دوسرے کو  قتل کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ آپ معاویہ ہی کو حکومت دے دینا۔  لیکن باغی پارٹیوں نے ہر صحابی کے خلاف جعلی کہانیاں ایجاد کیں جو آج تک تقریروں میں سنا رہے ہیں۔ اس میں شیعہ علماء زیادہ کرتے ہیں اور ان سے متاثر سنی علماء بھی تقریروں میں کہہ دیتے ہیں لیکن انہوں نے جانچ پڑتال نہیں کی ہوتی ہے۔ 

جب ٹائم ہوا تو آپ پڑھ لیجیے گا جس میں میں نے اپنی کتاب میں  جعلی کہانیوں کا ثبوت پیش کر دیا ہے اور قابل اعتماد روایات کی جانچ پڑتال کر دی ہے۔ 

https://mubashirnazir.org/2022/11/28/%d8%b9%db%81%d8%af-%d8%b5%d8%ad%d8%a7%d8%a8%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%d8%b0%db%81%d9%86-%da%a9%db%92-%d8%b4%d8%a8%db%81%d8%a7%d8%aa/

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں سیاسی اسٹریٹیجی کا اختلاف کس وجہ سے تھا؟
Scroll to top