سوال: سورۃ الاعراف میں آیا ہے : يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔ (الاعراف:35) اس آیت میں جو عہد لیا گیا ہےکیا انسانوں سے یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا تھا یا پھر یہ کوئی دنیا ہی کا واقعہ ہے؟
جواب: سورۃ الاعراف کا مطالعہ ہم شروع سے آخر تک پڑھیں تو یہاں پر الست کے معاہدے کی بنیاد پر پوری ڈسکشن ہوئی ہے۔ آپ یہ الست والے معاہدے کو سورۃ الاعراف میں بھی پڑھ چکے ہوں گے۔ اسی کی تفصیلات سورۃ الاحزاب میں ہے۔
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا۔ (الاحزاب: 72)
ترجمہ: ہم نے یہ امانت (کہ وہ آزادی سے اپنے فیصلے کے ساتھ نیکی کر کے جنت حاصل کی کوشش کرے) زمین، آسمانوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنہوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگرانسان نے اُس کو اٹھا لیا حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔
دراصل آخرت میں ہماری جزا و سزا کا معاملہ جو کچھ ہونا ہے، اس کی بنیاد یہی ہے کہ جب اللہ تعالی نے یہ آفر مخلوقات کو دی تو صرف انسانوں نے اس آفر کو قبول کیا تھا۔ پھر جب ہماری موجودہ زندگی شروع ہوئی تو اس معاہدے کو اس لیے ہماری میموری میں سے ڈیلیٹ کر دیا تھا تاکہ ہم امتحان دے سکیں۔ پھر رسولوں او رانبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ذریعے وہ میموری میں معاہدے کو یاد بھی کروا دیا تاکہ ہم اپنی آزادی کے ساتھ ایمان اور نیکی کے عمل کا انتخاب کر لیں۔
اس میں یہ لاجیکل لگتا ہے کہ جس انسان نے بڑے لیول کا معاہدہ کیا ہو گا تو انہیں نبی یا صحابہ یا عالم بنا کر زندگی دی۔ جس انسان نے چھوٹے لیول کا معاہدہ کیا تو انہیں عام انسان بنا کر بھیجا گیاہے۔ جس انسان نے معاہدہ کیا ہی نہیں تو انہیں پاگل یا بیمار بنا کر یہ زندگی دی یا ایسے بھی بغیر معاہدہ کے جو پیدا ہوئے تو وہ بچپن میں ہی فوت ہو جاتے ہیں تاکہ انہیں امتحان کا معاملہ ہی نہ ہو۔ جو لوگ جنگل میں رہے تو ان کا امتحان بس اللہ تعالی پر ایمان اور بنیادی اخلاقیات کا امتحان ہی چلتا ہے۔ ہم لوگ نے ذرا 70% قسم کا امتحان لے لیا، اس لیے انہیں مسلمان بنایا اور انہیں عالم دین بھی بنا دیا۔ اس طرح ہر انسان اپنے امتحان کی تفصیل خود سوچ سکتا ہے۔
سوال: مبشر بھائی میں نے آپ کی تشریح و تفسیر پڑھی ہے۔ اس میں سورۃ التحریم آیت نمبر 6 میں مومنوں سے خطاب ہے کہ خود کو بچائیں احتساب ان کا بھی ہو گا اور آیت نمبر 7 میں کفار سے کہ وہ بھی اس دن آگ میں ہوں گے۔اصل میں آیت 6، 7 اور 8 موضوع جو کہ آیت 1 سے 5 تک اور آیت 8 کے بعد اس موضوع کے ساتھ ربط میں نہیں لگتی۔گو کہ ان کا مفہوم ومعنی واضح ہے اور کسی قسم کا ابہام نہیں لیکن جب ان آیات کو پہلے اور بعد کی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھنے کو کوشش کروں تو پھر سمجھ نہیں آتی۔
جواب: ہر سورۃ کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کا مکمل لیکچر چل رہا ہوتا ہے۔ اس لیکچر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھ کر سناتے تھے اور اس وقت مسجد نبوی میں مرد اور خواتین اکٹھے ہوتے تھے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی موجود ہوتی تھیں۔ جو بچے بھی نماز کے قابل ہو جاتے تھے تو وہ بھی مسجد میں آ جاتے تھے۔ یہ ذمہ داری تمام مسلمانوں پر تھی اور اس میں منکرین منافقین کوبھی مسجد نبوی میں مجبوراً آنا پڑتا تھا۔
اب نماز کے اندر (فجر، مغرب، عشا) یا نماز (ظہر، عصر) کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سورت کو صحیح الفاظ میں سناتے تھے اور یہ اللہ تعالی کا لیکچر بھی ہوتا تھا۔ اب آپ دیکھیے کہ 1-5 آیات میں پہلے امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو ارشاد ہوا۔ اس میں ان کی تربیت کے ساتھ مخلص صحابیات رضی اللہ عنہن کی تربیت بھی ہو گئی۔
اس کے ساتھ اگلے پیراگراف 6-9 میں مردوں کی تربیت بھی کر دی۔ اس وقت مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے اور منافقین بھی بیٹھے تھے تو ان پر کھلے الفاظ میں رزلٹ کی یاددہانی کر دی۔ مخلص صحابہ کرام میں جو ابھی نئے ایمان لائے تھے، ان میں کوئی غلطیاں تھیں تو ان کی تربیت بھی کر دی۔ اسی طرح منافقین میں ایسے لوگ بھی تھے جن میں ایمان کی کچھ رمق موجود تھی، ان کو بھی موقع مل گیا کہ وہ اپنی صحیح تربیت کر لیں۔ تاریخی طور پر حقیقت یہی ہو گئی کہ تبوک کے سفر کے بعد منافقین کو فائنل وارننگ بھی کر دی۔ ان کا لیڈر عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے پیروکار بھی مخلص ہو گئے۔
اس کے بعد اگلے پیراگراف 10-12 میں دوبارہ خواتین کی تربیت کے لیے قدیم خواتین کی مثالیں بھی سنا دیں تاکہ وہ اپنی تربیت صحیح کر لیں۔
عرب مردوں اور خواتین کے لیے کافی تھا کہ وہ کھلی عربی زبان میں قرآن کو سمجھ لیں چنانچہ ان کے لیے تلاوت ہی کافی تھی۔ اس دوران اگر کسی مرد یا خاتون کے ذہن میں کوئی سوال پیدا بھی ہوتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ لیتے اور وضاحت انہیں مل جاتی۔ اگلی جنریشن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے شاگردوں کو اسی طرح پڑھا دیتے تھے اور اس کے لیے وہ مختلف ملکوں کے شہروں میں تعلیم کے لیے استاذ بن کر گئے۔
تفاسیر کی ابھی ضرورت نہیں تھی۔ ہاں جب غیر عرب ممالک میں لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عربی زبان سیکھی تو تب جا کر ان کے ہاں زبان اور مفہوم سے متعلق سوالات پیدا ہوئے۔ تب جا کر تفاسیر لکھی گئیں۔ ظاہر ہے کہ انسان کے کام میں غلطی بھی ہو سکتی ہے، چنانچہ آپ کو تفاسیر میں غلطی مل جاتی ہے جس سے ہم مزید تفاسیر میں پڑھ کر ہی غلط فہمی کو صحیح کرلیتے ہیں۔
سوال: مبشر بھائی میرا سوال سورۃ التحریم کے ربط کے بارے میں ہے۔سورہ کا پہلا رکوع تو نبی صل اللہ علیہ وسلم اور آپ ص کی ازواج کے مطلق ہے جس میں آپ ص کو حلال کو حرام کر لینے پر منع کیا گیا ایک خاص واقعہ پر اور ازواج کو متنبہ کیا گیا ،سورہ کی آخری دو آیات بھی اسی موضوع سے ربط پر ہیں ۔ لیکن پہلے رکوع کے بعد اور آخری دو آیات سے پہلے آنے والی آیات کا سورہ کے ساتھ ربط سمجھ نہیں آ رہا ایسا لگتا ہے کہ یہ آیات بلکل مختلف موضوع پر ہیں۔ سورہ کےمفہوم ربط اور تسلسل کو سمجھنے میں آپکی مدد چاہیے۔
جواب: کافی عرصہ بعد آپ سے رابطہ ہوا ہے۔ کیا حال ہے اور کیسی طبیعت ہے؟ آپ کی اسٹڈیز کا سلسلہ کیسا جا رہا ہے؟ سورۃ التحریم میں مفسرین نے کچھ غلطیاں ہی کی ہیں، جس سے آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہے۔ جو لفظ “لم تحرم ما احل اللہ لک” ہے، اس میں کئی نامعقول روایات سے مفسرین کو غلطی لگ گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اہلیہ خواتین کو حرام قرار دیا تھا۔ ایسا کچھ بھی واقع نہیں ہوا تھا۔
بلکہ صرف اتنی سی بات تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خاص مٹھائی کی اپنے لئے قسم کھا لی تھی کہ نہیں کھایا کروں گا۔ یہ سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا بہت عمدہ مٹھائی بناتی تھیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند تھی تو آپ کچھ منٹ کے لیے شام میں تشریف لیجاتے اور مٹھائی کھا لیتے تھے۔ دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو پسند نہیں تھا کہ آپ روزانہ ہی ایک بیوی کے پاس ٹائم کیوں لگا دیتے ہیں حالانکہ آپ نے ہر خاتون کو ایک دن ٹائم دینا تھا، چنانچہ انہوں نے آپ پر احتجاج کیا تھا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مٹھائی کو قسم کھا کر چھوڑ دیا تھا۔ بس اتنی سی بات تھی۔
اللہ تعالی نے یہاں موقع استعمال کیا کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی تربیت کر دی کہ اللہ تعالی کے رسول کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کر لیں۔ اسی موقع پر یہ سورۃ التحریم نازل ہوئی۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے اپنے رویے کی غلطی کو ٹھیک کر لیا۔ اس سورت کا مقصد ہمارے لیے یہی ہے کہ خواتین بلکہ مردوں کو بھی اپنا رویہ ٹھیک کر لینا چاہیے کہ یہ تعمیر شخصیت کا اہم ترین حصہ ہے، چنانچہ نئے ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت بھی کر دی۔ اس کا ترجمہ آپ اس فائل میں پڑھ لیجیے، پھراس میں ارشاد فرمائیں کہ ربط میں کیا سوال باقی رہ جاتا ہے؟
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.