بعض فرقے دوسرے فرقوں کو کافر بھی قرار دیتے ہیں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، بھائی میرا سوال یہ ہے کہ  آج ہر فرقہ دوسرے فرقے کو گمراہ قرار دے کر اپنے تنظیم سازی کرکے اپنی مساجد بنائے ہوئے ہے، ان میں سے بعض فرقے دوسرے فرقوں کو کافر بھی قرار دیتے ہیں۔ اسی فتوے کی بنیاد پر وہ اپنے سوا دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے  سےمنع کرتے ہیں بلکہ ان کا جنازہ تک نہیں پڑھتے اور اگر کوئی مسلمان ان فرقوں کو مسلمان سمجھ کر ان کے پیچھے نماز پڑھ لے یا ان میں سے کسی کا جنازہ پڑھ لے تو اس پر بھی کفر کا فتویٰ عائد کردیا جاتا ہے؟اس  صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر فتن دور میں ایک مسلمان کو  ایسی صور تحال میں درست طریقہ کیا اپنانا چاہئے؟

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، محترم بھائی آپ کاسوال بہت دلچسپ ہے اور حقیقت میں ہماری امت کا سب سے بڑا فتنہ یہی ہے۔ اس کے لیے جواب  خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت دیر قبل ہی دے دیا  تھا۔ 

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا کَفَّرَ الرَّجُلَ أَخَاہُ فَقَدْ بَاءَ بِہَا أَحَدُہُمَا۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّمَا امْرِیءٍ قَالَ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِہَا أَحَدُہُمَا. إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْہِ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے کوئی ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے، اگر اس نے کہا، جیسا کہ وہ تھا اور اگر نہیں تو یہ اسی کی طرف پلٹے گا۔ (بخاری، ۵۷۵۲۔ ۵۷۵۳؛ مسلم، ۶۰)

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أَوْ قَالَ: عَدُوُّ اللهِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ

 ‏‏‏‏        (صحیح مسلم، بَابُ بَيَانِ حَالِ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ، حدیث :112)

 سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خود کو کسی اور کا بیٹا کہے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے (یعنی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو باپ بتلائے) وہ کافر ہو گیا اور جس شخص نے اس چیز کا دعویٰ کیا، جو اس کی نہیں ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلائے یا اللہ کا دشمن کہہ کر پھر وہ جس کو اس نام سے پکارا ہے، ایسا نہ ہو (یعنی کافر نہ ہو) تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا۔

اب آپ دیکھ ہی سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور پھر وہ  وہی دشمنی کرتے ہیں جس کی مثال آپ نے  اپنے سوال میں بیان  فرمائی ہے۔ اس میں اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ 

آپ نے اپنے سوال میں یہ بھی دریافت فرمایا ہے کہ ایسی صورت حال میں  درست طریقہ کیا اپنانا چاہئے؟

اس کا حل یہی ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید اور  قابل اعتماد احادیث کا مطالعہ کریں۔ پھر اس کے ساتھ عمل کرتے چلے جائیں۔ اگر ہمیں کسی شخص کی بات درست نہیں لگی ہے، تو ہمیں چاہیے کہ اس شخص کا نام لئے بغیر دلائل اور عمدہ اخلاق کے ساتھ صرف یہ پیغام پہنچا دینا چاہیے کہ یہ عمل یا آئیڈیا غلط ہے، اس کے لئے قرآن مجید کی دلیل یہ ہے اور احادیث میں یہ حکم ہے۔

اس میں اپنا نام  لینے کی بھی ضرورت نہیں اور دوسرے کوبھی یہ  نہ کہیں کہ تم اس غلط عقیدہ  پر ہویا  تم غلط ہو یعنی مخاطب کرنے کی ضرورت نہیں۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کسی کی غلطی دیکھتے تو اسے عمومی طور پر اپنے لیکچر میں ارشاد فرما دیتے تھے کہ اس طرح کی غلطی ہمارے ہاں ہو رہی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ 

سوال:اسی سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ جو مسلمانوں کو بلا اتمام حجت کافر قرار دینا اور جو ان کو کافر نہ کہے اسے بھی کافر قرار دینا ، اس  فتویٰ سازی کے رجحان کی شرعی اور تاریخی حیثیت کیا ہے؟ کیا خیر القرون میں بھی مسلمانوں کا یہی رویہ تھا؟ کیا قرآن و سنت اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟

جواب: کفر کی فتویٰ سازی  ہمارا سب سے بڑا جرم ہے، جسے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح حدیث میں دیکھ چکے ہیں۔ تاریخی حیثیت یہ ہے کہ خیر القرون یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں  سے کسی نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ کسی مسلمان پر کفر کی فتوی سازی کر سکیں۔  اگر کسی حدیث میں آپ کو یہ نظر آیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر قرار دیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایساکبھی بھی اپنے خیال سے نہیں فرمایا تھا بلکہ ان کو اللہ تعالی جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے بتاتا تھا تو تب آپ اس مجرم پر ایکشن فرما دیتے تھے۔

دراصل کفر کے فتووں کا یہ سلسلہ 35 ہجری یعنی 655 عیسوی کیلنڈر میں شروع ہوا۔ یہ معاملہ اس طرح پیدا ہوا تھا کہ ایک مجرم گینگ نے بغاوت کا سلسلہ شروع کیا ،تاکہ وہ حکومت پر قبضہ کر سکیں۔ پہلے ان مجرموں نے لوگوں کو جلیل القدر صحابی خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کر کے  ان کے خلاف کفر کا فتوی لگایااور پھر دہشت گردی کر کے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔

اس کے بعد  انہوں نے حضرت علی، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم پر بھی اس دہشت گردی کے ٹول کے طور پر کفر کا فتوی صادر کر دیا اور پھر وہ علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا کہ جو دہشت گرد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے، تو وہ ایسا ہی  کرتے رہے  کہ پہلے حکومت ِ وقت  اور عوام کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف خروج کرتے رہے اور ان کا خون حلال قرار دے کر ان کے قتل و غارت کا بازار گرم کردیتے رہےاور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسے ہم یہی کہیں گے کہ جو ایسی حرکتیں کر رہے ہیں وہ دہشت گردوں کے پیروکار ہیں ۔ تاریخ میں آپ یہ پڑھ  اور سن سکتے ہیں۔ اس کا لنک یہ ہے۔

حضرت عثمان، علی، حسن اور معاویہ  رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مذہبی اور سیاسی تحریکیں۔۔۔ دہشت گردی 23-60H / 644-680 CE

HS20 – Religious & Political Groups during period of Companions 23-60 Hijri / 644-680 CE

اسی کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف فرقوں اور پارٹیوں کے لوگ دوسروں پر کفر کا فتوی لگا کر ان کی مسجدوں پر بم لگا دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پھر دوسرے فرقے اور پارٹی کے لوگ جواب میں یہی کفر کا فتوی دیتے ہیں۔ اس طرح تمام مسلمان ہی ایک دوسرے کو کافر قرار دے دیتے ہیں اور باقی مسلمان کوئی نہیں رہ جاتے ہیں۔

یہی سب سے بڑا کرائسس موجود ہے۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ ہم سب بھائیوں بہنوں کو سمجھا دیں۔ وہ تو نہیں مانیں گے تب بھی اگلی نسل میں کافی لوگ مان لیں گے انشاء اللہ۔ اگر اختلاف ہوا بھی تو تب بھی محبت کے ساتھ اختلاف کرتے رہیں تو کوئی کرائسس پیدا نہیں ہو گا انشاء اللہ۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”

بعض فرقے دوسرے فرقوں کو کافر بھی قرار دیتے ہیں تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
Scroll to top