قرآن مجید میں بنی اسرائیل سے متعلق عربی الفاظ کا معنی کیا ہے؟

سوال نمبر 1

سورۃ طہ کی آیت 44 میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو نبوت کی ذمہ داری دینے کے بعد یہ کہا گیاہے کہ فرعون کو نرمی سے سمجھائیں کہ شاید وہ سمجھ لے یا خبردار ہو جائے۔ اس آیت میں  لفظ شاید کا استعمال کیوں کیا گیا ہے؟ کیا یہ لفظ اللہ تعالی کی صفت العلیم کے منافی نہیں؟ 

جواب: یہاں موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجنے  کا مقصد تو یہی ہے کہ وہ   عمدہ اور شائستہ طریقے سے دعوت اور پیغام پہنچا دیں۔ لفظ لَعَلَّ یعنی  شاید کا مطلب وہی ہے جو اردو میں  بھی ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ تعالی کو معلوم نہیں تھا، بلکہ  وہ تو پہلے ہی جانتا ہے۔ دراصل دعوت کا مقصد یہ تھا کہ فرعون صحیح طریقے سے ہدایت کی بات کو ا چھی طرح سمجھ لے۔

کسی بھی سزا کے لیے عدالت میں ضروری ہوتا ہے کہ مجرم خود  واضح طور پرسمجھ لے کہ اس کا جرم کیا ہے اور  پھر اسے سزا دی جاتی ہے۔  موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی  ذہنی سطح کے برابر لاکر حق  کو اس پر واضح کر دیا  تاکہ  وہ خود اپنے جرم کو سمجھ لے۔ اسی بنیاد پر اللہ تعالی نے فرعون کو سزا  دی۔موسیٰ علیہ السلام نے بات کو ہر نفسیاتی لحاظ سے اس کے سامنے پیش کیالیکن وہ اپنے تعصب اور اپنی بادشاہت کو سنبھالنے کے لیے  دعوت کا منکر ہوا اوراس نے ہدایت کو پھینک دیا چنانچہ وہ سزا کا  مستحق ہو گیا۔ 

سوال نمبر 2

کیا ہارون علیہ السلام بھی نبی تھے یا صرف مددگار؟ تورات میں ہارون علیہ السلام اور ان کی اولاد کیلئے کاہن لفظ کیوں استعمال ہوتا ہے؟ مسلمانوں میں کاہن لفظ کسی مثبت کردار کی نشاندہی نہیں کرتا تو کیا یہود و عیسائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے کوئی غیر مثبت عقیدہ رکھتے ہیں؟ 

جواب: ہارون علیہ الصلوۃ والسلام نبی بنائے گئے اور وہ مددگار اس لیے ہوئے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اپنا وزیر یعنی ساتھی بنانے کی اللہ سے دعا کی تھی  اور اس کا سبب یہ پیش کیا تھا کہ وہ انتہائی فصاحت و بلاغت کے حامل تھے۔ چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی۔ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر لاکھوں لوگوں تک پیغام پہنچاتے رہے۔ 

تورات میں ہارون علیہ السلام کے لئے کاہن کی حیثیت وہی تھی جو  ٹیچر اور مسجد کا امام ہونا تھا۔  ہارون علیہ الصلوۃ والسلام  اس وقت کی پوری امت مسلمہ بنی اسرائیل کی تربیت اور  لیکچرز کرتے تھے۔ جہاں تک ان کی نسل کا تعلق ہے، تو یہ بنی اسرائیل نے نسل در نسل کی ذمہ داری انہیں دے دی تھی۔ اللہ تعالی نے اسے کہیں نہیں حکم دیا تھا کہ نسل در نسل ہی ذمہ داری ہو اور دوسروں کو یہ ذمہ داری نہ دی جائے۔ اس لیے آپ اسے تورات نہ کہیں بلکہ بائبل اصل میں بنی اسرائیل کی تاریخ کی کتابیں ہیں۔ 

اس میں پانچویں کتاب استثناء کا بڑا حصہ  ہے جس میں تورات کے احکامات لکھے ہیں۔ باقی ساری کتابیں انسانی عمل ہے جس میں تاریخ لکھی گئی ہے، وہ اللہ تعالی کی کتاب نہیں ہے۔  زبور میں اللہ تعالی کے احکامات پورے ہیں۔ انجیل کی جو  چار کتابیں ہیں، وہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کی تاریخی کتابیں ہیں۔ ان میں جہاں جہاں عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے لیکچرز اور ارشادات ہیں، وہ انجیل ہے اور باقی تمام پیراگرافس انسانی عمل ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ 

 سوال نمبر 3

یہ معلوم ہے کہ بنی اسرائیل کی بنا سیدنا یعقوب علیہ السلام سے پڑی۔ سیدنا یوسف علیہ السلام مصر کے ایک بڑے عہدے پر بھی فائز رہے۔ کیا ان کے دور میں مصر کے مقامی لوگ مسلمان تھے؟ اگر مسلمان تھے تو بعد میں انہوں نے اتنے عظیم شخص کی اولاد کو محکوم اور ان پر اتنا ظلم کرنے کی جسارت کیوں کی؟ قرآن ہی کے ایک اور مقام پر ایک مومن کی فرعون کو نصیحت والے واقع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آل فرعون یوسف علیہ السلام کی دعوت یعنی اسلام سے واقف تھے۔ پھر پوری قوم کا اس پیغام سے اس قدر سرکشی اور اجنبیت کا موجب کیا تھا؟ 

جواب:مصر کے مقامی لوگ مسلمان نہیں تھے۔ اس وقت وہ عربی قوم نے مصر کو فتح کر کے بادشاہت حاصل کی تھی اور مصری زبان میں بادشاہ کا ٹائٹل فرعون تھا۔  اس وقت کا  باد شاہ  یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی فائنانس سے متعلق اعلی صلاحیتوں سے متاثر ہوا اور اس  نے آپ کو فائنانس منسٹر بنا دیا تھا۔ آپ نے بڑی اچھی طاقت حاصل کر کے اپنے والدین، بھائیوں اور ان کی فیملی کو مصر  میں ڈیلٹا کے زرخیز علاقے میں سیٹل کر دیا اور ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ پورے مصر میں اسلام کی دعوت پہنچائیں۔  بادشاہ کے بارے میں تاریخی علم نہیں ہے کہ وہ خود ایمان لایا یا نہیں، اس لیے اسے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ 

اس دعوت میں 500 سال میں 600,000 انسان تو ایمان لا چکے تھے لیکن اکثریت ایمان نہیں لائی۔ اس قوم کے سیاسی لوگوں نے  بغاوت شروع کی تاکہ عرب بادشاہ کا تختہ الٹا دیں۔ اس  بغاوت میں کامیابی ہوئی اور عربوں کو نکال کر مصری قوم کا سیاستدان بادشاہ بن گیا جسے فرعون کا ٹائٹل حاصل ہوا۔  اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈرشپ ایمان نہیں لائی تھی، تبھی انہوں نے اہل ایمان کو غلام بھی بنایا اور پھر ان کے لڑکوں کو قتل بھی کرنے لگے کہ ان کی تعداد زیادہ نہ ہو سکے۔ 

سوال نمبر 4

 سیدنا موسی علیہ السلام کی دعا میں اشرح لی صدری استعمال ہوا ہے۔ اس کا عمومی مفسرین نے مطلب ‘سینہ کھول دے’ لکھا ہے۔ اردو (ریختہ ڈکشنری) میں سینہ کھولنا ایک محاورہ بھی ہے۔ جس کے معنی ‘کسی جذبے کی شدت کا اثر ہونا ہیں۔ لیکن عموماً علماء سمجھاتے وقت اس کا مفہوم دین کے احکام کو اچھی طرح سمجھنے کی صلاحیت بتاتے ہیں۔ کیا یہ جملے کے سیاق کی مناسبت سے کیا جاتا ہے؟ 

جواب:سینہ کھولنے کا محاورہ دونوں پہلوؤں پر آتا ہے۔ جذباتی شدت اور پھر علمی طور پر سمجھ کر اور عمدہ طریقے سے واضح بھی کر دینا بھی۔ یہ صلاحیت انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کوتو لازمی درکار  ہوتی ہے تاکہ وہ علمی ڈسکشن کو لوگوں تک عمدہ طریقے سے اور جذبے کے ساتھ واضح کر دے۔ قدیم زمانے میں خطبات ہی سب سے عمدہ طریقہ ہوتا تھا۔ موسی علیہ الصلوۃ والسلام کو بچپن میں صلاحیتیں اتنی زیادہ نہیں تھیں، اس لیے انہوں نے اللہ تعالی سے دعا کی۔ پھر اللہ تعالی نے یہ صلاحیتیں بھی دے دیں او ران کے بھائی ہارون علیہ الصلوۃ والسلام میں نیچرل صلاحیتیں پہلے سے تھیں، تو انہیں بھی مددگار بنا دیا گیا۔ 

 سوال نمبر5

سورۃ طہ کی آیت 77 میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرمایا کہ آپ راتوں رات میرے بندوں کو لے چلئے پھر نہ آپ کو کسی کے آ پکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر۔ لیکن قرآن ہی میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو یہ ہدایت کی کہ آپ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر نکل جائیے اور فرعون لازماً آپ کا تعاقب کرے گا۔ کیا یہ دو متضاد بیان نہیں ہو گئے؟ 

جواب: دراصل آیت کا پورا ترجمہ یوں  ہے۔

ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جائیے، پھر ان کے لیے دریا میں لاٹھی مار کر خشک رستہ بنا دیجیے۔ پھر آپ کو نہ تو فرعون کے آ پکڑنے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ڈر۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ  ایک لمبے واقعے کی تفصیلات کو ایک ہی آیت میں سمو دیا گیا ہے۔ جو پکڑے جانے کے عدمِ خوف کا ذکر ہے وہ لاٹھی مار کر خشک رستہ بن جانے کے بعد ہے  ورنہ پہلے تو وہ خوف زدہ بھی تھے اور پکڑے جانے کا ڈربھی تھا۔ باقی جو ان کو راتوں رات نکل جانے کا حکم دیا گیا تھااس میں یہی آسانی تھی کہ فرعون کی ملٹری  کی اکثریت سو رہی ہوگی، اس دوران موسیٰ علیہ السلام 600,000 اہل ایمان کو لے جانے کاحکم ہوا۔ حقیقتاً ایسا ہی ہوا ہوگا کہ پہلےملٹری کے کچھ گارڈز کو ہی معلوم ہوا ہوگا، پھر انہوں نے ساری ملٹری کو اٹھایا، پھر وہ سب تیار بھی ہوئے اور پھر فرعون کو اٹھانے میں اور تیاری میں ٹائم لگا اور تب اس نے حکم دیا کہ ان  بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لیے نکلو۔ اس میں وہ خود بھی نکل گیا۔ 

اس سے آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو وہاں سے نکلنے کے لئے 5-6 گھنٹے تو مل گئے ۔ مصر کا ڈیلٹا ویسا ہی علاقہ ہے جیسا کہ ہمار ے ہاں پنجاب ہے۔ ان کھیتوں سے نکلتے ہوئے ٹائم تو بنی اسرائیل کو بھی لگا اور فرعون کی ملٹری کو بھی۔ جب بنی اسرائیل سمندر تک پہنچے، تو دور سے انہیں فرعون کی ملٹری نظر آ رہی تھی اور وہاں وہ ڈرے بھی۔ اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کوحکم دیا تو انہوں نے  دریا پر لاٹھی کو مارا  جس سے پانی دو برجوں میں تبدیل ہوگیا۔ پھر موسیٰ علیہ اسلام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لیے برج بنا دئے ہیں اس لئے بے خوف ہوکر اس میں سے نکل لو۔

بنی اسرائیل کی اتنی بڑی تعداد تھی  اور پھر سمندر کے ایک کنارے سے دورے کنارے کا فاصلہ بھی  تقریباً 100 کلومیٹر تھا، جس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کو  وہاں سے نکلنے  میں کئی گھنٹے تو لگے ہوں گے۔ جب بنی اسرائیل نکل گئے تو تب جا کر فرعون اور اس کی ملٹری بھی  برجوں میں بے خوف ہوکر داخل ہوگئی۔تب اللہ تعالی نے  پانی کے ان برجوں باہم ملا دیا اوران کو تباہ کر دیا جس سے فرعون کی پوری ملٹری غرق ہو گئی۔ یہ تصویر دیکھ  لیجیے جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس طرح کی صورتحال بنی ہو گی۔

سوال نمبر 6

قرآن ایک جانب تو ایسے احکامات دیتا نظر آتا ہے جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنا بہت بڑے اجر کی بات ہے اور غلامی ایک بری چیز ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔ دوسری جانب جنگ کی قیدی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ اس تعلق کی کیا حدود ہیں ؟ اگر کوئی لونڈی اپنے مسلمان مالک کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کرے تو کیا وہ اس سے زبردستی کر سکتا ہے؟ اسی طرح جہاں سورہ نور کی ایک آیت میں غلاموں کی شادی کرا دینے کا حکم آیا ہے تو ایسی عورت سے کون شریف شخص شادی کرے گا جو کسی کی ملک یمین رہی ہو؟

جواب: بھائی آپ نے یہ بہت کرٹیکل سوال بھیجا ہے اور اس کا پورا جواب تو آپ کو میری کتاب میں ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں کی جنگوں میں یہ ہوتا تھا کہ بہت سی خواتین بھی ملٹری کا حصہ بنتی تھیں۔ وہ  اپنی شاعری اور میوزک سے اپنے سپاہیوں کو موٹیویٹ کرتی تھیں۔ پھر جنگ میں اپنے زخمیوں کی خدمت کرتی تھیں۔ اگر ان کی فوج نقصان اٹھاتی  تو وہ خواتین بھی قیدی بن جاتی تھیں۔ 

یہ اسلام کا طریقہ کار نہیں تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بلکہ قدیم انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے ان سے زبردستی کرنے سے منع فرما دیا تھا جو تورات میں ہے۔  اب انہیں ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کی تفصیلات آپ کو میری کتاب اور لیکچر میں مل جائیں گی۔ استفادے کے لئے درج ذیل لنکس کو کھول کر دیکھا جاسکتا ہے۔ 

سوال نمبر 8

سورہ النور کی آیت 26 کیا اللہ تعالی کے کسی قانون کو بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالی پاک مردوں کی صرف پاک عورتوں ہی سے شادی ہونے دیتا ہے یا انسان کو یہ ہدایت کر رہی ہے کہ پاک مردوں کو صرف  پاک عورتوں سے ہی شادی کرنی چاہیے؟ اس صورت میں اگر کسی ایک فریق کو اندازہ ہوتا ہے کہ میرا رفیق حیات زانی یا بےحیا ہے تو کیا نکاح قائم رہتا ہے؟ 

جواب:یہ آیات  ان لوگوں سے متعلق ہیں جن کا مقدمہ عدالت میں چلا جائے۔ اس سے پہلے تو  بے حیا   مرد و خواتین کے لیے یہی ہے کہ وہ توبہ کر لیں اور پھر نکاح کر سکتے ہیں۔ مگریہ آیات  صرف انہی مرد و زن کے  سلسلے میں قانون بیان کرتی ہیں جنہوں نے کھلے عام بدکاری کی ہو اور پھر ان کا  معاملہ  عدالت میں چلا گیا ہو، تو حکم  دیا گیا کہ انہیں 100 کوڑے ماریں اور وہ پھر آپس ہی میں شادی کر لیں۔ اس کی  مکمل تفصیل  ان لیکچرز میں عرض  کردی گئی  ہے۔ 

سوال نمبر8

 خواتین کے معاملے میں یہ کہا گیا ہے کہ زینت کو چھپائیں ‘سوائے اس کے جو ظاہر ہو جائے’۔ اولاً، زینت سے یہاں کیا مراد ہے؟ ثانیاً، یہ بھی ذکر کیا گیا کہ گریبانوں میں اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔ لفظ ‘اوڑھنی’ سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک چادر کا ذکر ہے۔ مطلب سر کا ڈھکا ہونا بھی لازم ہے۔ پھر الا ما ظھر منھا میں کونسی زینت ہے جس کی کھولے رکھنے کی اجازت دی گئی؟ 

جواب: زینت کی ڈیفی نیشن ہر علاقے اور ہر کلچر میں مختلف ہیں۔  سادہ الفاظ میں زینت یہ ہوتی ہے جس سے خواتین کا فیشن  ظاہرہوتا ہے۔ اس کے لیے مودودی صاحب نے زینت سے مراد جس فیشن کا ارشاد فرمایا ہے اس میں انہوں نے بہت شدید سختی ارشاد فرمائی ہے۔ دیگر ممالک کے فقہاء میں معاملہ مختلف رہا ہے جس میں آپ کو ہر علاقے کے کلچر کا بیان الگ ملے گا۔ آپ دونوں کا مطالعہ کر کے خود فیصلہ کر لیں کہ زینت کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ یہ  کنفرم ہے کہ سینہ اور گریبان میں اوڑہنی میں سب ممالک کے فقہاء کا اتفاق ہے۔ سر، منہ ، ہاتھ، پاؤں میں آپ کو اختلاف نظر آئے گا۔ اس کے لیے میں نے کتاب میں اور لیکچر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور دونوں طرح کے اہل علم کے دلائل پیش کیے ہیں۔آپ ان لنکس سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

https://drive.google.com/drive/folders/0B5mRw5mEUHv9VEFnQV94aFpLR0k

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”

قرآن مجید میں بنی اسرائیل سے متعلق عربی الفاظ کا معنی کیا ہے؟
Scroll to top