السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال پوچھنے کا کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ فلسفہ مجھے پریشان کررہا ہے۔ کیا آپ اس کی وضاحت فرما سکتے ہیں کہ سوال پرکیوں اتنا زور دیا جاتا ہے؟
جواب: جب بھی ہم کوئی علمی ریسرچ کرتے ہیں، تو عمومی طور پر لکھنے والے عالم نے کوئی پہلو بیان نہیں کیا ہوتا ۔ اس وجہ سے ہمارے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اسی اہل علم کی دیگر کتابیں پڑھتے ہیں۔ اس میں جواب نہ ملے تو دوسرے اہل علم کی کتابیں پڑھتے ہیں تاکہ جواب مل جائے۔ اگر وہی لکھنے والا عالم زندہ ہو تو ہم پھر انہی سے ملاقات کر لیتے ہیں تاکہ جواب مل جائے۔ اس طرح ہمارا علم زیادہ گہرا ہو جاتا ہے۔ پھر اگر معقول جواب ہمیں کہیں سے مل جاتا ہے تو پھر ہم مطمئن ہو جاتے ہیں اور ہم اپنی کتاب یا آرٹیکل میں اسے لکھ لیتے ہیں۔
اگر ہم مطمئن نہ ہوں تو پھر دیگر اہل علم کے اختلاف کی دلیل بھی دیکھتے ہیں۔ اب دیگر اہل علم کی دلیل سے ہمارا علم مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔ اگر دیگر اہل علم کی دلیل زیادہ مضبوط مل جائے تو ہم اس پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور پھر ہم اپنی کتاب یا آرٹیکلز میں اسے لکھ دیتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر کچھ بھی بن جائے، اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ دیگر اسٹوڈنٹس تک پورے علم کا ذوق گہرا ہو جاتا ہے اور اس سب پراسیس سے اگلی نسلوں میں علم زیادہ بہتر اور گہرا چلا جاتا ہے۔
کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لیے یہ طریقہ میں نے ایجاد نہیں کیا ہے بلکہ پوری دنیا میں تمام یونیورسٹیز کے اہل علم اسی طرح کام کرتے ہیں۔ آپ PHD کریں گے تو اس میں بھی یہی مشورہ دیا جائے گا۔ یہ بھی دور جدید کا ایجاد شدہ طریقہ نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے میں مثلاً امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقے کو بیان کیا ہے۔ اسے آپ ان کی کتاب الرسالہ میں باب 12, 14 میں بیان کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بھی اسی طریقہ کی موٹیویشن کی ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی اہل ایمان، مشرکین اور منافقین سبھی کو یہی فرمایا گیا ہے کہ “آپ غور کیوں نہیں کرتے ہیں؟” تو آپ کو یہی اپیل مختلف سورتوں میں ملے گی۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com