سوال: سُود کی قرآن و سنت کی مطابق جامع تعریف کیا ھے؟ ٹیچنگ، میڈیکل یا گورنمنٹ کے دیگر اداروں میں 25 , 30 سال کی جاب کے بعد یکمشت یا پینشن کی شکل میں ملنے والی ماہانہ رقم پر سود کا اطلاق تو نہیں ھوتا؟
جواب: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔اس میں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، قرض دہندہ کو خوشی سے کچھ زائد مال بطور تحفہ دے تو وہ جائز ہے ، وہ سود نہیں۔
ریٹائر منٹ پر ملنے والی رقم کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ ادارے تمام ملازمین کی تنخواہوں میں سے کٹوتی کر کے بڑا فنڈ جمع کرتے ہیں اور اسے انوسٹ کر دیتے ہیں۔ اس انوسٹمنٹ میں جو منافع ملتا ہےتو وہ اس میں سے ملازمین کو ان کا حصہ دے دیتے ہیں۔ کئی کمپنیاں سرکاری ملازمین کے فنڈ کو کبھی حلال کام میں انوسٹمنٹ کر دیتی ہیں اور کبھی سود میں بھی لگا دیتے ہیں۔
اس کے لیے یہی مشورہ عرض کروں گا کہ آپ اپنے فنڈ منیجر سے پوچھ لیجیے کہ اس ریٹائرمنٹ فنڈ کو کہاں پر استعمال کرتے ہیں؟ اگر وہ بتا دیں کہ وہ کسی حلال کام کرنے والی کمپنی میں سٹاک ایکسچینج میں شیئر خرید لیتے ہیں اور اس سے ڈویڈنڈ مل جاتا ہے تو پھر یہ بالکل جائز ہے۔ اسی طرح اگر ریٹائرمنٹ فنڈ سے کوئی بلڈنگ بنا لیتے ہیں یا خرید لیتے ہیں اور اس سے کرایہ مل رہا ہوتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ اگر فنڈ منیجر بتا دیں کہ وہ بینک میں جمع کروا دیتے ہیں اور وہاں سے بینک ہمیں سود دیتا ہے تو وہ حرام آمدنی ہے۔ اگر منیجر بتا دیں کہ وہ ربافری اکاؤنٹ میں جمع کرواتے ہیں اور بینک سود میں انوسٹ نہیں کرتا ہے بلکہ وہ سود حاصل نہیں کرتا ہے توپھر یہ حلال ہوتا ہے۔
اب اگر منیجر ہمیں غلط بتا رہا ہے اور حقیقت میں وہ سود ہی کما رہا ہو تو یہ پھر اس منیجر کو ہی گناہ ہو گا۔ ہمیں اگر مشکوک فنڈ محسوس ہو تو پھر ہمیں چاہیے کہ اپنے ریٹائرمنٹ کے فنڈ کا اپنا حساب کیلکولیٹ کر دینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس فنڈ میں ہماری تنخواہ کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ کمپنی یا سرکاری ادارہ اس میں مزید ہمیں رقم دیتا ہے تو اس کی حیثیت تحفہ ہی ہوتا ہے۔ یہ بالکل جائز ہے اور ہمارا حصہ ہے۔ پھر ہمیں معلوم ہو کہ مزید جو منافع مل رہا ہے، اس کا کتنا حصہ سود کی آمدنی سے آ رہا ہے، تو اسے ہمیں الگ کر دینا چاہیے اور اس کا حساب ساری عمر تک لگاتے رہنا چاہیے کہ کتنی آمدنی حلال ہے اور کتنی حرام ہے۔
اس کے بعد جب ہم ریٹائر ہوں گے تو اس وقت رقم ملے گی۔ اس وقت جتنی حلال آمدنی ہے، وہ ہماری ہیں۔ جتنی رقم کا حساب آپ نے خود کیلکولیٹ کر لیا ہے کہ یہ سود کی آمدنی کا حصہ ہے، تو پھر اس سود کا استعمال نہ کیجیے گا۔
فرض کیجیے کہ ریٹائر منٹ فنڈ ہمیں 5,000,000 روپے ملا ہے۔ ہم نے پورے کیرئیر میں حساب لگا لیا ہے کہ اس میں سے 200,000 روپے سود سے ملا ہے اور باقی 4,800,000 حلال آمدنی سے آیا ہے۔
ایسی صورتحال میں ہمیں چاہیے کہ جو سود کی آمدنی ہے، اسے غریب لوگوں کی خدمت کے لیے انہی تک پہنچا دیجیے۔ اس میں نیت بالکل نہیں کرنی کہ یہ زکوۃ یا صدقات کے ذریعے ان کی خدمت کر رہا ہوں، بلکہ یہ نیت کر لیجیے کہ سودی اکنامکس کے ذریعے قوم سے سود کی رقم کو جبراً چھینا گیا ہے۔ اب مجھے جو ان کی رقم میرے ہاتھ میں آ گئی ہے، اب انہیں ان کے حصے کو واپس دے رہا ہوں۔ اس طرح سے ہماری حیثیت محض کورئیر ہی کی ہے۔
پھر آپ جن غریب لوگوں کو رقم دیجیے گا، یہ ضرور چیک کر لیجیے گا کہ وہ کوئی پیشہ ور فقیر یا کسی سیاسی یا مذہبی گینگ کا حصہ نہ ہو کیونکہ یہی رقم پھر بدمعاشوں کے ہاتھ میں پہنچ جاتی ہے۔ آپ انہی غریب لوگوں کو رقم دیجیے گا جو مخلص آدمی ہو، اپنی محنت کرتا ہو لیکن اس کی آمدنی اتنی نہ ہو کہ وہ اس کی زندگی مشکل ہو۔ پھر بھی وہ محنت مزدوری ضرور کرتا ہو۔
Send questions at mubashirnazir100@gmail.com.