سوال: سر آج کا سوال جدید دور میں مذہب کے حوالے سے ہے کہ دین کا موجودہ زمانے میں ریلیونٹ ہے؟ مذہب کا مقدمہ ہے کہ انسان بعد از موت اٹھے گا اور جزا و سزا کا فیصلہ ہو گا۔ گویا مذہب اور خصوصاً اسلام لوگوں کی زندگی میں بعد از مرگ سوال و جواب کے حوالے سے متعلق ہوتا ہے۔ لیکن آج کے جدید دور میں اے آئی اور ٹرانس ہیومنز کا جو کانسیپٹ متعارف ہو رہا ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ موت کوئی فطری چیز نہیں ہے بلکہ یہ انسانی منیجمنٹ کا ڈسآرڈر ہے اور عنقریب انسان موت پر قابو پا لے گا اور ایسے انسان ہوں گے جنہیں کبھی بھی موت نہیں آئے گی۔یہ چیز اگر حاصل ہو جائے تو پھر لگتا ہے مذہب لوگوں کی زندگیوں سے خارج ہو جائے گا ۔ اس صورتِ حال میں مذہب کی وہ کیا بنیاد ہے جو اسے انسانی زندگی میں ریلیونٹ رکھ سکے گی؟
جواب: ملحدین کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دین سے انسانوں کو جان چھڑا سکیں تاکہ انسانوں کی اکثریت ملحدین کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ یہ بالکل اسی نوعیت کی کاوش ہے جیسے لوگ آخرت سے نجات حاصل کرنے کے لیے شرک اور دیگر فلسفے ایجاد کرتے رہے تھے۔
اب ان کے ارشاد کو دیکھیے کہ وہ موت کوئی فطری چیز نہیں ہے کہتے ہیں۔ اس میں انہی سے پوچھنا چاہیے کہ لاکھ سال تک اربوں انسانوں پر موت آ ہی رہی ہے اور کیاآج تک جدید ماڈرن ٹائم میں کسی انسان نے موت سے جان چھڑا لی ہے؟ اب تو سائنسی لوگوں نے بہت سی میڈیسنز بھی ایجاد کر دی ہیں لیکن پھر بھی موت کو ختم کیوں نہیں کر سکے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی سائنسدان بھی وعدہ کر سکا ہے کہ موت سے نجات حاصل کی ہے؟ پھر موت ہی نہیں بلکہ 60 سال سے زیادہ عمر کے انسان کو بڑھاپے سے جان چھڑا سکا ہے؟
اس میں ملحدین سے یہی سوالات ہیں اور اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ ملحدین سو سال تک کوشش کر چکے ہیں لیکن اب تک ناکام ہوئے ہیں۔ اب مزید 1000 سال تک کوشش کر لیں، جب وہ موت اور بڑھاپے سے جیت سکیں گے تو پھر ان کا مقدمہ لاجیکل ہو سکے گا اور تب ہی مذہب کے خلاف ثبوت لا سکیں گے۔ ابھی تک تو ان کی محض تھیوری ہی ہے جس میں کوئی ایک ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص بھی اللہ تعالی پر ایمان نہیں رکھتا ہے، تو پھر وہ ثابت کر کے دکھائیں کہ وہ موت اور بڑھاپا ختم کر کے دکھائیں تو تب ہی لاجک مقدمہ پیدا ہو سکے گا۔
سوال: ملحدین کے اس کانسیپٹ کی وجہ سے آج کل کے نو جوانوں میں الحاد کی طرف رغبت پائی جا رہی ہے ۔ اسے کس طرح ہینڈل کیا جا سکتا ہے؟
جواب: نوجوانوں میں الحاد کی رغبت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی جسمانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مذہبی پابندیوں کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ پرانی تاریخ میں ملحدین تب بھی خواہش رکھتے تھے لیکن اس وقت معاشرے میں ان کے والدین، قبیلے کے سردار اور حکومت کے ڈیکٹیٹر انہیں بچانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس وقت پھر خود لیڈرز شرک، صوفی ازم اور دیگر فلسفے ایجاد کر کے مذہب سے جان چھڑا لیتے تھے۔ موجودہ زمانے میں چونکہ حکومت اور معاشرے نے انہیں آزادی دے دی ہے، اس لیے نوجوان الحاد کو کھلے عام ظاہر بھی کر رہے ہیں ورنہ پہلے یہ چھپا کر فلسفے ایجاد کرتے تھے۔
دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ نوجوانی میں یہ الحاد جاری ہوتا ہے کیونکہ اس وقت شہوت اور دیگر خواہشات کے لیے ملحد بن جاتے ہیں۔ لیکن آپ نے خود تجربہ کیا ہو گا یہی ملحدین جب بڑھاپے میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کی سیکس اور دیگر خواہشات کی طاقت نہیں رہتی تو اس وقت مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس کے لیے مثال کے طور پر آپ مشہور سیاستدانوں کے لائف اسٹائل کو دیکھ سکتے ہیں۔ جب جوانی تھی تو اس وقت وہ دین سے دور ہی رہتے تھے۔ ہاں الحاد کو ظاہر نہیں کرتے تھے کیونکہ انہوں نے ووٹ لینے ہوتے تھے لیکن کرپشن ضرور کرتے تھے۔ اب کئی سیاستدانوں کو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی عمر 70 سال تک پہنچ گئی ہے، تو اس وقت نماز بھی شروع کر لیتے ہیں۔
اب آپ کا سوال یہ ہے کہ انہیں ہینڈل کیسے کریں؟ اس کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ ان کے سوالات کا جواب دیں۔ دین کی دعوت ان تک پہنچا دیں اور ان کے شبہات کا جواب دے سکیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام یہی کرتے رہے کہ ان کی زبان میں دین کی دعوت پہنچاتے تھے اور ان کے شبہات کا جواب دیتے رہے۔ اس کا رزلٹ یہی ہوتا تھا کہ جن لوگوں کے ذہن میں خلوص موجود ہوتا تھا، وہ ایمان فوراً لے آتے تھے۔ جن میں مکمل خلوص نہ ہو لیکن خلوص کی رمق موجود ہو تو تب بھی 10-20 سال میں وہ ایمان لے آتے تھے اور اپنا عمل صحیح کر لیتے تھے۔ جن میں بالکل زیرو خلوص ہوتا تو ان کی موت تک کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے رزلٹ کو ان کی قوم کے لوگوں کی ببلیو گرافی کو دیکھ سکتے ہیں۔ جن میں 95-100% خلوص تھا، وہ شروع میں چند دن ہی میں ایمان لائے جنہیں سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہہ سکتے ہیں جیسے ابوبکر، عثمان، علی، زید، بلال، سیدہ خدیجہ اور دیگر صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم۔ جن میں 60-70% خلوص کی رمق موجود تھی، وہ چند سال بعد ایمان لائے اور بہت مخلص گزرے جیسے عمر، حمزہ رضی اللہ عنہما۔
جن میں 30-50% خلوص کی رمق تھی تو وہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے۔ جن میں 1-10% تک خلوص تھا تو وہ بھی 23 سال تک ایمان لائے مثلاً منافقین جو زندہ تھے۔ رہے وہ لوگ جن میں 0% خلوص تھا تو وہ ایمان نہیں لائےاور موت تک باقی رہے جیسے ابوجہل، عبداللہ بن ابی، فرعون وغیرہ۔
ہم لوگ بھی اپنے نوجوان بھائیوں بہنوں تک دین کی دعوت پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہی کرنا ہے کہ ماڈرن زبان میں قرآن مجید اور احادیث پہنچا دیں۔ جن کے دل میں خلوص کی کوئی رمق ہوئی تو ان کے شبہات اور سوالات کا جواب دیتے رہیں۔ ہمارا اسکوپ بس یہی ہے اور لمٹ بھی ہماری یہی ہے۔ جس انسان میں جتنا خلوص ہو گا، وہ لوگ 50-60 سال تک ایمان لے آئیں گے۔ جن میں خلوص بالکل ہی نہیں ہوا تو وہ جانیں اور اللہ تعالی۔ ہر انسان کے خلوص کااللہ تعالی آخرت میں فیصلہ کرے گا۔ اس کا فائنل رزلٹ ہمیں آخرت ہی میں سامنے آئے گا۔ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو قرآن مجید میں بتا دیا تھا کہ آپ کی جتنی خواہش ہو کہ یہ ہدایت پر آئیں تو یہ پھر بھی نہیں آئیں گے۔
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام میں جو رسول ہوتے تھے، ان کی زندگی میں اللہ تعالی رزلٹ دکھا دیتا تھا اور انہیں موجودہ زندگی میں جزا اور سزا کا سلسلہ کر کے دکھا دیتا تھا۔ یہ صرف سیمپل تھا کہ ہر انسان کو ایسا ہی رزلٹ ملنا ہے۔ اب تاریخی سیمپل کے طور پر قرآن مجید اور بائبل میں موجود ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ تمام بھائیوں بہنوں تک قرآن مجید پہنچا دیں اور ان کے شبہات اور سوالات کا جواب دیں۔ رہا رزلٹ تو یہ ہمارا اسکوپ نہیں ہے بلکہ اس کا رزلٹ اللہ تعالی ہی نے دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بھی غیر مخلص افراد کو ہدایت نہیں دے سکے تو پھر ہماری کیا حیثیت ہے؟
سوال: ہمارے پاس کیا ثبوت ہے کہ جو قران آج ہمارے ہاتھ میں ہے وہ وہی ہے جو رسول اللہ پر نازل ہوا تھا۔اُس وقت تو کوئی پرنٹنگ پریس بھی نہیں تھا اور جو پہلا نسخہ تاریخ کی روشنی میں محفوظ ہے وہ مصحفِ عثمانی ہے۔ رسول اللہ اور مصحفِ عثمانی کے درمیان کوئی بھی نسخہ لکھی ہوئی شکل میں ہمیں نہیں ملتا ۔ تو کیا ثبوت ہے کہ درمیانی عرصہ میں قران پاک بالکل محفوظ منتقل ہوا ہے اور آج تک ہوتا آ رہا ہے ؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید اپنے سامنے ہی لکھوا دیا تھا اور صرف یہیں تک معاملہ نہیں رکھا بلکہ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بالخصوص نوجوانوں کو یاد بھی کروا دیا تھا۔ دنیا کی کسی کتاب میں یہ نہیں ہو سکا کہ کتابیں لکھی بھی جائیں اور اس کو حفاظ بھی لفظ بہ لفظ یاد کریں۔ یہ بہت بڑا معجزہ ہی تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہی حفاظ نوجوانوں کے ذریعے قرآن کی کاپیز بنا دیں جنہیں ری چیک کر کے سارے شہروں تک پہنچا دیا گیا تھا تاکہ کسی انسان کی کوئی غلطی باقی نہ رہے۔ اس وقت بھی یہ کاپی استنبول اور تاشقند کے میوزیم میں موجود ہیں۔ ان کی اسکین کاپی بھی موجود ہے جو آپ کو انٹرنیٹ پر مل جائے گی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اور اگلی جنریشن میں ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوان حفاظ بنے اور وہاں سے لے کر آج تک لاکھوں حفاظ موجود ہیں۔ اس سے زیادہ محفوظ طریقہ کار تاریخ میں کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ آپ اب بھی کسی وقت موجودہ قرآن اور قدیم ترین مخطوطہ قرآن کو ری چیک کر سکتے ہیں۔ صرف قرآن تک ہی نہیں بلکہ دیگر اسکالرز نے جو کتابیں لکھیں، اس میں قرآن مجید کی کچھ آیات مل جائیں گی، انہیں آپ موجودہ قرآن کے ساتھ میچ کر سکتے ہیں۔ اس میں ابھی تک کوئی غلطی سامنے نہیں آ سکی ہے۔ بلکہ 1444 سالوں میں کسی بھی ٹائم میں قرآن کو دیکھ کر آج تک میچ کر سکتے ہیں۔ دیگر جنریشن کے حفاظ کی آڈیو تلاوت کو بھی ری چیک کر سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر مزید اور ثبوت کیا ملے گا۔
سوال: آج کل سیکولرازم کا دور ہے دین کی دعوت کس بنیاد پر لوگوں کو دی جاسکتی ہے؟ کیونکہ جب ہم دعوت پیش کرتے ہیں تو اس میں جزا و سزا اور مابعد الموت حیاتِ جاوداں کا تصور ہوتا ہے۔ یہ تصورات کسی بھی جانب سے لوگوں کو قابلِ التفات نہیں لگتے۔ تو وہ کیا بنیاد ہے جس پر مذہب کو آج پیش کیا جانا چاہیے؟
جواب: سیکولر ازم تو محض یہ تصور ہے کہ حکومتی قانون میں مذہب کو استعمال نہ کیا جائے۔ اس میں دعوت، تبلیغ اور لیکچرز میں سیکولر ازم کی جانب سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہم اب بھی دعوت، لیکچرز، کتابوں اور میگزینز میں یہ کام کر رہے ہیں اور کسی ملک میں سیکولر ازم کا جبر نہیں ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ غیر مذہبی تصورات لوگوں میں آ رہے ہیں۔ وہ پہلے زمانے میں بھی آتے تھے اور اسکالرز ان تصورات پر تنقید بھی کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے یہ آزادی انسانوں کو دی ہوئی ہے کہ وہ چاہیں تو صحیح تصور کو مان لیں اور چاہیں تو کسی گمراہی کا انتخاب کر لیں۔ یہی زندگی کا امتحان ہے جو جاری ہے اور قیامت تک رہے گا۔
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.